Biohraphy Makhdoom Sharfuddin Ahmed Yahya Maneri Biharsharif Dargah A Short Story

 مخدوم الملک بہاری شیخ احمد شرف الدین یحییٰ منیری: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو


اسجد عقابی



شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کا تمام تر کارنامہ یہی نہیں ہے کہ انہوں نے ہندوستان کے باشندوں کو خدا کا راستہ دکھایا، معرفت الٰہی و تعلق مع اللہ کی ضرورت و اہمیت دل نشین کی، ہزاروں لاکھوں لوگوں کے دلوں میں عشق الٰہی اور خدا طلبی کی حرارت پیدا کردی اور سلوک و معرفت کے اسرار و نکات اور لطیف و بلند علوم کا اظہار فرمایا، بلکہ بعض دوسرے مصلحین امت اور محققین کی طرح ان کا یہ بھی عظیم روشن کارنامہ ہے کہ انہوں نے بروقت دین کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دیا۔ مسلمانوں کے دین و ایمان کو غالی صوفیوں کی بے اعتدالیوں، ملحدین کی تحریفات اور باطنیت و زندقہ کے اثرات سے محفوظ رکھا۔

سر زمین بہار نے جن نابغہ روزگار مشائخ عظام اور علماء اسلام کو جنم دیا ہے ان میں آپ کا مقام و مرتبہ بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔ آپ صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ وقت کے عظیم محدث، مفسر اور فلسفی تھے۔


ولادت با سعادت

آپ کی ولادت 661 ہجری ہے۔ آپ کا اسم گرامی احمد، لقب شرف الدین اور خطاب مخدوم المک بہاری ہے۔ آپ کے والد محترم کا نام شیخ یحییٰ تھا جو زبیر بن عبد المطلب کی اولاد میں سے ہیں۔ اس طرح آپ ہاشمی خانوادہ کے چشم وچراغ ہیں۔ ننھیالی رشتہ سے آپ حسینی سادات میں سے ہیں۔ آپ کے نانا شیخ شہاب الدین جگ جوت سہروردی اپنے زمانہ کے مشہور صوفی بزرگ تھے۔ اس اعتبار سے آپ کا خاندان دونوں جانب سے صاحب فضل و کمال کا گہوارہ رہا ہے۔


تعلیم و تربیت

آپ کی تعلیم کا سلسلہ آپ کے اپنے قصبہ سے شروع ہوا۔ اس وقت کے اعتبار سے متوسطات تک کی کتابیں آپ نے یہیں پڑھیں۔ آپ کا علمی ذوق و شوق قابلِ قدر تھا۔ آپ علم اور اہل علم کی تلاش و تتبع میں سرگرداں رہا کرتے تھے۔ جب طلب صدق قلب مومن میں موجزن ہو تو راہیں خود بخود ہموار ہوتی چلی جاتی ہے۔

شیخ شرف الدین ابو توامہ حنبلی دہلی سے سنار گاؤں (موجودہ بنگلہ دیش کا خطہ) کیلئے راہ سفر میں تھے۔ بغرض قیام منیر کے سرائے میں قیام کیا۔ آپ کے ساتھ شاگردوں کا گروہ تھا۔ سرائے میں قیام کے دوران آپ کا چرچہ عام ہوگیا۔ لوگ دور دراز سے استفادہ کیلئے تشریف لانے لگے۔ اسی اثناء میں یہ مژدہ جانفزا شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کے کانوں تک پہنچا۔ آپ فوراً حاضر خدمت ہوئے۔ استاد کے تبحر علمی اور محققانہ و مدبرانہ کلام سے اس قدر متاثر ہوئے کہ شیخ کے قافلہ کے جلو میں سنار گاؤں کیلئے روانہ ہوگئے۔

آپ نے زمانہ طالب علمی میں وقت کی قدر و قیمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیمی مشاغل کے علاوہ کسی قسم کی مصروفیات کو اپنے گلے کا جنجال نہیں بنایا۔ ہمہ وقت کتابوں کے مطالعہ میں مستغرق رہا کرتے تھے۔ حتی کہ دیگر طالبین کے ساتھ بیٹھ کر کھانے سے احتراز کرتے، اس خیال کے مد نظر کہ اس میں وقت کا ضیاع زیادہ ہوتا ہے۔ جب آپ کی اس عادت کا اندازہ آپ کے استاد محترم کو ہوا تو آپ نے اپنے محبوب ترین شاگرد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے کھانے کا نظم ان کے حجرہ میں ہی کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ اس طرح آپ نے اس مختصر وقت کی حفاظت کی جو چند ساتھیوں کے ساتھ کھانے میں ضائع ہوسکتا تھا۔ کتابوں سے اس قدر شغف تھا کہ آپ نے یہ معمول بنایا تھا کہ جو خطوط آپ کو اہل خانہ، رشتہ دار اور دیگر قرابت داروں کی جانب سے موصول ہوتے اسے بغیر پڑھے ہوئے ایک جگہ رکھ دیتے، مبادا کوئی ایسی خبر نہ ہو جس سے علمی مشاغل میں چند ساعتوں کیلئے خلل پڑجائے۔ آپ اپنے استاد محترم شیخ ابو توامہ حنبلی کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ آپ ایسے عالم تھے کہ تمام ہندوستان میں آپ کی جانب انگلیاں اٹھتی تھی، لیکن علم میں کوئی ان کا ہمسر نہ تھا۔


وطن واپسی

سنار گاؤں کے قیام کے دوران آپ کی علم دوستی، تواضع و انکساری، انابت الی اللہ، تعلق مع اللہ کو دیکھ کر آپ کے استاد شیخ ابو توامہ حنبلی نے روشن مستقبل کا اندازہ لگا لیا تھا۔ انہیں ایام میں استاد محترم کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے نکاح کے سنت کی ادائیگی کی۔ آپ کی زوجہ محترمہ آپ کے استاد کی بیٹی تھی۔ چند دنوں بعد رب ذوالجلال نے صحن چمن کو بیٹے کی عظیم نعمت سے منور فرمایا۔

آپ بیوی بچہ کے ساتھ وطن مالوف کو روانہ ہوئے۔ 690 ہجری میں آپ وطن پہنچے، جب آپ وطن پہنچے ہیں اس وقت آپ کے والد محترم اس دار فانی سے کوچ کرچکے تھے۔ کچھ دنوں تک وطن میں قیام رہا، آپ محض درس و تدریس تک خود کو محدود نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے آپ کا قیام وطن میں بہت مختصر رہا۔


بیعت و سلوک

وطن سے روانگی کے وقت آپ نے بچہ کو والدہ کے حوالہ کیا اور کہا کہ اب یہ میری امانت ہے۔ اسی کو آپ احمد شرف الدین سمجھیں۔ میرے متعلق چنداں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

آپ اپنے برادر شیخ جلیل الدین کے ہمراہ دہلی تشریف لائے۔ دہلی میں چند روزہ قیام کے دوران تمام شیوخ دہلی کی خانقاہوں میں پہنچے، لیکن آپ کو تشفی نہیں ہوئی۔ شیوخ دہلی کا حال دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ اگر پیری مریدی یہی ہے تو ہم بھی شیخ ہیں۔ اخیر میں آپ سلطان الاولیاء شیخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے دربار میں پہنچے۔ شیخ کے ساتھ علمی گفتگو ہوئی، آپ شیخ نظام الدین اولیاء سے متاثر ہوئے لیکن یہاں بھی آپ کو مقصود نہیں ملا۔ شیخ نظام الدین اولیاء نے بوقت رخصت پان کی ایک تھال پیش کی اور فرمایا کہ ایک شاہین بلند پرواز ہے لیکن ہمارے جال کی قسمت میں نہیں ہے۔ آپ دہلی سے پانی پت کیلئے روانہ ہوئے، یہاں شیخ بو علی قلندر پانی پتی کی بارگاہ میں پہنچے لیکن مقصود یہاں بھی نہیں ملا۔ مایوس ہوکر آپ دہلی واپس آگئے۔


شیخ نجیب الدین فردوسی کے دربار میں

دہلی اور پانی پت سے مایوس واپس ہونے کے بعد آپ کے بھائی شیخ جلیل الدین نے شیخ نجیب الدین فردوسی کا تذکرہ کیا۔ ان کے طریق اور مناقب بیان کئے۔ فضل وکمال کو بیان کیا، یہ سن کر آپ نے بھائی سے کہا کہ شیخ دہلی ( شیخ نظام الدین اولیاء) نے ہمیں پان کے پتے دے کر واپس کردیا ہے، اب دوسروں سے کیا امید کی جاسکتی ہے۔ بھائی نے اصرار کیا کہ صرف ملاقات کرنے میں کیا حرج ہے۔ بھائی کے اصرار پر آپ اس حال میں شیخ نجیب الدین فردوسی کی خانقاہ میں پہنچے کہ ایک پان منھ میں چبائے جارہے ہیں اور چند پان رومال میں بندھے ہوئے ہیں۔ شیخ نجیب الدین فردوسی نے آپ کو دیکھ کر فرمایا کہ منھ میں پان رومال میں لپٹے ہوئے چند پان اور دعویٰ یہ کہ ہم بھی شیخ ہیں۔ یہ سنتے ہی آپ نے منھ سے پان پھینک دیا اور مؤدب ہوکر بیٹھ گئے۔ کچھ وقفہ کے بعد بیعت کیلئے درخواست کی، شیخ نے بیعت فرمائی اور پھر خلافت دے کر واپس کردیا۔


صحرا نوردی

یہ سب کچھ اتنا جلدی ہوا کہ آپ متعجب ہوگئے لیکن شیخ کا حکم بجا لانا بھی ضروری تھا، چنانچہ آپ وہاں سے وطن کیلئے روانہ ہوگئے۔ راجگیر کے جنگلات کے پاس آپ خاموشی سے ساتھیوں سے الگ ہوگئے۔ آپ کے بھائی اور دیگر لوگوں نے تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ آپ راجگیر کے جنگلات میں پیڑ پودوں اور پتوں پر گزارا کیا کرتے تھے۔ جنگلات کا یہ علاقہ ہندو جوگیوں کا بھی مسکن تھا، جو اپنے مذہب کے اعتبار سے مشقت اٹھایا کرتے تھے۔ طویل عرصہ تک آپ روپوش رہے اور کسی کو آپ کی خبر نہیں ہوئی۔ ان جنگلات میں آپ نے ہندو جوگیوں سے کئی معاملات میں علمی مناقشہ کئے، جس کے نتیجہ میں جوگیوں کی بڑی تعداد آپ کے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئی ہے۔ جنگلات میں اپنے مجاہدہ اور ریاضت کے متعلق اپنے مرید قاضی زاہد سے فرمایا کہ میں نے جو ریاضتیں کی ہے اگر پہاڑ کرلیتا تو پانی ہوجاتا لیکن شرف الدین کو کچھ نہیں ہوا۔

اسی زمانہ میں سلطان الاولیاء شیخ نظام الدین اولیاء کے مرید اور ان کے ہمنام مولانا نظام مولی کو جب معلوم ہوا کہ چند لوگوں نے راجگیر کے جنگل میں آپ سے ملاقات کی ہے تو آپ اپنے چند مریدوں کے ہمراہ ملاقات کیلئے جنگل کی سمت روانہ ہوگئے۔ تلاش بسیار کے بعد شیخ منیری سے ملاقات ہوئی، یہ سلسلہ شروع ہوا تو آہستہ آہستہ لوگوں کا جم غفیر جنگل کی سمت رخ کرنے لگا۔ علاقہ کی حساسیت اور زہریلے جانوروں کی موجودگی کی وجہ سے آپ نے متوسلین کو جنگل کی جانب رخ کرنے سے منع فرمایا اور خود ہفتہ میں ایک دن بروز جمعہ عوام کے درمیان تشریف لاتے، وعظ و نصیحت کے بعد دوبارہ جنگل کا رخ کرلیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ عرصہ تک جاری رہا اور پھر چند متوسلین نے آپ کیلئے جنگل کے کنارے چھپر ڈال کر ایک مسجد کی تعمیر کرائی تاکہ آپ کچھ استراحت فرمائیں۔ یہ سلسلہ کچھ دنوں تک جاری رہا اور پھر شیخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے متوسلین نے باضابطہ آپ کیلئے خانقاہ کی تعمیر فرمائی اور آپ کو سجادہ پر بٹھا دیا۔


یہ سلطان غیاث الدین تغلق کا زمانہ تھا، سلطان کے بعد جب محمد بن تغلق تخت پر براجمان ہوا تو اس نے خلوت نشیں صوفیاء کرام اور عزلت پسندی کے خوگر علماء کرام کو عوام الناس میں لانے کی کوشش شروع کردی۔ سلطان خود بھی علماء اور علم دوست تھے، چنانچہ ان کی کوشش بار آور ثابت ہوئی اور خانقاہوں میں بیٹھنے والے صوفیاء کرام لشکروں کے ساتھ میدان اور دیگر اسفار میں تطھیر قلوب کی خاطر رہنے لگے۔

سلطان محمد بن تغلق جب شیخ منیری کے احوال سے واقف ہوا تو اس نے بہار کے صوبہ دار مجد الملک کو خط لکھا کہ شیخ کیلئے خانقاہ تعمیر کی جائے اور پرگنہ راجگیر خانقاہ سے متمتع ہونے والوں کیلئے دے دیا جائے۔ جب یہ خط مجد الملک کے پاس پہنچا تو وہ شیخ منیری کے دربار میں پہنچا اور عرض کیا کہ آپ بخوبی واقف ہیں کہ اگر آپ نے قبول نہیں فرمایا تو اسے میرے لئے حکم عدولی پر محمول کیا جائے گا۔ سلطان کے مزاج سے ہر کوئی واقف ہے، پھر معلوم نہیں میری کیا شامت آئے گی۔ آپ نے مجد الملک کی بےکسی و لاچار گی کو دیکھتے ہوئے پیشکش قبول کرلیا۔ آپ کی خانقاہ تعمیر کی گئی جو اب تک موجود ہے۔ 724 ہجری سے 782 ہجری تک آپ خلق خدا کو دینی و روحانی تعلیم و تربیت سے آراستہ فرماتے رہے۔ یہ تقریباً نصف صدی کی مدت ہے۔ آپ کے متوسلین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ آپ کے دست مبارک پر ایمان لانے والوں کی تعداد بہت بڑی ہے۔


علم حدیث

یہ ایک عام رجحان ہے کہ صوفیاء کرام علم حدیث میں بہت زیادہ قوی نہیں رہے ہیں۔ یا پھر ذکر و اذکار کی مشغولیت انہیں کتابوں کی طرف بہت زیادہ مراجعت سے مانع رہی ہے۔ لیکن شیخ احمد شرف الدین یحییٰ منیری کا حال الگ تھا۔ علم حدیث میں آپ ید طولی رکھتے تھے۔ علم حدیث کے مختلف علوم سے گہری واقفیت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے مخطوطات میں جا بجا احادیث کا ذکر ملتا ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق نے اپنی کتاب India'contribution to the hadith literature میں لکھتے ہیں کہ آپ کے خطوط میں جا بجا صحیحین، ابو یعلیٰ، شرح المصابیح اور مشارق الانوار کے حوالے درج ہیں۔ بعض خطوط میں آپ نے علم حدیث کے دیگر فنون پر طویل بحثیں رقم کی ہیں۔ یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ آپ کے پاس مسلم شریف کا نسخہ موجود تھا۔ آپ قرآن و حدیث کی متصوفانہ تعلیم پر سند کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو صرف بہار ہی نہیں بلکہ پورے ملک ہندوستان میں بخاری شریف و مسلم شریف کی تعلیم کا آغاز آپ کی ذات گرامی سے ہوا ہے۔ بعد کے زمانے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعہ صحیحین سمیت صحاح ستہ کی تعلیم کو بر صغیر میں فروغ ملا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے قیام کے بعد امام محمد قاسم نانوتوی اور آپ کے رفیق خاص قطب عالم مولانا رشید احمد گنگوہی نے اس کام کو مزید تقویت بخشی ہے۔

علم حدیث میں شیخ احمد شرف الدین یحییٰ منیری کو سلطان الاولیاء شیخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ پر تقدم اور برتری حاصل ہے۔


مکتوبات شیخ منیری

ہندوستان میں جن دو اشخاص کے خطوط کو قبولیت عامہ حاصل ہے ان میں ایک تو شیخ منیری کی ذات گرامی ہے اور دوسرے شیخ مجدد الف ثانی کے مکتوبات ہیں۔ شیخ منیری کے مکتوبات کے متعلق مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ دعوت وعزیمت میں لکھتے ہیں کہ انسان کے مقام اور مرتبہ قلب انسانی کی وسعت و رفعت، انسان کی صلاحیتوں، اس کی ترقی کے امکانات اور محبت کی قدر و قیمت کے متعلق لکھا گیا ہے۔ اس موضوع پر نظم میں حکیم سنائی، فرید الدین عطار، مولانا روم نے بہت کچھ فرمایا ہے لیکن نثر میں مخدوم الملک بہاری شیخ احمد شرف الدین یحییٰ منیری کے مکتوبات سے زیادہ موثر طاقتور اور بلیغ تحریر نظر سے نہیں گزری ہے۔

آپ کے مکتوبات کا بڑا حصہ آج بھی موجود ہے، فضل وکمال کے متلاشی آج بھی ان کے قلم سے نکلے یاقوت و جواہر سے متمتع ہوتے ہیں۔


سفر آخرت

وفات نامہ میں آپ کے مرید شیخ زید بدر عربی لکھتے ہیں کہ پیراہن جسم مبارک سے اتار کر وضو کیلئے پانی طلب فرمایا، آستین چڑھا کر مسواک مانگی اور بآواز بلند بسم اللہ کہہ کر وضو شروع کیا، آپ ہر محل اور ہر فعل پر ادعیہ معمولہ پڑھتے جاتے تھے، دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے مگر منھ دھونا سہو ہوگیا، شیخ خلیل نے یاد دلایا، آپ نے از سر نو وضو شروع کیا، تسمیہ بآواز بلند اور ادعیہ معمولہ پڑھتے رہے، حاضرین تعجب کرتے تھے کہ اس حال میں بھی سنت کی ادائیگی کا یہ حال ہے، قاضی زاہد نے داہنا پیر دھونے میں ہاتھ بڑھا کر مدد کرنا چاہی، تو آپ نے فرمایا ٹھہرو اور خود مکمل وضو کیا، پھر کنگھی طلب کی، داڑھی میں شانہ کیا، مصلی طلب کیا اور دو رکعت نماز ادا کی۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب آپ کی عمر ایک سو اکیس سال تھی، ضعف و نقاہت آخری حد کو پہنچ گئے تھے۔ بالآخر شب پنجشنبہ 6 شوال 782 ہجری کو آپ معبود حقیقی کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔ آپ کی نماز جنازہ وصیت کے مطابق شیخ اشرف جہانگیر سمنانی نے پڑھائی۔

قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ جس نے ہندوستان میں علم حدیث میں صحیحین کا آغاز کیا، جس کے علومِ قرآنیہ کے قائل وقت کے کبار علماء رہے ہیں اور جن کے مکتوبات آج بھی خلق خدا کو راہ راست پر لانے کیلئے کافی و شافی ہے۔ لیکن اب ان کی تعلیمات اور ان کے تبرکات بعد والوں کی سست روی کی وجہ سے بہت حد تک دھندلے پڑتے جارہے ہیں۔ کیا بعید ہے کہ کوئی دیوانہ آج پھر سے ان کی تعلیمات کو مشعل راہ بنا کر راجگیر کے جنگلات کے اطراف میں پھیلے شرک و بدعات کی رسومات کو جڑ سے ختم کر دیں۔ اور پھر سے پورے علاقے اور پورے ملک میں ان کے فیوض و برکات دیکھنے کو مل جائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی