شیخ الاسلام حضرت خواجہ سید حافظ محمد علی شاہ خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:محرم علی،المعروف محمد علی شاہ۔خیرآباد کی نسبت سے "خیرآبادی" کہلاتے تھے۔لقب: شیخ الاسلام۔ والد کا اسمِ گرامی: مولانا شاہ شمس الدین خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ حضرت مخدوم سید نظام الدین معروف بہ مخدوم اللہ دیا خیر آبادی قدس سرہ اور حضرت شیخ سعد خیرآبادی قدس سرہ کی نسل سے تھے۔ آپ ایک علمی خاندان کے چشم وچراغ تھے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1192ھ،بمطابق 1779ء کو ہوئی۔
تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے گھر سے ہوئی۔قرآنِ مجید حفظ کیا۔ پھرحضرت مولانا عبدالوالی نبیرۂ حاجی صفت اللہ محدث خیر آبادی سے ابتدائی کتب پڑھ کر شاہجہانپور کا سفر کیا اور وہاں کے علماء سے تحصیل ِعلم کیا، دہلی میں حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی علیہ الرحمہ سے حدیث اور "فصوص الحکم" پڑھی، اور غوث وقت حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ سے "صحیح مسلم " کا درس لیا۔حرمین شریفین میں "صحیح بخاری " کا درس لیا۔ آپ کاشمار اپنے وقت کے اجلہ علماء کرام میں سے ہوتا تھا۔یہی وجہ ہےکہ مجاہدِ تحریک آزدی امام المناطقہ حضرت مولانا فضلِ حق خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ"فصوص الحکم" کا درس لینے کیلئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔(خیرآبادیت:105)
بیعت وخلافت: آپ غوث الوقت حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے اور سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ کے مجاز ہوئے۔
سیرت وخصائص: جامع المنقولِ والمعقول،حاوی الاصولِ والفروع،پیرِ طریقت،رہبرِ شریعت،حامیِ سنت،سلطان الواصلین،برہان الکاملین،شیخ الاسلام حضرت خواجہ حافظ سید محمد علی خیرآبادی چشتی نظامی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ اپنے وقت کے کاملین میں سے تھے۔سلسلہ عالیہ چشتیہ میں مرید ہونے کے بعد (پاک وہند)کے تمام اکابرین کے مزارات پر حاضری دی، اور فیوض وبرکات حاصل کیے۔پھر حرمین شریفین حج کیلئے تشریف لےگئے،وہاں دس سال قیام رہا سرزمینِ حجاز کے کچھ حضرات آپ کے مرید ہوئے۔حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کا فیض عرب میں سید محمد مدنی اور دکن،اودھ اور مشرقی پنجاب میں آپ کے ذریعے پہنچا۔آپ نے راہ ِسلوک میں ایسی مشقتیں برداشت کیں جس کی مثال متأخرین میں مشکل سے ملے گی۔ حضرت قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ کے آستانہ پر جب حاضرتھے تو آنے جانے والوں کو خود مشک سے پانی بھرکر پلاتے ،اور شب میں مزار کی دیوار پر ایک ہاتھ رکھ کر ختم کلام پاک فرماتے۔اسی طرح اجمیر شریف میں جھالرہ(کنوئیں کے قریب والی جگہ جہاں پانی جمع ہوکر آبادی کی طرف جاتا ہے) کی مرمت میں بغیر اجرت مزدوروں کی صف میں شامل ہوکر کام کیا۔درس وتدریس کاسلسلہ اپنی خانقاہ پہ شروع کیا جس میں بے شمار شائقینِ علوم دوردراز علاقوں سے سفر کرکے حاضر ہونے لگے ،یہاں تک کی امام فضلِ حق خیرآبا دی علیہ الرحمہ "فصوص الحکم" کادرس لینے کیلئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
آپ کی مجالس میں شریعت کے علاوہ کوئی موضوع سخن نہ ہوتا تھا۔اتباعِ سنت ِ مصطفیٰ ﷺپر بہت زور دیتے تھے۔اسی طرح بادشاہوں اور امیروں سے دور رہتے تھے،اگر وہ ملاقات کے متمنی ہوتے تو آپ منع کردیتے تھے۔ایک مرتبہ بہادر شاہ ظفر ملاقات کیلئے حاضر ہواجب وہ ایک دروازے سے داخل ہوا تو آپ دوسرے دروازے باہر نکل گئے۔(چشتی خانقاہیں اور سربراہانِ برصغیر:169)۔
سیف اللہ المسلول حضرت شاہ فضلِ رسول بدایونی علیہ الرحمہ کی آپ سے عقیدت: جب مولانا شاہ فضلِ رسول بدایونی علیہ الرحمہ کے لیے ریاست حیدر آباد سے (17/روپے یومیہ)وظیفہ مقررہواتو آپ نے اس میں سے 6/روپے یومیہ وظیفہ حضرت شیخ الاسلام محمد علی خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ کونذرکردیا جسےا ٓپ نے قبول فرمالیا۔ جوبعد میں مستقل طور پر"خانقاہ خیرآباد "کے نام مستقل ہوگیا۔(خیرآبادیات:103)
آپ علیہ الرحمہ انگریز حکومت کے زبردست مخالف تھے۔اسی طرح انگریزی لباس وتہذیب میں جس مسلمان کو دیکھتے سخت ناراض ہوتےتھے۔شادی بیاہ کی بری رسومات ، بدعات،اور فضول خرچی سے منع فرماتے،اور سنتِ مصطفیٰ ﷺ پر عمل کی تلقین کرتے۔ آخری عمر میں فالج کا حملہ ہوا اور رفتہ رفتہ مرض میں اضافہ ہوتا گیا۔بیماری اور کمزوری کی وجہ جسم نے ساتھ دینا چھوڑدیا،اور عبادت میں دقت کا سامنا کرنا پڑا تو آپ نے ارشاد فرمایا :"جسم بھاڑے کا ٹٹوتھا آخر ساتھ نہ دیا"۔ اللہ تعالیٰ آپ کی قبر پر اپنی رحمتوں اور برکتوں کانزول فرمائے۔(آمین)
وصال:آپ کاوصال 19/ذوالقعدہ1266ھ، بمطابق ستمبر/1850ء کو ہوا۔مزار شریف محلہ میاں سرائے خیرآباد (انڈیا)میں ہے۔
ماخذومراجع:تذکرہ علماء اہلسنت۔چشتی خانقاہیں اور سربراہانِ برصغیر۔خیرآبادیات۔مناقبِ حافظیہ۔