حضرت اُمِّ ابان رضی اللہ عنہا
وہ تھی کتنی خوبصورت اسے جو ایک نظر دیکھ لیتا دیوانہ ہو جا تا ۔قیا مت خیز حسن خداعزوجل نے اسے بخشا تھا ۔اس کے گال شفق کی سر خی چرا کر لے آئے تھے اور رنگ تو میدہ و گلاب سے گندھا معلوم ہو تا تھا ۔پو رے گا ئو ںمیںاس جیسا اور کوئی نہ تھا ۔باپ معمولی سے زمیندار تھے مگر ایمان کی دو لت سے ایسے مالا مال تھے کہ لوگ ان پرر شک کرتے تھے ۔
چھوٹا سا گائوں تھا وہ ہرنی کی طرح کلیلیں کرتی پھر تی تھی کبھی گائوںک ے اس سرے پر موجود ہے تو تھوڑی ہی دیر بعدوہ گائوںکے دوسرے سرے پر موجود ہوتی ۔ حسن شو خی کے سا تھ ساتھ فطرت میں نیکی بھی تھی ۔گائوں کے چھو ٹے بڑے اسے پسند کر تے تھے اور جو گبھرو جوان تھے ان کا بس نہیںچلتا تھا کہ وہ اس دُرّ بے بہا کو لے کر پلکوں میں چھپ کر صحرا میںن کل جائیں ۔
دور دور تک اس کے حُسن کا شہرہ پھیل چکا تھا ۔لوگ آتے تو تعر یف سے بڑھ کر پا تے ۔ بڑے بڑے مالدارآکر اس چوکھٹ سے حسن کا خراج ما نگتے ۔ اس کی سہیلیاںہر نیا رشتہ آنے پر اسے چھیڑتیں اور وہ شرما کر بیر بہو ٹی بن جا تی ۔ عارض دہک جاتے ۔آنکھوں میں انجانے پیا ر کی چمک پیدا ہو تی ۔دل میں گد گدی ہو تی اس کا دل بھی اور لڑکیو ں کی طرح چاہتا کہ مالدارآدمی سے اس کی شادی ہو وہ بھی خوشیوںکے صدا بہار جھولے میںزندگی گزارے ۔اس کے ساتھ ساتھ اس کی آنکھوں میں ایک خوبصور ت کڑیل جوان کی تصو یر آجا تی جو اس کا ہو نے والا ساتھی تھا جس کے توا نا با زو اس کا سہا ر ا تھا جس کے سینے پر سر رکھ کر وہ اپنے سارے غم دور کرے ۔
پتہ نہی ںوہ تنہا ئی میں کیا کیا سو چا کر تی تھی ۔ایک ا لھڑ نادان لڑکی سنہر ے سنہرے خواب جن میں وہ اپنے آئندہ ہونے والے ہمسفر کو سنگھا سن پر بٹھا کر خود تصور میں ڈوب جا تی ۔ سہلیاںاس کی بے خودی دیکھ کر اسے گد گدا دیتیں اور وہ شرما کر رہ جا تی ۔
اس کے والد جہا ں دیدہ تھے وہ دو لت کو تر جیح نہیں دیتے تھے ۔ہر رشتے کو نگا ہوں نگا ہو ں میں پرکھتے اور پھر تسلی نہ پا کر دو سرے رشتے کی طرف متو جہ ہو جا تے ۔ان کے دل میں اسلام کی شمع رو شن تھی اور وہ اپنے داماد کو بھی اسلام کا متوالا دیکھنا پسند کر تے تھے ۔ایک دن انہیں ایک
نیک اور دیانتدار لڑکے کا پیغام ملا جو انھوں نے اسی وقت قبول کر لیا ۔
رات کے دھند لکے میں سہیلیا ںاکٹھی ہوئی تھیں۔شادی کے گیت گائے اور اسے دلہن بنایا۔دلہن بن کراس پر قیامت کا حسن ٹوٹ پڑا ۔شو ہر بھی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ ایسی خو بصورت لڑکی اس کی ساتھی بنے گی اس نے خواب میں بھی یہ سوچا نہ تھا۔
اُمِ ابان نے جب اپنے شو ہر اور نئے گھر کو دیکھا تو وہ مغموم ہو گئیں ۔ان کے خواب ٹوٹ گئے عیش کا خیال ختم ہو گیا تھا۔مگر وہ فطرتاًنیک تھیں۔ فوراًسنبھلیںان کے ذہن میں کلام پاک کی وہ آیتیں گھوم گئیں ۔جن میں دنیا کی بے رغبتی اور آخرت کی نعمتوںکا ذکر ہے انہوںنے جلد جلد وہ آیتیں پڑھیں اور دل میں طے کرلیا اب وہ دنیا وی مال کو تر جیح نہیں دیں گی ۔بلکہ آخرت کے سفر کے لیے نیک کام کریں گی۔
یہ خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق(ص) کا زمانہ تھا ۔شام کے میدا نو ں میں کفر واسلام کی جنگ جا ری تھی ۔ابھی ان کی شادی کو چند روز ہی گزرے تھے ارمانوں سے لگا ئی مہند ی بھی پھیکی نہ پڑی تھی کہ خلیفہ اول کا قا صد گا ئوں میں آیا اور جہاد کے لیے مسلما نوں کو آواز دی ۔
اُمِ ابان گھر میں تھیں ۔قا صد کی آواز سن کر با ہر آئیں ،اعلان سنا،جوشِ جہاد سے سینہ معمور ہوگیا ۔اتنے میں شوہر آگئے ان سے خوش خوشی گو یا ہو ئیں ۔ آپ کا کیا ارادہ ہے؟
شو ہر بولے تمہاری وجہ سے چند روز کی مہلت لے لی ہے حالا نکہ میرا دل چاہ رہا ہے پر لگ جا ئیںاور اڑکر میدان جہاد میں چلا جا ئوں ۔
اُمِ ابان کی آنکھو ںمیں آنسو آگئے ۔بو لیں آپ کو یہ اچھا لگے گا کہ اسلام اور کفر کی لڑائی ہو اور ہم دونو ں گھر میں بیٹھ کر رنگ رلیا ں منا ئیں تو مجھے اجازت دیں میں خود میدان جنگ میں جائوں گی ۔یہ کہہ کر وہ اپنے ہتھیار درست کرنے لگیں ۔
شوہر یہ دیکھ کر تڑپ گئے ۔بولے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میر ی جان ہے میں نے جہاد سے منہ نہیں موڑا تھا بلکہ صرف تمھارا دھیان کرکے چند روز مانگے تھے پر اب تو ایک لمحہ نہی ںرک سکتا ۔