Biography Tipu Sultan Real History Of Tipu Sultan । भारत देश की आज़ादी के हीरो टीपू सुल्तान की कहानी

 میسور کا ایک جانباز مردِ مجاہد

(Imran Yadgiri, India)



یوں تو دُنیا میں سینکڑوں انسان آئے اور چلے گئے، مگر تا ریخ اُسی اِنسان کو یا د رکھتی ہے جو تاریخ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اِسی مفہوم کو کسی شاعر نے کیا خوب بیان کیا ہے:

زندہ رہنا ہے تو میرِ کا رواں بن کر رہو

اِس زمیں کی پستیوں میں آسما ں بن کر رہو


شیر میسور’’ٹیپو سلطان‘‘ بھی انہیں تاریخ سازانسانوں میں سے ایک ہیں۔یہ چند سطور اِس غرض سے رقم کیے جا رہے ہیں کہ آ ج اُنکی ذات پر جوالزامات لگائے جا رہے ہیں اُن کا قلع قمع ہونا ضروری ہے۔ایک بڑے طبقے کو اِس حقیقت کی خبر نہیں کہ ٹیپو سلطان کس قدر فراغ دل اِنسان تھے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ اُن پر یہ اِلزام لگایاجاتاہے کہ اُنہوں نے صرف ایک طبقہ کی حما یت کی۔وہ رحم دل نہیں تھے اور ملک کی آزادی کے لیے انہوں نے کچھ نہیں کیا۔اِس مضمو ن میں اِختصار کے ساتھ اِن اِلزامات کی قلعی کھول دی جائے تاکہ حقیقت اُجا گر ہو سکے۔


بہت سے لوگ ٹیپوسلطان کے حلیہ اور عادات سے واقف نہیں ہیں۔مختصراً عرض ہے کہ سلطا ن گندمی رنگ کے تھے۔ ان کی نا ک خم دار تھی۔ آ نکھیں بڑی تھیں۔قد پانچ فٹ آ ٹھ انچ تھا۔ بالکل سادہ اور شرعی لبا س پہنتے تھے ۔گھوڑے کی سواری پسند تھی۔ طرز گفتگو شریں تھا۔ فارسی ،کنڑی اور دکنی زبا ن جانتے تھے۔


شیرِ میسور ٹیپو سلطان ان شہیدوں میں سے ہیں جو آ زادی کیلئے آ خری سانس تک میدان میں دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے اور اپنی بہادری وجفا کشی کا لوہا منواتے رہے۔ یہ اُن شیروں میں سے ہیں جنہوں نے سر زمین ہند میں جنم لے کر سب سے پہلے ہند وستانیوں کو آ گاہ کیا کہ ’’ہندوستان ہندوستانیوں کے لیے ‘‘ہے۔


۱۷۵۲ ء ۲۰ ذی الحجہ بروز شنبہ نواب حیدر علی خان بہادر کی زوجہ ثانیہ فا طمہ بیگم کے بطنِ مبا رک سے ایک چاند سا شہزادہ پیدا ہوا۔ بچّہ کا نام ٹیپو سلطان ؒ کے نام پر ابوالفتح فتح علی ٹیپو سلطان رکھا گیا۔سلطان کی عمر ابھی ۵ یا ۶ سال کی تھی کے آ پ کو عربی و فارسی کی تعلیم دی جانے لگی ۔ آ پ صرف علمی میدا ن تک محدود تھے۔ آپ کے والد نے بلا کر فرما یا:’’ سلطنت کے لیے قلم سے زیادہ تلوار کی ضرورت پڑ تی ہے ۔باپ کے ان الفاظ کو سن کر فرماں بردار بیٹے نے پندرہ برس کی عمر میں خود کو ایک جفاکش بہادر سپاہی کے روپ میں ظاہر کیااور آئے دن کی لڑائیوں میں شرکت کر کے اپنی قابلیت کا مظاہرہ کیا۔تھوڑے دنوں بعد حیدر علی نے سوچا کے سلطان کی شادی کر دی جائے۔ حسبِ خواہش ۱۷۷۴ء میں سلطان کا عقدہوا۔ میسور کی دوسری جنگ ابھی پوری طور پر ختم نہیں ہوئی تھی کہ حیدر علی کے انتقال کی خبر پہنچی۔ ٹیپو کے ر نج و غم کی کوئی انتہا نہ رہی۔ بہرِکیف منگلور سے واپس ہونے کے بعد ۲۰ محرم الحرام ۱۷۸۲ء سلطان نے تاج ِشاہی پہنا۔سلطان ایک مسلم متّقی بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ غیر مسلم مذاہب کا پورا پاس و لحاظ رکھتے تھے۔ آ پ ’ملیبار‘ فتح کرتے ہوئے گرو ایوار مندر کے قریب پہنچے تو وہاں کے پجاری ڈر کر مندر سے مورت کو ٹراونکولہ روانہ کر دیا ۔جب ٹیپو کو اس بات کی اطلاع ملی تو مورتی کو واپس منگواکر نصب کرنے کا حکم دیا۔ اسکے علاوہ یہ بھی حکم دیا کہ اس شہر سے جو بھی آ مدنی ہو، اس مندر کیلئے وقف کر دی جائے۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کے سلطان مذہب سے زیادہ اِنسانیت کو ترجیح دیتے تھے۔ آج بھی سری رنگا پٹنم جا تے ہیں تو نظریں سب سے پہلے ان دو بڑے مندروں سے ٹکراتی ہیں جو لبِ شہر ایستادہ ہیں۔ سلطان کی رحم دلی کے با رے میں سلطنتِ خداداد لکھتے ہیں کہـ:’’…… رات کا وقت تھا، سلطان اپنے خیمے میں سو رہے تھے، تو اُن کو کراہنے کی آ واز آئی۔ خیمہ سے نکل کر دیکھا تو معلوم ہوا کے قیدی پیاس سے تڑپ رہے ہیں۔ سلطان نے خود جا کر انہیں پانی مہیا کیا اور خود ہی پلایا ۔‘‘ ٹیپو کی آ خری جنگ میں انگریزوں نے آپکے قلعے کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ آ خر کا ر شہر کے دروازے پر لڑائی چھڑ گئی تو ایک ہمدرد سپاہی نے درخواست کی کہ حضور بہتر یہی ہے کہ آپ انگریزو ں سے ہار مان لیں۔لیکن اس شیر نے پلٹ کر غصّہ کے عالم میں جواب دیا: ’’گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘۔


ٹیپو ایک بپھرے ہوئے شیر کی مانند دشمنوں پر ٹوٹ پڑے ۔آ پ کے ہاتھ کی تلوار بجلی کا شرارہ معلوم ہو رہی تھی۔ اچانک گولی لگنے کی وجہ سے آ پکا گھوڑا زخمی ہو کر گر گیا۔ لیکن سلطان کے جسم میں جب تک خون کا ایک ایک خطرہ باقی تھا، آ زادی کی خاطر لڑتے رہے۔ ایک گولی آپکے دل پر ایسی لگی کہ آپ جامِ شہادت نوش فرماتے ہوئے مالکِ حقیقی سے جا ملے۔غرض کہ جب جب بھی مُلک پر دہشت کے بادل منڈلائے ہیں، تب تب مسلمانوں نے اپنے تن من دھن کی قربانی پیش کی ہے اور درس دیا ہے کہ:

جینا انہیں کا جینا مرنا انہیں کا مرنا

ایک بانکپن سے جینا ایک با نکپن سے مرنا


نئی نسلوں کو اِس مرد ِ مجاہدکی زندگی اور جنگ آزادی میں اُس کی قربانیوں سے آگاہ کرنا اِس ملک کے ذمہ داروں کا فرض ہے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والی نسلیں عزم و حوصلوں کے اُن محرکات ہی سے محروم ہو جائیں جو ٹیپو سلطانؒ جیسے مجاہدین کی مجاہدانہ زندگیوں سے میسر آتے ہیں۔ !!

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی