حضرت شاہ بہاءالدین باجن برہان پوری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:شاہ بہاء الدین۔تخلص:باجن۔لقب:ادیبِ اول اردو،صاحبِ علم وعرفاں۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے: حضرت شیخ بہاء الدین شاہ باجن بن حاجی معزالدین بن علاء الدین بن شہاب الدین بن شیخ ملک بن مولانا احمد خطابی مدنی علیہم الرحمۃ والرضوان۔آپ امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب کےبھائی ہبل بن خطاب کی نسل سےہیں۔آپ کےجد اعلیٰ حضرت شیخ احمد خطابی مدنیحضرت ابو مدین کےمریدین میں سےتھے۔ علوم ِ دینیہ میں تبحر حاصل تھا۔ علم ِ حدیث کےتو گویا امام تھے۔ حدیث کی اکثر مشکلات صاحبِ حدیث علیہ السلام سےحل کراتےتھے۔ ہمیشہ آدھی رات کے وقت جب روضۂ رسولﷺ کی آستانہ بوسی کےلئےحاضر ہوتے، تو آپ کے لیے حرم محترم کےدروازے خود بخود کھل جاتے تھے، بارگاہِ حبیبﷺمیں رازو نیاز کی باتیں کرتےپھرواپس آجاتے۔(گلزار ابرار:212)
پھر یکایک دل میں سیر وسیاحت کی آرزو پیدا ہوئی،تو اپنےفرزند ارجمند شیخ ملک کوبھی ہمرا ہ لیا۔کچھ طلباء بھی ساتھ ہوگئے،اور مدینۃ المنورہ سےچلے،عراق،خراسان،ماوراء النہر،اور سندھ کی سیر کرتےہوئے دہلی پہنچے۔یہاں آپ سےلوگ بڑی محبت سےپیش آئے۔آپ کی اور آپ کےطلباء کی خوب خدمت کی۔جب بادشاہ کوآپ کی اطلاع کی آمد ہوئی تووہ بھی حاضر خدمت ہوا اور شدید خواہش کی کہ آپ ہمارے ملک میں رہیں،اور اپنےفیوضات وبرکات سےمستفید فرمائیں۔ پھر سلطان نے اپنی بیٹی کانکاح آپ کےصاحبزادے ’’شیخ ملک‘‘ سے کردیا۔کچھ عرصے کےلئے شیخ دہلی رونق افروز رہے۔کثیر مخلوقِ خدا نے استفادہ کیا۔کچھ عرصہ بعد اپنےوطن مالوف کی یاد تازہ ہوئی،اور مدینۃ المنورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔پھر مدینہ طیبہ میں بقیہ زندگی گزاری اور وہیں کی خاک پاک میں آرام فرماہوئے۔(ایضا:213)
آپ کےصاحبزادے شیخ ملک دہلی میں قیام پذیرہوگئے۔ان کی اولاد کاسلسلہ جاری ہوگیا۔سب کے سب علم وفضل میں اپنی مثال تھے۔حضرت شیخ باجنکےوالد گرامی مخدوم حاجی معزالدین حضرت مخدوم جہانیاں سید جلال الدین بخاری کےجید خلیفہ تھے۔ان کی عمر ایک سو چالیس ہوئی۔سات مرتبہ حرمین کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ کو اپنے خاندان کی ملاقات ودیدار کاشوق ہوا۔اس کےلئے حجاز کےسفر کاارادہ کیا۔جب احمد آباد گجرات(ہند) پہنچےتو عقیدت مندوں نے یہاں رہنے پہ مجبور کردیا۔پھر یہیں رہائش پذیر ہوگئے۔ان کی اولاد کاسلسلہ یہیں سےشروع ہوا۔(ایضا:)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 790ھ مطابق 1388ء کواحمد آباد گجرات (ہند) میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔گھر کا ماحول شروع سے ہی مذہبی تھا۔اس لیے بچپن میں ہی دین کی طرف لگاؤ پیدا ہوگیا تھا۔چار سال کی عمر تھی کہ والد کاسایہ سر سے اٹھ گیا۔ان کو شہید کردیا گیا۔آپ کی تعلیم وتربیت کی ساری ذمہ داری آپ کی والدہ محترمہ پر آگئی۔انہوں نے یہ ذمہ دار خوب نبھائی۔آپ کی والدہ کی خواہش تھی کہ حضرت شاہ برہان الدین کی خدمت میں رہ کر تعلیم وتربیت حاصل کریں،
اور شاہ صاحب نے آپ کوئی خاص توجہ نہیں کی۔ پھر ایک دن وہ اپنے چچا زاد بھائی شیخ میاں کی معرفت شیخ رحمت اللہ کی خدمت میں پہنچے،خانقاہ میں تعلیمی سلسلہ شروع کیا،اور وہیں پہ تکمیل ہوئی۔
بیعت وخلافت: دورانِ تعلیم آپ حضرت شاہ رحمت اللہ کو قریب سے دیکھا،اور متأثر ہوکر دستِ بیعت ہوئے۔اکیس سال ان کی خدمت میں گزارے۔ یہاں تک کہ ولایت کے درجے کو پہنچے۔
سیرت وخصائص: جامع الفضائل والکمالاتِ علمیہ وعملیہ،صاحبِ اوصافِ کثیرہ،حضرت شیخ بہاء الدین باجن برہان پوری۔آپ اپنے وقت کےنام ور عالم دین،صوفی شاعر،اور ولی کامل تھے۔اپنے اکابرین کی اعلیٰ صفات کے حامل ،ان کی امانتوں کے وارثِ کامل تھے۔اپنے پیر ومرشد کی خدمت میں اکیس سال گزارے،اور پھر ان کی اجازت سے خشکی کے راستے سفرحجاز پر روانہ ہوئے۔ دہلی سے خراسان پہنچے۔ وہاں سے کعبہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے۔ مراقبہ میں دیکھا کہ حضورسرورکائناتﷺ حج کی قبولیت کا مژدہ سنا رہے ہیں اور برہان پور کی طرف مراجعت کی ہدایت فرما رہے ہیں۔اسی طرح خواب میں آپﷺنےآپ کے پیر ومرشدسے فرمایا کہ اپنے مرید سے کہ دو کہ خیال ِ حج جو تم نےکیا تھا وہ قبول ہوا۔اب لوٹ خراسان سےبرہان واپس آجائے،اور وہیں قیام کرے،لوگوں کودین کی طرف بلائے،اور ان کا تزکیہ کرے۔ا س کی تعبیر آپ نےاپنے پیر ومرشد کےوصال سے کی۔چنانچہ نفس الامر میں ایسا ہی ہوا۔شیخ رحمت اللہ کا کوئی فرزند نہیں تھا،لہذا انہوں نےاپنے بھتیجے کوشیخ احمدعطاء اللہ بن شیخ شہر اللہ کواپنا جانشین مقرر کیا،اور وصیت کی کہ یہ خاص خرقہ شیخ باجن کےسپرد کردینا جو خراسان سےواپس آرہے ہیں۔آپ مرقدِ شیخ پہ حاضر ہوئے۔امانتی خرقہ لیا۔ پھر چند سال شیخ کے سجادہ نشین شیخ عطاء اللہ کی خدمت میں گزارے۔پھر اشارۂ غیبی سے دکن کی طرف روانہ ہوئے۔دولت آباد میں پہنچ کر سلطان برہان الدین غریب نواز کےمرقد مبارک پر حاضر ہوئے،اور علو ہمتی کی درخواست کی،یہاں سےشہر بیدر کی طرف روانہ ہوئے،وہاں شیخ منجھلے تھے۔جومنصور ِ زماں مسعود بک کے خلیفہ تھے۔ان کی خدمت میں رہ کر چلہ کشی کی۔یہاں سےآپ کو خرقۂ خلافت عطاء ہوا۔(ایضا:214)
پھر غیب سےایسی قبولیت حاصل ہوئی کہ ہرطرف سےمخلوق خدا حاضر ہونے لگی۔مخلوق سےدل اکتایا،پھر آٹھ سال تک خلوت میں چلہ کشی کی،اور شہر سےچلےگئے۔اس کےبعد دیرینہ فرمان کی تعمیل عمل میں آئی جو برہان پور کی نسبت تھا۔برہان پور کےقریب نواحی موضع خان پور میں قیام کیا،جب مشائخ کرام اور حاکم وقت کو ان کی آمد کی اطلا ع ہوئی تو بصد اکرام و اعزاز ان کوشہر لائے، اور ان کےلئےایک مسجد، خانقاہ، اور خوابگاہ (گھر) تعمیر کروائے۔پھر بقیہ عمر یہیں لوگوں کی تربیت کرتےہوئے گزاری،اسی مقام پر انتقال ہوا۔
اردو زبان کے پہلے ادیب: اردو زبان کی ابتدائی تاریخ کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ اس کے فروغ میں صوفیائے کرام کا نمایاں کردار تھا۔ زبان کے تشکیلی مراحل سے اس کی ترقی تک صوفیا کرام کے مختلف سلسلوں نے اس کو اختیار کیا اور اس سے قربت کا محرک بنے۔ اگرچہ صوفیا کرام کا اصل مقصد تبلیغ و اصلاح تھامگر بندگان خدا تک ترسیل و ابلاغ کے ایک ذریعے کے طور پر انھوں نے اس زبان کو اختیار کیا۔ کچھ تو ان کا خلوص اور جدوجہد اور کچھ اردو زبان کا عوامی لہجہ دونوں نے مل کر ایک دوسرے کو تقویت بخشی۔ واقعہ یہ ہے کہ صوفیائے کرام ایک ایسی دنیا کی تعمیر میں منہمک تھے جہاں دنیا داری کا شائبہ تک نہیں تھا بلکہ ایثار و اخلاص کی کارفرمائی تھی۔ اثیارواخلاص کے اسی ماحول میں اردو زبان نے اپنا سفرشروع کیا۔
شمس الرحمن فاروقیؔ نے’’اردو کا ابتدائی زمانہ،ادبی تہذیب وتاریخی پہلو ‘‘ میں شیخ بہاء الدین باجن کو اردو کا پہلا باقاعدہ ’’ادیب ‘‘ قرار دیا ہے۔ شیخ باجن نے ’’خزائن رحمت اللہ‘‘ کے نام سے اپنا فارسی اور ہندی کلام کا مجموعہ مرتب کیا۔ اس میں صوفیا کی معروف ومقبول صنف سخن جکری بھی شامل تھی۔ ’’خزائن رحمت اللہ ‘‘میں شیخ نے ایک عرصۂ طویل کے لیے اردو زبان اور ادب کے حدود اربعہ بیان کردیے ۔ اس کی زبان ہندی ہے، اس کی بحریں ہندوستانی بھی ہیں اور فارسی بھی۔ اس کے مضامین مذہبی صوفیانہ بھی ہیں اور دنیاوی بھی۔ اس شاعری کی جڑیں عوام میں گہری ہیں۔ اور ہردلعزیز بن جانے کی صفت اس میں پوری طرح موجود ہے۔ اس کے معاملات میں زہد، روحانی اور صوفیانہ پاکیزگی نمایاں ہے۔ وطن کی محبت بھی ایک نمایاں وصف ہے۔ (ارود کا ابتدائی زمانہ: 70۔ 69)
انسان دوستی اور وطن سے غیر معمولی محبت نے ہی صوفیا کے آستانوں کو مرجع خلائق بنا دیا تھا۔ ان کے یہاں خویش و بیگانے کا لفظ ہی نہیں تھا۔ عام انسانوں کی بھلائی اور رہنمائی کے جذبے کے تحت ہی صوفیا نے ان زبانوں کو اختیار کیا جس کا دائرہ وسیع تھا۔ اور جس میں اتنی قوت تھی کہ اس سے پیغام رسانی ممکن ہو سکے۔ مخلوط زبانوں کا معیار خصوصا مقامی بولیوں اورمخلوط زبان فارسی صوفیا کے یہاں زیادہ ملتی ہے۔ ’’خزائن رحمت اللہ‘‘ نامی مجموعہ شیخ باجن کی یادگار ہے۔ اس میں انہوں نے اپنے پیر حضرت شاہ رحمت اللہ کے ارشادات، دوسرے بزرگوں کے اقوال وغیرہ جمع کیےتھے۔ جابجا اپنے اشعار اور دوہے بھی نقل کیے ہیں۔ کل آٹھ خزانے ہیں۔ زبان بالعموم سادہ اور آسان ہے۔ ان کا کلام اردو ادب کے اولین نقوش میں نمایاں مقام کا حامل ہے۔ صدافسوس کہ پاک وہند میں ’’اردو ادب‘‘ کی ترقی ونشریات کےکئی ادارے موجود ہیں،لیکن اردو ادب کے ادیبِ اول پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔ نہ ہی ان کی شاعری کا مجموعہ دستیاب ہے۔
آپکےجانشین آپ کےصاحبزادے حضرت شیخ عبدالحکیم باجن ہوئے۔’’صاحبِ کنزالعمال‘‘ حضرت شیخ علی متقیان کے مریدین وخلفاء میں سےہیں۔
تاریخِ وصال: آپکاوصال 14/ذوالقعدہ912ھ مطابق آخرِ مارچ/1507ء کوہوا۔مزار پرانوار برہان پور انڈیا میں مرجعِ خلائق ہے۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادت 790 ھ میں ہوئی اور وصال14 ذی القعدہ 912 ھ کوہوا۔
ماخذ ومراجع: گلزار ابرار۔اردو کا ابتدائی زمانہ۔