Biography Hazrat Khateeb Ul Baraheen sufi Mufti Nizamuddin Barkati Qadari Agya sharif urs Nizami

 سنت نبوی کا آیئنہ تھے حضرت صوفی نظام الدین علیہ الرحمہ


غیاث الدین احمد عارف مصباحی نظامی    
خادم التدریس-مدرسہ عربیہ سعید العلوم یکما ڈپو لکشمی پور مہراج گنج

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدَّاْ۔
ترجمہ : بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیاا للہ پاک مخلوق کے دلوں میں ان کی محبت پیدا فرمادیتا ہے۔

اللہ رب العزت کے اس فرمان پر ہمارا ایمان و ایقان تھا، ہے اور رہے گا، لیکن اگر کوئی اپنے سرکی آنکھوں سے اس کی عمل تصویر دیکھ لے، تو پھر اس کے ایمان و ایقان کی فریادتی کا عالم کیا ہوگا؟ اس کا اندازہ بندگان خدا کو اس وقت ہوا جب آفتاب شریعت، ماہتاب طریقت، مرد حق آگاہ، تاج دار ملت، فخر اہل سنت، علم ظاہر کے اتھاہ سمندر، علم باطن کے کوہ گراں ، کشور علم و عرفان کے شہنشاہ اور اقلیم حکمت و دانش کے کج کلاہ، سرتاپا جود و سخا، پیکر شرم و حیا، ناز خانقاہ مارہرہ مطہرہ، فخر علماء و الیائ، عاشق غوث و خواجہ و رضا، مقبول بارگاہ خدا و مصطفی (جل شانہ وصلی اللہ علیہ وسلم) حضرت علامہ مولانا الحاج مفتی محدث الشاہ صوفی محمد نظام الدین علیہ الرحمہ کی نماز جنازہ میں شامل ہونے کے لئے مومنین کا ایک سیلاب نظر آیا۔ اس سے قبل ہم نے لوگوں کے ’’ٹھاٹھیں مارتے سمندر‘‘ کا محاورہ تو سنا تھا مگر یہاں روئے زمین پر اس کا حقیقی وجود دیکھنے کا شرف بھی حاصل ہوگیا، بے ساختہ مذکورہ آیت زبان پر جاری ہوگئی، اور دل پکار اُٹھا، جب اللہ بلائے تو کون نہ آئے۔ جب دلوں میں رب العالمین ہی محبت ڈال دے تو پھر کسی اشتہار کی ضرورت کیا، سچ کہا ہے ؎
صداقت ہوتو دل سینے سے کھینچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منواتی ہے منوائی نہیں جاتی
اسی لئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے کہ جب اللہ رب العزت اپنے کسی بندے کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے، تو حضرت جبرئیل علیہ السلام سے فرماتا ہے فلاں میرا محبوب بندہ ہے، جبرئیل اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر حضرت جبرئیل آسمانوں میں نداکرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں کو محبوب رکھتا ہے، سب اس کو محبوب رکھیں تو آسمان والے اس کو محبوب رکھتے ہیں، پھر زمین میں اس کی مقبولیت عام ہوجاتی ہے۔
ولادت : تپہ اجیار کے مشہور و معروف گائوں اگیا پوسٹ دودھارا ضلع سنت کبیر نگر یوپی کی سرزمین ۲۱؍رجب المرجب ۱۳۴۶؁ھ مطابق ۱۵؍جنوری ۱۹۲۸؁ء کو آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ والدین نے آپ کا نام محمد نظام الدین رکھا۔(علیہ الرحمہ)
وفات : یکم جمادی الاخری ۱۴۳۴؁ھ مطابق ۱۴؍مارچ ۲۰۱۳؁ء بروز جمعرات صبح آٹھ بجے آپ علیہ الرحمہ نے اپنی زندگی کی آخری سانس لی اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔(ان للہ وانا الیہ راجعون) ۱۵؍مارچ ۲۰۱۳؁ء بعد نماز جمعہ آپ کی نماز جنازہ آپ کے حقیقی جانشیں اور محترم صاحبزادے حضرت العلام الحاج الشاہ محمد حبیب الرحمٰن جب مدظلہ العالی نے پڑھائی۔ جنازے میں ملک و بیرون ملک کے لاکھوں افراد نے شرکت کی۔
خاندانی پس منظر : آپ کی ولادت باسعادت ایک زراعت پیشہ مگر دیندار گھرانے میں ہوئی، آپ اپنے والدین کی پہلی اولاد نرینہ تھے اس لئے آپ کی پیدائش کے حسین موقع پر اہل خانہ اور قرابت داروں کو کافی مسرت ہوئی۔ پھر انتہائی شفقت و محبت کے ماحول میں آپ کی پرورش ہوتی رہی۔ آپ نے جب ذرا ہوش سنبھالا تو اپنے ارد گرد خالص اسلامی اور دینی ماحول پایا۔
والد محترم : آپ کے والد محترم جناب نصیب اللہ مرحوم ایک دیندار اور پرہیزگار شخص تھے، اپنے گائوں اس وقت سب سے زیادہ جانکار تھے، گائوں کے لوگ اپنے بچوں کا نام آپ ہی سے رکھواتے تھے۔ انھوں نے اپنے وقت کے مروجہ نصاب پرائمری کے مطابق اپنی جماعت میں ممتاز پوزیشن حاصل کی تھی۔ جس کے اعزاز میں برٹش گورنمنٹ نے آپ کے لئے ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کیا تھا۔ ۱۹۵۳؁ء بروز جمعۃ المبارکہ آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور گائوں کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔
والدہ محترمہ: آپ علیہ الرحمہ کی والدہ محترمہ مرحومہ رعیونہ خاتون انتہائی پاکیزہ صفت کے مالکہ اور عابدہ و زاہدہ تھیں۔ فرائض و واجبات کے ساتھ نوافل و مستحبات کی بھی پابندی کرتی تھیں، پوری پابندی سے نماز تہجد اور دلائل الخیرات شریف پڑھتی تھیں۔ تلاوت کلام اللہ ان کی روحانی غذا تھی، آپ کی ریاضت کا ذکر کوتے ہوئے حضرت علامہ حبیب الرحمٰن صاحب مدظلہ العالی بیان فرماتے ہیں کہ ہماری دادی محترمہ نماز تہجد کے بعد روزانہ سات یا آٹھ پارہ قرآن کریم کی تلاوت اور دلائل الخیرات اور دیگر روداد و وظائف سے فارغ ہونے کے بعد ہی صبح کا ناشتہ تیار کرتیں۔ بحمدہٖ تعالیٰ دادی محترمہ تلاوت قرآن کریم کی ایسی عادی تھیں کہ ماہ ذی قعدہ ۱۴۱۰ھ؁ مطابق ماہ جون ۱۹۹۰؁ء میں جب والدمحترم (حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ) نے اپنے ضعیفہ والدہ ماجدہ کو لے کر زیارت حرمین شریفین کا ارادہ فرمایا تو دادی محترمہ کی کہہ سنی کے پیش نظر خدمت کے لئے مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ ابھی ہم لوگ مکہ معظمہ میں قیام گاہ پر پہونچے ہی تھے کہ دادی محترمہ نے تلاوت کے لئے قرآن کریم طلب کیا، چونکہ قرآن کریم ہمراہ نہیں لے جاسکے تھے اس لئے والا بزرگوار نے مجھے حکم دیا کہ جائو مکہ مکرمہ کے کسی کتب خانے سے قرآن پاک لائو۔ میں بازار مکہ میں گیا اور قرآن پاک لیا، اور محترمہ دادی کو جوں ہی پیش کیا وہ خو ش ہوگئیں اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے فوراً تلاوت قرآن کریم میں مشغورل ہوگئیں۔
مکہ مکرمہ میں ایک بار دادی محترمہ کی طبیعت خراب ہوگئی تو بعد نماز تہجد قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول ہوئیں۔ ہم لوگ ناشتے کے لئے اصرار کرتے رہے، مگر تلاوت کرنا موقوف نہ کیا، بار بار کہنے سے بہ مشکل تمام تھوڑا توقف کیا۔ بعد ناشتہ پھر تلاوت میں مشغول ہوگئیں،زوال کے وقت تھوڑا توقف کیا، نماز ظہر کے بعد عصر تک تلاوت جاری رکھا۔ بعد نماز مغرب پھر تلاوت کرنے بیٹھ گئیں۔ یہ منظر وارفتگی دیکھ کر ہم لوگ محو حیرت تھے کہ انسان کی طبیعت جب خراب ہوتی ہے تو آرام کرتا ہے اور محترمہ دادی کی خراب طبیعت کو تلاوت کلام ربانی سے آرام مل رہا ہے۔ سبحان اللہ۔
کہتے ہیں کہ بچوں پر سب سے پہلا اثر والدین کا پڑتا ہے اور پڑنا بھی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ بچپن سے ہی تبع شریف ہوگئے اور آخری سانس تک اسی پر قائم و دائم رہے۔
اولاد : اللہ رب العزت نے آپ کو دو اولاد عطافرمائی ۔(۱) حضرت علامہ الحاج محمد حبیب الرحمٰن صاحب مدظلہ العالی شیخ الحدیث دارالعلوم تدریس الاسلام بسڈیلہ وسربراہ اعلیٰ جامعہ برکاتیہ حضرت صوفی محمد نظام الدین لہرولی بازار بستی۔ (۲) محترمہ شریف انساء صاحبہ۔
تعلیم سفر : مقامی مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنی تعلیمی سفر کا آغاز دارالعلوم تدریس الاسلام بسڈیلہ بستی سے فرمایا۔ ۱۹۴۷؁ء میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے مدرسہ اسلامیہ اندکوٹ میرٹھ کا رُخ کیا، وہاں پر ایک سال رہ کر اپنے روحانی مربی حضرت علامہ حاجی مبین الدین محدث امرو ہوئی اور امام النحو حضرت علامہ غلام جیلانی میرٹھی علیھا الرحمہ سے اکتساب فیض کرتے رہے۔ ۱۹۴۸؁ء میں ہندوستان کی عظیم سنی دانشگاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور میں داخلہ لیا اور اساتذہ اشرفیہ بالخصوص حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی بارگاہ فیض سے علم کی لازوال نعمتوں سے مالا مال ہوتے رہے اور ۱۹۵۲؁ء میں حضور حافظ و ملت علیہ الرحمہ و حضرت سید محمد صاحب کچھوچھوی علیہ الرحمہ و دیگر اکابر علماء کے ہاتھوں آپ کو الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور کی سندودستار فضیلت عطا کی گئی۔
صوفی صاحب کا لقب : چونکہ آپ کی پرورش ایک اسلامی ماحول میں ہوئی تھی۔ اور آپ فطرتاً بھی اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ثابت ہوئے تھے، اس لئے آپ کو بچپن ہی سے لہوولعب، کھیل کود، ہنسی مذاق اور پھر دیگر خرافات طفلی سے شدید نفرت تھی اور طالب علم کی لگن کے ساتھ ساتھ ذوق عبادت اور تقویٰ وپرہیزگاری کے اوصاف جمیلہ کی طرف آپ کا میلان اس قدر شدید تھا کہ اس سے سراموانحراف بھی آپ کو گوارہ تھا۔
حضرت مولانا احمد علی صاحب مبارکپوری علیہ الرحمہ جوالجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور میں دارالاقامہ کے نگراں تھے، کا بیان ہے کہ ’’میں جب فجر کی نماز کے لئے طلبہ کو بیدار کرنے جاتا تو مولانا نظام الدین (علیہ الرحمہ) کو ہمیشہ وضو کرتے یا وضو سے فارغ پاتا۔
آپ کی اتباع شریعت کا یہ جذبہ دیکھ کر آپ کے ہم سبق ساتھ اور علماء اساتذہ آپ کو صوفی کے لقب سے پکارنے لگے۔(اور آہستہ آہستہ یہ لقب اتنا مشہور ہوگیا کہ آپ کے نام کا جزء لایننک بن گیا۔)
جس وقت آپ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور میں زیر تعلیم تھے اس وقت آپ نے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں یہ عریفہ پیش کیا کہ حضور میرے ساتھ مجھے صوفی کہتے ہیں جبکہ میں اپنے کو اس کا مصداق نہیں سمجھتا۔ آپ ان لوگوں کو سمجھا دیں کہ اس طرح نہ کہیں، حافظ ملت علیہ الرحمہ نے آپ کو بغور دیکھا اور پرزور انداز میں ارشاد فرمایا :
’’جی ہاں ہم بھی آپ کو صوفی صاحب کہتے ہیں اور آپ ہیں اس لئے تو کہتے ہیں۔‘‘
(ماہنامہ اشرفیہ/محمد بستوی سنت ہوں کے آئینے میں، مئی ۲۰۱۳ء ،ص ۶)
سچ ہے :
وی راولی می شناشد
علم تفسیر کے تاجدار شیخ القرآن حضرت علامہ عبداللہ خاں عزیزی ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مولانا نظام صاحب کی رفاقت و مصاحیت کا مجھ کو کچھ دنوں تک شرف حاصل رہا وہ خاموش طبیعت کے انسان ہیں اور کاروبار دنیا اور اس کے مشاغل سے دور رہنے کے عادی نظر آئے وہ اسی وقت متکلم شیریں کلام ہوتے ہیں، جب کوئی شخص ان سے گفتگو کرنے کے لئے اصرار کرنے ورنہ ان کی زبان مبارک پر سکوت طاری رہتا ہے ۔ یہ ایک ایسا وصف خصوصی ہے جو ان کی ذات کو دوسرے سے ممتاز کرکے صوفیائے کرام کی گروہ میں ان کو داخل کردیتا ہے۔ وہ دین و دیانت کے پابند ہیں وہ اپنی زبان سے بڑے بڑے مخالف و معاند کے لئے بھی نازیبا لفظ استعمال کرنا گوارہ نہیں کرتے ، بلکہ نپے تلے الفاظ میں گفتگو کرنے کے عادی ہیں اور اگر صوفیاء کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یقین کامل پیدا ہوگا کہ وہ بھی ہرزہ سرائی، لایعنی بات چیت، غیبت و حسد، حرص و طمع، جیسے اوصاف ذمیمہ سے پاک ہوتے ہیں، ہمارے ممدوح مکرم بھی ان خصائل مذمومہ سے بالکل عادی ہیں۔ وہ اپنی زبان مبارک کو دوسرے لوگوں کے متعلق حاسدانہ جذبہ کے اظہار کے لئے استعمال نہیں کرتے ہیں، اور غیبت سے آلودہ کرنے سے بھی پاک و صاف رکھتے ہیں، اس لئے میرے نزدیک اس خصوصیت کی وجہ سے بھی صوفی کا لفظ ان کی ذات پر زیادہ چسپاں ہے۔‘‘
(خطیب البراھین نمبرص۵۱)
کوئی سنت کسی لمحہ نہ ان سے چھوٹتے دیکھی
خدا جانے ان کا مرتبہ کیا ہے؟ کہاں وہ ہیں

خطیب البراہین کا لقب

آپ نے طالب علمی کے زمانے سے ہی خطاب فرمانا شروع کر دیا تھا، اور زندگی کی آخری سانس لینے سے تقریباً ۲؍۳ سال قبل تک تبلیغ کا یہ انداز جاری رہا، آپ کے بیان کا انداز اس اعتبار سے نرالا تھا کہ آپ عام مقرروں کی طرح صرف لفاظی، اور بیانی اور چیخ و پکار سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ اپنی ہر بات قرآن و حدیث اور بزرگان دین کے اقوال اور امام احمد رضا علیہ الرحمہ کے اشعار سے مزین کرکے بڑے لطیف پیرائے میں پیش فرماتے تھے۔ اس طرح کہ قرآن کا حوالہ ہے تو آیت نمبر ، پارہ ، رکوع اور حدیث کا حوالہ ہے، تو کتاب کا نام، باب، صفحہ وغیرہ بیان کرنے کا التزام فرماتے تھے، ایک دعویٰ پر کئی کئی دلیلیں پیش کرتے، کبھی بھی بلا دلیل کوئی بات نہیں کہتے۔
آپ کے ہمعصر علماء و صلحا اور ادباء نے آپ کے خطاب میں دلائل و براہین کے انھیں امتیاز کو دیکھ کر آپ کو خطیب البراھین (یعنی دلیلوں کے ساتھ اپنی بات پیش کرنے والا مقرر) کے لقب سے ملقب کیا۔ یہ لقب بھی آپ کے نام کے ساتھ ایسا وابستہ ہوا کہ اب اگر یہ لقب کسی اور کے ساتھ لگایا جاتا ہے تو صاف معلوم ہوتا کہے کہ اسے حضرت کے نام سے سرقہ کرکے زبردستی چسپاں کیا گیا ہے۔
ویسے آج کل تو القابات اس قدر عام ہوگئے ہیں کہ جس کو چاہا دے مارا، جلسوں کا پوسٹر دیکھ لیجئے ایسے ایسے القابات و خطابات کی اللہ کی پناہ۔ کوئی علامہ سے کم نہیں۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں یہ پوسٹر دیکھ کر ہمارے بڑے علماء سوچتے ہونگے۔ کاش ہمیں یہ دن دیکھنے کو نہ ملتے!! خٰر یہ تو بس یوں ہی بات آگئی کہنا یہ ہے کہ آج لوگوں نے تقریر کو بہت آسان سمجھ لیا ہے اور عام طور پر آج کل جس طرح تقریر کرنے اور سننے کا رواج بن گی اہے وہ آسان ہے بھی۔ کیونکہ اس میں صرف یہ ہنر چاہئے۔ بلند آواز، چیخ و پکار، شور شرابا، چلا چلی وغیرہ ، لیکن جس اہتمام کے ساتھ حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ خطاب فرماتے تھے وہ کل بھی مشکل تھا اور آج بھی مشکل ہے۔ ظاہر سی بات ہے اپنی باتوں کو دلائل و براہین کے ساتھ مزین کرنا اسی کے بس کی بات ہے ان پر مضبوط گرفت رکھتا ہو۔ اور حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمۃ نہ یہ کہ صرف ان پر مضبوط گرفت رکھتے تھے بلکہ دلائل و براہین کے اسرار و رموز پر بھی گہری نظر رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ الرحمہ کی تقریر عوام تو عوام بڑے بڑے علماء بھی پسند فرماتے تھے اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور جیسی عظیم المرتبت شخصیت کی زبان بھی آپ کی تقریر کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان تھی۔
ایک بار امرڈوبھا کے اجلاس میں حافظ ملت علیہ الرحمہ مدعو تھے، جلسہ شروع ہوا تو حضرت اپنی قیام گاہ پر آرام فرماتھے، جب صوفی صاحب علیہ الرحمہ کی تقریر شروع ہوئی تو آپ بیدار ہوگئے۔ اسٹیض پر تشریف لے گئے، اور پیٹھ ٹھونک کر حیرت انگیز مسرت کا اظہار فرمایا اور بے پناہ دعائوں سے نوازا۔(ماہنامہ اشرفیہ مئی ۲۰۱۳ئ، ص ۷)

تدریسی خدمات

۱۹۵۲ء سے ۲۰۰۸ء تک کل چھپن سال تک آپ نے مندرجہ ذیل اداروں میں تدریسی خدمات انجام دی۔
(۱) دارالعلوم اہلسنت فیض الاسلام ہنداول ضلع بستی
(۲) دارالعلوم اہلسنت شاہ عالم احمدآباد، گجرات
(۳) دارالعلوم اہلسنت فضل رحمانیہ پچپیڑوا گونڈہ
(۴) دارالعلوم اہلسنت تنویرالاسلام امرڈوبھا، بکھرہ بستی
آخرالذکرادارہ دارالعلوم اہل سنت تنویرالاسلام امرڈوبھا میں آپ ۱۹۶۳؁ء تا ۲۰۰۸؁ء کل پیتالیس سال تک بہ حیثیت شیخ الحدیث طالبان علوم نبویہ کو اپنا علمی و روحانی فیض پہنچاتے رہے۔ ۳۰؍جون ۱۹۸۷؁ء کو آپ ریٹائر ہوگئے اور اس کے بعد بلا معاوضہ ۲۱؍سال تک بخاری شریف کا درس دیتے رہے۔

طرز تدریس و تعلیم

مدرس اور استاذ بننا تو آسان ہے، مگر طلبہ کو اپنی باتیں سمجھاکر ان کے دل میں اترجانا، بڑا مشکل کام ہے۔ حضور خطیب البراھین علیہ الرحمہ کے درس دینے اور پڑھانے کا انداز اتنا انوکھا اور نرالا ہوتا تھا کہ کمزور سے کمزور طالب علم آپ کی گفتگو آسانی سے سمجھ لیتا، درسگاہ میں آپ ہمشہ باوضو ہوکر بیٹھتے، یہ التزام صرف احادیث کی کتابوں کے ساتھ خاص نہیں تھا، بلکہ جملہ اوقات تدیرس آپ اس کا لحاظ فرماتے۔ آپ کے شاگرد درشید حضرت علامہ مقبول احمد سالک مصباحی بانی جامعہ خواجہ قطب الدین بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پڑھانے کا انداز استاذ العلی جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مبارکپور علیہ الرحمہ سے کافی ملتا جلتا تھا۔ کیونکہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ لمبی چوڑی تقریر کرکے طلبہ کا وقت ضائع نہ کرتے تھے۔ عموماً حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ ضروری مقامات کی تشریح کردیتے۔ اگر کوئی اعتراض پیدا ہونے والا ہوتا، تو اسے پہلے ہی دفع کردیتے، طلبہ سے عبارت ضرور سنتے، الفاظ و اعراب کی غلطی پر سخت تنبیہ کرتے۔

خشیت الٰہی

اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا اِنْ اَولیاؤہٗ اِلّاَ الْمتّقون۔اللہ کے ولی وہ ہیں جو اس سے ڈرتے ہیں۔ انما یخشی اللہ من عبادہٖ العلمائ۔
ان دونوں آیات کی روشنی میں جب ہم حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی حیات کا ہر لمحہ خوف خداوندی سے لبریز تھا۔ بلاشبہ آپ اللہ رب العزت کے سچے ولی ہیں۔ اور عالمِ ایسے کہ بڑے بڑے علماء آپ پر قربان ہونا اپنے لئے باعث فخر تصور کرتے، آپ صحیح معنوں میں علماء کی اس صف میں تھے جن کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ ولسم نے ارشاد فرمایا، العلمائُ ورثۃ الانبیائ۔ علماء نبیوں کے وارث ہیں، سو آپ کے اندر خوف خداوندی کا پایا جانا فرمان خداوندی کی تصدیق تھی۔ آئیے مندرجہ ذیل واقعات کے ذریعہ اپنے دل کو جلا بخشتے ہیں۔
(۱) علامہ اوریس بستوی نائب ناظم الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور بیان کرتے ہیں:
صدر مدرس کا سرکاری عہدہ بساوقات مشکل پیدا کردیتا ہے ، مگرصوفی صاحب علیہ الرحمہ نے اپنے اس عہدہ کو اپنی صداقت، تقویٰ و طہارت میں حائل نہ ہونے دیا اور نہ ہی کسی ایسے کاغذ پر دستخط کیا جس کی سچائی میں ذرہ برابر بھی شک رہا ہو۔
بڑا ہی مشہور واقعہ ہے کہ آپ کے دور صدات میں انسپکٹر مدارس عربیہ اترپردیش کی آمد بغرض معائنہ دارالعلوم تنویرالاسلام امرڈوبھا میں ہوئی۔چونکہ وہ ایک خاتون تھیں اور حضرت صوفی صاحب کا کسی نامحرم عورت سے سامنا کرنا اور ہم کلام ہونا ناممکن تھا ارکان ادارہ اور سرکاری دفتروں میں آنے جانے والے حضرات کی زبردست کوشش تھی کہ حضرت ان سے بات کرلیں۔ مگر حضرت اس پر راضی نہ ہوئے، لوگوں نے کہا حضرت آپ کی ملاقات اور آنے والی افسر کی دل جوئی سے ادارہ کو بہت فائدہ ہوگا۔ تو حضرت نے فرمایا :
’’دین کو دے کر دنیا حاصل کرنے کی کوشش کرنا سب سے بڑا خسارہ ہے، اس لئے میں اس خسارہ کو منظور نہیں کرسکتا۔‘‘
یقینا یہ بڑی دشوار منزل تھی۔ اس مقام پر جہاں کسی افسر کی دل جوئی کا معاملہ ہو بڑے بڑے لوگوں کے حوصلہ پست ہوجاتے ہیں،لیکن ایسے عالم میں بھی حضرت صوفی صاحب کے پائے استقلال میں لغزش نہیںآئی۔ اور آپ نے شرعی قانون پر پورے اطمینان سے عمل کیا۔
(۲) ایک بار آ پ علیہ الرحمہ اپنی زمانہ طالب علمی میں اپنی کھیت گئے۔ اس وقت مٹر کی فصل تیار تھی۔ آپ ایک کھیت سے مٹر کی پھلیاں توڑنے لگے، اسی درمیان گائوں کے ایک شخص کا ادھر سے گذر ہوا، اس نے حضرت کو دیکھ کر کہا صوفی صاحب یہ آپ کا کھیت نہیں یہ تو تجمل حسین صاحب کا کھیت ہے، اتنا سننا تھاکہ خوف الٰہی سے آپ کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا اور آپ کے ہاتھ رک گئے، فوراً آپ گھر واپس آئے اور مالک کھیت کے گھر پہونچے، اس سے واقعہ بتاکر معافی مانگی اور بچی ہوئی مٹر کی پھلیاں واپس کردیں۔ کھیت کا مالک حضرت صوفی جو ابھی ایک چھوٹے بچے تھے کی خشیت الٰہی اور خوف خداوندی دیکھ کر حد درجہ متاثر ہوا اور بہت ساری دعائیں دی۔
اللہ رب العزت حضرت کے اس واقعے سے ہمیں نصیحت و عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آج تو معاملہ یہ ہے کہ پوری پوری جائداد غصب کرجاتے ہیں اور بدن کا ایک رونگٹا بھی خوف الٰہی سے نہیں کھڑا ہوتا۔
(۳) بکھرہ میں ایک بار آپ کچھ علماء کے ساتھ بھونو بھائی سلائی ماسٹر کی دکان پر تشریف لے گئے اور ان سے کہا کہ میرا یہ پوری آستین والا سوئٹر ہے، اسے پہن کر وضو بنانے میں دشواری ہوتی ہے، آپ اس میں چین لگا دو۔ حضرت انھیں سوئٹر دے کر علماء کے ساتھ دین کی باتوں سے مشغول ہوگئے، ادھر ماسٹر موصوف نے آستین چاک کیا اور اپنے کترن سے ایک سفید کپڑا نکال کر چین کے ساتھ سل دیا۔ کچھ دیر بعد حضرت نے فرمایا آستین بنادیجئے اب ہم چلیں گے ٹیلر ماسٹر صاحب نے کہا حضرت بن کر تیار ہے، اور سوئٹر آگے بڑھادیا۔ حضرت نے آستین دیکھا تو فرمایا یہ سفید کپڑا آپ نے کہاں سے لگادیا۔ عرض کیا! حضور کترن سے نکال کر لگا دیا؟ یہ سن کر حضرت کا چہرہ متغیر ہوگیا اور فرمایا، یہ تو بہت غلط ہوا آپ اسے فوراً نکال دیں۔ دوسرے کا کترن بلا اجازت میرے لئے کیسے جائز ہوسکتا ہے، اور پھر آپ نے کیڑے کی دکان سے ایک گرہ کپڑا خریدوا کر منگوایا پھر اسے لگا کر سوئٹر میں چین سلی گئی۔

ولی کامل

حضرت کا یہ کمال احتیاط اور تقویٰ دیکھ کر حاضرین حیران وششدر رہ گئے ، جی ہاں!تقویٰ کے یہی وہ انوکھے انداز ہیں کہ جب بندہ اس منزل پر فائض ہوجاتا ہے بندہ ہر کام میں اللہ و رسول کی رضا اور خوشنودی کا طالب ہو تو پروردگار دونوں عالم میں اس کا چرچا عام فرمادیتا ہے۔ اور اسے اپنا ولی اور محبوب بنا لیتا ہے۔ جیسا کہ خود اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا انّ اولیاؤہ الا المتقون۔اللہ کے اولیاء وہ ہیں جو تقویٰ والے ہیں۔
اور متقی وہی ہوسکتا ہے جو صاحب ایمان ہو۔ گویا ولایت کی دو بنیادی شرطیں ہیں:
(۱) ایمان (۲) تقویٰ

مومن

حقیقی مومن وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے سچی محبت کرتا ہو صرف زبانی دعویٰ اور بعض احکام پر عمل کرنے سے کوئی کامل مومن نہیں ہو سکتا، کیونکہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میںجو چیز مطلوب ہے وہ صرف اعمال کی ظاہری صورت نہیں بلکہ اس کے ساتھ اخلاص و للہیت اصل مقصود ہے کیونکہ حقیقی ایمان یہ ہے کہ جو ظاہر سے ہوکر دل کی گہرائیوں میں اترجائے اخلاق و عادات میں ادائے مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہو، قانون خداوندی کی اطاعت میں دلی جذبات و کیفیات کی جلوہ نمائی ہو، ہر ہر عمل خالصۃً خدا کی خوشنودی اور رضا مندی کے لئے ہو، کیونکہ خدا ترسی اور اخلاص سے خالی اعمال کی کوئی قیمت نہیں ۔ مومن کامل وہ ہے جو سراپا تقدس و پاکیزگی کا شاہکار بن جاے۔ اس کے قول و عمل میں یکسانیت ہو، اس کی پیشانی انور ایمان کی کرنوں سے درخشاں ہو۔ اس کی رگ رگ میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تجلیاں ہوں، آسمان کے فرشتے اس کی عظمتوں پر قربان ہوں، اس کے لب کھائیں تو ذکر خدا عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آیدار موتی بکھیریں، وہ خاموش رہے تو شریعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی سراپا تصویر بن جائے اور یہ مقام کسی بندے کو اس وقت ملتا ہے۔ جب وہ فنافی اللہ ہوجاتا ہے، محبت رسول میں غرق ہوجاتا ہے، قرآن وحدیث کے پیغام کو اپنے دل کی دھڑکن بنا لیتا ہے۔

متقی

ولایت کی دوسری شرط تقویٰ ہے، متقی کیلئے ضروری ہے کہ وہ جملہ امور دینیہ اور احکام شرعیہ میں اس قدر محتاط ہوکہ ممنوعات و منہیات سے بچنے کے ساتھ ساتھ مکروہات و شبہات سے بھی دور ہوجائے۔ اللہ رب العزت سے غفلت پیدا کرنے والی تمام چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کرلے۔ نفسانی خواہشات کی پیروی چھوڑکر صرف رضائے الٰہی کا طالب بن جائے۔ تقویٰ تمام اعمال صالحہ کی حقیقی روح ہے، جو تقویٰ والے وہی کامیاب ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ التقویٰ ھٰھنا واشارالی صدرہٖ۔ تقویٰ یہاں ہے اور آپ کا اشارہ دل کی طرف تھا۔ کیونکہ تقویٰ کا معنی صرف ڈرنا نہیں۔ بلکہ ڈرکر جملہ کبائر و صغائر سے احتراز کا نام ہے۔
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محبت زیادہ
ان مذکورہ صفات کی روشنی میں جب ہم حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ولایت کی تمام صفات آپ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود ملتی ہیں۔ جن کی عوام تو عوام علمائے کرام اور پیران عظام نے بھی گواہیاں دی ہیں، یہی تو وجہ ہے کہ ان کی زندگی میں ہی مخلوق خدا نے لبیک زبان انھیں زندہ ولی کا لقب دے دیا تھا۔
زفرق تابہ قدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامن دل می کشد کی جاں ایں جااست

تبلیغی سفر

تدریس و تصنیفی خدمات کے علاوہ آپ ہندو نیپال کے مختلف گوشوں میں تبلیغی دورے فرما کر خطابات و بیعت اور ہندونصائح سے تاریک دلوں کو روشن کرتے رہے، دن میں طبلہ کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرے اور رات میں جلسوں میں شرکت فرماکر اپنے پاکیزہ لب و لہجہ سے انوروتجلیات کی برسات کرے، آپ کی تبلیغ و تقریر کا اندازہ بڑا موثر اور انوکھا تھا بدزبانی، صاحب و ائمہ دین و بزرگان سلف صالحین کے اقوال سے اپنی باتوں کو مزین کرتے آپ کی محفل میں شریک ہونے والا آپ کا غلام بے دام بن جاتا ۔کیونکہ آپ تقیریر نذرکرنے اور نام و نمود کے لئے نہیں کرتے، بلکہ اس سے آپ کا مقصد صرف تبلیغ اسلام تھا۔ ایک عالم گواہ ہے کہ آپ نے نہ کسی جلسوں کے لئے نزرانہ طے کیا، نہ اس کے لئے ناراض ہوئے جہاں جانے کا وعدہ کرتے۔ ہر حال میں وہاں پہونچتے، کسی جلسوں کے منتظمین پر رعب جمانے کی کوشش نہیں کرتے جو جہاں بیٹھاتا، بیٹھ جائے جو کھلاتا کہا لیتے، البتہ آپ عام طور سے سادہ کھانے کی خواہش کرتے، جبکہ آپ (اللہ معاف فرمائے) آج اکثروبیشتر مقررین کا یہ حال ہے کہ اول تو موٹے موٹے تقرار نے طے کرتے ہیں، پھر جب تک آنہ جائیں۔ دل دھک دھک کرتا رہتا ہے جناب کہیں دھوکہ نہ دے جائیں۔ اور جب پہونچ جاتے ہیہں تو وہ رعب و تمکنت، وہ جلال کہ پوچھئے مت، نذرانہ کم ہوا، عزت میں کچھ کمی آئی، تو آسمان سرپر اٹھا لیتے ہیں، بعضوں کو ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ اگرذرا برابر بھی ان کی شان میں کوئی گستاخی ہوئی تو بغیر تقریر یئے نذرانہ لے کر فرار ہوجاتے ہیں۔(اللہ رب العزت انھیں دین کی خدمت کا سچا جذبہ عطا فرمائے۔)

تصنیفی خدمات

آپ نے شب و روز کی ہزارہا مصروفیتوں کے باوجود تصنیف و تالیف کے میدان کو بھی خالی نہ چھوڑا، مندرجہ ذیل کتابیںجنھیں آپ نے بہت ہی سادہ اور سلیس انداز میں تحریر فرمائی ہیں چھپ کر مقبول عوام و خواص ہوچکی ہیں۔ (۱)فضائل تلاوت قرآن مبین (۲) اختیارات امام النبین(۳) خطبات خطیب البراہین (۴) فضائل مدینہ(۵) کھانے پینے کا اسلامی طریقہ (۶) برکات روزہ (۷) فلسفہ قربانی (۸) حقوق والدین (۹) برکات مسواک (۱۰) داڑھی کی اہمیت (۱۱) احوال الصالحین۔

بیعت

حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ جن دنوں الجامعۃ الاشرفیہ میں زیر تعلیم تھے انہیں ایام میں مورخہ ۷؍ربیع الآخر ۱۳۷۰؁ھ مطابق ۱۶؍جنوری ۱۹۵۶؁ء بروز منگل آپ نے حضور مفتی اعظم ہند آل رحمٰن مصطفی رضا خان نوری برکاتی شہزادہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا اور سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ نوریہ میں داخل ہوئے۔

سلسلہ برکاتیہ کی اجازت و خلافت

خانقاہ مارہرہ مطہرہ ہندوستان کی وہ عظیم خانقاہ ہے جہاں سے ایک ادنیٰ سی نسبت بھی انسان کو اعلیٰ بنادیتی ہے، یہاں نہ کسی کی دولت و ثروت دیکھی جاتی ہے نہ دنیاوی جاہ و حشمت، یہاں صرف دل دیکھا جاتا ہے اور وہ بھی ایسا دل جس کی ہر دھڑکن سے اللہ کی صدائیں آتی ہوں۔ جس میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا چراغ روشن ہو، جوا لحب فی اللہ والبعض للہ کا سراپا ہون۔ جو اپنے محبوب کے دشمنوں کو دودھ سے مکھی کی طرح باہر نکال کر پھینکنے پر سختی سے کاربند ہو، اور اپنے محبوب کے محبوبوں کی بارگاہ میں الفت و محبت کی سوغات پیش کرنا اپنا فرض منصبی تصور کرے۔
عشق جس دل میں نہیں وہ دل نہیں
یار کے رہنے کہ وہ منزل نہیں
میرے سرکار پیرو مرشد حضور خطیب البراھین علیہ الرحمہ کو خاندان برکات سے دیوانگی کی حد تک لگائو تھا۔ مارہرہ مطہرہ کی حاضری سے آپ کے بیقراروں کو حقیقی سکون حاصل ہوتا تھا، مورخہ ۲۰؍صفرالمظفر ۱۴۰۵؁ھ مطابق ۱۵؍نومبر ۱۹۸۴؁ء بروز پنجشنبہ آپ عرس قاسمی کے موقع پر مارہرہ شریف حاضر تھے، اس وقت مجمع عام میں خانقاہ برکاتیہ کے عظیم چشم و چراغ پیشوائے اہل طریقت، واقف اسرار شریعت مقتدائے کے ملت، سراج اللساکین، شمس العارفین، زمدۃ الاصفیاء احسن العلماء حضور علامہ سید مصطفی حیدر حسن میاں علیہ الرحمہ والرضوان صاحب سجادہ خانقاہ مارہرہ مطہرہ علماء و مشائخ کی موجودگی میں حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ کو سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ کی خلافت و اجازت سے شرفیات سرفراز فرمایا۔
اس موقع پر حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ نے اپنی دلی کیفیت یوں بیان فرمائی کہ جس وقت حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ نے میری خلافت کا اعلان فرمایا اور میرے سرپر سنددستار باندھی، اس وقت میرے اوپر فیضان برکات اور انوار و تجلیات کی ایسی برسات ہوئی کہ میرا باطنی خلا پر ہوگیا اور میری کیفیت کیا ہوئی اسے الفاظ میں نہیں بیان کیا جاسکتا ۔
احسن العلماء نے ان کو کر دیا اتنا حسیں
ہوگئی رشید و ہدایت صوفی ملت کی ذات

سلسلہ رضویہ کی اجازت و خلافت

مورخہ ۵؍محرم الحرام ۱۴۰۷؁ھ مطابق ۱۹۸۶؁ء کو دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف شیخ الحدیث ولی کامل حضور رئیس الاختیار علامہ الحاج الشاہ مبین الدین امروہوی خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے آپ کو سلسلہ رضویہ نوریہ کی اجازت و خلات عطا فرمائی۔ اس طرح آپ کی ذات بابرکت سے دو سلسلوں کا فیض جاری ہونے لگا اور مجمع البحرین ہوگئے۔

خانہ کعبہ اور روضہ ٔ رسول ﷺ کی زیارت

ماہ ذی قعدہ ۱۴۱۰ھ؁ مطابق ماہ جون ۱۹۹۰؁ء میں آپ نے اپنی والدہ محترمہ اور صاحبزادہ علامہ حبیب الرحمٰن رضوی وغیرہ کے ساتھ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے شرفیابی حاصل کی اور خانہ کعبہ کے دیدار پر انور سے مشرف ہوئے۔ اسی موقع پر آپ نے ریاض الجنۃ میں اپنے عزیز صاحبزادے حضرت علامہ حبیب الرحمٰن صاحب مدظلہ العالی کو سلسلہ عالیہ، قادریہ، رضویہ، برکاتیہ، نوریہ، نظامیہ کی اجازت و خلافت عطا فرمائی۔ دوبارہ حج نفل کیلئے مریدوں نے بہت پیش کش کی جس پر آپ نے علماء سے رجوع کیا۔ علماء نے حج نفل کیلئے تصویر کشی سے احتراز کیا مشورہ دیا۔ تو آپ نے اسباب کے فراہمی کے باوجود تقویٰ کو ترجیح دیا اور حج نفل نہ کیا۔

صوفی صاحب علیہ الرحمہ کا سادہ مزاج

آپ علیہ الرحمہ نے اپنی پوری زندگی اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچے میں ڈھال کر گزاری۔ نظروں میں آج بھی ان کی سادہ سی مگر شاہانہ زندگی صاحب نظر آرہی ہے۔
سادہ غذا، سادہ لباس، سادہ انداز، مگر سادگی میں وہ جاذبیت کہ جو ایک بار دیکھے پھر دیکھتا رہ جائے۔ ایسا لگتا تھاکہ آسمان کا بدرکامل اپنی پوری سج دھج کے ساتھ زمین پر اتر آیا ہو۔ لب کھلتے تو نصیحت کے انمول موتی بکھرنے لگتے۔ آنکھیں جھکی ہوئیں، چشمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حسین تصویر نظر آئیں۔ حرکات و سکنات، نشست وبرخاست اور آپ کی ہرہر ادا، عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو بہو تصویر تھی۔ وہ عاشق رسول تھے۔ عشق ہی نے ان کی زندگی فروزاں کیا۔ حسن کو ہر جمال ، جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں نظر آتا تھا۔ اور ہر بہار، بہار مصطفی میں نظر آتی تھی۔
مریدو متعلقین میں کوئی شرعی خامی دیکھتے، تو بڑی محبت سے اسے بتا دیتے۔ مسلک اہل سنت پر استقامت، رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، بدعقیدگی سے اجتناب، شریعت کی پابندی، وضع قطع، لباس اور تمام عادات و اطوار میں اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے کی تلقین فرماتے۔ مجلس ہو کسی کے سرپر ٹوپی نہ ہوتی، تو پہننے کی نصیحت کرتے۔ کسی کے ہاتھ میں سونے یا پیتل وغیرہ کی انگوٹھی یادھاگا وغیرہ ہوتا، تو فوراً شرعی مسئلے بتا کر اتروا دیتے۔گھڑی کی چین کو سخت ناپسند فرماتے تھے۔
عمر کی آخری حصے میں تو آپ کا عجیب عالم تھا۔ کبھی اتنے پیار سے سمجھاتے ، معلوم ہوتا کہ کوئی ماں اپنے بچے سے پیار کر رہی ہے۔ کوئی اس قدر جلال و غضب کے عالم میں آکر ڈانٹتے گویا کوئی غیرت مند باپ اپنے بیٹے کو کسی سخت غلطی کی وجہ سے پھٹکار لگا رہا ہے۔ مگر واہ رے جلال و جمال کا یہ حسین سنگم! جس پرکرم فرماتے وہ تو مسرتوں میں جھومتا ہی، مگر جس پر جلال فرماتے اسے بھی نوازدیتے۔ یہی وجہ ہے کہ جس پر ناراض ہوتے وہ کبھی کبیدہ خاطر نہ ہوتا بلکہ وہ یقین کرلیتا تھا کہ اب میرا کوئی بگڑا کام ضرور بن جائے گا۔ یا یہ سوچتا کہ ضرور میرے اندر کوئی خامی ہے، کس کی وجہ سے حضرت مجھ سے ناراض ہوتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ ایک جلسے میں حضرت نے ایک مدرسہ کے صدر کو برسراسٹیج زوردار ٹھپڑ رسید کیا۔ نیچے اتر کر وہ شخص مجھ سے کہنے لگا میں سمجھ گیا۔ حضرت نے مجھے اس لئے مارا ہے کہ میرے چہرے پر ایک مدرسے کا صدر ہونے کے باوجود داڑھی نہیں ہے۔ حضرت نے اسے کوئی نصیحت نہیں کہ تھی مگر اس نے از خود وعدہ کرلیا کہ اب وہ داڑھی بھی رکھ لے گا۔ اور پابندی سے نماز بھی پڑھے گا۔ پھر اس نے داڑھی رکھ لی۔ اور نماز کی پابندی بھی شروع کردی۔ اسی طرح کے ایک سفر میں میں حضرت کے ساتھ نیپال کے شہربٹول میں تھا۔ وہاں حضرت نے ایک بہت بڑے سیٹھ کہلانے والے صاحب کو دوچار گھونسے لگائے۔ مگر اس سے سیٹھ صاحب کو ذرا بھی تکلیف محسوس نہ ہوئی ۔ بلکہ انھوں نے اسے اپنے لئے باعث افتخار تصور کیا کچھ دنوں کے بعد وہ مجھ سے کہنے لگا کہ حضرت کی محبت بھری ضرب سے میرے بہت سی جسمانی تکلیف دور ہوگئی ہے۔ کاش! مجھے ایسا اتفاق بار بار پڑتا۔
کسی صورت سے بھولتا ہی نہیں

آہ ! یہ کس کی یادگار ی ہے
کیا کہوں تم سے بے قراری کی

بے قراری سے بیقراری ہے

نامحرموں سے پردہ

آج کل بہت سے پیروں ، فقیروں ، عالموں، عاملوں کے پاس عورتوں کا ایک ازدھام رہتا ہے جس کی جیسی حیثیت اور شہرت ہوتی ہے ۔ اس قدر اسی کے پاس عورتوں کی کثرت ہوتی ہے۔ جہاں دیکھئے ، جہاں چاہئے، ہر ضروری، غیر ضروری جگہ پر ان کا ہجوم آپ کو نظر آہی جائے گا۔پیر صاحب سے ایسے بات کرتی ہیں، جیسے شریعت نے کبھی پردے کا حکم ہی نہیں دیا ہو۔ آہ!شرم اُٹھ گئی، حیا جاتی رہی! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنی ازواج مطہرات کو ایک نابینا صحابی رضی اللہ عنہ سے بھی پردہ کا حکم دیا تھا۔ مگر یہاں تو دونوں آنکھوں سے گھور گھور کر دیکھنے پر بھی پابندی نہیں ۔ انا للہ وانا علیہ راجعون۔
مگر حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ کی ذات اسے معاملے میں بالکل صاف شفاف تھی۔ آپ کبھی بھی عورتوں کو بغیرپردہ مرید نہ فرماتے۔ انھیں اس کی سخت تاکید فرماتے۔امیر، غریب سب کے لئے آپ کا حکم یکساں تھا، گھر، باہر، خلوت وجلوت، ہر جگہ آپ کا ہی یہی معمول تھا، اللہ کا شریعت کی پاسداری ہو تو ایسی! لاکھوں ، کروڑوں نظریں اس نظر کی عظمت پر قربان۔ جس نے غیر محتم کو نہ دیکھا اور اپنی نگاہوں کو محفوظ رکھا۔
اپنے کردار کا انوکھا تھا
وہ اکیلا ہو یا ہزاروں میں

آپ کا ظاہر و باطن یکساں تھا

آپ علیہ الرحمہ آیت کریمہ قولو انفسکم واھلیکم ناراً کے سچے مصداق تھے۔ آپ کا ظاہر و باطن یکساں تھا۔ ایسا نہیں کہ اتباع شریعت کی تبلیغ صرف دوسروں کو کرتے، بلکہ خود بھی اس کا عملی نمونہ تھے۔ آپ کا کوئی قدم خلاف شرع نہیں اٹھتا تھا۔ جب کہ آج حال یہ ہے ؎
واعظاں پند ونصیحت پر سر منبر کنند
چوں بہ خلوت می روندآں کاردیگری کنند
مقررین اور واعظین اسٹیج پر تو دوسروں کو خوب لمبی چوڑی نصیحتیں کرتے ہیں، مگر خود ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ لیکن حضڑت صوفی صاحب علیہ الرحمہ کا طرز زندگی، جو باہر تھا اندرون خانہ بھی تھا۔ جو عمل سب کے سامنے تھا وہی عمل تنہائی میں بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی بات سیاہ سے سیاہ دل کے اجالے کا سبب بن جاتی تھی۔ اور آپ کی باتوں میں حقیقی چاشنی محسوس ہوتی تھی۔ آپ کے نزدیک اپنے، بے گانے، مرید وغیر مرید، امیروغریب کا امتیاز نہیں تھا۔ ہاں!ایک امتیاز ضرورتھا وہ یہ کہ جسے شریعت کا پابند دیکھتے، اس سے محبت کرتے اور جو شریعت سے دور ہوتا، اس کو ہرممکن طریقے سے سمجھا کر قریب کرنے کی کوشش کرتے۔ اور پھر بھی وہ کاربند نہ ہوتا تو اس سے منھ پھیر لیتے۔ آپ کی محبت اللہ و رسول کے لئے تھی اور کسی سے نفرت کا سبب بھی یہی تھا۔ مومنین پر آپ کی شفقت و نرمی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی یاد دلاتی تھی۔ اور دشمنان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر شدت و سختی میں شنان فاروقی کے جلوے نمایاں تھے۔

علماء و طلبہ سے خاص محبت

یوں تو آپ ہر دین دار سے محبت فرماتے تھے۔ مگر علماء اور طلبان علوم نبویہ سے خاص انسیت اور لگائو رکھتے تھے۔ جب آپ کی محفل میں کوئی عالم دین آتا، تو آپ اس سے سلام کے لئے کھڑے ہوجاتے۔اگر کوئی آل رسول یا بزرگ عالم دین سے مصافحہ فرماتے، تو ان کی دست بوسی بھی فرماتے۔ طلبہ کی عزت افزائی فرماتے۔ درس و تدریس کے دوران کبھی کسی طالب علم کو آپ نے سخت نہیں کہا۔ بلکہ اسے ایسی نرمی اور محبت سے سمجھاتے کہ وہ شرمندہ ہوکر آئندہ غلطیوں سے بچنے کا عہد کرلیتا۔
آج تو عالم یہ ہے کہ کسی کو اگر کوئی معمولی عہدہ یا ادنیٰ مرتبہ بھی حاصل ہوجاتا ہے، تو ایسا منھ پھلائے، جلوہ بنائے رہتے ہیں کہ اللہ کی پناہ! مگر آپ علیہ الرحمہ کی شان عجب نرالی تھی، کبھی آپ کے منھ سے اپنی تعزیت نہیں سنی گئی۔ اپنے منھ میاں مٹھو بننے سے آپ کو کوسوں دور رہتے تھے۔ نام و نمود، خود ستائی، خود نمائی کا عنصر کبھی آپ پر غالب نہ آسکا البتہ فروتنی، عاجزی، انکساری، بڑوں کی عزت، جھوٹوں پر شفقت آپ کے وجود کا ایک حصہ ضرور تھا۔

کبھی علمائے اہلسنت یا اور کسی کی غیبت نہیں کی

آج یہ برائی اتنی عام ہوگئی ہے کہ اللہ کی پناہ! جس محفل میں بیٹھ جائیں، بات شروع ہوتی ہے تو ایک دوسرے کی برائی سے۔ اللہ معاف کرے۔ایک عالم دوسرے عالم کی برائی کر رہا ہے ۔ ایک پیر دوسرے پیر کی خامیاں نکال رہا ہے۔ ایک خانقاہ کافرد دوسرے خانقاہ کی کھلیاں اُڑا رہا ہے۔ بس جو ہے وہ اپنی ہی راگ الاپنے میں لگاہے۔ مگر حضرت علیہ الرحمہ کی ذات ستودہ صفات، اس برائی سے حددرجہ پاک و صاف تھی۔ آپ خلوت میں ہوں یا جلوت میں، کبھی بھی آپ اہلسنت و جماعت کے علماء کی نہ غیبت کرتے، نہ ان کے اندر عیب نکالتے، نہ کسی پیر کی عیب جوئی کرتے، نہ کسی خانقاہ کی تحقیر کرتے۔ یہ آپ کا خاص طرۂ امتیاز ہے، جو اسلاف میں پایا جاتا تھا اور دور حاضر میں بہت کم افراد میں موجود ہے۔

حرص و طمع سے دوری

حرص و طمع کو کبھی آپ نے اپنے نزدیک بھٹکنے نہ دیا۔ مریدوں کی دولت پر کبھی آپ کی نظر نہ رہی۔ جلسوں کے لئے نذرانہ نہ طے کرتے نہ اس کے لئے ناراض ہوتے، نہ کوئی فرمائش کرتے۔ آپ درس و تدریس، بیعت و خطابت صرف تبلیغ دین کی نیٹ سے کرتے تھے۔ آپ کے دل و جگر کے کسی گوشے میں لالچ کا گذر تک نہ تھا۔ بلکہ اکثر اوقات آپ اپنی جیب سے علماء و طلباء اور ضرورت مندوں کی دل جوئی فرماتے تھے۔ ذخرہ اندوزی سے نفرت اور سخاوت عثمانی آپ کی فطرت کا حصہ تھی۔ آپ کا یہ قول بہت مشہور ہے :
طمع مکن، جمع مکن، منع مکن
یہی وجہ ہے کہ اپنا ہو یا بیگانہ، دیوانہ ہو یا مخالف، اس کی زبان آپ کی تعریف میں رطب اللسان ہوہی جاتی۔ سچ ہے آپ نے دنیا کو ٹھکرایا تو اللہ رب العزت نے اپنے سچے وعدے کے مطابق دنیا والوں کو آپ کی بارگاہ میں جھکا دیا۔ جس نے بھی ایک بات آ پ کے چہرۂ زیبا کو حقیقت شناش نگاہوںسے دیکھا، اس نے صدق دل سے آپ کو دلی کامل مان لیا۔ اور جو زندگی میں آپ کے عالی مقام کو سمجھنے سے قاصر اور انور ولایت کو محسوس کرنے سے عاجز رہ گیا، وہ آپ کی نماز جنازہ میں موضوں کا سیلاب عظیم اور عاشقوں کاٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھ کر، آپ کی کشش ولایت اور جذبے روحانی کا قائل ہوگیا۔ بلاشبہ آپ کی حیات و وفات ولایت و کرامت کی ایسی دلیلیں ہیں، جس کا مشاہدہ کرنے کے بعد کسی اور دلیل کی قطعاً ضرورت نہیں رہ جاتی۔

سخاوت اور مہمان نوازی

حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ کی اس صفت کا بیان ان کے پوتے مولانا الحاج ضیاء المصطفی نظامی کی زبانی سنیں۔
مہمان نوازی اور سخاوت اور فیاضی مومن کے اخلاق کریمانہ میں شمار ہوتی ہیں۔حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ ان اوصاف میں نمایاں تھے، آپ کا روزانہ کا معمول تھا کہ صبح و شام اساتذہ تنویرالاسلام آپ کے کمرہ میں تشریف لاتے اور آپ روزانہ اپنی جیب خاص سے ناشتہ اور چائے کا انتظام فرماتے۔ اس کے علاوہ باہر سے آنے والے مہمانوں کا بھی ایک سیل رواں رہتا، جن کی ضیافت کا فریضہ بھی آپ بحسن و خوبی انجام دیتے۔ اور اپنے دست مبارک سے جو کچھ رہتا انھیں پیش فرماتے اور اگر کھانے کا وقت ہوتا تو کسی کو معاوضہ دے کر کھانے کا انتظام فرماتے اور خود قناعت کرلیتے اور آنے والے مہمانوں کو یہ محسوس نہیں ہونے دیتے کہ خود بھوکے ہیں، اور جب گھر تشریف لے جاتے تو حکم فرماتے کہ ہمارے بھائیوں کو ساتھ میں کھانے کی اطلاع دے دی جائے۔ جب سب لوگ حاضر ہوتے تو ان کے ساتھ کھانا تناول فرماتے، آپ کی آمد سے ملاقات کرنے والوں کا ہجوم ہوجاتا، فرماتے چائے پانی لائو، بغیر کچھ کھائے کسی کو واپس نہیں جانے دیتے تھے، اگر لانے میں تاخیر ہوتی تو سخت ناراض ہوتے آپ کی بارگاہ میں غربا و مساکین اور ضرورت مند آتے تو ان کی ضرورت کے مطابق انھیں عنایت فرماتے، بیوائوں اور یتیموں کے لئے ماہانہ خرچ کا انتظام فرماتے۔ کسی سائل کو بغیر کچھ عطا کیے واپس نہیں کرتے تھے۔ یتیموں اور غربا کی شادیوں میں اپنی استطاعت کے مطابق ان کی بھرپور مدد کرتے تھے۔
(سالنامہ ضیائے حبیب ۲۰۱۳؁ء خطیب البراہین نمبر صفحہ۸)
(۱) میرے والد محترم الحاج محمد امین صاحب قبلہ بیان فرماتے ہیں کہ ۱۹۹۵؁ء میں میرے گائوں جلسے کا پروگرام رکھا گیا تھا۔جس میں طے پایا کہ جلسے کے سرپرست اور خطیب خصوصی حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ ہونگے۔ چنانچہ حضرت کی تاریخ لینے کی غرض سے امرڈوبھا روانہ ہوا۔ میرے دل میں طرح طرح کے خیالات تھے کہ اتنے بڑے اور مشہور عالم دین اور پیر صاحب ہیں میںکیسے ان سے بات کرونگا، لیکن جب میں ان کے پاس پہونچا تو میرا سارا خوف ان کے حسن اخلاق کی وجہ سے دور ہوگیا۔ آپ سے میری کوئی سابقہ پہچان تو تھی نہیں، نہ ہیں آپ مرید تھا۔ لیکن جب میں آپ کے حجرے میں داخل ہوا۔ سلام و مصافحہ اور دست پوسی کی، آپ نے بڑی محبت سے خود ہی میٹھا نکال کر پانی پلایا اور اس کے بعد فرمایا بابو!آپ اپنے آنے کا مقصد بتائیں، میں نے اپنا مقصد بتاتا تو آپ نے ڈائری نکالی اور خالی تاریخ دیکھ کر مجھے میری تاریخ دے دیں، پیشہ ور مقررین کی طرح نہ تو نذرانہ طے کیا، نہ زادراہ کا مطالبہ کیا، اپنا کام پوراہونے کے بعد میں نے حضرت سے واپس آنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے اپنے پاس موجود مدرسہ کے ایک مولانا صاحب سے فرمایا پہلے ان کو کھلادیں انھیں دور جانا ہے، نہ جانے کب چلے ہونگے اور کب پہونچیں گے ، مولانا صاحب کمرے سے باہر گئے اور کچھ دیر بعد واپس آئے تو انھوں نے کہا کہ حضرت کھانا ختم ہوگیا ہے، تو آپ نے فرمایا کہ میرا کھانا ابھی رکھا ہوا ہے اسے ہی کھلادیں۔ پھر کافی اصرار کرکے حضرت نے مجھے کھانا کھلادیا۔ خود اپنے ہاتھوں سے پانی رکھ دیا۔ اور اپنے ڈبے سے اچار بھی نکال کر دیا، یہ بے پناہ محبت اور مہمان نوازی دیکھ کر میں ان کا گرویدہ ہوگیا، یقینا جو اللہ رب العزت کے سچے بندے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی دیوانے ہیں ان کی شانی ہیں نرالی ہوتی ہے، یہی وہ لوگ ہیں جنھیںدیکھ کر خدا یاد آجاتا ہے۔
(۲) حضرت علامہ ادریس نائب ناظم الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور فرماتے ہیں میں نجی طور پر ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں ، جن کا پریشانی کے ماحول میں حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ نے زبردست تعاون فرمایا ہے، کچھ مجبوریوں کی بناپر مالی استفادہ کرنے والوں کے اسما ذکر نہیں کرسکتا۔ حضرت صوفی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کی سخاوت اور دریا دلی دیکھ کر قرون ادبی کے مسلمانوں کی فیاض اور سخاوت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔(خطیب البراہین ایک منفرد شخصیت ص ۳)
(۳) مولانا سعید نظامی ناظم اعلیٰ دارالعلوم اہلسنت غوثیہ نظامیہ برکاتی محلہ حسنی بستی فرماتے ہیں :
جس وقت میں دارالعلوم تنویرالاسلام امرڈوبھا میں زیر تعلیم تھا ایک دن بعد نماز عصر حضرت نے مجھے بلایا اور مٹھی میں کچھ رقم میرے ہاتھ میں دے کر فرمایا۔ اسے پکڑو، مٹھی بند کرلو، مت کھولنا اور فلاں کے گھر کے بغل میں ایک گھر ہے، برآمدے میں ایک شخص بیمار بستر پر سویا ہوا ملے اسے یہ رقم دے دینا میں نے رقم لی اسی طرح بند مٹھی کیے ہوئے اس جگہ پہونچا دیکھا کہ برآمدے میں ایک ضعیف ولاغر شخص سویا ہوا تھا اس کے گیا اور بند مٹھی میں جو رقم تھی میں نے پوری اس کی مٹھی میں دے دیا۔ اور پھر واپس چلا آیا وہ رقم کتنی تھی میں بھی نہ جان سکا۔(خطیب البراہین ص ۱۸۴)
(۴) حضرت علامہ طاہر المصباحی استاذ جامعہ صوفی نظام الدین لہرولی بیان کرتے ہیں کہ : حضرت نے ۱۹۹۸؁ء میں جب ہمارے گائوں میں دارالعلوم اہلسنت نظامیہ کی بنیاد رکھی تو مجھے بلاکر بطور امدا ایک اچھی رقم عطا فرمائی۔ اور جب لہرولی بازار جامعہ کے گرائونڈ میں تعمیر مسجد کی بات آئی توحضرت نے حبیب العلماء علامہ حبیب الرحمٰن صاحب قبلہ اور حاجی عبدالعزیز صاحب کو امرڈوبھا بلاکر ایک اٹیچی سامنے رکھی اور فرمایا اس میں جو کچھ رقم ہے اس کو مسجد کی تعمیر میں لگا دیجئے۔ اٹیچی کھولی گئی تو اس میں مختلف لفافوں میں سوالاکھ روپئے موجود تھے۔ سبحان اللہ!
تری دریادلی کو دیکھ کر کہنا پڑا سب کو
تری فطرت میں شان حضرت عثمان پنہاں ہے
یہ تو بس چند مثالیں ہیں نہ جانے کتنے ایسے واقعات مریدی، متوسلین، متعلقین کے دلوں کی زینت ہونگے، جب زلف گرہ، گیر کھلے گی تو سخاوت کے ایسے ہزار انمول موتی بکھرتے نظر آئیں گے۔

عبادت

سفر ہو یا حضر آپ ہر جگہ پوری پابندی کے ساتھ فرائض و واجبات کی پابندی فرماتے تھے بلکہ سنن و نوافل اور مستحبات کو بھی ترک نہ فرماتے تھے۔ تلاوت قرآن اور درود وظائف و دلائل الخیرات شریف کا وظیفہ آپ کا دائمی معمول تھا، تہجد کے علاوہ دیگر نوافل کی پابندی کا اہتمام آپ کا خاصہ تھا۔ اور کیوں نہ ہو آپ فنا فی اللہ اور فنافی الرسول کے درجۂ علیا فائض ہوچکے تھے آپ یہ کیسے گوارہ کرسکتے تھے کہ جس سے محبت کا دم بھرتے ہیں، اس کے احکام پر دل و جان سے فدانہ ہوں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ادائوں پر قران ہونا میں تو آپ کی زندگی کا مشن تھا، پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کا چراغ سے دلوں کو روشن و منور کرنا ہی آپ کی حیات مبارکہ کا واحد کام تھا۔

مریدین

ہندوستان و نیپال کے تقریباً ہر گوشے میں آپ کے مریدین و متوسلین پائے جاتے ہیں۔ جن کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے چاہنے والوں اور محبت کرنے والوں کی تعداد شمار سے باہر ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ آپ کے مریدین و متوسلین میں علمائے کرام و شعرائے اسلام کی بہت بڑی تعداد ہے۔

اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک

عام طور سے یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ اکثر لوگ گھر کے باہر بڑے ملنسار اور خوش اخلاق بنتے ہیں مگر گھر کے اندر ان کی خوش اخلاقی اور خندہ روی غائب ہوجاتی ہے۔ دوسروں تو خوب تبسم ریزیاں ہوتی ہیں ، مگر جب گھر آتے ہیں تو ناک بھوں چڑھائے، رعب جمانے والے انداز میں طرم خاں بننے کی کوشش کرتے ہیں، خاص کر بیویوں سے حسن اخلاق کا سبق تو بہت سے حضرات نے سیکھا ہی نہیں۔ ان پر ہر وقت آستین چڑھا کر سوار رہنا اپنا شوہری حق سمجھتے ہیں، پھر بیوی بھی بگڑ جاتی ہے، نتیجہ گھر کا ماحول ایک ناور بن کر رہ جاتا ہے۔ اور بعض لوگ حد سے تجاوز کر ان کے غلام و بے دام بن کر اوروں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور اپنی زندگی اجیرن کرلیتے ہیں۔
حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ کی طرز زندگی کا جب ہم اس پس منظر میں مطالعہ کرتے ہیں تو یہاں بھی انھیں قرآن و حدیث کے اصولوں کا متوالا پاتے ہیں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مصداق پاتے ہیں کہ یہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہو۔

والدین کا احترام

آپ اپنے والدین کریمین کا حد درجہ احترام فرماتے تھے۔ ان کے ہر حکم کوبلاتاخیر بجالیتے۔ ان کی خدمت میں مصروف رہتے، ابھی آپ کی طالب علمی کا زمانہ ہی تھاکہ ۱۹۵۳؁ء میں آپ کے والد مکرم کا انتقال ہوگیا، اس کے بعد آپ نے اپنی پوری توجہ والدہ کی طرف بندوں کردی، ان کے مشورے سے ہی تمام کام بروئے کار لاتے اور ان کی کماحقہ خدمت فرماتے۔ اپنی پیرانہ سالی میں بھی آپ نے ان کی خدمت کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی، اور کیوں نہ ہو میرے آقا کا ارشاد ہے :
’’ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور باپ جنت کا دروازہ ہے۔‘‘۱؎
جب آپ دارالعلوم تنویرالاسلام میں تعلیم دینے کے لئے گھر سے نکلتے تو سب سے پہلے اپنی والدہ محترمہ کی بارگاہ میں تشریف لے جاتے۔ قدم بوسی کرتے، سلام کرتے،پھر اجازت لے کر گھر سے نکلتے ، اگر کہیں پروگرام میں جانا ہوتا تو اسوقت بھی آپ والدہ ماجدہ کی اجازت کے بغیر نہ جاتے، آپ والدہ محترمہ کی ہربات پوری کرتے، اگر ان کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو اسے منگوا کر پیش کرتے پھر مدرسہ آتے، یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیشہ نہ یہ کہ صرف حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ کے لئے دعائیں کرتیں بلکہ ان کے مریدین و متوسلین کے لئے بھی دعائے خیر کیا کرتی تھیں۔ حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب قبلہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے انھیں دوران حج ایک جذبہ والہانہ کے ساتھ بارگاہ ایزدی میں یہ دعائیں کرتے سنا۔
’’اے رب کریم ہمارے مولانا بابو سے جو لوگ سلسلہ عالیہ قادریہ ، برکاتیہ، رضویہ، نوریہ و نظامیہ میں داخل ہوں تو اپنے کرم سے ان کی مغفرت فرما۔‘‘
اور اس میںکوئی شک نہیں کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ ماں باپ کی دعاء اپنی اولاد کے حق میں ایسے ہی ہے جیسے انبیاء کرام علیہم السلام کی دعا ان کی امت کے حق میں۔ ان کی دعائیں رائگاں نہیں جاتیں، اسی لئے ہمارے اسلاف کہا کرتے ہیں کہ والدین کو ہمیشہ اپنے بچوں کے لئے دعائے خٰر کرتے رہنا چاہئے۔ اگر مبادا بچوں سے کوئی خطا اور گستاخی بھی سرزد ہوجائے تو بھی ان کے لئے بددعا نہ کریں کیونکہ اولاد تو آپ ہی کی ہے، اگر انھیں کوئی تکلیف ہوگی تو بلاشبہ والدین کو تکلیف ہوگی۔

بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک

آپ اپنے بھائیوں(جناب اکرام الدین و جناب انعام الدین مرحوم) اور ان کی اولاد سے کافی محبت فرماتے اور ان کے ساتھ حددرجہ لگائو رکھتے تھے۔ جیسا کہ آپ کے پوتے حضرت مولانا سید نظامی فرماتے ہیںکہ:
’’حضرت جب گھر تشریف لاتے تو حکم فرماتے کہ ہمارے بھائیوں کو ساتھ میں کھانے کی اطلاع دے دی جائے جب سب لوگ حاضر ہوتے تو ان کے ساتھ کھانا تناول فرماتے۔‘‘(خطیب البراہین ستمبر س ۸)
گھر کے بزرگ اور بڑے لوگ خاص کر والد حضرات اگر حضور خطیب البراہین کے اس طرز عمل کو اپنالیں تو انشاء اللہ کبھی گھر میں جھگڑا فساد کی نوبت نہیں آئے گی۔

اہلیہ کے ساتھ حسن سلوک

حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ کی اہلیہ محترمہ خوش بی بی (علیہا الرحمہ) پڑھی لکھی نہیں تھیں، تو آپ نے ان پر اپنا علمی رعب جمانے کے بجائے یہ مشورہ دیا کہ قرآن کی تعلیم حاصل کریں اس کے علاوہ آپ نے گھر میں ایسی تحریک چلائی کہ کوئی قرآن کیتعلیم سے جاہل نہ رہے۔چنانچہ ایسا موحل بنا کہ خاندان ہی کی ایک نیک خاتون محترمہ شاہ باندی علیہا الرحمہ فی سبیل للہ تمام عورتوں کو قرآن کی تعلیم دینے لگیں، انھیں کے ساتھ حضرت صوفی صاحب قبلہ کی اہلیہ محترمہ نے بھی قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرلی۔
۱۹؍ربیع الاول ۱۳۹۸؁ھ مطابق ۲۷؍فروری ۱۹۷۸؁ء بروز پیر پونے ۹ بجے آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ اور اگیا قبرستان میں مدفون ہوئیں۔

اہلیہ کی تیمارداری

آپ کی اہلیہ محترمہ کو انتقال سے قبل ایک مہلک بیماری لاحق ہوگئی ، جس کے لئے انھیں ممبئی لے جانا پڑا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ممبئی میں بستی ضلع کے اہل ثروت کی کثرت نہ تھی نہ ہی یہاں کے لوگ اتنے مالدار تھے کہ بڑے بڑے فلیٹوں میں رہتے اور کثیر مہمانوں میں گنجائش بھی ہوتی، چنانچہ حضرت صوفی صاحب قبلہ باندرہ میں اپنے ایک عزیز کے مکان پر قیام پذیر ہوئے اور اہلیہ کو وہاں سے دور ایک بڑے ہاسپیٹل میں ایڈمٹ کرایا، علاج ہونے لگا۔ حضرت ہر روز صبح کو ناشتہ دان میں اہلیہ کا کھانا لے کر باندرہ سے لوکل ٹرین سے روانہ ہوتے، ہاسپٹل میں کھانا پہنچاتے، تیمارداتی کرتے۔ اور دوسری صبح کو پھر اسی عمل کو دہراتے۔ یہ سلسلہ کافی دنوں تک چلتا رہا، مگر نہ تو حضرت نے کبھی ناگواری کا ظہار فرمایا اور نہ ہی تیمارداری میں کوئی فرق آنے دیا۔
(تلخیص از خطیب البراہین ایک منفرد المثال شخصیت، ص ۵۵)

آپ کی مقبولیت کے اسباب

کسی سے متاثر ہونے کی تین خاص وجہیں ہوسکتی ہیں –
(۱) اس سے مل کر، اس کے طر ززندگی کا مشاہدہ کرکے
(۲) کسی دوسرے سے اس کی تعریف و توصیف سن کر
(۳) اس کے حالات زندگی کا مطالعہ کرکے۔
اللہ عزوجل کا شکرہے کہ مجھے یہ تینوں مواقع میسر آئے۔ ان کے رُخ زیبا کا دیدار بھی نصیب ہوا۔ ان کی ادائیں بھی دیکھی، ان کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان زبان سے ا ن کی عظمتوں کے ترانے بھی سنے، ان کی سوانح حیات پر علمائے اور ادباء کی تحریریں بھی پڑھیں۔ ہر جہت سے انھیں ارفع و اعلیٰ پایا۔
ہم بجا طور پر یہ کہنے کا حق رکتھے ہیں کہ جس نے حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ کو دیکھا اس نے اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چلتی پھرتی تصویر دیکھی،
پیکر سنت، خدا یا دا آئے جن کو دیکھ کر
باعمل ایسے تھے عالم حضرت صوفی نظام
آپ کی پاکیزہ سیرت اور صورت دیکھ کر
ہر کس وناکس کے سرخم حضرت صوفی نظام (منظر وسیم مصباحی)

آخری بات

میں نے گذشتہ تحریر میں جو کچھ ذکر کیا یہ حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ کی مبارک زندگی پر ایک ہلکی روشنی ہے، اختصار کے پیش نظر بہت سارے گوشوں پر ذکر نہیں ہوسکا، تفصیل کے لئے ایک دفتر درکار ہے۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں مزیز کام ہوتا رہیگا، مندرجہ ذیل باتیں کہہ کر میں اپنے قلم کو لگام دے رہا ہوں:
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ولی کے لئے کرامت ضروری ہے، اور ان کی مراد اس سے یہ ہوتی ہے کہ جس سے کوئی خارق عادت امر ظاہر ہو۔ ہاتھ اُٹھائے اور پانی برس جائے۔ آنکھ بندکرے اور پل بھر میں کہیں دور پہونچ جائے، مصلیٰ بچھائے اور فضائوں میں اڑ جائے، دریا اور سمندر پر ایسے چلے جیسے کوئی زمین پر چلتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ تو وہ ولی ہے، مگر بزرگان دین کہتے ہیں کہ یہ کرامت تو ولایت کا ادنیٰ درجہ ہے، عام طور اولیائے کرام ان کا استعمال اس وقت کرتے ہیں جب سخت ضرورت پیش آجائے ورنہ وہ اسے چھپانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
البتہ سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ انسان اسوۂ رسول کے سانچے میں ڈھل جائے اس کی ہرسانس سے عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو پھوٹ پڑے، جن ہاں!عشق رسول ہی انسان کی حیات ابدی کا ضامن ہے اور یہی تکما کراموتوں کا مرکز و محور بھی۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ جس طرح مشک نہیں چھتا اسی طرح عشق نہیں چھپتا۔ جس کے دل میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہوتی ہے۔ اس سے پوچھنے کی ضرورتی نہیں پڑتی۔ اس کی ادائیں ہی اس کے عشق کا پتا دیتی ہیں، بلاشبہ حضور صوفی ملت علیہ الرحمہ کا دل عشق والا ہوگیا۔ ان کی محفل میں بیٹھنے کے بعد اُٹھنے کو جی نہیں نہ چاہتا، ان کی صورت دیکھ کر نظر ہٹنے کو تیار نہ ہوتی۔
یہی وجہ ہے کہ جس نے انھیں دیکھا بے اختیار کہہ پڑا یہ زندہ ولی ہیں اور قوت رحلت اللہ رب العزت نے مخلوق کی عقیدت و محبت کی زبان پر حتمی مہر لگادی۔ اے میرے بندو اب میرا اعلان اپنے دل کے نہاں خانے میں محسوس کرو۔بلاشبہ میریہ بندہ میرا ولی ہے۔ واللہ ولی المتقین۔ اور اللہ تعالیٰ متقیوں کا والی ہے۔سچ کہا ہے
استقامت پر جو ہو قائم کوئی
صاحب کشف وکرامت وہی
استقامت شرف ہے اس راہ میں
فرق ہے ہادی و گمراہ میں
استقامت کے مقابل بے گماں
ہیچ ہیں کشف و کرامات جہاں

ارشادات حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ

٭ علم دین کا حصول جمیع خیرات و حسنات کا سرچشمہ ہے۔
٭ نماز و تلاوت قرآن جملہ حاجات دینی و اخروی کی ضمانت ہے۔
٭ کسی دولت مند انسان سے یہ سوچ کر ہرگز نہ مال کا فائدہ ہوگا۔
٭ کبھی بھی اچھی غذا پیٹ بھر کر نہ کھائو، کیونکہ اس سے سستی پیداہوتی ہے، جو عبادت میں مخل ہے۔
٭ اگر کسی کے پاس مال ہوجائے تو اسے جمع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ انسان کو زمانے میں رسوا کردیتا ہے، ساتھ ہی ساتھ ایمان کو کھوکھلا کردیتا ہے۔
٭ دین کو دے کردنیا حاصل کرنا سب سے بڑا خسارہ ہے۔
٭ جہاں تک ممکن ہو خدمت دین فی سبیل اللہ کرو۔
٭ مذہبی باتیں حوالے سے پیش کرو اور اپنی طرف سے شریعت میں کسی چیز کا اضافہ نہ کرو۔
٭ صاحب ترتیب ہوجائو یعنی زندگی کی قضا نمازوں کو ادا کرو۔
٭ ہر پریشانی کا علاج نماز ہے۔
٭ کوئی بھی کام دائیں جانب سے شروع کرو خواہ کپڑا پہننا ہو یا جوتا یا اور کوئی کام۔
٭ ہمارا کوئی بھلے لے لے ہم کسی کا نہ لیں۔
٭ ہر عمل رضائے الٰہی کے لئے ہونا چاہئے۔
٭ اللہ تعالیٰ سے بزرگوں کی صحت مانگو۔
٭ علم غربت چاہتا ہے۔
٭ سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرو۔
٭ مہمان کی ضیافت اپنی حبیب خاص سے ہونی چاہئے۔
مذکورہ بالا ارشادات حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ نے مختلف مواقع پر ارشاد فرمائے۔ جو قرآ ن و حدیث اور اقوال سلف صالحین کا خلاصہ ہے، ان ارشادات و فرمورات کی روشنی میں اگر ہم اپنی زندگی کے شب و روز گزارنے کی کوشش کریں تو انشاء اللہ ہمیں دنیا اور آخرت دونوں کی سرخروئی حاصل ہوگی۔
تیرے غلاموں کا نقش قدم ہے راہ نجات
وہ کیا مہک سکے حور سراغ لے کے چلے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی