Biography Siraj Ul Fuqha Mufti Nizamuddin misbahi Razvi | محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین رضوی

سراج الفقہاء حضرت علامہ مفتی محمدنظام الدین رضوی 



عصرحاضر کے عظیم محقق،فقہ اسلامی کے ماہر،محقق مسائل جدیدہ،سراج الفقہاء حضرت علامہ مفتی محمدنظام الدین رضوی کی ذات محتاج تعارف نہیں۔آپ جامعہ اشرفیہ مبارک پورکے صدرمفتی ، صدرمدرس اور پرنسپل بھی ہیں۔

٭ولادت اور اسم گرامی :

۲؍مارچ ۱۹۵۷ء موضع بھوجولی اُترپردیش میں مفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب کی ولادت ایک دین دار گھرانے میں ہوئی۔

٭تعلیم وتربیت:

آپ نے اپنے گائوں کے مکتب سے تعلیمی سفر شروع کیاجو انجمن معین الاسلام بستی،مدرسہ عزیزالعلوم نانپارہ ضلع بہرائچ سے ہوتے ہوئے جامعہ اشرفیہ مبارک پورپرختم ہوا۔جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں آپ نے ۱۹۷۶ء میں درجۂ سابعہ میں داخلہ لیااور اپریل ۱۹۸۰ء میں درس نظامی وشعبۂ تحقیق فی الفقہ سے فراغت حاصل کی۔آپ ہی کی خواہش پر جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں شعبۂ تحقیق فی الفقہ کا اضافہ کیاگیا اور اس شعبہ کے سب سے پہلے محقق آپ ہی تھے،آپ ہی نے سب سے پہلامقالہ بہ عنوان’’فقہ حنفی کاتقابلی مطالعہ کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘تحریر فرمایا۔

٭اساتذۂ کرام :

جامعہ میں آپ نے وقت کے جیدوسرخیل علماے کرام سے اکتساب فیض کیا۔جیسے:شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی، بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی، محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری ،حضرت مولانا قاضی محمد شفیع اعظمی، مولاناعبداللہ خاں عزیزی گونڈوی، مولاناافتخار احمد قادری (سائوتھ افریقہ)،مولانایاسین اختر مصباحی اور مولانااسرار احمد (گجہرہ)

٭بیعت وخلافت :

آپ نے مفتی اعظم ہند حضرت علامہ محمد مصطفی رضا خاں نوری علیہ الرحمہ کے دست حق پر بیعت کی۔آپ کو حضرت سیدی برہان ملت مولانا محمد برہان الحق صاحب علیہ الرحمہ(جبل پور) اور امین ملت حضرت سید محمد امین میاں برکاتی صاحب(زیب سجادہ خانقاہ عالیہ برکاتیہ،مارہرہ شریف) سے اجازت وخلافت حاصل ہیں۔حضور امین ملت نے آپ کو ’’برکاتی مفتی‘‘کے منصب پر بھی فائز فرمایا ۔

٭تدریسی خدمات:

فراغت کے بعد۱۹۸۱ء سے لے کر آج تک مسلسل پینتیس سالوں سے پوری تیاری اور ذمہ داری کے ساتھ بڑی عرق ریزی اور جاں سوزی اور کمال ِ مہارت سے جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے تشنگان ِ علوم کو سیراب کررہے ہیں۔آپ مجلس شرعی کے ناظم بھی ہیں اور شعبۂ افتاکے صدر بھی۔آپ کی درسی تقریر بہت واضح،شستہ اور جامع ہوتی ہے جو درس کے تمام ضروری گوشوں کو محیط ہوتی ہے۔اس طرح آپ تدریسی میدان میں ایک نہایت ذمہ دار ،مخلص اور کامیاب استاذ نظر آتے ہیں۔


٭ممتاز تلامذہ:
٭مشا ہیر خلفاء:
٭تصنیف وتالیف:

سراج الفقہاء بحث وتحقیق اور مقالہ نگاری میں بھی منفرد عالمانہ اسلوب کے مالک ہیں۔آپ کے مقالات ومضامین اور قلمی نقوش وآثار ،علمی وتحقیقی اسلوب کا خوب صورت رنگ لیے رہتے ہیں ۔باتیں نپی تلی اور پتے کی ہوتی ہیں،مضامین کی فراوانی بھی خوب ہوتی ہیں لیکن مفہوم کی ترسیل اور 

معانی کی تفہیم کہیں بھی متاثر ہوتی نظر نہیں آتی،آپ کے ان قلمی نقوش کا امتیازی وصف تحقیق و تدقیق ہوتاہے۔مختلف دینی وعلمی موضوعات پر آپ کی قیمتی وجامع تحریریں ،وقیع وگراں قدر مقالے مختلف رسالوں میں شائع ہوکر عوام وخواص کے درمیان مقبول ہوتے رہے ہیں۔ حضرت سراج الفقہاء کے برق رفتار قلم سے اب تک مختلف عنوانات پر سو اسو سے زائد مضامین ومقالات معرض ِ وجود میں آچکی ہیں۔ان کے علاوہ تقریباً ۵۵؍علمی وتحقیقی کتابیںآپ کے قلم سے معرضِ تحریر میں آچکے ہیں۔تفصیل حسب ذیل ہے۔

(۱)الحواشی الجلیۃ فی تایید مذہب الحنفیۃ(۲)فقہ حنفی کا تقابلی مطالعہ کتاب وسنت کی روشنی میں(۳)عصمت انبیا(۴)لائوڈ اسپیکر کاشرعی حکم(۵)شیئر بازار کے مسائل (۶) جدیدبینک کاری اور اسلام(۷)مشینی ذبیحہ :مذاہب اربعہ کی روشنی میں(۸)مبارک راتیں (۹) عظمت والدین(۱۰)فقہ حنفی سے دیوبندیوں کا ارتداد(۱۱)ایک نشست میں تین طلاق کاشرعی حکم (۱۲)اسلام کے سات بنیادی اصول (۱۳)دوملکوں کی کرنسیوں کااُدھار،تبادلہ وحوالہ (۱۴)انسانی خون سے علاج کا شرعی حکم (۱۵)دُکانوں اور مکانوں کے پٹہ وپگڑی کے مسائل (۱۶)تحصیل صدقات پر کمیشن کاحکم (۱۷)خاندانی منصوبہ بندی اور اسلام (۱۸)تعمیرمزارات احادیث نبویہ کی روشنی میں (۱۹)عمرانہ کا مسئلہ نقل وعقل کی روشنی میں (۲۰)اعضاکی پیوند کاری (۲۱)فلیٹوں کی خرید و فروخت کے جدید طریقے (۲۲)بیمہ وغیرہ میں ورثہ کی نامزدگی کی شرعی حیثیت (۲۳)فقدان زوج کی مختلف صورتوں کے احکام (۲۴)کان اورآنکھ میں دواڈالنامفسدِ صوم ہے یانہیں (۲۵) جدید ذرائع ابلاغ اور رویت ہلال (۲۶)طویل المیعاد قرض اور ان کے احکام (۲۷)طبیب کے لیے اسلام اور تقویٰ کی شرط (۲۸)نیٹ ورک مارکیٹنگ کاشرعی حکم (۲۹) فسخ نکاح بوجہ تعسُّر نفقہ (۳۰) ۱۴؍جلدوں میں ’’فتاویٰ نظامیہ‘‘جو دراصل ’’فتاویٰ اشرفیہ مصباح العلوم‘‘ہے(۳۱)فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت ،فتاویٰ رضویہ کے حوالے سے (۳۲)چلتی ٹرین میں نماز کاحکم :فتاویٰ رضویہ اور فقہ حنفی کی روشنی میں(۳۳)مسلک اعلیٰ حضرت-

٭وعظ وخطابت:

سراج الفقہاء مفتی محمدنظام الدین صاحب بہت سے علمی مذاکروں اور فقہی مجلسوں میں شرکت فرماچکے ہیں۔ان تمام مذاکرات میں آپ کی شرکت مؤثر،فعال،باضابطہ اور بامقصد رہی۔بحثوں میں بھرپور حصہ لینا،موضوعات کے تمام گوشوں کونگاہ میں رکھتے ہوئے ایسی محققانہ گفتگوفرمانا کہ تمام شکوک وشبہات کے بادل چھٹ جائیںاور حق کا چہرہ روشن وتابندہ ہوجائے،یہ آپ کا طرۂ امتیاز ہے۔آپ جس سمینار میں شرکت فرماتے ہیںاس کے میرِ مجلس اور روحِ رواں نظر آتے ہیں،آپ کی بحثیں اور تنقیحات فیصلہ کی بنیاد بنتی ہیں۔حسن استدلال،زورِ بیان،طرز استخراج اور جزئیات کا برمحل اور مناسب انطباق کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔مرکزِروحانیت مارہرہ مطہرہ کے سالانہ اعراس میں آپ کے سوال وجواب کا کھلاسیشن کا نظم ہوتا ہے۔نیزسواد اعظم اہل سنت وجماعت کی عالمگیر تحریک سنّی دعوت اسلامی کے زیر اہتمام دنیاکے بیشتر ممالک میں اجتماعات واجلاس کا انعقاد ہوتاہے۔ان اجتماعات میں سوال وجواب کاکھلاسیشن ہوتاہے جس میں سراج الفقہاء برملاسامعین کے ذریعے پوچھے گئے سوالات کے تسلی بخش جوابات عنایت فرماتے ہیں۔کئی سالوں کے سوالات و جوابات پر مبنی کئی آڈیو سی ڈیز مکتبۂ طیبہ سے منظر عام پر آچکی ہیں،ساتھ ہی تمام سیشن کی ویڈیو ز سنّی دعوت اسلامی کے یوٹیوب چینل ’’ایس ڈی آئی چینل‘‘پر بھی دستیاب ہے۔

٭فتویٰ نویسی:

آپ تدریس ،فتویٰ نویسی،تصنیف وتالیف،مقالہ نگاری، سمیناروں میں شرکت اور مقالہ خوانی جیسی دینی وعلمی مشغولیات میں منہمک رہتے ہیں۔مذہبی تعمیرات پر بھی آپ کی خصوصی توجہ ہے۔حضرت مفتی صاحب یوں تو مختلف علمی وفنی میدانوں میں کمال دسترس رکھتے ہیںلیکن آپ کا خاص میدان فقہ وافتا ہے۔اس میدان میں آپ اس قدر ممتاز ونمایاں ہیں کہ معاصرین میں دور دور  تک کوئی آپ کا ثانی نظر نہیں آتا۔آپ نے حضرت شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی صاحب سے بیس سالوں تک فتویٰ نویسی کی تربیت حاصل کی اور شارح بخاری علیہ الرحمہ کی حیات ہی میں برصغیر کے ایک جلیل القدر فقیہ ومفتی اور جدید شرعی مسائل کے ایک عظیم محقق کی حیثیت سے 

مشہورہوگئے۔حضرت شارح بخاری نے صدرالشریعہ علامہ محمد امجد علی اعظمی اور مفتی اعظم ہند علامہ محمد مصطفی رضا نوری ؔ سے فتویٰ نویسی کی تربیت پائی تھی اور سراج الفقہاء نے شارح بخاری سے فقہ وافتا کی تربیت حاصل کی،اس طرح صرف دوواسطوں سے آپ فقہ وافتا میں فیضانِ رضاسے بہرہ ور اور مستفیض ہیںاور آپ کے فتاویٰ میں امام احمد رضا قدس سرہ کی علمی تحقیق کی جھلک صاف نظرآتی ہے۔آپ نے بہت سے نئے فقہی مسائل کی تحقیق فرمائی،نہایت وقیع اور بیش قیمتی ابحاث و تحقیقات قوم کے سامنے پیش فرمائیں،ہزاروں فتاویٰ لکھ کر امت مسلمہ کی الجھنوں کو دور کیا۔جلد ہی آپ کے زیر نگرانی لکھے گئے فتاویٰ تقریباً ۱۳۵۰؍صفحات پر مشتمل دو جلدوں میں منظر عام پر آرہے ہیں۔جن میں اکہتر ابواب کے ایک ہزار تین سوتیرہ مسائل ہوں گے۔

٭حق گوئی و بے باکی:

ہندوستان میں کئی مرتبہ اسلام مخالف مسائل پیدا کرکے اسلام اور مسلمانوں کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر ہر دور میں اسلام کے داعیان دین اور مبلغین نے اسلام دشمن عناصر کو دندان شکن جواب دے کر باطل کو نیست ونابود کیا ہے۔ماضی قریب میں حرمت مصاہرت کا معاملہ کھڑا کرکے اسلام مخالف ذہنیت کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی،ایسے نازک حالات میں مفتی نظام الدین صاحب نے بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرآن واحادیث سے اس شرعی مسئلے پر عوام اور حکومت کی اصلاح کیں۔اسی طرح مئی ۲۰۱۴ء میں بی جے پی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے نئے نئے ہتھکنڈوں کے ذریعے مسلمانوں کو حراساں کرنے کی کوششیں دن بہ دن تیز ہوتی جارہی ہیں۔ہندوستان کے موجودہ حالات کے پیشِ نظرآج کا مسلمان تذبذب،کشمکش اور انجانے خوف کا شکار ہے۔ ہندوستانی سیاست میں اُتھل پُتھل اور مختلف ریاستوں میں بھارتیہ جنتاپارٹی کی جیت کے ساتھ کٹّر ہندوتوا سنگھٹنائوں کے ذریعے کی جانے والی بے لگام حرکات کی بدولت اقلیتی طبقے خوف و ہراس کا شکا رہیں۔مسلسل بیان بازی کا سلسلہ دراز ہے اورمختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے مذہب اسلام کو نشانہ بنایاجا رہاہے ۔لَوجہاد ،دھرم پریورتن، گئوکشی ہتھیا،تین طلاق ،تصویر کشی ،پردہ اور گاناگانے جیسے مُدّے اُٹھا کر صرف اور صرف مسلمانوں کو خاموش کرانے اور ڈرانے کامنصوبہ بنایاگیاہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کا نتیجہ وہ۱۹۴۷ء میں دیکھ چکے ہیں۔آزادی کے بعدعلاحدگی کے وقت ہندوستان سے مسلمان ایسے خوف وہراس میں مبتلا ہوکر بھاگے تھے کہ انہوں نے اپنے گھر وںکا سازو سامان تک نہیں لیا تھا،حتیٰ کہ وہ عالیشان باڑوں کو تالالگاناتک بھول گئے تھے ،ہماری مساجد میں گھوڑے باندھے گئے،مدرسوں اور گھروںپر قبضہ کر لیا گیا۔اغیاریہی صورت حال کامشاہدہ دوبارہ کرناچاہتے ہیں۔خیر یہ ایک تفصیلی تاریخی حقائق و مشاہدات پر مبنی تجزیاتی رپورٹ ہے۔راقم یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ ایسے نازک مسائل پر حکومت کی آنکھ سے آنکھ ملا کر مفتی صاحب قبلہ نے اسلامی موقف کی وضاحت اجلاس،کانفرنسوں اور حکومتی دفتروں میں کی ہے ۔طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں حکومت کا فریق چاہے جو بھی ہو ،اس سے صرف نظر کرتے ہوئے مفتی صاحب اور علامہ یاسین اختر مصباحی صاحب باضابطہ سپریم کورٹ میں موجود رہے اور سنوائی سے قبل تقریبا دیڑھ دو ماہ تک طلاق کے متعلق اسلامی احکام وضوابط سے ایڈوکیٹ کپل سبل کو آگاہ کرتے رہے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ معلوم نہیں کب صادر ہوگا مگر ان نازک مسائل میں آپ کی قیادت یقینا سراہے جانے کے قابل ہے۔

٭تعمیری خدمات:

امام احمدرضاجامع مسجد،بھوجولی پوکھراٹولہ،ضلع کوشی نگر۔

٭اعزاز:

آپ کو دینی خدمات کے صلے میں کئی ایوارڈ مل چکے ہیں۔

(۱) صدرالشریعہ ایوارڈ، از: دارالعلوم حنفیہ ضیاء القرآن،لکھنؤ

(۲)حافظی ایوارڈ ، از: مولانا اکبر میاں چشتی،پھپھوند شریف 

(۳)شبیہ نعلِ پاک ،از:امین ملت،مارہرہ شریف

(۴)قائد اہل سنت ایوارڈ،از:علامہ ارشد القادری چیرٹیز انٹرنیشنل، جمشید پور

(۵) امام احمدرضاایوارڈ،از:تنظیم حسان رسول مشن،مبارکپور اوربھی کئی ایوارڈکے ذریعے آپ کی دینی وملّی خدمات کوسراہاگیاہے جس کی تحریری تفصیلات جستجوکے بعد بھی حاصل نہ ہوسکی۔ 

٭حوالہ جات:

(۱)اہلسنّت کی آواز،خلفائے خاندان برکات،جلد۲۱،ص؍۵۷۹تا۶۰۰،۲۰۱۴ء،از:مولانانفیس احمد مصباحی۔

(۲)فقہ اسلامی کے سات بنیادی اصول،ص؍۱۳،مکتبۂ برہان ملت۲۰۰۹ء

(۳)تجلیات رضا،بحرالعلوم نمبر،ص؍۴۲۹،امام احمدرضااکیڈمی۲۰۱۳ء 

(۴)روبرو،حصہ اول،ص؍ ۳۳۵تا۳۴۰،خوشتر نورانی، ادارۂ فکراسلامی دہلی،نومبر۲۰۱۰ء 

(۵)جام نور دہلی،جنوری ۲۰۰۵ء 




ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی