ولادت
فاضلِ اجل حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ محمد الازہری رضوی بن صدر الشریعۃ علامہ مولانا مجد علی بن علامہ جمال الدین بن مولانا خدا بخش (رحمہم اللہ) ۱۳۷۷ھ؍ ۱۹۱۸ء میں بریلی شریف میں تولد ہوئے۔ علامہ ازہری علیہ الرحمۃ کی ولادت پر اعلیٰحضرت فاضل بریلوی قدس سرہٗ سے علامہ ازہری کےتاریخی نام کے بارے میں پوچھا تو فرمایا۔ تاریخی نام کی ضرورت نہیں۔ اس بچہ کو اپنا محبوب نام عبدالمصطفیٰ عطا کرتا ہوں چنانچہ یہ نام بارگاہ نبوی میں بہت مقبول ہوا۔
حضرت والد ماجد
علامہ ازہری علیہ الرحمۃ کے والد مکرم حضرت صدر الشریعۃ مولانا امجد علی علیہ الرحمۃ (متوفی ۱۳۶۷ھ؍۱۹۴۸ء) بہت بڑےفقیہہ تھے۔ فقہ کی جامع اردو کتاب بہار شریعت آپ ہی کی تصنیف ہے۔
ابتدائی تعلیم
حضرت علامہ مولانا نے قرآن مجید اپنے مولد بریلی شریف کے دارالعلوم منظرِ اسلام میں مولانا احسان علی مظفر پوری سے پڑھا۔پھر والد ماجد علیہ الرحمہ کے جامعہ عثمانیہ اجمیر شریف میں مدرس مقرر ہونے پر علامہ ازہری نے اپنے آبائی وطن قصبہ گھوسی اعظم گڑھ میں محلہ کریم الدین کے مکتب میں اُردو سیکھی۔
علوم اسلامیہ کی تعلیم
حضرت علامہ ازہری علیہ الرحمہ کو ۱۹۲۶ء میں آپ کے والد مکرم نے جامعہ عثمانیہ (اجمیر شریف) بلالیا۔ جہاں آپ نے کتب فارسی مولانا عارف بدایونی سے پڑھیں:۔ ابتدائی تعلیم، علوم عربیہ اسی مدرسہ میں مولانا حکیم عبدالمجید، مفتی امتیاز احمد اور مولانا عبدالحئی سواتی سے حاصل کی، اور اکثر علوم و فنون ابتدا سے انتہا تک اپنےوالد مکرم سے پڑھے۔
جامعہ ازہر میں
جب حضرت صدر الشریعۃ علیہ الرحمہ دوبارہ بریلی شریف جانے لگے تو علامہ ازہری علیہ الرحمہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ ازہر قاہرہ (مصر) بھیج دیا۔ چنانچہ حج کی ادائیگی اور زیارت روضۂ رسول علیٰ صاجہا الصلوٰۃ والسلام سے فراغت کے بعد جامعہ ازہر تشریف لے گئے، اور تین سال جامعہ ازہر میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ ن ے جامعہ کی طرف سے دو سندیں ‘‘شہادۃ الاہلیۃ وشہادۃ العالیہ’’ حاصل کیں۔
کتب احادیث کی تکرار
جب جامعہ ازہر سے واپس ہوئے تو حضر ت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ علی گڑھ کے مضافات میں دادوں کے مقام پر نواب ابو بکر کےمدرسہ میں مدرس تھے۔ چنانچہ علامہ ازہری نے دوبارہ والد ماجد علیہ الرحمہ سے حدیث کو دورہ کیا۔
درس وتدریس
حضرت علامہ ازہری نے فراغت کے بعددوران میں ہی اپنے والد ماجد کی نگرانی میں تدریس شروع کی، ۱۹۳۹ء میں دار العلوم منظر اسلام بریلی شریف میں مسند تدریس پ فائز ہوئے۔ ۱۹۴۴ء میں دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پورہ اعظم گڈہ میں بحیثیت صدر مدرس وشیخ الحدیث کام کرنا شروع کیا اور تقسیم ملک تک اسی مدرسہ سے منسلک رہے۔
تقسیم ملک کے بعد ۱۹۴۸ء میں جب پاکستا ن تشریف لائے تو جامعہ محمدی شریف ضلع جھنگ میں شیخ الحدیث مقرر ہوئے۔ ۱۹۵۳ء میں جامعہ مسجد ہارون آباد (بہاول نگر) میں خطابت کے فراج منسبی انجام دینے شروع کیے دریں اثناء علامہ ازہری نے ایک عظیم دارالعلوم منظر اسلام کی بنیاد رکھی، اور اس کے لیے نہایت عالی شان عمارت تعمیر کرائی۔
جب بعض جاہل اور شر پسند لوگوں نے دارالعلوم کی عمارت کو قبضہ میں لے کر اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی تو حالات کے ناساز گار ہونے کی بناء پر آپ کراچی تشریف لے گئے، جہاں جامعہ امجدیہ کراچی کے شیخ الحدیث کی حیثیت سے حدیثِ رسول کا فیضان جاری کیا جو تادم زیست جاری رہا۔
سیاسی کردار
حضرت علامہ ازہری علیہ الرحمہ جمعیت علماء پاکستان کے صوبہ سندھ کے صدر کی حیثیت قائد اہلسنت شاہ احمد نورانی صدیقی کےدست راست و معاون رہے۔
۱۹۷۰ء کے انخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے۔ قومی اسمبلی میں علامہ ازہری نے صحیح نمائندگی کا حق ادا کیا۔ آئین کی تدوین کے وقت جب آئین کی تعریف میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے کامرحلہ آیا تو علامہ شاہ احمد نورانی کی تحریک کےجواب میں حکومتی ممبر اسمبلی کوثر نیازی نےکہا کہ تمام مکاتبِ فکر کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ہیں۔ تو علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری نے ایک متفقہ تعریف مرتب کی جو تمام مکاتب فکر کے اراکین اسمبلی کے دستخطوں سے اسمبلی میں پیش کی گئی ہے۔
۱۹۷۷ء کی تحریک نظامِ مصطفیٰﷺ میں جب علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو گرفتار کر کے ملک کے گرم ترین علاقے گڑھی خیرو (سندھ) میں جیل کی کو ٹھڑیوں میں بند کردیا گیا۔ تو علامہ ازہری نے حق نیابت ادا کیا اور جمعیت کے قائم مقام صدر کے فرائض انجام دیئے۔
بیعت وخلافت
حضرت علامہ ازہری نے امام اہل سنت اعلیٰ حضرت بریلوی قدس سرہٗ العزیز کے دستِ حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا اور مفتئ اعظم مولانا شاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ العزیز کی طرف سے سلسلۂ قادریہ میں خلافت واجازت حاصل کی۔
تصانیف
علامہ ازہری علیہ الرحمۃ نے قرآن پاک کی تفسہ (تفسیر ازہری) پانچ جزو (مطبوعہ) اور تاریخ الانبیاء تحریر فرمائیں [1]۔
تلامذہ
علامہ ازہری سے جن تلامذہ نے اکتساب فیض کیا۔ ان میں سے چند مشہور فضلاء کے اسماء گرامی یہ ہیں۔
۱۔ مولانا خلیل اشرف، بانی مدرسہ فیض رضا، ضلع بہاول نگر
۲۔ مولانا غلام یٰسین ، بانی دارالعلوم قادریہ ملیر
۳۔ مولانا فضل سبحان، مہتمم دارالعلوم قادریہ، بغدا وہ مردان
۴۔ مولانا غلام نبی، دارالعلوم حامدیہ رضویہ کراچی
۵۔ مولانا محمد طفیل، دارالعلوم شمس العلوم جامعہ رضوایہ کراچی
۶۔ مولانا منیب الرحمان، ایم۔ اے
۷۔ مولانا محمد طارق ایم۔ اے
۸۔ مولانا محمد اسحاق ایم۔ اے
۹۔ مولانا محمد رفیق ضیاء ایم۔ اے
۱۰۔ مولانا قادری حافظ عبدالباری، ٹھٹھہ کے شاہی قاضی [2]
وصال پُر ملال
بروز بدھ ۱۸؍اکتوبر ۱۹۸۹ء ؍۱۶؍ربیع الاول ۱۴۱۰ھ کو اچانک شام میں یہ روح فرساخبر موصول ہوئی کہ علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری علیہ الرحمۃ اپنی طویل علالت کے بعد اس دارِ فانی سے کوچھ فرماگئے۔ علامہ ازہری علیہ الرحمۃ بغرض علاج جاپان تشریف لے گئے تھے۔ وہیں اچانک یہ حاثہ فاجعہ پیش آیا۔ بذریعہ طیارہ نعش مبارکہ کراچی لائی گئی اور وہیں ہزاروں سوگوار وعقیدت کے بیچ تدفین عمل میں آئی [3]۔
[1] ۔غلام مہر علی: مولانا، الیواقیت المہریہ ص ۸۱تا۸۳
[2] ۔محمود احمد قادری، مولانا: تذکرہ علمائے اہلسنت ص ۱۶۱
[3] ۔ماہناہ اشرفیہ مبارک پور ص ۲، نومبر ۱۹۸۹ء ربیع الآخر ۱۴۱۰ھ شمارہ ۱۱ جلد ۱۴ مضمون، مولانا عبدالمبین نعمانی رضوی
شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری بن صدر الشریعۃ علامہ الحاج حکیم امجد علی اعظمی ( مصنف فتاویٰ امجد یہ و بہار شریعت ) ۱۳۳۴ھ ؍ ۱۹۱۸ء کو بریلی شریف ( یوپی ۔ انڈیا ) میں تولد ہوئے ۔ بعد پیدائش والد گرامی نے آپ کو اعلیٰ حضرت ؒ کی خدمت میں پیش کیا تو اعلیٰ حضرت نے اپنا نام ’’عبدالمصطفیٰ ‘‘ آپ کیلئے تجویز فرمایا۔
تعلیم و تربیت:
علامہ ازہری نے قرآن حکیم کی تعلیم اپنے مولد بریلی شریف کے دارالعلوم منظر اسلام میں مولانا احسان علی مظفر پوری سے حاصل کی۔ جو کہ ان دنوں دارالعلوم میں ابتدائی کتب پر معمور تھے۔ انہی دنوں آپ کے والد ماجد بریلی شریف سے منتقل ہو کر جامع عثمانیہ اجمیر شریف میں صدر مدرس مقرر ہونے پر علامہ ازہری نے اپنے آبائی وطن قصبہ گھوسی اعظم گڑھ میں محلہ کریم الدین کے مکتب میں اردو کی ابتدائی کتب پڑھیں ۔
علامہ ازہری کو ۱۹۲۶ء میں آپ کے والد ماجد مفتی امجد علی اعظمی نے جامعہ عثمانیہ اجمیر شریف بلا لیا ۔ جہاں پر آپ نے کتب فارسی مولانا محمد عارف بدایونی سے پڑھیں ۔ عربی کی ابتدائی کتب والد ماجد کی نگرانی میں مولانا حکیم عبدالمجید مفتی امتیاز احمد اور مولانا عبدالحئی سواتی سے حاصل کی اور احادیث مبارکہ کی کتب اپنے والد ماجد سے پڑھیں ۔
جامع الازہر :
جب حضرت مفتی امجد علی اعظمی قادری رضوی دوبارہ بریلی شریف جانے لگے تو علامہ ازہر ی کو اعلیٰ تعلیم کیلئے جامعہ الازہر قاہرہ ( مصر ) بھیج دیا ۔ چنانچہ حج کی ادائیگی اور زیارت روضہ رسول کریم علیہ التحیۃ والثنا سے فراغت کے بعد جامع ازہر تشریف لے گئے اور تین سال جامعہ ازہر میں زیر تعلیم رہے بعد فراغت آپ نے وہاںکی دو سندیں ( سر ٹیفکیٹ ) ( ۱) شہادۃ الاہلیۃ ۔( ۲) شہادۃ االعالیہ حاصل کریں ۔
دورہ حدیث :
جب جامع ازہر سے واپس ہوئے تو ان دنوں حضرت صدر الشریعہ علی گڑھ کے قصبہ ’’دادوں ‘‘ میں نواب ابوبکر کے مدرسہ سعیدیہ میں شیخ الحدیث مقرر ہوئے۔ چنانچہ علامہ ازہری نے دوبارہ والد ماجد سے دورہ حدیث شریف لیا ۔
درس و تدریس:
علامہ از ہر ی نے بعد فراغت دادو ں میں یہی اپنے والد ماجد کی سر پرستی میں تدریس کا آغاز کیا۔ ۱۹۳۹ء کو دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف میں مسند تدریس پر فائز ہوئے۔ ۱۹۴۴ء کو دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور ضلع اعظم گڑھ میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا اور تقسیم ہند تک اسی مدرسہ سے منسلک رہے۔
قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۸ء کو پاکستان تشریف لائے تو جامعہ محمد ی شریف ضلع جھنگ میں شیخ الحدیث مقرر ہوئے۔ ۱۹۵۳ء میں ہارون آباد ضلع بہاولنگر میں مدرس مقرر ہوئے۔
سیاسی خدمات:
علامہ ازہر ی جمعیت علماء پاکستان کے صوبہ سندھ کے صدر کی حیثیت سے قائد اہلسنت علامی مبلغ اسلام علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کے دست راست و معاون رہے۔
۱۹۷۰ء کے انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ قومی اسمبلی میں علامہ ازہری نے صحیح نمائدگی کا حق ادا کیا۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کے وقت جب آئین کی تعریف میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے کا مرحلہ آیا تو علامہ شاہ احمد نورانی کی تحریک کے جواب میں حکومتی ممبر اسمبلی کو ثر نیازی نے کہا کہ تمام مکاتب فکر کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ہیں ۔ آپ نے ( علامہ ازہری ) نے ) ایک متفقہ تعریف مرتب کی جو تما م مکاتب فکر کے علماء دیگر اراکین قومی اسمبلی کے دستخطوں سے اسمبلی میں پیش کی گئی ۔ تحریک ختم نبوت کے دوران علماء و مشائخ اہلسنت کے ساتھ بھر پور کردار ادا کیا۔
۱۹۷۷ء کو تحریک نظام مصطفی ﷺ میں جب علامہ شاہ احمد نورانی کو گرفتار کر کے ملک کے گرم ترین علاقے گڑھی خیر و ( ضلع جیکب آباد سندھ) میں جیل کی کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا ۔ جہاں آپ کو انتہائی تکالیف اٹھانی پڑیں کیونکہ وہاں کوئی بھی سہولت میسر نہیں تھی مثلا لائٹ ، پنکھا ، صاف پانی ، بلکہ اس کوٹھڑی کی چھت بھی نہیں تھی ۔ تو علامہ ازہر ی نے حق نیابت ادا کیااور جمعیت علماء پاکستان کے قائم مقام صدر کے فرائض بحسن و خوبی سر انجام دیئے۔
۱۹۸۵ء کو دوسری مرتبہ غیر جماعتی الیکشن میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ جنرل ضیاء کے دور میں مجلس شوریٰ کے ممبر مقرر ہوئے۔
بیعت و خلافت:
علامہ ازہر ی نے بچپن میں امام اہلسنت اعلیٰ حضرت عظیم المرتبت مولانا احمد رضا خان محدث بریلوی نور اللہ مرقدہ کے دست پاک پر بیعت ہونے کا شرف حاصل کیاتھا اور جوانی میں مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خان بریلوی اور صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی کی طرف سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں اجازت و خلافت حاصل کی۔
عادات و خصائل :
علماء کے قدردان چھوٹوں پر مشفق و مہربان ، سادگی میں سلف الصالحین کے نقش قدم پر تھے مساکین کے دکھ درد ، خوشی و غمی میں ساتھی تھے ۔ حقوق العباد کی فکر تھی ، پڑوسیوں سے اخلاق و مروت سے پیش آتے تھے سماجی فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ تدریس کو عبادت سمجھتے تھے لہذا طلبہ کی تعلیم و تربیت پر نہایت توجہ فرماتے تھے۔ وقت کی قدر ٹائم کی پابندی رکھتے تھے ۔ درس تدریس میں ناغہ نہیں کرتے روزانہ بلا نا غہ وقت سے پہلے پہلے پہنچ جاتے تاکہ پورا وقت طلبہ کی تعلیم پر صرف کیا جائے ۔
تصنیف و تالیف :
علامہ ازہری کو تدریس سے فرصت کم ملی جس کی وجہ سے تصنیف میں زیادہ کام نہیں کر سکے ۔ درج ذیل کتب آپ کی یاد گار ہیں :
۱۔ تفسیر ازہری ( پانج جز ) مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، آرام باغ ، کراچی
۲۔ تاریخ الانبیاء ( قلمی )
تلامذہ :
آپ سے ایک جماعت نے استفادہ کیا یہاں پر بعض کے کے اسماء درج ذیل ہیں :
٭ مولانا خلیل اشرف اعظمی
( مصنف طمانچہ ) بانی مدرسہ فیض رضابہاولنگر ( پنجاب )
٭ خطیب پاکستان مولانا قاضی دوست محمد صدیق المعروف بلبل سندھ
( لاڑکانہ )
٭ مولانا مفتی غلام یٰسین امجدی اعظمی بانی دارالعلوم قادریہ سعود آباد چورنگی ، ملیر کراچی
٭ مفتی فضل سبحان قادری ؟؟دارالعلوم نعیمیہ ، کراچی
٭ مولانا غلام نبی فخری بانی دارالعلوم حامد یہ رضویہ سچل گوٹھ یونیورسٹی روڈ ، کراچی
٭ مولانا محمد طفیل بانی دارالعلوم شمس العلوم این بلاک نارتھ ناظم آباد ، کراچی
٭ پروفیسر ڈاکٹر مولانا عبدالباری صدیقی خطیب جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹھہ سندھ
٭ مولانا جمیل الرحمن سعیدی محمود آباد ، کراچی
٭ صاحبزادہ مولانا انوار المصطفیٰ قادری مرحوم
جامع مسجد طیبہ :
آپ کی رہائش سعود آباد ملیر کراچی میں ایک کوارٹر میں تھی ممبر قومی اسمبلی سے پہلے بھی وہی رہائش تھی اور بعد میں بھی وہیں قیام پذیر رہے۔ بعد تدریس آپ کا وقت یہیں پر گزرتا یہاں پر آپ نے جامع مسجد طیبہ کی بنیاد رکھی تھی جو کہ آج بھی اہلسنت و جماعت کا مرکز ہے اور ہزاروں لوگ علاقے کے آپ کے اخلاق و مروت کے معترف و گواہ ہیں ۔
وصال :
علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری پر دوران درس فالج کا اٹیک ہوا۔ نو ماہ تک آپ بستر علالت پر رہے اور بغرض علاج سانگلہ ہل ( پنجاب ) شریف لے گئے جہاں پر ۱۶، ربیع الاول ۱۴۱۰ھ بمطابق ۱۸، اکتوبر ۱۹۸۹ء کو انتقال فرمایا۔
نعش مبارکہ کراچی لائی گئی ان دنوں قطب مدینہ عالمگیر روڈ کے چوک پر صاحبزادہ الشیخ فضل الرحمن مدنی قادری مدینہ منورہ سے پاکستان کراچی تشریف لائے ہوئے تھے لہذا انہوں نے نماز جنازہ کی امامت فرمائی اور ہزاروں شاگردوں عقیدت مندوں علماء و مشائخ کرام کے جلوس میں دارالعلوم امجد یہ عالمگیر روڈ کراچی کی ’’مسجد امجدی ‘‘ کی مشرق جانب دفن کیا گیا۔
نوٹ : اس قدر جلیل القدر عالم جو کہ عالم گر تھے ان کی حیات مع خدمات جلیلہ پر اب تک سالوں میں تفصیلی کتاب مارکیٹ میں نہیں آسکی حالانکہ آپ کے بیٹے ، پوتے ، برادران ، شاگرد اور عقیدت کش سبھی موجود ہیں اور ہم نے ان سے بار ہادر خواست کی کہ علامہ ازہری اور ان کے صاحبزادے مولانا انوار مصطفی قادری کے حالات زندگی کے متعلق آگاہی دیں ۔ انہوں نے وعدہ تو کیا لیکن وفا نہیں کیا۔ خدا کرے کوئی عزم شخص اس طرف متوجہ ہو۔
[مفتی اعظم ہند اور ان کے خلفاء مطبوعہ رجا اکیڈمی بمبئی ۔ وقار الفتاویٰ مطبوعہ بزم وقار الدین کراچی ۔ مع دیگر اخبارات و رسائل سے مواد اخذ کیا گیا]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )
۱۳۳۶ھ میں ۱۰؍محرم الحرام کو آپ کی ولادت ہوئی، چار سال کی عمر میں قاعدہ شروع کیا، قرآن شریف مولانا احسان علی مظفر پوری سےبریلی میں پڑھا، مولانا احسان علی اس وقت مدرسہ منظر اسلام میں ابتدائی مدرس تھے، اور اب شیخ الحدیث ہیں، اجمیر شریف میں حضرت مولانا مفتی امتیاز احمد امیٹھوی اور مولانا حکیم سید عبد الحئی صاحب سے درس نظامی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں، فارسی عارف بد ایونی سے پڑھی، جو دارالعلوم معینیہ عثمانیہ میں فارسی کےاستاذتھے، یہاں سے جامعہ ازہر تشریف لے گئے، ۱۹۳۷ھ کی ابتداء میں تکمیل کر کے واپس ہوئے والد ماجد سے دو بار دورۂ حدیث شریف تقریباً سبقاً سبقاً پڑھا، ۳۷، ۱۹۳۸ھ میں دارالعلوم حافظیہ سعیدیہ دادوں ضلع علی گڈھ میں درس دیا، اور والد ماجد سے مزید تحصیل علم کیا، ۱۹۳۹ھ سے ۱۹۴۲ھ تک مدرسہ مظہر اسلام میں مدرس رہے چند دنوں کے وقفہ کے بعد ۱۹۴۸ھ تک دار العلوم اشرفیہ مبارک پور ضلع اعظم گڈھ میں نائب شیخ الحدیث رہے مولانا ارشد القادری، قاری یحییٰ صاحب، مولانا عبد المنان صاحب اور ان کے سبھی ساتھیوں نے آپ سے مسلم شریف وغیرہ کا درس لیا، اگست ۱۹۴۸ھ میں جامعہ محمدی شریف ضلع جھنگ میں شیخ الحدیث ہوکر گئے، مولانا خلیل اشرف بانئ مدرسہ فیض رضا ضلع بھاول نگر، مولانا غلام یٰسین بانی دارالعلوم قادریہ ملیرا ، مولانا فضل سبحان بانی مدرسۂ رضویہ مروان، مولانا غلام نبی اور مولانا محمد طفیل بانی دارالعلوم حامدیہ رضویہ اور بے شمار علماء جو اکناف واطراف پاکستان میں تدریس و تبلیغ اور وعظ ارشاد میں مصروف ہیں،نیز مولانا منیب الرحمٰن ایم۔ اے ، مولانا محمد اسحاق ایم، اے، مولانا محمد طارق ایم۔ اے ، مولانا محمد رفیق ضیاءایم۔ اے ٹھٹھہ کےشاہی قاضی مولانا قاری حافظ عبد الباری وغیرہم علماء آپ کےشاگرد ہیں۔
شروع میں فنون سے مناسبت تھی لیکن اب صرف حدیث شریف پڑھاتے ہیں، تصانیف میں تفسیر قرآن مجید میں پانچ پارے مطبوعہ ہیں، سیرۃ النبی میں بھی کچھ آپ نےتحریر فرمایا ہے،
آپ کو بیعت اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ سے ہے، اپنےوالد ماجد صدر الشریعۃ قدس سرہٗ، حضرت شیخ الاسلام مولانا شاہ مصطفیٰ رضا فاضل بریلوی مدظلہٗ العالی اور حضرت حجۃ الاسلام مولانا شاہ محمد حامد رضا قدس سرہٗ اور قطب مدینہ منورہ حضرت مولانا شاہ ضیاءالدین احمد صاح دامت برکاتہم سے اجازت وخلافت ہے۔۔۔۔۔ برسہا برس دےدار العلوم امجدیہ کے شیخ الحدیث وصد مدرس ہیں، امسال نئےالیکشن میں کراچی کے حلقہ سےپاکستان پارلیمنٹ کےلیے منتخب ہوئے بفضلہٖ تعالیٰ آپ اپنےنامور، یگانۂ عصر، امام و محدث ومتکلم و فقیہہ والد ماجد قدس سرہٗ العزیز کے علم و عمل میں جانشین ہیں۔