حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بنت یزید
آفتاب نبوت اپنی پوری تابانی کے ساتھ سارے عالم کوجگمگا کر غروب ہوچکاہے۔اس آفتاب سے سب سے زیادہ روشنی حاصل کرنے والے سیدناحضرت ابوبکر صدیق صکاعہد خلافت ہے۔شوریدہ پشتوں نے آفتاب نبوت کے غروب ہوتے ہی ہر طرف سے سربلند کرنا شروع کردیا ہے کوئی زکوٰۃ کوروکنے کی انتہائی کوشش کررہا ہے کسی نے ارتداد کا فتنہ کھڑا کردیا ہے اورمسیلمہ کذّاب وغیرہ مدعیان نبوت نے اسلام کے خلاف اپنا باقاعدہ محاذ جنگ قائم کر رکھا ہے ۔غرض بڑا بُرا وقت ہے اورانتہائی آزمائش اورامتحان کا زمانہ ہے۔
ادھر اسلام کے سچے فدائی اورایمان کے حقیقی شیدائی کفر اور اس کو پوری طاقتوں کااپنی انتہائی قوتوں سے مقابلہ کرنے میںمصروف ہیں ۔مرد تومرد بچے اورعورتیں بھی دن رات یہی دعائیں کرتے ہیں کہ ’’خداوندا!اپنے پیارے اسلام کی کوئی حقیر خدمت ہم نااہلوں سے بھی لے اورہم کو بھی موقع عنایت فرما کہ ہم بھی تیرے پیارے دین پر پروانہ وار قربان ہو کر ابدی اوردائمی زندگی حاصل کریں ، کیونکہ تونے فرمایا ہے: وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ
اَحْیَآء ٌوَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ْ اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں۔ (پارہ۲،سورۃالبقرۃ ، آیت۱۵۴)
غرض یہ کہ فدائیت اورقربانی کا عجیب عالم ہے بچے مسجد نبوی ﷺ میں جا جا کر تنہائی میں اپنے بھولے بھالے دلوں سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں۔اس حالت میں کبھی اپنی پیشانی رگڑتے ہیں اورکبھی جھکتے ہیں اورکبھی ننھے ننھے ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کر آنکھوں میں آنسو بھرلاتے ہیں اوراپنے مالک
اورخالق عزوجل سے خوب خوب ضدیں کرتے ہیں ۔قدرت ان کے جوش وخروش دیکھ کر صرف مسکرادیتی ہے۔
عورتیں ہیں کہ وہ اسلام کی محبت میں گھلی جارہی ہیں بس ہر ایک کی یہی خواہش ہے کہ بارگاہِ خلافت کی طرف سے حکم ِجہاد ہو اوریہ فوراً چل کھڑی ہو ں ۔ان میں سب سے زیادہ جن کو جہاد کا شوق تھا اورجو ہر وقت ا س کے لیے بے چین اوربے قرار نظر آتی تھیں حضرت اسماء بنت یزیدرضی اﷲعنہاتھیں ۔آپ یوں تو ہر قسم کے اخلاق اورفضائل سے آراستہ تھیںاوربہترین صفات کی مالکہ تھیںلیکن سب سے زیادہ چیز جو آپ میں نمایاں تھی وہ آپ کی شجاعت وبہادری تھی ان کی باطنی خوبیوں کے ساتھ قدرت نے ظاہری خوبیوں سے بھی خوب خوب نوازاتھا ۔قد لانبا ،جسم سڈول اس پر لمبے لمبے سیاہ بال پڑے ہوئے،پھر چہرے کی خوبصورتی اورنورانیت اورقدرتی رعب وجلال ،ان سب چیزوں نے فطرتاً آپ کو اس قدر بارعب اورباعظمت بنادیا تھا کہ عورتیں توعورتیں مرد اوربڑے بڑے بہادر آپ کے نام سے لرزتے تھے۔
رات کا وقت تھا ،آسمان پر تارے بکھرے ہوئے تھے۔سارا سنسار نیند کی گود میں مستِ راحت تھا اورفضا میں عجیب سکوت اورخاموشی چھائی ہوئی تھی اسلام کی یہ شیرنی اٹھتی ہے ،سنّتِ نبوی (ﷺ) کی پیروی میں سورئہ آل عمران کے آخری رکوع :اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَاب ْ الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذا بَاطِلًا
سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ْ رَبَّنَآ اِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْاَخْزَیْتَہٗ وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَار ْ رَّبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ ْ رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ْ ’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم بدلیوں میں نشانیاں ہیں عقلمندوں کے لئے ۔جو اللہ کی یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں اے رب ہمارے تو نے یہ بیکار نہ بنایا پاکی ہے تجھے تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے ۔اے رب ہمارے بے شک جسے تو دوزخ میں لے جائے اُسے ضرور تو نے رسوائی دی اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔اے رب ہمارے ہم نے ایک منادی کو سنا کہ ایمان کے لئے ندا فرماتا ہے کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لائے اے رب ہمارے توہمارے گناہ بخش دے اور ہماری برائیاں محو فرمادے اور ہماری موت اَچُّھوں کے ساتھ کر ۔اے رب ہمارے اور ہمیں دے وہ جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے اپنے رسولوںکی معرفت اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر بے شک تو وعدہ خلاف نہیں کرتا ۔‘ ‘ (پارہ۴،سورۃاٰل عمران،آیت۱۹۴۔۱۹۰)تک آیا ت نہایت خضو ع وخشوع کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھ کر تلاوت کرتی ہے،وضو کرتی ہے اوراس خاموش اورپُر فضا عالم میںکسی کی یاد میں مست اورکسی کی تسبیح وتہلیل میں مشغول ہوجاتی ہیں۔اس وقت ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے اورکسی کی آواز نہیں آتی ۔ہاں کسی کسی وقت سسکیوں کے ساتھ ایک چٹائی پر سے یہ آواز ضرور آجاتی ہے۔
اے خالق اے مالک اوراے سارے جہان کے پالنہار !اسلام پر بڑا ہی سخت دور آگیا ہے اس موقع پر اگر تونے اپنے پیارے دین اوراپنے پیارے محبوب مسلمانوںکو مددنہ کی توپھر تیرا نام لینے والا قیامت تک کوئی نہ ہوگا ۔ میرے مولا!کیا اپنی اس حقیر ترین اورگنہگار بندی سے بھی کوئی خدمت لی جائے گی ؟ جب کہ سارے نوجوان اس قت تیرے نام پر فدا اورقربان ؎
ہرگزنمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت ست برجریدئہ عالم دوام ما
کاعملی ثبوت اورروحانی درس دے رہی ہیں ۔آقا میرے پیارے آقا! مجھے بھی کوئی ایسا موقع دے کہ میں تیرے پیارے اسلام کی حفاظت میں اپنے جسم کے ریزے ریزے کراسکوںیاپھر ایسی فتح پائوں کہ جو ایک زمانہ کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہو۔…مولا میرے مولا … ایک موقع ضرور عنایت فرما…ابھی یہ جملہ ختم بھی نہ ہونے پایا تھا کہ آنکھوں سے آنسوئوں کاسمندراُبلنے لگتا ہے اورہچکیاں بندھ جاتی ہیں …کچھ دنوں کے بعد یہ دعا لفظ بلفظ مقبول ہوتی ہے۔
شام کاوقت ہے ،سورج اپنی سُنہری کرنوں سے کائنا ت کے ذرہ ذرہ کوچمکار ہا ہے اورایسا معلوم ہورہا ہے کہ قدرت نے ساری چیزوں کو سونے کی قبائیں اُڑھادی ہیں ۔ہوا ذرا تیزی کے ساتھ چل رہی ہے اسی میں بہت بلندی پر ایک سبز رنگ کاپھریر ااڑتا ہوا نظر آرہا ہے جس پر ہلالی شکل کاایک دائرہ بنا ہوا ہے اوراس کے بیچ میں نہایت ہی جلی حروف میں لَآاِلہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہٗ واشھداَنَّ محمد اً عبدہ ورسولہلکھا ہوا ہے۔ اسی جھنڈے کے پیچھے ایک عظیم الشان لشکر ایک ترتیب کے ساتھ ایک خاص ولولہ اورایک خاص جذبہ کے تحت نہایت تیزی کے ساتھ بڑھتا ہوا چلاآرہا ہے ۔پہاڑیوں کے نشیب وفراز میں اس متوالے لشکر کاچڑھنا اوراترنا کچھ عجب بہار دکھا رہا ہے اس لشکر کے وسط میں اونٹوں پر بڑے بڑے سیاہ غلافوں سے ملفوف کچھ محمل بھی نظر آرہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر کچھ عورتیں بھی ہیں اوروہ بھی لڑنے جارہی ہیں۔
یرموک کامیدان خونخوار ی کاخوفناک منظر دیکھنے کے لئے تڑپ رہا ہے ۔ ایک طرف اسلامیوں کی فوجیں اپنے خیمے لگائے پڑی ہیں اوردوسری طرف رومی جواُن سے تعداد میں کہیں بڑھ کر اورآلات واسلحہ میں کہیں زیادہ آراستہ وپیراستہ نہایت شان وشوکت کے ساتھ خیمہ زن ہیں۔
ظہر کی نماز کے بعد اس طرف سے اللہ اکبر کی آوازیں اورفریق مخالف کی جانب سے ناقوس اورگھنٹوں کی صدائیں آنا شروع ہوگئیں جس کے صاف معنے یہ تھے کہ جنگ کے لئے تیار
ہوجائو ۔ادھر قاریوں کی خوش الحان آوازیں آیات جہاد کی تلاوت میں مصروف اوراُدھر پادری اورمذہبی رہنما مذہب کی قسم دُھرا دُھرا کر نوجوانوں کواُبھار رہے تھے۔اِس طرح صرف تیس ہزار نہتے مسلمان محض اپنے مالک کے بھروسے پر حکم جنگ کاانتظار کررہے تھے اور اُدھر ایک لاکھ سے بھی زائد جنگجو سپاہی آلات حرب میں ڈوبے ہوئے نوجوان اپنی کثرت اورطاقت پراکڑ رہے تھے غرض کہ آج چیونٹی اورہاتھی کا مقابلہ تھا مگر چیونٹی بھی تھی تو کس کی ؟ اورکس مقصد کے لئے آئی تھی؟
غرض کہ جوں جوں وقت گذرتا جاتاتھا جانبین میں ایک اضطرابی کیفیت طاری ہوتی جاتی تھی ۔خیر اللہ اللہ کرکے انتظار ختم ہواا ورلڑائی کاحکم تکبیر کے فلک
شگاف نعروں میں ملاجس سے دشت وجبل دہل گئے لیکن نتیجہ ظاہر تھا پہلے ہی مسلمان پسپا ہو کر پیچھے ہٹ گئے اوررومیؔ مسلمان عورتوں تک پہنچ گئے ۔یہ دیکھ کر اسلام کی شیرنی کوتابِ ضبط نہ رہی اورغصّہ کے مارے سراپا آگ نظر آنے لگی ۔ اسی وقت اس نے اپنی بہنوں کومخاطب کرکے ایک مختصر سی تقریرکی جس کے بعض الفاظ یہ ہیں :’’بہنو!اللہ نے ہمیں اسلام دیا ہم پھر ے نہیں ہم کو قرآن دیا ہم نے اس سے منہ نہیں موڑا ۔اب وقت آگیاہے اس پر عمل کا۔کیا ہم اس سے روگرداں ہوجائیں گے؟آوازیںآئیں نہیں ایسا ہر گزنہیں ہوسکتا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر اسماء رضی اﷲعنہا خیمہ کی میخ اُکھاڑ کر مسلح اورفوجی افسروں پرجھپٹ پڑتی ہیں اورشجاعت اوربہادری کی وہ مثالیں پیش کرتی ہیں کہ جس سے دنیا آج بھی حیران اورششدر ہے یعنی ایک آن کی آن میں اس اسلام کی شیرنی نے نوبہادر رومیوں کوخاک وخون میں تڑپادیا ۔اسلام کی باعزت فوج نے جب یہ منظر دیکھا تو عرقِ ندامت میں ڈوب گئی اورفوراً ہی اس نے قسم کھا کر ایسا حملہ کیا کہ رومی بُری طرح شکست یا ب ہوئے۔
اسلامی فوج میں آج شادیانے بج رہے ہیں اورہر شخص خوشی اور مسّرت کامجسمہ نظر آرہا ہے لیکن سب سے زیادہ جس کو خوشی ہے وہ کوئی جوانمرد مجاہد نہیں بلکہ نخیف اورناز ک مجاہدہ ہے جس کانام اسماء بنت یزیدرضی اﷲعنہاہے کیونکہ اس نے آج وہ کام کیا ہے جس پر فرش سے لے کر عرش تک کی مخلوق مرحبا اورصلّ علیٰ کے ترانے گارہی ہے اوراسی خوشی میں ساری کائنات اپنے خالق
عزوجل کی حمدوثنا میں مصروف اور اس کے سجدئہ شکر میں مشغول ہے!!
کاش پھر کوئی شیرنی پیدا ہوتی جوباطل کامقابلہ کرکے حق کوفتح یاب کرتی۔