آمنہ رملیہ رضی اللہ عنہا
اسلام میں اگرچہ ایسی صدہا خواتین پیداہوئیں جنھوں نے نورنبوت سے منور ہوہوکر سارے عالم کواپنی علمی اورعملی کرنوں سے جگمگایا اورچمکایا جن کا زیادہ تر حصّہ عہد مبارک نبی اسلام کے دور اوّلیں میں گذرا۔جس حصّے نے خود چشمۂ رسالت سے فیض حاصل کیا جو پھر آسمان عروج وکمال پرمہروماہ بن کر چمکا۔اس پر مسلمان جس قدر فخر کریں وہ کم اوربالکل کم ہے ۔لیکن الحمدللہ کہ اسلام کے لانے والے ہمارے آقا ومولا ہمارے ہادی ورہنما محمد رسول اللہ(ﷺ) نے علم وعمل ہدایت ومعرفت کاوہ نشہ اپنے پیروکاروں میں نہیں چھوڑا تھا ۔جونعوذ باللہ صدی دوصدی میں ختم ہوکر نقش برآب ثابت ہوتا بلکہ وہ دائمی اثر چھوڑا جس سے متاثر ہو کر ساری کائنات کیلئے شراب حقیقت کے ساقی بنیں گے اورنہ معلوم اس کی روشنی سے روشن ہو کر کتنوں کوروشن اورتابناک بنائیں گے۔ انہی وابستگان اسلام سے ایمان اورعلم وعمل کی ایک حقیقی تصویر حضرت آمنہ رملیہ( رحمۃاللہ علیہا) بھی تھیں جنہوں نے اپنی زندگی اوراپنی قابل فخر سیرت سے دنیا کودکھا دیا کہ معمولی حیثیت کی عورت بھی اللہ کی راہ میں محبت اورمجاہدہ کے بعد کس مرتبہ پر پہنچ سکتی ہے۔عروج وترقیاں اورفضائل ومراتب کس طرح ان کے قدموں پرگرتے ہیں۔
پیدائش
دوسری صدی ہجری میں جب کہ ایک عالم میں اسلامی علوم وفنون کی نہریں بہہ رہیں تھیں اورربع ملکوں کاایک کثیر حصّہ اس سے سیراب ہورہاتھا ۔ رملہ نامی ایک مقام میں جوبغداد کے نواح میں واقع تھا ۔تقریباً ۱۶۳ھ میں یہ پیداہوئیں۔ والدین غریب تھے اورنہایت ہی غریب اوراس قدر معمولی حیثیت کے آدمی کہ بالکل غیر معروف اورنامعلوم بچپن کی ابتدائی منزلیں گھر ہی میں گزریں ۔جب ذرا بڑی ہوئیں تو اپنی والدہ کے ساتھ مکہ مکرمہ حج کے سلسلہ میں گئیں ۔مکہ مکرمہ اس وقت علم وعمل کا مرکز اوراسلامی جواہرات کاخزانہ تھا ۔مگر تاہم بہت سے کبار تابعین اب بھی تشریف فرما تھے جن کا علمی بازار اپنی پوری سرگرمی اوراپنے پورے شباب پرتھا ۔آپ ابتدا ہی سے نہایت ذہین اورذکی تھیں اورعلم کی طالبہ اورشوق رکھنے والی تھیں ۔اُ س زمانہ میں
خواتین بھی اسی طرح علم سیکھتیں جس طرح مرد سیکھتے ۔البتہ عورتیں پردہ میں بیٹھ کر علم حاصل کرتیں ۔مسجد حرام میںایک بزرگ تابعی کے حلقۂ درس میں داخل ہوگئیں اورایک عرصہ تک علم قرآنی سے مالا مال ہوتی رہیں جب ان کا انتقال ہوگیا تو مدینہ منورہ تشریف لائیں ۔یہ زمانہ حضرت امام مالک (رحمۃ اللہ علیہ) کاتھا اوراس زمانہ میں ان کے علم اوراجتہاد کاطوطی بول رہا تھا ۔ایک مدت تک آپ نے ان کی خدمت میںحاضر ہو کر علم حدیث حاصل کیا اوربہت سی روایات کوزبانی حفظ کرلیا۔حافظ ابن عبداللہ نے ان کی زبانی روایات کا اندازہ سولگا یا ہے۔غرض یہ کہ ایک زمانہ تک اسی طرح علم حدیث حاصل کرتی رہیں جب آپ کواس میں کما ل حاصل ہوگیا توعلم فقہ کی تحصیل کاذوق پیدا ہواچنانچہ اس زمانہ کے سب سے مشہور عالم و فقیہ امام حضرت امام شافعی( رحمۃاللہ علیہ) کی خدمت میں۱۹۹ھ میںمکہ مکرمہ آئیں اورتھوڑے دن رہ کر اپنی اس تشنگی کوبھی بجھایا پھر جب امام صاحب مذکور مصر چلے گئے توآپ کوفہ آئیں۔یہاں علوم شرعیہ کے کئی جاننے والے موجودتھے ان سے استفادہ کیا اورایک طویل مدت کے بعد واصلۂ وطن ہوگئیں ۔اس وقت آپ علوم شریعہ کی ان قابل فخر عالم خواتین سے تھیں کہ عالم نسواں کو چھوڑئیے مردوں کے گروہ کے گروہ آپ سے علم سیکھنے کی درخواست کرتے اورفخر کرتے کہ ہم میں وہ خاتون پیدا ہوئیں کہ علوم کا سرچشمہ اورحقیقت و معرفت کا نمونہ ہے۔آپ کی زندگی کا یہ وہ کامیاب اورمبارک کارنامہ ہے جو سارے عالم کی عورتوں کے لئے عموماً اورمسلمان عورتوں کے لئے خصوصاً قابل تقلید اورقابل عمل نمونہ ہے یعنی ایک کمزور اورضعیف خلقت سے تعلق رکھنے کے باوجود کس طرح علم سیکھا اوراس کی طلب وجستجو میں کس طرح صرف کئے ؟پھر علم وعلماء کے اس درجہ پر آپ پہنچ گئیں۔یہ تمام واقعات اپنے اندر کافی عبرت اور بصیرت کے سامان رکھتے ہیںاور خواتین کواب بھی پکار پکار کر علم ِدین کی دعوت دے رہے ہیں۔
اصلاح باطن کی فکر
آپ ان برگزیدہ خواتین میں سے تھیںجن کا اصول تھا کہ علم عمل کے لئے ہے نہ کہ علم، علم کے لئے ۔جس طرح کسان کھیتی کرتا ہے ،جوتا ہے بوتا ہے نگرانی کرتا ہے،پانی دیتا ہے اوردن
رات محنت مشقت کرتا ہے۔اس سے اس کا مطلب صرف درخت اگانا اورہری بھری کھیتی کرلینا نہیں ہوتاہے بلکہ ان تمام محنت اورکاوشوں کا مفہوم غلّہ بھرنا ہواکرتا ہے۔تاکہ اس سے انسان اورحیوان کارزق مہیا ہو اور اس کی محنت سُپھل ہو ۔لیکن کوئی شخص درخت اُگنے اورسبزی ہی کو اصل مقصد قرا رد ے تو یقینا تحصیل رزق کے لحاظ سے اس کی ساری محنت رائیگاں اورفضول ہے۔یہی حال علم کا ہے علم کاتنہا مقصد یہ ہے کہ اس سے انسان انسان بن سکے اورعمل کی صلاحیت پیداہوسکے اورجس قدر کام کئے جائیں وہ علم کی روشنی میں کئے جائیں۔تاکہ صحیح اوردرست ہوسکیں۔لیکن اگر کوئی علم کو علم ہی کے لئے سیکھے اورعمل نہ کرے تویقینا یہ علم بے کار اوربے فائدہ ہے۔
آپ اس زرّیں اصول کے تحت تحصیل علم کے بعد تکمیل علم کو کوشاں ہوئیں۔بغدا د اس زمانے میں دارالخلافہ تھا بڑے بڑے علماء وفضلاء اوراہل وطن حضرات کا مرکز تھا ۔۲۰۹ھ میں آپ نے بغداد کا سفر کیا اورایک کامل درویش سے ملاقات ہوئی ۔دل باغ باغ ہوا،تھوڑے ہی دنوں کی تعلیمات نے وہ اثر کیا کہ وہ سار اعلم ظاہری علم باطن میں تبدیل ہوگیااوراب آپ کی اور ہی حالت ہو گئی۔
عبادت و مجاہدہ
کہاں آپ کو اپنے علم پر غرور تھا کہاں اب عاجزی وانکساری کہا ںوہ حالت تھی کہ ہر وقت اپنے علم کے چرچے اور تذکرے اور کہاں اب گریہ وزاری ،عبادتیں کرتیں تو معلوم ہوتا کہ ایک ستون کھڑا ہے ،سجدہ کرتیں تو معلوم ہوتا کہ ایک پتھر پڑا ہے عرصۂ دراز تک یہ حالت رہی ۔رفتہ رفتہ دور ونزدیک آپ کے چرچے ہونے لگے۔اوربڑے بڑے بزرگ آپ کی زیارت کو آنے لگے ۔مگر آپ خفا ہوتیں اورکہہ دیا کرتیںمیں تو ایک گنہگار بندی ہوں۔مجھ کو تو کچھ بھی نہیں آتا۔ایک عرصہ تک آپ کی یہی حالت رہی۔سات حج پید ل کئے اورسار امال واسباب اللہ کی راہ میں دے ڈالا۔سال کے اکثر حصّہ میں روزہ رکھتیں اوردن رات کے اکثر حصّہ میں نمازیں پڑھتیں۔ ایک بار حضرت بشر جو کہ اپنے زمانے کے مشہور اہل دل بزرگوں میں سے تھے تشریف لائے آپ نے ان کی بڑی خاطر وآؤبھگت کی ۔رات کو جب سونے لگیں تو فرمایا کہ اے
بشر!میں سوتی ہوں مگر دل نہیں سوتا ۔حضرت بشر فرماتے ہیں کہ میں آپ کی عبادت کو دیکھنے کے لئے بظاہر سوگیا مگر درحقیت جاگ رہا تھا کیا دیکھتا ہوں کہ نصف رات جب ہوگئی تو اٹھیں اوروضو کیا اوران پیارے الفاظ میں رات کے سناٹے میں دعائیںمانگیں:’’اے سارے عالم کے پیدا کرنے والے!تیری نعمتیں بے شمار ہیں مگر کس قدر ظالم ہیں وہ جوان کی قدر نہیں کرتے ،توکس قدر رحم کرنے والا ہے! مگر کیسے نادان ہیں جو ان سے غافل ہیں،توکتنا محبت کرنے والا ہے ! مگر دنیا تجھ کو بھولی ہوئی ہے،ساری کائنات سے زیادہ محبوب ! میری عزت تیرے ہی ہاتھ میں ہے،خداوندا !قیامت میں مجھے سب کے سامنے رسوا نہ کرنا ،کہ اگر ایسا کیا تو لوگ یہی کہیں گے ،خدا نے اپنی محبت کرنے والی بندی کو رسواکیا ،اے محبوب ! کیاتوا س کو گوارا کرے گا ،جان لے !اگر تونے اس کو گوارا کیا تو میں اس کوہرگز ہرگز گوارا نہ کروں گی کہ لوگ تجھے الزام دیں۔‘‘(مصباح السلوک ،ج۲)
حضرت بشر فرماتے ہیں کہ اس کے بعد آپ نے نماز شروع کی۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی انتہائی مجرم کسی انتہائی پُررعب وجلال حاکم کے سامنے کھڑا ہے جب رکوع میں جاتیں تومعلوم ہوتا کہ کسی گم شدہ چیز کی تلاش میں جارہی ہیں یاکسی حاکم اعلیٰ کے سامنے اپنے جرموں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنا سر اور اس کے ساتھ ساراجسم جھکا دیا اورحضرت بشر کہتے ہیں آپ رکوع وسجود میں مصروف تھیں اورآنکھیں اشک ریزی میں منہمک اورآنسوئوں کا یہ حال کہ آنکھوں سے بہہ بہہ کر کپڑے اورزمین کو ترکر رہے ہیں ۔
آپ کا یہ طریقہ روزانہ کا تھا اورصبح تک یہی حالت جاری رہتی ۔اِدھر سے گریہ وزاری ،دعا ، مناجات ،عبادت وریاضت،عشق ومحبت اوراُدھر سے رحمت ومغفرت ،نعمت وبرکت،رضاو خوشنودی اورقبول اجابت۔ (طبقات الصالحات)
تقویٰ اوربے رغبتی
یہ تو ان کی عبادت اورتوجہ الی اللہ کا مرتبہ تھا ،دنیا طلبی اورمال ودولت انسان کی آزمائش کے لئے بڑی چیزیں ہیںاور بڑے بڑے لوگ بعض اوقات اس میں مبتلا ہو کر اپنا بہت کچھ کھودیا کرتے ہیں۔ایک بار ایسا ہی موقع آپ پر بھی پڑا ۔کسی امیر نے جب آپ کی ریاضت وتقویٰ
کاحال سنا تو اس نے دس ہزار اشرفیاں نذرکرناچاہیں۔آپ نے ان کولینے سے انکار کردیا پھر اس نے اصرار کیا آپ نے پھرانکار کیا ،پھر اس نے لینے کو کہا اس بار آپ نے لے لیں،لیکن اسی وقت عام منادی کرادی کہ جس کسی کو جس قدر روپے کی ضرورت ہو مجھ سے آکر لے جائو ۔چنانچہ تقسیم کاسلسلہ شروع ہوا شام ہوتے ہوتے گھر میں ایک پیسہ بھی نہ بچا ۔حالانکہ اس دن آپ کے ہاں فاقہ تھا…یہ تھی آپ کی دنیا سے بے رغبتی اوریہ تھا آپ کا توکل اورآپ کادستورتھا کہ کسی کے ہاں کاکھانا نہ کھاتیں کہ مبادہ اس میںمال حرام یالقمۂ مشتبہ کا جزشامل ہو۔ اِلَّایہ کہ کسی کی حالت معلوم ہوتی کہ یہ متقی اورپرہیزگار ہے اس کے ہاں سے کھاناکھانے کاپرہیز نہ فرماتیں۔(طبقات الصالحات،تذکرہ رملیہ)
ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کی کہ یا حضرت! کچھ نصیحت فرمائیے۔آپ نے جن قیمتی خیالات کا ،جس حکیمانہ انداز میں اظہا رکیا وہ ہمیشہ سونے کے حروف سے لکھے جانے کے لائق ہے ۔آپ نے فرمایا:ان کان اللّٰہ قد تکفل بالرزق فاھتما مک لماذا ؟ وان کان الخلف علی اللّٰہ حقًا فًا لبخل لماذا؟ وان کانت الجنۃ حقًا فالراحۃ لماذا؟وان کان النّار حقًا فالمعصیۃ لماذا؟وان کان کل شئی بقضا وقدر فالخوف لماذا؟ترجمہ:اگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے رزق کی ذمّہ داری لی ہے توپھر تیرا تفکر کس لئے ہے؟ اوراگر ہر چیز کے بعد اس کی قائم مقامی حق ہے تو بخل کیوں ہے؟اوراگر جنت حق ہے توراحت کیوں ہے؟اوراگر دوزخ سچ ہے توگناہ کیسا؟اوراگر ہر چیز قضا وقدر سے ہے تو پھر ڈر کس کا ؟‘‘
کمال فضیلت
آپ کامرتبہ نہایت ہی بلند اوردرجہ نہایت ہی اونچا تھاحتٰی کے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ جیسے پایہ کے بزرگ جو چوتھے مصلیٰ کے امام اورامام شافعی کے شاگرد ہیں۔آپ کے استاد امام شافعی آپ کے متعلق فرماتے ہیں کہ گو میں بغداد سے مصرآگیا مگر بغداد میں احمد بن حنبل (رحمۃ اللہ علیہ) سے زیادہ متقی اورعالم کسی اور کو نہیں چھوڑا۔(ادبیات اللغۃ العربیہ جلدا ول :ص۷۹ ،تذکرہ احمد حنبل رحمتہ اللہ علیہ)
وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے ،ایک بار آپ بیمار ہوئیں حضرت بشررحمۃ اللہ علیہ
اورامام احمدرحمۃ اللہ علیہ آپ کو دیکھنے آئے ۔امام صاحب نے فرمایا اے بشر! میرے لئے دعا کرادیجئے۔انہو ں نے حضرت رملیہ سے عرض کیا کہ امام دعا کرانا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اے اللہ! بشر اوراحمد تیری دوزخ سے پناہ چاہتے ہیں توان کو اس سے محفوظ رکھنا۔حضرت امام احمد خود فرماتے ہیں کہ اسی رات کو آسمان سے ایک پرچہ گرا جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد لکھا تھا ’’ہم نے قبول کیا اورہمارے پاس بہت سی نعمتیں ہیں‘‘۔اللہ اللہ کیا مرتبہ تھا اورکیابزرگی ۔
نتیجہ
ان تمام واقعات سے عبرت لینا چاہئے ایک معمولی لڑکی کو آخر اس قدر مرتبہ کیوں عطا ہوا ۔ امام احمد جیسے بزرگ ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔اوردعا کی درخواست کرتے اورپھر قبول ہوتی تواس طرح کہ کرامت سے بڑھ کر کر امت ہوئی !بزرگی سے بڑھ کر بزرگی ہوئی!لاریب یہ سب مراتب اوریہ سب درجات اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری اوراس سے محبت کی وجہ سے ہیں۔اب بھی راستہ کھلا ہے اللہ تعالیٰ اپنی طرف بلارہا ہے یہ اور اس قسم کے صدہا مراتب انتظار میں ہیں۔