حضرت مولانا مفتی محمد وقار الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: مفتی محمد وقارالدین۔لقب: فقیہ العصر،مفتیِ اعظم پاکستان، وقارالملت والدین۔والد کا اسم گرامی: حافظ حمید الدین۔
حضرت مفتی صاحبکے آباؤ اجداد زراعت سے وابستہ اور زمیندار تھے۔مذہب کے اعتبار سے سب صوم و صلوٰۃ کے پابند ،اور عقیدتاً سنی تھے۔آپ کے والد اور چچا حافظ قرآن تھے۔اسی طرح آپ کے خاندان میں حفاظِ کرام کافی تعداد میں تھے۔ (حیات وقار الملت:4)
تاریخِ ولادت:آپ کی ولادت با سعادت بروز جمعۃ المبارک،14/صفر المظفر 1333ھ مطابق یکم جنوری/1915ء کو قصبہ’’کھمریہ‘‘ضلع پیلی بھیت (انڈیا) میں ہوئی۔(ایضا: 4)
تحصیلِ علم:اسکول کی ابتدائی تعلیم چوتھی کلاس تک اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ پانچویں کلاس میں بریلی شریف کے اسکول میں داخلہ لیا۔ پانچویں کلاس کا امتحان ہوا تو ضلع بھر میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی اور انعام بھی ملا ۔ آپ کے بے حد اصرار پر آپ کے والد صاحب نے آپ کو پیلی بھیت میں مدرسہ ’’آستانہ شیریہ ‘‘ میں دینی تعلیم کیلئے داخل کروایا۔ اس مدرسہ میں آپ کے اساتذہ میں ایک مولانا حبیب الرحمن تھے جو کہ حضرت مولانا مفتی وصی احمد محدث سورتی کے خاص شاگردوں میں سے تھے اور دوسرے مولانا عبدالحق تھے جن کو اکثر کتابوں کی عبارات زبانی یاد تھیں ۔ چار سال اس مدرسہ میں تعلیم حاصل کی۔ ایک روز آپ کے استاد محترم مولانا حبیب الرحمن نے آپ کو مشورہ دیا کہ مزید تعلیم کیلئے بریلی شریف چلے جائیں ، چنانچہ مولانا حبیب الرحمن نے آپ کو خانقاہ رضویہ بریلی شریف کے مدرسہ ’’جامعہ رضویہ منظر الاسلام ‘‘ میں داخلہ دلوایا۔ وہیں آپ نے صدر الشریعۃ مفتی محمد امجد علی اعظمی،محدث اعظم پاکستان مولانا سر دار احمد، شیخ الحدیث علامہ تقدس علی خان رضوی ، مولانا سردار علی خان رضوی ، مولانا احسان الہی وغیرہ اساتذہ کرام سے تعلیم حاصل کی۔جب مفتی امجد علی اعظمی بریلی شریف سے’’دادوں‘‘چلے گئے تو آپ صدر الشریعہ کی خدمت میں دادوں حاضر ہو گئے اور مزید تین سال تک وہیں تعلیم حاصل کی۔ 1938ء میں دورہ حدیث شریف مکمل کیا اور اسی سال دستار بندی ہوئی۔ (انوار علمائے اہل سنت سندھ: 1008)
حضرت مفتی وقار الدین کو اللہ جل شانہ نے قوت حافظہ کی نعمت عطاء فرمائی تھی۔جو بات ایک بار پڑھ لیتے وہ ذہن میں نقش ہوجاتی۔کتبِ فقہ کی عبارات اور اختلاف آئمہ سب ذہن میں محفوظ تھا۔آپ نے خود بیان کیا کہ: ’’صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمیفرماتےتھے، کہ اساتذہ سےپوچھا کرو ،آج اگر شرم کروگے تو پھر کب سیکھوگے۔اس لیے کلاس میں سب سےزیادہ سوالات میں ہی کرتاتھا۔بعض دوسرے ساتھی جو صدرالشریعہ کے رعب کی وجہ سے گھبراتےتھے،وہ بھی مجھے کہتےتھے کہ میرا سوال حضرت سےپوچھو،چنانچہ میں پوچھ لیا کرتاتھا‘‘۔(مقدمہ وقارالفتاویٰ جلد اول)
ساری رات مطالعہ کرنا: حضرت مولانا مفتی وقار الدین اکثر پوری پوری رات مطالعے میں گزار دیتےتھے۔بخاری شریف پڑھنے کےلیے’’عینی‘‘ کا مطالعہ کرنا اپنے اوپر لازم کرلیا تھا۔روزانہ بخاری شریف کے آٹھ صفحات پڑھنے ہوتے تھے،اور بخاری کے ایک صفحہ کی تشریح عینی کے کئی صفحات بن جاتے ہیں۔آپ کی محنت اور صلاحیت کی بناء پر فراغت کے بعد دارالعلوم منظر اسلام میں تدریس کےلئے منتخب کیا گیا۔
بیعت و خلافت:آپ بعد فراغت ِ تحصیلِ علم حجۃ الاسلام حضرت علامہ مولانا حامد رضا خان بریلوی کے دست مبارک پر بیعت ہوئے اور ان کے چھوٹے بھائی مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی مصطفی رضا خان بریلوی نے خلافت سے نوازا۔
سیرت و خصائص:جامع المنقول والمعقول،حاوی الفروع والاصول، فقیہ العصر،مفتیِ اعظم پاکستان،وقار الملت والدین حضرت علامہ مولانا مفتی وقار الدین ۔مفتی صاحب علماء اہل سنت میں ایک علمی مقام رکھتے ہیں،آپ کی تدریسی، تصنیفی،قومی و ملی خدمات بہت زیادہ ہیں۔ آپ تمام علوم و فنون پر کامل مہارت رکھتےتھے۔بالخصوص فقہ میں تو فقیہ العصر اور اپنے وقت کے مفتیِ اعظم پاکستان تھے۔یہ سب کچھ آپ کی زمانۂ طالب علمی کی محنت،اور خداد صلاحیت، اور حضرت صدرالشریعہ کی تربیت و محنت کی بدولت تھا۔دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف، کے پرنور ماحول میں طلباء کی ایسی ہی تربیت ہوا کرتی تھی،کہ ان کو دین و مسلک اور ملک و ملت کا درد ملتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ اس دار العلوم کے فیض یافتگان کی فہرست پر نظر کریں کہ ایک ایک طالب علم یہاں سے ایسا منور ہوا، کہ اس نے پھر ایک جہان کو منور کردیا۔مفتی صاحب بھی منظر اسلام کے خوشہ چیں تھے۔یہی وجہ ہے کہ ساری زندگی درس و تدریس، تصنیف و تالیف، وعظ و نصیحت،اور ملک وملت کی خدمت میں گزری۔
درس و تدریس:بعد فراغت منظر الاسلام بریلی شریف میں مدرس مقرر ہوئے اور ساتھ ہی ناظم تعلیمات کا عہدہ بھی سونپا گیا۔ اس طرح آپ تقریبا دس سال تک خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 1954ء کو دارالعلوم احمد یہ سنیہ چٹا گانگ ( بنگال ) میں آپ کو ناظم تعلیمات مقرر کیا گیا۔ وہیں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے اسلام و سنیت کی اشاعت فرماتے رہے۔ مشرقی پاکستان ( بنگلہ دیش) کے حالات زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے 22/ مارچ 1971ء کو پاکستان تشریف لائے ۔ اور اسی سال کراچی میں اہل سنت و جماعت کی مرکزی درسگاہ دارالعلوم امجد یہ میں ناظم تعلیمات مقرر ہوئے۔ درس و تدریس کے ساتھ دارالافتاء کی ذمہ داری بھی آپ کے ذمہ تھی۔ آپ آخر تک دارالعلوم امجد یہ سے وابستہ رہے اور تدریسی و فتاویٰ کی خدمات سر انجام دیتے رہے۔فنِ تدریس میں آپ کو کمال حاصل تھا،تدریس میں عمر گزر گئی تھی لیکن پھر بھی دوسرے دن پڑھایا جانے والا سبق رات کو مطالعہ کرکے آرام فرماتےتھے۔دوران ِ سبق خود ہی سوال بناکر اس کاجواب دیتےکیونکہ آج کل کا طالب علم سوال کرنے گھبراتا ہے۔آپ کی ذات میں علم کےساتھ عمل اور فتویٰ کے ساتھ تقویٰ موجود تھا۔علم و تقویٰ میں آپ کا مقام بہت بلند تھا۔آپ ظاہر و باطن میں اللہ جل شانہ سے ڈرنے والےتھے۔آپ کے معاصرین تقویٰ و پرہیزگاری میں آپ کی شخصیت کو بطورِ مثال پیش کرتےتھے۔(مقدمہ وقار الفتاویٰ جلد اول :27)
اشاعتِ مَسلک:بنگال میں اہل سنت و جماعت کی خوب اشاعت کی ، عوامِ اہلِ سنت کو بیدار کیا، ہندو پاک سے بڑے بڑے علماء کو مدعو کر کے بڑی کانفرنسوں کا اہتمام کیا، عقائد اہل سنت کو علمی دلائل سے جلسوں میں پیش کیا اور مذاہب باطلہ کا کھل کر رد کیا۔ اس طرح عوام اہل سنت میں کتب بنیی کا شوق پیدا ہوا اس لئے وہ ہندوستان سے علماء اہل سنت کی کتابیں منگوانے لگے ، ڈھاکہ کے ایک مولاناصاحب نے اس تحریک سے متاثر ہو کر مفتی احمد یار خان نعیمی کی بعض کتابوں کا بنگال میں ترجمہ کیا اور وہ کتب چھپ کر عام ہوئیں ۔ دوسری طرف تدریس کے ذریعہ علماء تیار کر کے بنگال کو دیئے۔
مناظرہ: ضلع بریلی میں ایک تحصیل ’’میتھر‘‘ہے ۔اس تحصیل میں ’’ٹانڈہ‘‘ نام سےایک گاؤں ہے۔وہاں کی سنی عوام نے آکر حضرت قبلہ مفتی اعظم ہند سے کہا کہ غیر مقلد ہمیں بہت پریشان کرتےہیں۔لہذ ا آپ کسی عالم کو بھیج دیجیے جو ان کو علمی اعتبار سے جواب دے سکے۔حضرت مفتی اعظم ہند نےمولانا مفتی وقارالدین کو حکم فرمایا کہ جائیں اور غیر مقلدین سے گفتگو کریں۔چنانچہ وہاں آپ تشریف لےگئے اللہ جل شانہ نے آپ کو فتحِ مبین عطاء فرمائی۔جب واپس آئے تو حضرت مفتیِ اعظم ہند نے معززین شہر اور علماء کی ایک پروقار تقریب منعقد فرمائی،اور آپ کو اپنا جبہ اور دستار عطاء کی۔اس کے علاوہ اور بھی کئی مناظرےکیے،ہرجگہ کامیابی ملی۔(مقدمہ وقارالفتاویٰ جلد اول)
تحریکِ پاکستان میں خدمات: آپ فرماتےہیں: بریلی میں عرس اعلیٰ حضرت کے موقع پر چوٹی کےعلماءِ کرام جمع تھے۔اس موقع پر جوقرار دادیں پیش کی گئیں ان میں مسلمانوں کےلئے علیحدہ وطن کی قرار داد بھی پیش کی گئی۔لیکن اس قرارداد میں لفظ پاکستان شامل نہیں تھا۔اس وقت میں نے کھڑے ہوکر اس قراداد میں ترمیم کروائی اور سب علماء سے عرض کیا کہ اگر تائید کرنا ہے تو پھر صاف صاف اپنا موقف بیان کیجئے تاکہ عوام کو کسی قسم کا مغالطہ نہ ہو۔چنانچہ میری رائے کو اہمیت دی گئی،اور اسے قرارداد میں شامل کیا گیااوربعد شائع کیا گیا۔ اسی طرح قیام ِ پاکستان کے بعد نظام ِ مصطفیٰﷺ کےنفاذ کےلئے بھی بھر پور کوشش فرمائی۔آپ ابتداءً ’’ جمعیت علماء پاکستان ‘‘ سے وابستہ ہوئے اور صوبہ سندھ کے صدر رہے۔آپ دومرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔پہلی مرتبہ جمعیت کےٹکٹ پر اور دوسری مرتبہ غیر جماعتی الیکشن 1985ء میں۔ممبر قومی اسمبلی ہونے کےباوجود تعلیم و تعلم اور نجی معاملات میں کوئی فرق نہیں آیا۔
تصنیف و تالیف:مدرسہ کے انتظام و انصرام، درس و تدریس کی بے پنا ہ مصروفیات کی بناپر آپ کو تحریری کام کرنے کا موقع بہت کم ملا۔ ترجمانِ اہلسنت کراچی میں درسِ قرآن و درس ِحدیث کے عنوان میں چند مضامین شائع ہوئے۔ 1۔ وقار الفتاویٰ 3 جلدیں ۔مواعظِ وقارالملت۔ (ماخوذ از۔ انوار علمائے اہل سنت سندھ)
تاریخِ وصال:20/ربیع الاول 1413ھ مطابق 19/ستمبر1993ء،بروز ہفتہ بوقت نماز فجرواصل باللہ ہوئے۔آپ کو دار العلوم امجدیہ عالمگیر روڈ کراچی میں حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری کے پہلو میں دفن کیا گیا۔