Biography Of Ameen E Millat Dr Sayed Mohammed Ameen Miya Barkati | امین ملت ڈاکٹر سید محمد امین میاںبرکاتی مارہروی

 امین ملت ڈاکٹر سید محمد امین میاںبرکاتی مارہروی



پیرطریقت امین ملت حضرت الحاج الشاہ پروفیسر سیدمحمد امین میاں قادری برکاتی مدظلہ العالی( سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ )خدمت دین کے باب میں نہایت متحرک اور فعال شخصیت ہیں۔سنّیت کی اشاعت میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔نہایت سنجیدہ ،نیک طینت، خوش کردار اوررحم دل واقع ہوئے ہیں۔طبیعت میں سادگی وسنجیدگی پائی جاتی ہے۔ آپ درجنوں مدارس اور تنظیموں کے سرپرست ،البرکات ایجوکیشنل سوسائٹی کے بانی وصدر اور شعبۂ اُردوعلی گڑھ یونی ورسٹی کے پروفیسر ہیں۔۲۰۰۹ء کے اخیر میں جارج ٹائون یونی ورسٹی امریکہ کا دی پرنس الولید بن طلال سینٹر فار مسلم کرسچین انڈر اسٹینڈنگ اور دی رائل اسلامک اسٹراٹے جِک اسٹڈی سینٹر (جارڈن) نے پوری دنیا کے مسلمانوں کا سروے کیااور ان کروڑوں مسلمانوں میں سے پانچ سو ایسے مسلمانوں کی ایک فہرست تیار کی جو عام مسلمانوں پر اپنے گہرے اثرات رکھتے ہیں۔۲۰۰۹ء کی فہرست میں میرے ممدوح حضرت امین ملت کا نام ۴۴؍ویں نمبر پر تھا۔

٭ولادت اور اسم گرامی :

فخرالسادات امین الملت والدین مولاناسید محمد امین میاں برکاتی رضوی کی ولادت ۱۶؍ اگست ۱۹۵۲ء مطابق ذی القعدہ کو مارہرہ مطہرہ ضلع ایٹہ میںاحسن العلماء مولاناسیدمصطفی حیدر حسن میاں قادری برکاتی کے یہاں ہوئی۔

٭تعلیم وتربیت:

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار احسن العلماء حضرت مولانا سیدمصطفی حیدر حسن میاں قادری برکاتی مدظلہ العالی سے حاصل کی۔درگاہ معلی کے مدرسے ’’مدرسہ قاسم البرکات ‘‘سے بھی استفادہ کیا۔منشی سعیدالدین صاحب نے اُردو پڑھائی۔قرآن عظیم والد ماجد اور حافظ عبدالرحمن عرف حافظ کلو صاحب قدس سرہٗ سے پڑھا۔دس پارے حفظ کیے۔علم ِ تکسیرکے ابتدائی اسباق اپنے عمِ مکرم سیدالعلماء مولانامفتی سید آل مصطفی برکاتی مارہروی علیہ الرحمہ سے پڑھے۔علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے فرسٹ ڈویژن میں ایم اے کیا۔اسی یونی ورسٹی سے ۱۹۸۱ء میں اُردو ادب کے معروف شاعر میر تقی میرؔ پر ڈاکٹریت کی ڈگری حاصل کی۔

٭اساتذہ کرام :

آپ کے اساتذۂ کرام کے نام یہ ہیں:

 احسن العلماء حضرت مولانا سیدمصطفی حیدر حسن میاں قادری برکاتی مدظلہ العالی،منشی سعیدالدین صاحب،حافظ عبدالرحمن عرف حافظ کلو صاحب قدس سرہٗ اور عمِ مکرم سیدالعلماء مولانامفتی سید آل مصطفی برکاتی مارہروی علیہ الرحمہ وغیرہ۔

٭بیعت وخلافت : آپ کو تاج العلماء سید اولادِ رسول محمد میاں برکاتی مارہروی سے بیعت وخلافت کا شرف حاصل ہے۔والد گرامی احسن العلماء سیدمصطفی حیدر حسن میاں قادری نے بھی آپ کو سجادہ نشینی کے دن یعنی ۱۹۵۶ء میں سلاسل کی اجازت وخلافت سے سرفرازکیا۔بعدہٗ عرس رضوی کے موقع پر حضور مفتی اعظم ہند مولاناالشاہ مصطفی رضا نوری قدس سرہ نے بھی آپ کواپنے دولت کدے پر، ڈیوڑھی میں اور پھر منبر رسول پر ایک ہی دن میں تین بارخلافت عطافرمائی اور لاکھوں کے مجمع کے سامنے وہ جملہ کہاجو مشہورزمانہ ہوگیا: ’’جو کچھ مجھے سرکار مارہرہ مطہرہ سے ملا،وہی سب کا سب آپ کو پیش کر رہا ہوں۔‘‘ پھر آپ نے اپنا جبہ،عمامہ اور تحریری مہر شدہ خلافت نامہ عنایت فرمایا۔ حضور احسن العلماء نے بطورخاص آپ کو تعویذات لکھنے کی تعلیم دی اور مختلف وظائف وعملیات کے طریقے تعلیم کیے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں روحانی شفا کاخزانہ عطافرمایاہے جس سے ہزاروں لوگوں کا بھلاہورہاہے۔الحمدللہ۔حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد آپ مسند برکاتی پر جلوہ فرماہوکر سجادہ نشین ہوئے۔اب تک ہزاروں کی تعداد میں آپ کے دست حق پرست پر طریقت وشریعت کا ذوق وشوق رکھنے والے بیعت ہوچکے ہیں۔آپ خانقاہ ،درگاہ ،مسجد برکاتی ،دیگر مساجد اور روضۂ ہائے خاندان کے متولی ہونے کے ساتھ ساتھ قدیم درگاہ کمیٹی کے قانوناً اور عرفاً منتظم اعلیٰ ہیں۔ حکومت ہند نے درگاہ شاہ برکت اللہ کی قدیمی نذر بصورت پینشن گورنمنٹ سے وصول کرنے کے اختیارکو بہ حیثیت سجادہ نشین حضرت امین ملت کو منظوری دے دی ہے۔ ٭تدریسی خدمات: ایم اے کے رزلٹ سے پہلے ہی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی شعبۂ اُرودمیں بہ حیثیت لیکچرار اپنی خدمات کاآغاز کیا۔مگر چنداساتذہ کی اقربا پروری سے بے زار ہوکر۱۹۸۳ء سے’’ سینٹ جانس کالج ،آگرہ‘‘ میں تقریباً آٹھ سال تدریسی خدمات انجام دیں۔بعدہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں براہِ راست ریڈر کے عہدے پر تقرر ہوااور اب پروفیسر کے عہدۂ جلیلہ پر فائز ہیں جو یونی ورسٹی کے اعلیٰ تعلیم کی درس وتدریس کا سب سے بڑا منصب سمجھا جاتا ہے۔ ٭ممتازتلامذہ: چوں کہ عصری تعلیم سے فراغت سے پہلے ہی بہ حیثیت لیکچرار آپ کاانتخاب ہوچکا تھا اس لیے عصری حلقے میں آپ کے شاگردوں کی خاصی تعداد ہے جب کہ روحانی اعتبار سے سینکڑوں تشنگانِ علوم نے آپ سے اکتساب فیض حاصل کیا ہے۔علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سنّی طلبہ کے تو آپ سرپرست جیسے ہیں۔علی گڑھ میں کوئی بھی دینی جلسہ ہوتو سرپرستی کے لیے طلبہ کی پہلی پسند آپ ہی کی ذات ہوتی ہے۔یونی ورسٹی کے اسٹوڈنٹس کے چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے آپ فوراً چلنے کو ہمیشہ تیاررہتے ہیں۔آج مسلم یونی ورسٹی میں جو عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گلشن سجاہواہے اس کی آبیاری میں آپ کا کلیدی کردار ہے۔ ٭مشا ہیر خلفا: اہل خاندان کے علاوہ خلفا میں سے چند نام یہ ہے: سید گلزارمیاں واسطی، بحرالعلوم مفتی محمد عبدالمنان اعظمی، امام علم وفن خواجہ مظفر حسین، مفتی محمد نظام الدین رضوی (صدر مفتی اورپرنسپل جامعہ اشرفیہ مبارک پور)، مولانامحمد احمد مصباحی ( ناظم تعلیمات،جامعہ اشرفیہ مبارک پور )،مولاناعبدالمبین نعمانی مصباحی، مفتی حبیب یار خاں(اندور )، مولاناعسجد رضا خاں،مولانا احسن ضا خاں، مفتی ولی محمد ناگوری، سید نوراللہ شاہ بخاری (راجستھان) اور مولاناعبدالستار ہمدانی (پور بندر)صاحبان وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اضافہ کرنا ہے۔ ٭حق گوئی وبے باکی : ٭تصنیف وتالیف: آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔آپ کے مقالات ماہنامہ سنّی دنیا بریلی، ماہنامہ استقامت کانپور اور ماہنامہ حجاز جدیددہلی میں شائع ہوتے رہے ہیں۔مندرجہ ذیل تصانیف کے علاوہ آپ نے ادبی،مذہبی، تنقیدی اور تحقیقی مقالات لکھے جن کو اہل علم نے وقعت اور اہمیت کی نظرسے دیکھا ہے۔ (۱)شاہ برکت اللہ:حیات اور علمی کارنامے (۲)قائم چاند پوری:حالات اور علمی کارنامے (۳)ادب، ادیب اور اصناف (۴)میر تقی میرؔ(یہ آپ کاتحقیقی مقالہ ہے جس پر آپ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی) (۵)سراج العوارف فی الوصایا والمعارف ،مصنف :حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری ،ترجمہ :ڈاکٹر سید محمد امین میاں۔ (۶)چہار انواع،مصنف:حضرت سیدشاہ برکت اللہ،ترجمہ:ڈاکٹر سید محمد امین میاں۔ (۷)سراج السالکین ،مصنف:حضرت سید آل احمد اچھے میاں،ترجمہ وپیش لفظ:ڈاکٹر سید محمد امین میاں۔ (۸)آداب السالکین،ترجمہ۔ (۹)شاہ حقانی کا اُردو ترجمہ وتفسیر قرآن (مصنفین:ڈاکٹر سید محمد امین میاں،ارشاد احمد رضوی ساحل شہسرامی) ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔نئی کتابوں کا اضافہ کرنا ہے۔ ٭مجلس برکات کا قیام : آپ کی سرپرستی میں ۱۴۱۹ھ مطابق ۱۹۹۹ء میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں مجلس برکات کا قیام عمل میںآیا ۔اس مجلس کا مقصد درس نظامی کی کتب پر علماے اہلسنّت کے حواشی کی تحقیق کراکے ان کی اشاعت کرنااور نئے انداز میںان کے ترجمے وتفسیر اور جدید حواشی کا انتظام کرناہے تاکہ غیروں اور غیر مسلموں کے ذریعے محض تجارت کے لیے ہو رہی ان کتابوں کی اشاعت پر قد غن لگایا جاسکے۔ حضرت امین ملت کے تعاون اور سرپرستی میں اب تک تحقیق کے ساتھ درجنوں کتابوں کی اشاعت کرچکی ہے۔ ٭مجلس شرعی کاآغاز: ۱۹؍دسمبر ۱۹۹۲ء کوجامعہ اشرفیہ مبارک پور میں ’’مجلس شرعی‘‘کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد مسائل کا شریعت کی روشنی میں تسلی بخش حل تلاش کرنا تھا۔اس مجلس کے ذریعے کئی اہم مسائل حل کیے گئے مگر ۱۹۹۹ء میں کچھ اسباب کی بنیادپر یہ مجلس بند ہوگئی اور پانچ سالوں تک یہ مجلس موقوف رہی۔حضرت امین ملت نے اس طرف علماے کرام کی تو جہ دلائی اور اس کی شروعات کے لیے ہر طرح کا تعاون کیا اور آپ ہی کی سرپرستی میں مجلس شرعی کی شروعات ۲۰۰۴ء میں جامعہ اشرفیہ میں دوبارہ ہوئی جس کے ذریعے اب تک پچاس سے زائد مسائل حل ہوچکے ہیں اور کروڑوں مسلمان فیضیاب ہورہے ہیں۔ ٭وعظ وخطابت: خطابت کا ملکہ آپ کو خاندانی بزرگوں سے ورثے میں ملا ہے۔حضرت موصوف کا خطاب سننے کا شرف پہلی مرتبہ سواداعظم اہلسنّت وجماعت کی عالمگیر تحریک سنّی دعوت اسلامی کے سال ۲۰۰۷ء کے عالمی سالانہ اجتماع کے تیسرے دن ہوا۔اس خطاب میں حضرت قبلہ نے جہیز اور معاشرے میں رائج خرافات وبدعات کے خاتمے کے حوالے سے اصلاح فرمائی۔حضرت کی تقریر اصلاحی ہوتی ہے۔آپ کے خطاب کا بنیادی محور خدمت خلق،غربا پروری ،انسانیت نوازی،دنیاسے بے رغبتی، فیاضی ودریادلی، عفووبرد باری، تواضع وانکساری،ریاضت ومجاہدہ،عقیدت ومحبت اور مخلوق خداکی پردہ پوشی ہے۔خدمت خلق میں صرف مالی امدادواعانت ہی شامل نہیں بلکہ کسی کی رہنمائی کرنا،کسی کی کفالت کرنا، کسی کو تعلیم دینا، کوئی ہنر سکھانا،اچھا اور مفید مشورہ دینا،کسی کی علمی سرپرستی کرنا،مسجد اور مدرسہ قائم کرنا،نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا وغیرہ یہ تمام اُمور خدمت خلق میں آتے ہیں۔ ٭شعروادب: شعروادب سے آپ کوخاصی دل چسپی ہے۔اس ذوق وشوق کا اندازہ آپ کے پی ایچ ڈی مقالے سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔اُردو شاعری کو دردواَثر اور سوزوگداز سے مالا مال کرنے والے معروف شاعر خدائے سخن ، سر تاج شعراے اُردومیر تقی میرؔ کے کلام اوردواوین کی تدوین جیسے حساس عنوان پر آپ نے اپنا تحقیقی مقالہ تحریر فرمایا جس پر آپ کو یونی ورسٹی(یونی ورسٹی کا نام اور سال) کی جانب سے Ph.D.کی ڈگری تفویض کی گئی۔ چند اشعار ٭اوصاف وخصائص: بحیثیت متولی وممبر منتظمہ درگاہ وکمیٹی خانقاہ ودرگاہ عالیہ برکاتیہ کی تعمیروتوسیع ا ورتولیت کی ذمہ داریاں بخوبی نبھارہے ہیں۔آپ کی خدمات مختلف الجہات ہیں۔آپ کا طریقۂ کار ہے خود کام کرنا اور کام کرنے والوں کی مالی امداد کرنایا کم از کم ان کی حوصلہ افزائی کرنا۔آ پ اپنی سادہ مزاجی اور درویشانہ سیرت کے باعث علما ،مشائخ ومریدین میں بہت مقبول ومحبوب ہیں۔ملنے والوں سے اس طرح انکساری اور خوش مزاجی سے گفتگو فرماتے ہیں کہ لوگ ان کے گرویدہ ہیں۔ ٭اعزاز: ٭اہم کارنامہ: حضرت امین ملت اپنے والد ماجد کے وصال کے بعد خانقاہ ،درگاہ اور سلسلے کی ذمہ داریاں بہت ہمت واستقلال کے ساتھ اپنے بزرگوں کی روِش پر چلتے ہوئے پوری کررہے ہیں۔آپ نے مختصر سے عرصے میں خانقاہ اور درگاہ میں مختلف تعمیراتی کام کروائے ہیں۔آپ نے سید محمد اشرف صاحب(چیف انکم ٹیکس کمشنر،کلکتہ)، سید محمد افضل صاحب (ڈی آئی جی)،سید محمد نجیب حیدرصاحب کے علاوہ مخلص رفقا واعزاکی معاونت سے ’’البرکات ایجوکیشنل سوسائٹی ‘‘ رجسٹرڈ کرائی۔اس کے نام پر انوپ شہر روڈ علی گڑھ میں وسیع وعریض زمین خرید کر رجسٹرڈ کرائی اور البرکات کے ادارے کی منصوبہ سازی کی۔۲۰۰۲ء میں اس کے اداروں اور ان کی عمارتوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا،تبھی سے تعلیم وتعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سوسائٹی کے زیر اہتمام فی الوقت البرکات پلے اینڈ لرن سنیٹر،البرکات سینئر سیکنڈری اسکول (بوائز)، البرکات قادریہ اسکول (گرلس)، البرکات انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اسٹڈیز (MBA) ،البرکات انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشنل (B.Ed)،البرکات کالج آف گریجویٹ اسٹڈیز،البرکات سید حامد کمیونٹی کالج، ہاسٹل کی سہولیات کے ساتھ تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ معاشرے کے کمزور اور غریب بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے سو روپے ماہانہ فیس البرکات آفٹر نون اسکول جولائی ۲۰۱۱ء سے شروع کیا گیاہے۔طلبہ کو یونیفارم ،کتابیں ،بیاضیںاور دیگر ضروری چیزیں البرکات سوسائٹی کی جانب سے مہیا کرائی جارہی ہیں۔ ٭نوائے درد: ماہنامہ جام نور دہلی شمارہ دسمبر ۲۰۰۷ء کے انٹرویومیںآپ اپنے دردِ دل کا اظہار ان الفاظ میں یوں کرتے ہیں: ’’جامعہ البرکات کے قیام کے بعد ہمارے حوصلے بڑھے، لوگوں نے ہمارے کام کو سراہا، دستِ تعاون دراز کیا،ہمارے مشن کو اپنا مشن، اپنی تحریک تصورکیاتو اس سے حوصلوں میں اور اضافہ ہوا۔خداتوفیق دے تو کرنے کو بہت کچھ ہے۔کام بہت باقی ہے، ابھی تو کارواں تیارہوا ہے، ابھی بہت کچھ کرنا ہے ،ذرا نظراٹھا کر دیکھیے ،بہت ٹوٹے ہوئے دل ملیں گے ،بڑی تاریک راہیں نظر آئیں گی،محروم آنکھیں اور مایوس چہرے دیکھنے کو ملیں گے،درد مند دل اور مضطرب نگاہوں کے ساتھ زمانے کو دیکھیے،کیے ہوئے سارے کام بہت چھوٹے نظر آئیں گے۔ ہمیں اُمت کے محروم طبقے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔میں جامِ نور کے توسط سے نہ صرف بارسوخ سجادگان ،قائدین اور اہل ثروت بلکہ ملت کے ہر عقل سلیم رکھنے والے اور خود کو ذمہ دار محسوس کرنے والے افراد سے یہ گذارش کرتاہوں ،آپ حضرات جہاں بھی ہیں ،جس معاشرے میں ہیں، جس منصب پر ہیں، اپنی اپنی سطح پر اپنے اپنے طریقے سے حسب توفیق ان لوگوں کے رفیق بن جائیں جن کو حالات نے پسماندہ کردیاہے۔اگر ایک بچے کو تعلیم دلا سکتے ہیں،دلائیں۔ ایک بھوکے کو کھانا کھلاسکتے ہیں،کھلائیں۔ کسی مدرسے کی خدمت کرسکتے ہیں کریں۔ایک بیوہ کو سلائی مشین دلا سکتے ہیں دلائیں۔کسی مدرسہ میں ایک کمرہ تعمیر کرسکتے ہیں کریں۔ کسی ایک فرد کو نوکر ی دلا سکتے ہیں دلوادیں۔یا صرف کسی وقت کے مارے سے مسکراکرخیریت دریافت کرسکتے ہیں تو وہی کردیںلیکن کچھ نہ کچھ کریں ضرور۔رب العزت تو دلوں کے حال دیکھتا ہے۔کیاپتہ کون سی ادا آپ کی اس کی بارگاہ میں مقبول ہوجائے۔میراتو بس یہی پیغام اور گزارش ہے۔‘‘ ٭حوالہ جات: (۱)یاد ِحسن،ص۹۰تا۹۳،از:سیدمحمد اشرف قادری برکاتی،دارالاشاعت برکاتی (۲)مفتی اعظم اور ان کے خلفا،ص ۲۰۰تا ۲۰۵،از:مولاناشہاب الدین رضوی (۳)روبرو،حصہ اول،ص ۶۴ ؍تا ۷۶،خوشتر نورانی، ادارۂ فکراسلامی دہلی،نومبر۲۰۱۰ء (۴)جام نور دہلی،دسمبر۲۰۰۷ء (۵)تذکرۂ مشائخ مارہرہ، ص؍۹۷،از:ڈاکٹراحمدمجتبیٰ صدیقی، البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ،علی گڑھ ،نومبر ۲۰۱۶ء (۶)دی مسلم ۵۰۰،۲۰۰۹ء، دی رائیل اسلامک اسٹراٹے جِک اسٹڈی سینٹر(جارڈن)


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی