تاج العلماءحضرت علامہ مفتی محمد عمر نعیمی مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:مفتی محمد عمر نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ۔لقب: تاج العلماء۔والد کااسمِ گرامی: محمد صدیق مرادآبادی علیہ الرحمہ۔
تاریخِ ولادت: آپ 27/ربیع الثانی 1311ھ،بمطابق اکتوبر/1893ء کو بمقام مرادآباد(صوبہ اترپردیش،انڈیا)میں پیداہوئے۔
تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم جناب منشی شمس الدین سے حاصل کی،قرآن مجید الحاج حافظ محمد حسین سے پڑھا۔فارسی اور صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں مولانا نظام الدین سے پڑھیں، پھر درس نظامی کے لیے حضرت صدر الافاضل مفسر قرآن مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے بقیہ درس نظامی کی مکمل تعلیم صدر الافاضل ہی سے حاصل کی، 1324ھ،بمطابق 1906ء میں سند فضیلت حاصل کی۔ آپ اپنے اساتذہ کا بے حد ادب فرماتے تھے۔ یہ آپ کی خوش قسمتی تھی کہ آپ کی رسمِ دستاربندی امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے ہاتھوں ہوئی،اور اس وقت کی قابلِ فخر شخصیات نے شرکت فرمائی۔استاد محترم کے ارشاد کے مطابق آپ نے انہی کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں تدریس شروع کی اور نصف صدی تک علم و عرفان کے جام لٹاتے رہے۔
بیعت وخلافت: 1325ھ،بمطابق 1907ء کو شیخ المشائخ حضرت سید علی حسین اشرفی رحمۃاللہ علیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے،اور 1329ھ کو اجازت وخلافت سے مشرف ہوئے۔بقول مفتی محمد اطہر نعیمی زید مجدہ آپ کو اعلیٰ حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ سےبھی خلافت حاصل تھی۔(تحریکِ پاکستان میں مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی اور ان کے مشاہیر خلفاء کا حصہ:159)
سیرت وخصائص: محسنِ ملت،فقیہِ امت،کامل مفسر ومحدث،تاج العلماء حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عمر نعیمی رحمۃ اللہ علیہ۔ درمیانہ قد،کشادہ پیشانی،صاف رنگ،خوبصورت چہرہ،سراپا علم وفضل،پیکرِ زہدوتقویٰ،مجسمۂ اخلاق ومروت،عظیم محدث وفقیہ،مفسروادیب،اور سنتِ مصطفیٰ ﷺپر ہمہ وقت عمل پیرارہنے والی شخصیت تھے۔ آپ علیہ الرحمہ ہر لحاظ سےیادگارِ اسلاف تھے۔ آپ حضرت صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ کے ہونہار اورقابلِ فخر تلامذہ میں سے تھے۔آپ قیام مراد آباد کے دوران 1919ء میں نہایت اہم ماہنامہ" السواد الاعظم" صدرالافاضل علیہ الرحمہ کی سرپرستی میں جاری کیا۔یہ جریدہ ربع صدی سے زیادہ عرصہ تک علوم اسلامیہ اور سنیت کا سرگرم نقیب رہا۔حالات حاضرہ اور ملکی سیاست پر زبر دست تنقید و تبصرہ کے علاوہ دینی نقطۂ نظر سے راہنمائی کے فرائض بھی انجام دیتا رہا۔مفتی صاحب نے "آل انڈیا سنی کانفرنس" کے نائب ناظم کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دیں 1946ء میں بنارس کے تاریخی اجلاس میں تحریک پاکستان کی پر زور تائید فرمائی۔
کنزالایمان کی طباعتِ اول: مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی نمایاں دینی وعلمی خدمات میں امامِ اہلسنت اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کا ترجمۂ قرآن بنام"کنزالایمان" کی پہلی اشاعت کا شرف بھی آپ ہی کو حاصل ہوا۔اس کے بعد تفسیری حاشیہ "خزائن العرفان" کی املاء اور کتابت،پروف ریڈنگ،پیسٹنگ،جلدسازی اور اشاعت کے سلسلے میں اہلِ خیر حضرات سے رابطہ کرنا ،اور مجلہ "السوادالاعظم"کے لئے مضامین کی فراہمی اور اس کی اشاعت ،"آل انڈیا سنی کانفرنس"کے ذریعےمسلمانانِ ہند کی بیداری ،اور تحریکِ پاکستان کے مخالفین کو منہ توڑجواب دینا ۔یہ سب آپ نے صدرالافاضل مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ کے ہمراہ انجام دیے۔(ایضاً:173)
تقسیم ملک کے بعد جب آپ نے دیکھا کہ ہندوستان میں عافیت سے رہنا مشکل ہے (کیونکہ تحریکِ پاکستان میں بھرپور کوشش کی وجہ سے مرادآباد اور قرب وجوار کے ہندو آپ کے سخت مخالف ہوگئے تھے)تو ہجرت کر کے بغداد شریف جانے کے ارادے سےکراچی تشریف لائے اور مبلغ اسلام مولانا شاہ عبد العلیم صدیقی علیہ الرحمہ کے اصرار پر کراچی ہی میں قیام پذیر ہو گئے"دار العلوم مخزن علوم عربیہ "جاری کیا اور جامع مسجد آرام باغ میں اعزازی طور پر خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔
جب 1953ء میں "تحریک ختم نبوت" چلی تو ملک کے طول وعرض سے علماء و عوام اہل سنت سر بکف میدان عمل میں داخل ہوگئے، کراچی میں مفتی صاحب نے ناموس مصطفیٰ ﷺ کی خاطر بے مثال جدو جہد کی اور بالآ خر آپ کو جیل میں قید و بند کی صعوبتیں اٹھانی پڑیں، جو ہمیشہ اہل اللہ کا مقدر رہی ہیں۔بس جرم یہی تھا۔۔۔۔
؏:خون نہ کردہ ام کسے رانہ کشتہ ام
جرم ہمیں کہ عاشق روئے تو گشتہ ام
وصال: 23/ذیقعدہ 1385ھ،بمطابق/مارچ 1966ء کو وصال فرمایا۔آپ کا مزار شریف مسجد دار الصلوٰۃ ناظم آباد کراچی میں ہے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ اکابرِ اہلسنت۔تذکرہ اولیاءِ سندھ۔روشن دریچے۔تحریکِ پاکستان میں مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی اور ان کے مشاہیر خلفاء کا حصہ۔