بحر العلوم مولانا محمد عبد القدیر صدیقی حسرت رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:حضرت مولانا محمد عبدالقدیر صدیقی۔لقب:حسرت۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:مولانا محمد عبدالقدیر صدیقی بن مولانا محمد عبدالقادر صدیقی۔والد کی طرف سے آپ کا سلسلۂ نسب حضرت صدیق اکبر سے اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حضرت امام حسین سے ملتا ہے۔والد کی طرف سے صدیقی اور والدہ کی طرف سےحسینی ہیں۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 27/رجب المرجب 1288ھ کومحلہ قاضی پورہ حیدر آباد میں اپنے نانا حضرت میر پرورش علی خاں صاحب کے مکان میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، والد بزرگوار حضرت محمد عبد القادر صدیقی اور آپ کے ماموں حضرت سید محمد صدیق عرف خواجہ محبوب اللہ رحمۃ اللہ علیہما نے آپ کو تعلیم دی۔ مدرسہ دارالعلوم سے فراغت کے بعد آپ نے مولوی اور منشی فاضل کی تعلیم پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ فنون سپاہ گری میں مہارت حاصل کی، چنانچہ آپ لٹھ،تلوار،بنوٹ،کشتی اور بندوق چلانے کی لوگوں کو تربیت دیا کرتے تھے۔
بیعت وخلافت: آپ کے پیر طریقت حضرت سید محمد صدیق عرف خواجہ محبوب اللہ ہیں، جن سے آپ کو بیعت و خلافت حاصل ہوئی۔
سیرت وخصائص: بحرالعلوم،جامع علوم عقلیہ ونقلیہ،صاحبِ اوصافِ کثیرہ،مفسرِ قرآن،حضرت علامہ مولانا محمد عبدالقدیر صدیقی حسرت ۔آپ تمام علوم ِ جدیدہ وقدیمہ کےجامع تھے۔علم کےساتھ عمل میں بےمثال اور انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء کی تصویر تھے۔تمام فنون میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔
اللہ رب العزت نے آپ کو دو مرتبہ حج و زیارت کا شرف بخشا۔ آپ نےچارنکاح کئے،اس طرح آپ کے پندرہ صاحبزادے اور پندرہ صاحبزادیاں ہوئیں۔ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں آپ منفرد مقام رکھتےتھے۔عثمانیہ یونیورسٹی میں حدیث کےپروفیسراور صدر شعبۂ دینیات کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔جامعہ نظامیہ کے اعزازی ناظم مقرر ہوئے اور جامعہ کی ترقی کے لئے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ آپ کے علمی کارناموں میں سب سے بڑا کارنامہ تفسیر قرآن مجید ہے۔ جو’’تفسیر ِصدیقی‘‘کےنام سےمقبول عام ہے اور طالبانِ علم کے لئے عام فہم ہے۔آپ کی پچاس سے زائد کتابیں و رسائل ہیں۔رسالہ مسئلہ عدم نسخ قرآن کی آخری گتھی کو سلجھانے کا سہرا آپ کے سر ہے،جو کہ ایک عظیم کارنامہ ہے،جس کی وجہ سے آپ کو بحر العلوم کہا جاتا ہے۔
فن حدیث میں عبور رکھنے کی وجہ سے آپ نے اہل سنت و جماعت سے تعلق رکھنے والوں کے لئے قرآن و حدیث کی روشنی میں مختلف کتابیں لکھیں، جن کے مطالعہ سے ایمان، نماز، روزہ، زکوۃ، حج اور تصوف و سلوک کے مسائل کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔
تاریخِ وصال: آپ تقریباً سو سال کی عمر میں 17/ شوال المکرم 1388ھ کو واصل بحق ہوئے۔ آپ کی آخری آرام گاہ ’’صدیق گلشن‘‘ بہادر پورہ میں ہے۔