دوننّھے مجاہد صحابی رضی اللہ عنہما
جب آنحضرت نبی کریم (ﷺ) نے صحابۂ کرام اوردیگر ساتھیوں کا قافلہ جنگ کے لیے تیار کیا توا ن لوگوں کے جوش وخرو ش کودیکھتے ہوئے دوبھائی معوذ اورمعاذ بہت متاثر ہوئے اورآنحضرت (ﷺ) کی خدمت میںحاضر ہو کر اس قافلے میں شرکت کی اجازت چاہی ۔حضور (ﷺ) نے اُن بچوں کو پیا ر کیا اورکہا کہ تم ابھی چھوٹے ہو۔جنگ کی تباہ کاریاں کیاجانو!لیکن بچوں میں جوشِ ایمان اس قدر ٹھاٹھیںمار رہا تھا کہ وہ بضد رہے اورحضور(ﷺ) کے قدموں پر گِر کرآپ (ﷺ )کواس بات پر رضامند کرلیا کہ وہ بھی جنگ میں جائیں گے۔
میدانِ بدر میں جب حق وباطل کے درمیان میدانِ کارِزار گرم ہُوا۔تومعُوذ اورمعاذ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف (ص) سے پوچھا کہ ذرا بتانا توسہی وُہ ابوجہل کہاں ہے جو ہمارے آقا و والی حضور سرورَ کائنات (ﷺ) کو اپنا دشمن سمجھتا ہے ۔انہیں بتایا گیا تووُہ بچّے اپنے آقا (ﷺ)کی لگن اورتڑپ لے کر اوراپنے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کرکے اس کافر کی طرف لپکے اورایک ہی وار سے اس قَوِیُّ الْجُثَّہ ظالِم کاکام تمام کردیا ۔میدان میں نعرئہ تکبیر کی صدائیں گونج اٹھیں اور لوگ ان دو بھائیوں کی بہادری اورجرأت کودیکھ کر داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔کسی نے پوچھا کہ تم نے کِس خیال میں اس کوقتل کیا ہے وہ بولے کہ ؎
قسم کھائی تھی مرجائیں گے یاماریں گے ناری کو
سُنا ہے گالیاں دیتا ہے وہ محبوب ِ باری کو