فضیلۃ الشیخ حضرت ابوبکر احمد
ہندوستان میں اسلام کی آمد کے شرفِ اوّلین کا درجہ جنوبی ہند کے بحیرہ عرب کے ساحلی علاقہ کیرالا کو حاصل ہے۔تاریخی روایت کے مطابق ہندوستان کی پہلی مسجد کی تعمیر کا شرف بھی کیرالا کو حاصل ہے۔اسی شہر میں بدری صحابہ اور حضرت آدم علیہ السلام کے قد مبارک کے نشان بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔اس خاک دانِ گیتی پر کئی اہم اکابر جلوہ نما ہوئے جو اپنے زہد وتقویٰ، عظمت وبلندی کی بنیادپر ممتاز اور قابل تقلید اور مقبولیت کے حامل ہوئے ہیں۔جن کی قائدانہ صلاحیت ،فکری بصیرت اور علمی کارنامے قابل تحسین ہیں۔قمرالعلما،ابوالایتام حضرت شیخ ابوبکر بن احمد کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے جو اہلسنّت وجماعت کے بڑے ممتاز عالم دین ہیں۔آپ ایک بین الاقوامی شخصیت ہیں جن کی ذات محتاج تعارف نہیں ۔آپ کے تعمیری، تنظیمی، تحریکی کارناموں سے اربابِ علم اور اہلِ دانش بخوبی واقف ہے۔کیرالامیں آپ کو کانداپورم اے پی ابوبکر استاد کے نام سے جانتے ہیں۔آپ اپنی تنہا ذات میں ہمہ جہت خوبیوں، خدادا دقائدانہ صلاحیتوں ،فکری بصیرتوںاور جماعتی اقدار کی پاسبانی کا جذبہ لیے ہوئے ممتاز اور قابل تقلید شہرت کے حامل ہیں۔دی رائیل اسلامک اسٹراٹے جِک اسٹڈی سینٹر(جارڈن)پوری دنیامیں اثرورسوخ رکھنے والے پانچ سو مسلم افراد پر مشتمل سروے رپورٹ پیش کررہاہے۔ ،۱۴۔۲۰۱۳ء، ۱۵۔۲۰۱۴ء،۲۰۱۶ء اور ۲۰۱۷ء کی سروے رپورٹ میںحضرت شیخ ابوبکر میاں کا نام مسلسل آرہا ہے ۔
٭ولادت اور اسم گرامی :
آپ کا نام شیخ ابوبکر بن احمدہے۔ضلع کالی کٹ سے تقریباً ۲۵؍کلومیٹر فاصلہ پر ’’کانداپورم‘‘نامی مقام پر ۲۲؍مارچ ۱۹۳۱ء/۱۹۳۹ء(وکی پیڈیا) کو ایک علمی گھرانے میں آپ کی ولادت ہوئی۔
٭تعلیم وتربیت:
ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گھرانے سے حاصل کی،بعدہٗ کیرالا کے مختلف دینی اداروں میں ثانوی تعلیم حاصل کرتے رہے ،اعلیٰ تعلیم کے لیے جنوبی ہند کی قدیم مشہور ومعروف درس گاہ ’’جامعہ باقیات الصالحات‘‘ویلور تامل ناڈو میں داخل ہوئے اور وہاں سے تکمیل کے بعد ۱۹۶۴ء میں سند فضیلت واجازت سے سرفراز کیے گئے۔آپ نے فراغت کے بعد علماے عرب کے کئی اہم مشائخ اورعلماے کرام سے اکتساب فیض کیا۔
٭بیعت وخلافت :
حضور تاج الشریعہ علامہ اختر رضاخان اور حضور شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں اشرفی و دیگر کئی صاحبان رشدو ہدایت سے آپ کو خلافت واجازت حاصل ہے۔
٭اساتذہ ٔکرام :
جامعہ باقیات الصالحات کے اساتذۂ کرام سے حصول علم کے ساتھ آپ نے علماے عرب کے کئی اہم مشائخ وعلماے کرام جیسے ابولیس محمد عیسی فاذانی اورشیخ احمد طہ بن علی حداد وغیرہم سے اکتساب فیض کیا۔
٭تدریسی خدمات:
تعلیمی مراحل کی تکمیل کے بعد آپ نے جامع مسجد ایسٹیل میں چھ سال اور جامع مسجد
کولیکال میں سات سال تک خطابت وتدریس کے فرائض بحسن وخوبی انجام دیے۔حضرت شیخ ابوبکر احمد تقریباً ۲۵؍سال سے زائد عرصے سے جامعہ مرکز میں درس بخاری دے رہے ہیں۔اس درس بخاری میں احناف وشوافع طلبا بیک وقت حاضر رہتے ہیں اور شیخ موصوف ائمہ اربعہ کے اجتہاد وفقہ کی تشریح کرتے ہوئے احادیث کے معانی ومفاہیم کوواضح کرتے ہیں۔درس بخاری کا روح پرور منظر نہایت ہی حسین ہوتا ہے۔عربی زبان میں بعد نماز فجر تقریباً تین گھنٹے تک درس بخاری ہوا کرتا ہے۔شمالی طلبہ کے لیے اُردو زبان میں بھی مسائل کی تشریح کرتے ہیں۔اس درس بخاری میں ہر دن طلبہ کے علاوہ مقامی وبیرونی حضرات بھی شریک ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں کثیر تعداد میں لوگ ویب سائٹ پر بھی دیکھتے ہیں۔آپ کے درس بخاری کی جامعیت کااندازہ اس طور سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وقتاً فوقتاً مختلف خصوصی موضوع پر سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں۔ہر سال کے اخیر میں بخاری سمیلن کے نام سے عظیم الشان پیمانے پر ختم بخاری اجلاس کا انعقاد ہوتا ہے جس میں عالم اسلام کی مقتدر شخصیات اور علماومشائخ سمیت سادات کرام بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں ۔ ہندوستان کی منفرد بخاری کانفرنس ہوتی ہے جس میں کم ازکم دس ہزار سے زائد فارغین ثقافی اور معززعلما شریک ہوتے ہیں۔آپ کے سالانہ اجلاس میں بھارت کے گیارہویں صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام آزاد ،بارہویںنائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری بھی شرکت کر چکے ہیں جب کہ ہر سال ملک وبیرون ملک کی کئی علمی، سیاسی اور باوقار شخصیات شریک ہوتی رہتی ہیں۔
٭ممتازتلامذہ:
یقیناآپ سے اکتساب فیض حاصل کرنے والوں کی تعداد سیکڑوں کی تعداد میں ہوگی مگر تلاش ِبسیار کے باوجود راقم کو نام نہیں مل سکے۔حضرت کی شخصیت کے ایسے کئی اہم گوشے ہیں جن پر کام ہوناہنوز باقی ہے۔اہل علم توجہ فرمائیں تو بہت سے تاریک گوشے منظر عام پر آسکتے ہیں جو حال اور مستقبل میں کام کرنے والوں کو ہمت وحوصلہ فراہم کریں گے۔اس سلسلے میں مولاناعبدالکریم امجدی نے فون پر بتایا کہ عنقریب حضرت پر سات سو صفحات پر مشتمل ملیالم زبان میں ایک سوانحی کتاب منظرعام پر آنے والی ہے۔
٭تصنیف وتالیف:
اللہ رب العزت نے آپ کو وعظ وخطابت،درس وتدریس اور منتظم ورہبر کے ساتھ تحریر کی بھی غیر معمولی قدرت وقابلیت سے نوازا ہے۔دعوت وتبلیغ،دینی وعصری اداروں کی سرپرستی، درس وتدریس اور مختلف اجلاس اور کانفرنسوں میںشرکت کے باوجود ایک درجن سے زائد کتابیں عربی اور ملیالم زبان میں تحریر فرماچکے ہیں۔
٭آپ کی عربی تصانیف حسب ذیل ہیں:
(۱)عصمۃ الانبیاء (۲)الوحدہ الاسلامیہ (۳)الاتباع والابتداع (۴) ریاض الصالحین (۵)السیاسۃ الاسلامیہ (۶)فیضان المسلسلات فی بیان الاجازۃ المتداولۃ (۷)طریقۃ التصوف بین الاصیل والدخیل۔
٭ملیالمی تصانیف:
(۱)البراہین القاطعۃ (۲)ضد القادیانیہ (۳)مقدمۃ دراسۃ الاسلام (۴) صلاۃ المرأۃ (۵) دراسۃ عن اھل التعالیش السلمی (۶)النافورۃ الفکریہ للعالم الاسلامی۔
٭وعظ وخطابت:
آپ ایک عہد ساز خطیب اور فصیح اللسان مقرر ہیں۔ملک وبیرون ممالک میں مختلف علمی ، اصلاحی واعتقادی موضوعات پر آپ پانچ ہزار سے زائد خطبات دے چکے ہیں۔آپ کے خطبات کے ذریعے قوم ترقیات کی طرف راغب ہورہی ہے ۔ مختلف ادیان کے مابین امن عامہ، عصر حاضر میں مسلمانوں کا اتحاد،رسالت ونبوت ،فقہ قانون زندگی،اور سنت نبویہ کی اہمیت جیسے اہم اور حساس عناوین پر عالمی کانفرنسوں میں آپ کے خطابا ت ہوچکے ہیں۔ آپ کے خطابات علمی،فکری اور پُر مغز ہوتے ہیں ۔
٭عالمی کانفرنسوں میں شرکت:
اپنی تعلیمی ،تعمیری، تحریکی اور تنظیمی خدمات کی بدولت آپ دنیا کے مختلف ممالک کی علمی وتہذیبی ،سماجی وسیاسی مجلسوں اور کانفرنسوں میں بہ حیثیت مندوب وخطیب شریک ہو رہے ہیں۔
چند اہم کا تذکرہ ذیل میں کیا جارہاہے:
(۱)قاہرہ مصر کی وزارت اموراسلامیہ کی جانب سے منعقد ہونے والی سالانہ میلاد کانفرنس میں آپ ۱۹۹۰ ء سے ہر سال شریک ہورہے ہیں۔
(۲)۱۹۹۶ء میں اقوام متحدہ کی پہلی کانفرنس میں شریک ہوئے جولاس اینجلس (امریکہ)میں منعقد ہوئی اور اس میں آپ نے ہندوستان کے مختلف ادیان کے مابین امن عامہ کے موضوع پر خطاب کیا۔
(۳)کولمبیا ۱۹۹۶ء میں (انگلینڈ)میں منعقد ہونے والے سیمینار میں آپ نے شرکت کی۔
(۴)۱۹۸۴ء میں واشنگٹن (امریکہ)میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی دوسری کانفرنس میں شریک ہوئے اور عصر حاضر میں مسلمانوں کے اتحاد کے موضوع پر خطاب کیا۔
(۵)اردن میں مسجد ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے افتتاحی پروگرام میں شرکت کے لیے ۱۹۹۹ء میں مدعو ہوئے۔رسالت ونبوت کے موضوع پر منعقد ہونے والے سیمینار میں شریک ہوئے اور سنت نبویہ کی اہمیت پر خطاب کیا۔
(۶)۲۰۰۱ء میں کولالمپور (ملیشیا)کی ایک کانفرنس میں حاضر ہوئے۔
(۷)۲۰۰۳ء میں جنوبی افریقہ کے جوہانس برگ میں منعقد ہونے والی فقہ اسلامی کانفرنس میں شریک ہوئے اور ’’فقہ قانون زندگی‘‘کے موضوع پر گفتگو کی۔
(۸)۵۔۶۔۲۰۰۷ء کے ماہ رمضان میں متحدہ عرب امارات کے صدر کی جانب سے بہ حیثیت مہمان خصوصی مدعو ہوئے۔
(۹)۲۰۰۶ء میں یورپ میں منعقد ہونے والی ازہری کانفرنس میں شریک ہوئے۔
(۱۰)۲۰۰۸ء میں ملیشیا کی اسلامی کانفرنس میں شریک ہوئے۔
(۱۱)۲۰۰۹ء میں دوحہ میں ایک مذہبی کانفرنس میں شریک ہوئے۔
(۱۲)۲۰۱۰ء میں اردن کی اسلامی کانفرنس میں شریک ہوئے۔
(۱۳)۲۰۱۰ء میں موریتانیا کی اسلامی کانفرنس میں شریک ہوئے۔
(۱۴)۲۰۱۱ء میں جامعہ ازہر قاہرہ مصر کے زیر انتظام منعقد ہونے والی تصوف کانفرنس میں شریک ہوئے۔
(۱۵)۲۰۱۲ ء میں استنبول ترکی میں مسجد سلطان احمد میں قرآن کریم کا نفرنس میں شریک ہوئے۔
۲۰۱۲ ء کی کانفرنسوں کی تفصیلات لکھنا ہے۔
٭مناصب :
آپ کو ۱۹۹۳ء میں کالی کٹ ضلع کاقاضی بنایا گیا اور ۱۹۹۵ء میں ویناڈکامنصب ِقضا بھی آپ کے سپرد کیا گیا ہے۔آپ ۱۹۹۸ء سے امریکہ کی مجلس اسلامی کے رکن ہیں اور اسی طرح عمان کے آل بیت یونی ورسٹی کے بھی ایک معزز رکن ہیں۔آپ کو سنّی جمعیۃ العلما ،آل انڈیا سنّی جمعیۃ العلما کے جنرل سکریٹری کا عہدہ تفویض ہوا۔حکومت ہند کی جانب سے آپ کو مرکزی حج کمیٹی کا رکن بھی مقرر کیا گیا ہے۔
٭سنّی جمعیۃ العلما کیرالا کا قیام:
کیرالامیں علماے اہلسنّت کی ایک متحرک وفعال تنظیم ۱۹۳۶ء میں قائم ہوئی۔جس کا مقصد مسلمانان کیرالاکے مفادعامہ ،فلاح وبہبود اور دینی تعلیم وتربیت کے لیے نمایاں خدمات کی انجام دہی ہے۔اس تنظیم کی چالیس رکنی ایک مجلس شوریٰ ہے جس میں قابل قدر شخصیتوں اور ذی علم حضرات کو رکنیت دی جاتی ہے۔۱۹۷۶ء میں حضرت شیخ ابوبکر کو اس مجلس شوریٰ کا رکن منتخب کیا گیا، پھر رفتہ رفتہ آپ اس کے جنرل سکریٹری مقرر ہوئے ۔۱۹۷۵ء میں حضرت شیخ ابوبکر جمعیۃ العلما کی ذیلی شاخ ’’جمعیۃ الشان المسلمین‘‘(سمستھا کیرالاسنّی یوجنا سنگم)کے جنرل سکریٹری مقرر کیے گئے اور ۱۹۹۵ء میں یوجنا سنگم کے منصب صدارت پر فائز ہوئے۔اس کے علاوہ ملک وبیرون ممالک کی کئی تنظیموں کے رکن اعلیٰ کا منصب دیا گیا ۔
٭ جامہ مرکزالثقافۃ السنیہ:
امت مسلمہ کی فلاح وبہبود، دینی وعصری تعلیم وتربیت کی خاطر آپ نے کالی کٹ شہر سے ۱۳؍کلو میٹر فاصلہ پر واقع پُر امن فضا ’’کارنتھور‘‘میں ۱۹۷۸ء کومفتی مکہ مکرمہ علامہ سید محمد بن علوی
مالکی کے ہاتھوں ہندوستان کی عظیم الشان دینی وعصری اسلامی یونی ورسٹی’’ جامہ مرکزالثقافۃ السنیہ‘‘کی بنیاد ڈالی۔جہاں ملک وبیرون ملک کے تقریباً بیس ہزار سے زائد طلبہ وطالبات علمی تشنگی بجھا رہے ہیں۔اس میں کے جی سے پی جی تک ،انجینئرنگ، میڈیکل ،ثقافتی اسکول ،گریجویشن کے علاوہ ٹکنالوجی ،مینجمنٹ ،پروفیشنل ٹریننگ تک کی تعلیم وتربیت کا معقول نظم ونسق ہے۔جو آج ملک وبیرون ملک میں’’ ازہر ہند جامعہ مرکز الثقافۃ السنیہ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
جنوبی بھارت میں یہ ایک اہم ادارے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اس کے ماتحت تقریباً چالیس شاخیں قائم کی گئی ہیں جو پری پرائمری سے لے کر پی جی تک کے کورسیس چلاتے ہیں۔ حال ہی میں شہر دبئی اور دہلی میں بھی اپنی شاخیں قائم کی ہیں۔ اسلامی نشاط ثانیہ کے لیے یہ ادارہ سرگرم ہے۔ یہ مرکز ایک چیرِیٹبل ادارہ ہے جو عوام اور دیگر اداروں کے عطیہ جات پر منحصر ہے۔اس جامعہ کے کورسیس کی نشاندہی جامعہ الازہر قاہرہ نے کی ہے۔
٭تعلیمی سرگرمیاں:
حضرت شیخ کی تعلیمی تحریک پر ریاست کیرالااور دیگرعلاقوں میں کئی ادارے قائم ہوئے جن میں جدید طرز پر مشتمل دینی وعصری نصاب ونظا م جاری ہے۔ کیرالا میں قابل ذکر اداروں میں جامعہ سعدیہ کاسرکوڈ، جامعہ احیاء السنہ مالاپورم، جامعہ حسنیہ اسلامیہ پالاکوڈ کے نام خصوصیت کے ساتھ سرفہرست ہیں۔جہاں دونوں تعلیم یکساں طور پر جاری ہے۔ آپ کی سرپرستی میں ایک ہزار سے زائد مدارس ومکاتب ،تقریباً آٹھ سو سے زائد مساجد ،پانچ سو CBSEانگلش میڈیم اسکول چل رہے ہیں۔مزید ملکی سطح پر ملی ومذہبی نمائندگی وفلاحی خدمات کے لیے ’’مسلم آرگنائزیشن آف انڈیا‘‘کے تحت کئی اہم فلاحی تنظیمیں بہ حسن وخوبی کام کررہی ہیں۔یہ ادارے ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی ملی وفلاحی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
٭ملی خدمات :
آپ مذکورہ منصب کے ذریعے سے ہندوستانی مسلمانوں کی تعمیری وترقی، اقتصادی ومعاشی بہتری اور تہذیب اسلام کے فروغ کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں ۔آپ ہندوستان کے غربت کے شکار علاقوں کے لوگوں کے لیے ریلیف کا بھی انتظام کرتے ہیں۔مسلمانوں کے قومی وملی مسائل کے حل کے لیے کئی بار ہندوستان کے وزرا اور اربابِ حکومت سے گفت وشنید اور ان سے بات چیت کی۔مسلمانوں کے مطالبات سے اہلِ حکومت کو آگاہ کیا جس کے خاطرخواہ نتائج سامنے آئے ۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق انڈیا میں ۹۷؍ملین افراد صاف اور میٹھے پانی سے محروم ہیں۔ حضرت موصوف نے پسماندہ علاقوں میں ۴۱۷۹؍واٹر پروجیکٹس شروع کیے ہیں جن سے بلاتفریق مذہب وملت دیہی علاقوں کے پسماندہ افراد فائدہ اٹھا رہے ہیں۔گلوبل ہَنگر میں ہندوستان ۹۴؍ نمبر پر آتا ہے یعنی یہاں بھوکے اور کپڑوں کے محتاج افرادکی تعداد زیادہ ہے۔اس لیے حضرت موصوف کی نگرانی میں مرکز کے احباب حاجت مندوں تک پہنچتے ہیں اور سالانہ ہزاروں فوڈ کِٹ غریبوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں اور اب تک ستر ہزار سے زائد ڈریس کٹ تقسیم کیے جا چکے ہیں۔مرکز نے سینکڑوں غریب فیملی کو گھر باندھ کر دیا ہے اسی کے ساتھ مرکز کے زیر اہتمام ٹیلرنگ گلاس ،اوکیشنل سینٹر اور کمپیوٹر سینٹر جاری ہیں جن میں لوگوں کو خود کفیل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ،مرکز نے کئی ضرورت مندوں کو مفت میں رکشا بھی دیے ہیں تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں۔مرکز معذوروں میں وقتاً فوقتاً وہیل چیئر بھی تقسیم کرتا ہے اور معذور طلبہ کو عریضہ کرنے پر اسکالر شپ بھی دی جاتی ہے۔خدمت انسانیت کے باب میں حضرت موصوف کے یہ وہ کارنامے ہیں جو اسلام کے نظام خدمت خلق کو بیان کرتے رہے ہیں۔خدمت خلق وقت کی ضرورت بھی ہے اور بہت بڑی عبادت بھی۔ کسی انسان کے دُکھ درد کو بانٹنا حصولِ جنت کا ذریعہ ہے ۔کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے۔کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ کسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی۔کسی بھوکے کو کھانا کھلانا عظیم نیکی اور ایمان کی علامت ہے۔دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے، اپنے لیے تو سب جیتے ہیں، کامل انسان تو وہ ہے ،جو اللہ کے بندوں اور اپنے بھائیوں کے لیے جیتا ہو۔ علامہ
اقبال کے الفاظ میں ؎
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
٭صحتی خدمات:
اس شعبے کے مرکز کے ماتحت کیمپس دواخانہ اور ریسرچ سینٹر میں صحتی خدمات انجام دیے جاتے ہیں۔ مریض طلباکا یہاں مفت علاج کیا جاتا ہے۔ ایک خصوصی ہسپتال بھی زیر تعمیر ہے اور یونانی ہسپتال بھی خدمات انجام دے رہا ہے۔ ساتھ ہی یونانی طبی کالج بھی قایم کرنے کے لیے ادارہ کوشاں ہے۔آفات ارضی وسماوی کے شکار علاقوں کو حضرت موصوف کی جانب سے امداد فراہم کی جاتی ہے ۔
٭فلاحی خدمات:
حاجت مندوں اور ضرورت مند طلبا کو مرکز معاشی امداد بھی فراہم کرتا ہے۔ اگر کوئی طالب علم بیرونی ممالک جیسے روس اور مصر میں تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے معاشی تعاون کے لیے مخصوص فنڈ کا بھی انتظام ہے۔ اسی طرح میڈیکل اور انجینئرنگ طلبا جو دیگر ریاستوں میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے بھی اسکالرشپ دی جاتی ہے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے دہلی میں ایک بہبودی سینٹر بھی قائم کیا گیا ہے۔ اسلامی دعوہ میں اسناد بھی دیے جاتے ہیں، یہ اسناد حاصل کرنے والے مرکز الثقافتی طلبا دنیا بھر میں دعوت کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔
٭بیرون کیرالاکے مراکز:
مرکز کے کئی ذیلی ادارے، علاقائی مراکز اور شاخیں مختلف مقامات پر قائم کیے گئے ہیں۔ خاص طور پر ذیل کے مقامات پر:
(۱) مرکز برائے اسلامی تعلیمات، لونی۔
(۲) گلشنِ فاطمہ ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ برائے نسواں، نیوریا حسین پور، پیلی بھیت،یوپی۔
(۳) مرکز پبلک سکول و مدرسہ، گونڈال، راجکوٹ اور مرکز پبلک سکول و مدرسہ، اپلیٹا،گجرات ۔
(۴)النور ایجوکیشن سینٹر، میسور، مرکزالہدیٰ کالج برائے نسواں، کمبرا، پتور۔
(۵)خائکہ ہائر ایجوکیشن سینٹر، بنگلور،کرناٹک ۔
(۶) مرکز سکول کوتاموڑی، کوڈاگو۔
(۷)مرکز برائے اسلامی تعلیمات ،ہبلی۔
(۸) مرکز سینٹر، ڈونگری،ممبئی ۔
(۹) مرکز سینٹر،کولکاتا۔
(۱۰) مرکز سینٹر،آسام ۔
(۱۱) مرکز سینٹر،تری پورہ ۔
(۱۲) مرکز سینٹر،تمل ناڈو ۔
(۱۳) مرکز سینٹر،کشمیر ۔
(۱۴) بہار اور لکش دیپ میں علاقائی مراکزوغیرہ۔
٭کتب خانے اور ابلاغی وسائل کتب خانے:
لائبریریاں، ابلاغی وسائل کتب خانے (میڈیا ریسورس لائبریریز) وسیع ترین وسائل فراہم کرکے تعلیم، مطالعہ اور تحقیقی میدانوں میں ایک نئی جان ڈال رہے ہیں۔اس کتب خانے میںقدیم وجدید کتابوں کے نسخے دستیاب ہیں۔یہاں تقریباًپچیس ہزار کتابیں موجود ہیں۔
٭یتیم خانے:
پوری دنیا میں تقریبا ایک کروڑ ترپن لاکھ یتیم بچے ہیں جن میں سے بیس لاکھ بچے انڈیا میں ہیں یعنی کل یتیموں کاچار فی صد ۔حضرت موصوف نے مرکز کے زیر اہتمام یتیموں کی پرورش اور تعلیم وتربیت پر خصوصی شیڈول ترتیب دیا ہے۔مرکز کا نعرہ ہے ’’نو آرفن وتھائوٹ ایجوکیشن‘‘یعنی ایک بھی یتیم اَن پڑھ نہ رہے۔حضرت موصوف سوسائٹی کی ذہنیت کو یتیموں کے حوالے سے تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے آپ کے یتیم خانے پر تقریباً نوہزار یتیم بچے آزادی کے ساتھ تعلیم حاصل کررہے ہیں اور مرکز انھیں ہر قسم کی سہولت بھی
فراہم کررہا ہے۔
٭اعزاز:
حضرت شیخ ابوبکر میاں نے وہ عظیم کارنامے انجام دیے ہیں کہ جنہیں صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ بیرون ممالک خاص طور پر عرب ممالک میں قدرومنزلت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔آپ نے اپنی علمی کاوشوں اور انتھک محنتوں وکوششوں سے دینی ترویج واشاعت ،تنظیم وتحریک اور کفالت ایتام کا جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ لائق تحسین اور قابل تقلید ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی آپ بیرون ممالک کی بڑی بڑی اسلامی کانفرنسوں میں ہندوستان کی طرف سے نمائندگی کرتے ہیں ۔آپ کی انسانی خدمات اور تعلیمی تحریک کی بدولت عرب ممالک نے بہت سے تہنیتی ایوارڈ سے آپ کو سرفراز کیا ہے۔۲۰۱۳ء میں سلطنت دبئی نے آپ کو پندرہویں صدی کا عظیم مبلغ ’’مبلغ اعظم ‘‘ایوارڈ سے سرفراز کیا ہے۔آپ کی تبلیغی وتعلیمی مساعی جمیلہ کو دیکھتے ہوئے ۲۰۰۹ء میں جدہ میں آپ کو ’’اسلامک ہیرٹیج ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔
٭اہم کارنامے:
قوم مسلم میں اتحاد واتفاق ،پورے ملک میں دینی وعصری تعلیم کا فروغ، یتیموں اور مسکینوں کی کفالت ،ملی ومذہبی قائدین ،رئوساے اسلامی تنظیم ،ائمہ مساجد ومدارس کو متحد کرکے ایک ہی نظم ونسق کے ذریعہ تعلیم وتربیت ،فلاحی خدمات اور معاشرتی اُمور کی نمائندگی جیسے اہم کارنامے آپ کی ذات سے انجام پذیر ہوئے ہیں۔آپ نے مختلف تعلیمی اور فلاحی ادارے تشکیل دیے ہیں جیسے:
٭کالج اور یتیم خانے
٭مراکز براے اسلامی تحقیق
٭ کالج براے علم شریعہ
٭کالج براے حفظ القران
٭مرکز انجینئرنگ کالج
٭مرکز آرٹس اور کامرس کالج
٭مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی تعلیمی مرکز (اسٹڈی سینٹر)
٭یتیم خانے
٭مرکز یتیم خانے براے نسواں
٭حوالہ جات:
(۱)اہلسنّت کی آواز،خلفائے خاندان برکات،ص؍۴۹۱تا۴۹۷،جلد۲۱،۲۰۱۴ء،از:ڈاکٹر عبدالحکیم ازہری
(۲)دی مسلم ۵۰۰،۱۴۔۲۰۱۳ء،۱۵۔۲۰۱۴ء،۲۰۱۶ء اور ۲۰۱۷ء، دی رائیل اسلامک اسٹراٹیجک اسٹڈی سینٹر(جارڈن)
(۲)وکی پیڈیا۔
(۳)http://www.markazonline.com