biography of huzur shaikh ul islam allama syed muhammad madani miyan ashrafi jilani شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدمحمدمدنی میاں

 شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدمحمدمدنی میاں



رئیس المحققین شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدمحمدمدنی میاں صاحب قبلہ کی حیات کا ہر گوشہ اورہر پہلو تابندہ اورتابناک ہے۔مختلف اعتبار سے شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدمحمدمدنی میاں صاحب کی حیات نمایاںاور گوناگوں خصوصیات کی حامل ہے۔جس پہلو سے دیکھا جائے آپ بے مثل ومثال نظرآتے ہیں ۔دین پر استقامت ،شریعت مطہرہ پر ثابت قدمی،فقہ میں بلند مقام ومرتبہ،علم حدیث میں مہارت اور مسند درس و تدریس میں دسترس غرضیکہ ہر پہلو اچھوتااور منفرد ہے۔یوں تو خانوادۂ کچھوچھہ ہر طرح کے علوم و فنون کا گہوارہ رہاہے، فضل و شرف اور خاندانی نجابت میں اسے آج بھی امتیاز حاصل ہے ۔یہ خانوادہ کئی علوم و فنون میں اپنی نظیر آپ ہے ، تمام خوبیوں پر مستزاد سب سے عظیم صفت جو نمایاںرہی وہ ہے تفقہ فی الدین ۔ فتویٰ نویسی اس خاندان کا طرہ امتیاز تھا اور الحمدللہ آج بھی ہے ۔

حسن اخلاق مومن کا جوہر ہے شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدمحمدمدنی میاں صاحب اس جوہرسے متصف ہیں اور فرائض و واجبات و سنن پر عمل میں منفرد المثال ۔ اورآپ نے اپنی حیات طیبہ سے اسی کا درس بھی دیا۔ آپ کی زندگی کا ہر گوشہ شریعت اسلامی کی پاسداری کا اعلیٰ نمونہ ہے ، آپ کی ایمانی جرأت کسی بھی قسم کی مصلحت کو شی اور چشم پوشی سے مبرا ہے ۔ آپ نے معرفت الٰہی کے لیے فکرسازی اور عملی زندگی میں دینی احکام کی جلوہ گری پر زوردیا۔۲۶؍واسطوں سے آپ کا نسب حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے اور ۳۷؍واسطوں سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا 

ملتا ہے۔

٭ولادت اور اسم گرامی :

علم وعرفان اور طریقت ومعرفت کی سرزمین کچھوچھہ شریف میںیکم رجب المرجب ۱۳۵۷ھ /۲۷؍اگست بروز اتوار۱۹۳۸ء کومخدوم الملت محدث الاعظم حضرت علامہ ابوالمحامد سید محمد اشرفی جیلانی کے گھر حضرت مولاناسیدمحمدمدنی میاں صاحب کی ولادت ہوئی۔

٭تعلیم وتربیت:

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی محدث اعظم ہند حضرت علامہ سیدمحمد کچھوچھوی اشرفی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت ونگہداشت میں مکتب جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف سے حاصل کی۔والد محترم نے اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور کا انتخاب فرمایااور حضور حافظ ملت جلالۃ العلم علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی کی نگرانی میں ۱۰؍شوال المکرم ۱۳۷۱ھ میں دے دیا۔اس وقت شیخ الاسلام کی عمر چودہ سال تین ماہ دس دن تھی۔آپ نے جنوری ۱۹۶۳ء میں مبارک پور اشرفیہ سے سند فراغت حاصل کی۔زمانہ طالب علمی کا گوشہ طلبہ کے لیے بلاشبہ قابل تقلید اور نمونہ عمل ہے۔علمی ریاضت اور اوقات کی قدردانی نے شیخ الاسلام کو آبروئے علم وفن بنادیا۔آپ کی علمی گہرائی،وسعت مطالعہ اور عمیق نظری کے طلبہ ہی نہیں اساتذہ بھی قائل تھے۔

٭اساتذہ ٔکرام :

آپ کے اساتذۂ کرام یہ ہیں: محدث اعظم ہند،جلالۃ العلم حافظ ملت حضرت علامہ مفتی حافظ عبدالعزیزاشرفی محدث مرادآبادی،استاذالعلماء شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی، اشرف العلماء حضرت علامہ سیدحامد اشرف اشرفی جیلانی ، صدرالصدورحضرت علامہ مفتی غلام جیلانی اعظمی، شمس العلماء مصنف قانونِ شریعت قاضی شمس الدین جون پوری، جامع معقولات حضرت علامہ حافظ عبدالرئوف بلیاوی،بحرالعلوم علامہ مفتی عبدالمنان اعظمی، رئیس القراء حضرت مولانا قاری یحییٰ اعظمی اور سعدیِ زماں حضرت مولانا سید شمس الحق اعظمی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

٭بیعت وخلافت :

۲۶؍شوال المکرم ۱۳۸۱ھ /۱۹۶۱ء میں مخدوم المشائخ قدوۃ السالکین سرکار کلاں حضرت علامہ مفتی سید محمد مختار اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی کے دست اقدس پر سلسلہ قادریہ چشتیہ اشرفیہ میں بیعت کی اور سلسلہ قادریہ چشتیہ اشرفیہ منوریہ کی خلافت سے نوازے گئے۔ دیگر تمام سلاسل کی اجازت وخلافت اشرف الاصفیاء حضرت سید مصطفی اشرف اشرفی جیلانی سے حاصل ہوئی۔

٭تدریسی خدمات:

شیخ الاسلام نے باضابطہ کسی مدرسے میںتدریسی خدمات انجام نہیں دی البتہ آپ کی محفلوں سے ہزارہاافراد نے استفادہ کیا اور ہنوز استفادہ کررہے ہیں۔

٭ممتازتلامذہ:

شیخ الاسلام نے باضابطہ تدریسی خدمات انجام نہیں دی۔اس لیے حضرت کا کوئی بھی رسمی شاگرد نہیں ، مگر متعدد لوگوں کی فہرست تیار کی جاسکتی ہے جنہوں نے حضرت شیخ الاسلام سے استفادہ کیا ہے۔

٭مشا ہیر خلفا:

محترم بشارت علی صدیقی اشرفی (اشرفیہ اسلامک فائونڈیشن ،حیدرآباد)نے حضرت شیخ الاسلام کے خلفا کی جو فہرست تیار کی ہے اس میں تین سو سے زائد خلفا کے نام درج ہیں۔جنوبی ہند کے تیس سے زائد خلفا کا تعارف مولانا سید صادق انواری اشرفی مجلہ باشیبان جنوری ۲۰۱۵ء میں کرچکے ہیں۔محترم بشارت علی صدیقی صاحب نے’’ خلفاے شیخ الاسلام ‘‘کے نام سے بیس اکابر خلفا کا تذکرہ لکھا ہے جو ’’شیخ الاسلام :حیات وخدمات ،سیریزدوم‘‘میں قسط اول کے نام سے شائع ہواہے۔چندممتاز خلفاکے اسمائے گرامی یہ ہیں:
حضرت سید صابر علی باپو اشرفی،گجرات ،انڈیا(سب سے پہلے خلیفہ)، مفتی قمر عالم صدیقی اشرفی(شیخ الحدیث دارالعلوم علیمیہ جمداشاہی ،یوپی) ،مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد اشرف القادری اشرفی، مفتی محمد اکمل قادری مدنی (کراچی)،مبلغ اسلام ارشد مصباحی مالیگ (مانچسٹر)، 
مفتی محمد شبیر احمد صدیقی اشرفی (احمدآباد )،مفتی محمد ممتاز عالم مصباحی(گھوسی)، مفتی ایوب اشرفی سمشی سنبھلی(خطیب وامام جامع مسجد نورالاسلام ، بولٹن،یوکے)، مفتی آل مصطفی صدیقی اشرفی مصباحی (استاذ جامعہ امجدیہ رضویہ، گھوسی ) ، علامہ قاری سید نورالدین اشرفی (کرجن، گجرات)، علامہ حافظ وقاری سید شوکت علی اشرفی (کرجن، گجرات)، علامہ عارف اللہ اشرفی فیضی مصباحی (شیخ الادب فیض العلوم ،محمد آباد،گوہنہ)، علامہ مفتی مطیع الرحمن اشرفی نعیمی (مدنی دارالافتاء، احمد آباد گجرات)، علامہ مفتی عبدالخبیر اشرفی مصباحی (صدر المدرسین مدرسہ منظر الاسلام،امبیڈکر نگر، یوپی)،مفتی خالد ایوب مصباحی شفقؔ شیرانی (مفتی سنّی دارالافتاء،جے پور ،راجستھان)، مولانا قاضی سید شمس الدین برکاتی اشرفی مصباحی (قاضی شہر ہری ہر ومتولی و سجادہ نشین )،شہزادۂ فقیہ ملت مفتی ازہار احمد امجدی ازہری (استاذ دارالعلوم امجدیہ اہل سنّت ارشد العلوم اوجھا گنج)،مفتی محمد کمال الدین مصباحی (صدرالمدرسین وصدر دارا لافتاء ادارۂ شرعیہ اترپردیش رائے بریلی)،مفتی توفیق احسنؔ برکاتی مصباحی،مولاناثاقب رضا قادری، مفتی محمد مبشر رضا ازہری مصباحی (صدرالمدرسین و مفتی دارالعلوم شاہ احمد کھٹو،احمدآباد)، مفتی جاوید احمد عنبرؔ مصباحی (بانی ومفتی حنفی دارالافتا والقضا و فضل حق خیرآبادی چیرٹیبل فائونڈیشن، انڈمان ہند)اورمفتی عبدالمالک صدیقی مصباحی (مدیراعلیٰ سہ ماہی فیضان مخدوم اشرف )،شہر مالیگائوں سے تین اولین خلیفہ ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی، حافظ غفران اشرفی اورعتیق الرحمن رضوی ۔

٭حق گوئی وبے باکی :
٭تصنیف وتالیف:

شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدمحمدمدنی میاں صاحب کی تصانیف علوم و معارف کا گنجینہ اور تحقیق و تدقیق کا خزینہ ہیں۔ورق ورق میں محبت و خشیت الٰہی مسطور ہے تو سطر سطر سے عشق و ادب رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نور بیز کرنیں دلوں کو منورو مجلا کرتی ہیں ۔طرز تحریر سادہ سلیس ، 
عمدہ اور رواں دواں ہے۔ آپ نے جس مسئلے پر قلم اٹھایا اُس کی تو ضیح کا حق ادا کردیا اور اپنا موقف قرآن و حدیث کی روشنی میں اس انداز سے تحقیق کرکے مبرھن کیا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے اور شک و شبہہ کی گنجائش نہیں رہتی ۔
(۱)فریضۂ دعوت وتبلیغ،۱۹۶۶ء (۲)دین کامل۱۹۶۶ء (۳)اسلام کا تصور الٰہ اور مودودی صاحب، ۱۹۶۷ء (۴)دین اور اقامت دین،۱۹۶۸ء (۵)نظریۂ ختم نبوت اور تحذیر الناس،۱۹۷۴ء (۶)اسلام کا نظریۂ عبادت اور مودودی صاحب،۱۹۷۸ء (۷)امام احمد رضا اور اردوتراجم کا تقابلی مطالعہ، ۱۹۸۲ء (۸) مسلم پرسنل لا یااسلامک لا؟،۱۹۸۵ء (۹)مسئلہ حاضر وناظر(۱۰) اشتراکیت (۱۱) التحقیق البارع فی حقوق الشارع (۱۲)تفہیم الحدیث شرح مشکوٰۃ شریف(۱۳)تعلیم دین وتصدیق جبریل امین،۲۰۰۴ء (۱۴)انما الاعمال بالنیات،۲۰۰۴ء (۱۵) مقالات شیخ الاسلام،۲۰۰۴ء (۱۶)محبت رسول روحِ ایمان،۲۰۰۷ء (۱۷)الاربعین الاشرفی، ۲۰۰۵ء (۱۸)پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک بے مثال انسان کے روپ میں (۱۹)ٹی وی ویڈیوکا شرعی استعمال(۲۰)کتابت نسواں(۲۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شرعی اختیارات کی شرع ، حاشیہ اور تکمیل(۲۲)لائوڈ اسپیکر پر نماز کے جواز کا فتویٰ(۲۳)چاند دیکھنے کی خبر پر تحقیق بھرا فتویٰ(۲۴)صحیفۂ ہدایت (۲۵)تفسیر والضحیٰ(۲۶) سیدالتفاسیر معروف بہ تفسیر اشرفی،چھ/دس جلد  (۲۷)اور شعری مجموعہ’’ تجلیات سخن‘‘ ،۲۰۰۴ء آپ کی تصنیفات کا گراں قدر ذخیرہ ہے ۔
٭وعظ وخطابت:
شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدمحمدمدنی میاں صاحب میں خطابت کا ملکہ موروثی ہے۔اس پہلو سے آپ کا اسلوبِ خطابت خوب نکھرااور ستھراہے۔آپ کے یہاں نقلی وعقلی دلائل کے ساتھ ہی کلامی مباحث کی جلوہ آرائی ہے جس سے خطابت محض لفظوں کاانتخاب ہی نہیں بلکہ پیغام کی ترسیل کا باعث بھی ہوتی  ہے۔ہرمحفل میں وعظ و تلقین فرماتے ہیں۔آپ کی ہر مجلس بذات خود ایک تبلیغی ادارہ ہوتی ہے۔ آپ کی محفل میں زندگی او ربندگی کا سلیقہ عطا ہوتاہے ۔
زمانۂ طالب علمی میں قاری محمد یحییٰ صاحب (مدرس جامعہ اشرفیہ مبارک پور)نے حضرت محدث اعظم ہند قدس سرہٗ سے سالانہ جلسے میں کہاکہ حضور!ایک بات کہناچاہتاہوں اسے شکایت پر محمول نہ فرمائیں۔محدث اعظم ہندقدس سرہ نے فرمایا:’’کہیے،شکایت بھی ہوگی تو سنی جائے گی۔‘‘قاری صاحب نے عرض کیاکہ شہزادے (حضرت مدنی میاں)مشقی جلسے میں شرکت نہیں کرتے جس کا مجھے دکھ ہے۔محدث اعظم ہند قدس سرہ نے فرمایا:
’’میاں!مچھلی کے بچے کو تیرنانہیں سکھاتے۔‘‘
دنیاجانتی ہے کہ اشرفیہ سے فراغت کے بعد حضرت مدنی میاں نے اپنی خطابت کالوہا بڑے بڑے صاحبانِ علم وفضل سے منوالیا ہے۔ غرضیکہ ہند اور بیرونی ممالک میں حضرت شیخ الاسلام کے تبلیغی خطابات سے ہزاروں افراد کو رب قدیر جل شانہ نے ہدایت عطا فرمائی ہے۔فکرونظر اور کردار وسلوک کے اصلاح وتزکیہ کا ایک تحریکی نظام آپ کی بدولت برطانیہ ودیگر مغربی ممالک میں آباد مسلمانوں کو میسر آیاہے۔لندن،برمنگھم،مانچسٹر،بولٹن، بلیک برن، پریسٹن، لنکا شائر، بریڈ فورڈ،ڈیوزبری، نیویارک،نیو جرسی،شکاگو، ہیوسٹن،کناڈا، ہالینڈاور فرانس وغیرہ مقامات پر تبلیغی دورے فرمائے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد کو دیارِ غیر میں ایمان وعقیدے کی سلامتی حاصل ہوئی۔
آپ نے ۱۹۷۴ء میں انگلستان کا پہلا دورہ کیااور مسلسل چار ماہ تک ۳۵؍شہروں میں تبلیغی خدمات انجام دیں۔۱۹۷۶ء میں انگلستان کے دوسرے دورے میںبہت ہی مؤثرانداز میں اسلام کا تعارف پیش کیا اور چمن اسلام کی آبیاری کے لیے ’’مرکزی جماعت رضائے مصطفی یوکے ‘‘نام سے ایک تنظیم قائم کی ۔
٭مجموعۂ خطبات:
مرکزی جماعت رضائے مصطفی یوکے نے اپنے اشاعتی پروگرام کی ابتداشیخ الاسلام کے خطبات کے مجموعہ بنام ’’خطبات برطانیہ‘‘ سے کی۔حضرت کے خطبات کے کئی مجموعے آچکے ہیں جن کے نام یہ ہیں:
خطبات برطانیہ(۹؍خطبات کا مجموعہ،مرتب:سید جیلانی میاں)، خطبات حیدرآباد (۴؍خطبات کا مجموعہ،مرتب:مولانا سیف خالد)،خطبات شہادت امام حسین(۷؍خطبات کا مجموعہ،مرتب:ڈاکٹر فرحت صدیقی)، خطبات شیخ الاسلام اول (۱۰؍خطبات کا مجموعہ، مرتب : مولانا اصغر علی )،،خطبات شیخ الاسلام دوم (۱۰؍خطبات کا مجموعہ،مرتب:مولانانعیم الدین اشرفی)، خطبات جامعہ نظامیہ(۳؍خطبات کا مجموعہ،مرتب:ڈاکٹر فرحت صدیقی )، خطبات میلاد وسیرت رسول(۷؍خطبات کا مجموعہ، مرتب : ڈاکٹر فرحت صدیقی )،خطبات معارف القران(۴؍خطبات کا مجموعہ، مرتب : ڈاکٹر فرحت صدیقی )،خطبات رفعت مصطفی(۷؍خطبات کا مجموعہ، مرتب : ڈاکٹر فرحت صدیقی )،خطبات عظمت مصطفی(۷؍خطبات کا مجموعہ، مرتب : ڈاکٹر فرحت صدیقی )،خطبات تصوف ومقامات اولیا (۷؍ خطبات کا مجموعہ، مرتب : ڈاکٹر فرحت صدیقی ) ،خطبات جدہ بنام شان علی(مرتب :بشارت صدیقی ) اور تین مجددین(مرتب :بشارت صدیقی)۔

٭شعروادب:

آپ نے شاعری کی جملہ اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔شاعری میں’’اخترؔ‘‘تخلص اختیار فرمایا۔آپ کا مجموعۂ کلام ’’تجلیات سخن‘‘۲۵۴؍صفحات پر مشتمل ہے،طبع ہو کر منظرعام پر آچکا ہے۔تجلیات سخن دو جز پر مشتمل ہے۔جزاوّل باران رحمت (حمدونعت اور منقبت)اور جز دوّم ’’پارۂ دل‘‘غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔آپ کا نعتیہ کلام پڑھ کر جہاں آپ کے فکروفن اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کااندازہ ہوتا ہے وہیں ان کی غزلوں کو پڑھ کر آپ کی لطیف طبیعت کا بھی احساس ہوتا ہے۔
جناب مخدوم جمالی اشرفی لکھتے ہیں:
’’حضرت اخترؔ کچھوچھوی نے جہاں شعری اوزان کا مکمل پاس ولحاظ رکھا ہے وہیں الفاظ کا حکیمانہ استعمال اور تراکیب کی پُرتکلف بندشیں اور مضامین کی شفاف تہذیب کا بھی درجہ بدرجہ اہتمام کیا ہے ۔ حضرت اخترؔ کچھوچھوی کا قلم اور فکر دونوں سریلے ہیں۔یہ سریلا پن شاید کہ ساقیِ کوثر کے میر میخانہ بننے کے بعد چاند وسورج کے خم سے نکلی ہوئی ہے، ’’مئے عشق مصطفی‘‘کو پیمانۂ نجم سے پینے کے بعد حاصل ہوا ہے۔ حضرت اخترؔ کچھوچھوی نے تجلیات سخن میں کچھ ایسی سریلی بحروں کا بھی استعمال کیا ہے اور اس میں اپنی شاعرانہ چابک دستی اس ناز وادا سے دکھائی ہے کہ قلم کے ’’اندازحرم‘‘کا طواف کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ ‘‘
جناب اخترؔ کچھوچھوی مدظلہ کی ایک نعت پاک ملاحظہ فرمائیں    ؎
محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
وجود فلک نہ قمر ، شمس ، تارے
سمندر کی طغیانیاں نہ کنارے
نہ دریا کے بہتے ہوئے صاف دھارے 
نہ آتش کی سوزش نہ اُڑتے شرارے 
محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
عنادل کی نغمہ سرائی نہ ہوتی 
ہنسی گل کے ہونٹوں پہ آئی نہ ہوتی
کبھی سطوت قیصرائی نہ ہوتی
خدا ہوتا لیکن خدائی نہ ہوتی
محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
یہ راتوں کے منظر یہ تاروں کے سائے 
خراماں خراماں قمر اس میں آئے 
مرے قلب محزوں کو آکر لبھائے
لٹاتا ہوا دولتِ  نور جائے
محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
نہ بطنِ صدف میں درخشندہ موتی
نہ سبزی قبائوں میں ملبوس ہوتی
فلک پہ حسیں کہکشاں بھی نہ ہوتی
زمیں کی یہ پُر کیف سوتا نہ سوتی
محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدائے برتروبالا ہمیں پتہ کیا ہے 
ترے حبیب مکرم کا مرتبہ کیا ہے
جبینِ حضرت جبریل پر کفِ پا ہے 
ہے ابتدا کا یہ عالم تو انتہا کیا ہے 
بشر کی بھیس میں لا کالبشر کی شان رہی 
یہ معجزہ جو نہیں تو پھر معجزہ کیا ہے
یہ واقعہ ہے لباسِ بشر بھی دھوکا ہے
یہ معجزہ ہے لباسِ بشر میں رہتے ہیں
یہ راز آیۂ تطہیر سے کھلا اخترؔ
رِدا کے نیچے جو ہے ظل ذوالجلال میں ہے

٭اعزاز:

حضور شیخ الاسلام نے اپنے آپ کو اعزازوایورڈس سے ہمیشہ دور رکھابلکہ دیا گیاتو قبول بھی نہیں کیا۔براویت خلیفہ شیخ الاسلام حضرت مولانابشارت صدیقی اشرفی دو سال قبل اشرفیہ مبارک پور سے ایک وفد بھی گیا تو شیخ الاسلام نے منع فرمادیا۔
٭مناصب:
آل انڈیا الجمعیۃ الاشرفیہ 
آل انڈیا سنّی لیگ (سرپرست )
جماعت رضاے مصطفی (نائب صدر)
آل انڈیا تبلیغ سیرت (نائب صدر)
آل انڈیا سنّی جمعیۃ العلماء (نائب صدر)

٭اہم کارنامہ:

حضرت شیخ الاسلام آل انڈیا الجمعیۃ الاشرفیہ کی نشاۃ ثانیہ میں پیش پیش رہے۔آپ آل انڈیا جماعت رضائے مصطفی،آل انڈیا تبلیغ سیرت اور آل انڈیا سنّی جمعیۃ العلماء کے نائب صدر رہے۔آپ نے ۱۸؍اگست ۱۹۸۰ء کو ’’محدث اعظم مشن ‘‘قائم فرمایا،دستور مرتب فرمایا،جس کی ستّرشاخیں ہندوستان اور دوسو سے زائد شاخیں مغربی ممالک میں موجود ہیں۔صوبۂ گجرات میں آپ کی سرپرستی میں آپ کے نام سے منسوب ’’مدنی اسلامک اسٹڈی سینٹر‘‘کے معرفت انٹر کالج اور لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے مدرسہ وہوسٹل کا انتظام ہے جہاں نونہالان قوم اپنی علمی تشنگی بجھار ہے ہیں۔ساتھ ہی ۲۵؍بیڈ کا شاندار مدنی جنرل ہاسپٹل مخلوقِ خداکی خدمت کے لیے موجود ہے۔اعلیٰ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کے بعد سلسلۂ اشرفیہ کی اشاعت کا بین الاقوامی سطح پر وسیع کارنامہ آپ ہی نے انجام دیا۔آج اس روحانی سلسلہ سے برصغیر اور مغربی ممالک میں ہزاروں افراد وابستہ ہیں۔

٭حوالہ جات:

(۱)حضرت شیخ الاسلام:حیات وخدمات،سیریزاول،مدنی فائونڈیشن،۲۰۱۵ء 
(۲)حضرت شیخ الاسلام:حیات وخدمات،سیریزدوم،مدنی فائونڈیشن،۲۰۱۶ء 
(۳)ہمارے شیخ الاسلام، مدنی اسلامک اسٹڈی سینٹر،گجرات
(۴)تجلیات رضا،بحرالعلوم نمبر،ص؍۳۹۴،امام احمدرضااکیڈمی۲۰۱۳ء 
(۵)ماہنامہ جام نوردہلی(محدث اعظم ہند نمبر)،اپریل ۲۰۱۱ء 


1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی