حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا
اللہ کے رسول ہمارے آقا ومولا سرکار مدینہ(ﷺ) جب اس دنیا سے تشریف لے جانے لگے تو اپنی اُمت کومخاطب فرماکر فرمایا کہ اے لوگو!میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ،اگر تم نے ان کو مضبوطی سے پکڑا توتم کبھی گمراہ نہ ہوگے ۔ایک اللہ کی کتاب(قرآن) اوراپنے اہلِ بیت‘‘ دوسری روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ میری سنّت۔‘‘ (اہل بیت کے معنی ہیں اسلام کے سچے شیدائی )اس کامطلب یہ ہوا کہ اگر چہ میں جارہا ہوں مگر تمہاری ہدایت کا بہت بڑا سامان چھوڑ رہاہوںاس میں سب سے بڑھ کر قرآن حکیم ہے اورپھر میری سنّت اوراس کے بعد میری جسمانی وروحانی آل واولاد یعنی علماء حق اوراہلِ بیت رسول اللہ (ﷺ) ہیں کہ ان کودیکھ کر اسلامی تعلیم سیکھنا اورعمل کرنا۔
اس کتاب میں ہم چاہتے ہیں کہ اول رسول (ﷺ) میں سے ایک اسلامی شجاعت اسلامی تہذیب اوراسلامی رنگ میں رنگی ہوئی باعزّت واحترام خاتون کی زندگی کاکچھ تذکرہ کریں جس سے ہمارا ایمان تازہ ہو اوراللہ عزوجل ہم کو بھی ان کی پیروی بخشے تاکہ فتنوں بھری دنیا میں اس مصیبت بھرے عالم میں بھی ایک گونہ آرام حاصل کرسکیں۔میری مراد ان سے حضرت زینب بنت علی (کرم اللہ وجہہ) یعنی پیاری بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اﷲعنہا کی ہیں۔آپ حضرات حسنین رضی اﷲعنہماکی حقیقی بہن ہیں ۔آپ کی شادی آپ کے چچازاد حضرت عبداللہ بن جعفر طیار بن ابی طالب کے ساتھ ہوئی اوران سے آپ کے چار صاحبزادے علی ،عون، (اکبر)عباس ۔ محمد اورایک صاحبزادی ام کلثوم ہوئیں۔آپ بھی اپنے بھائی حضرت حسین (ص)کے ہمراہ کربلا تشریف لے گئی تھیں ۔ابن انباری کا بیان ہے کہ حضرت حسین (ص) شہید کئے گئے توآپ نے اپنا سر خیمہ سے باہر نکال کر باآواز بلند کچھ اشعار پڑھے جن کا حاصل یہ تھا۔
’’اگر قیامت کے دن آنحضرت (ﷺ) تم سے یہ سوال کربیٹھیں کہ کیا تم کو میری اولاد
کے ساتھ یہی سلوک کرناچاہئے تھا کہ ان کے ساتھ قتل وغارت کا معاملہ کرکے خاک وخون میں نہلادیا جائے۔کیا میری خیر خواہی اورہدایت کایہی معاوضہ ہے جو تم نے میر ی اولاد کو اذیت دے کر پورا کیا ۔توبتائو اس دن تمہارے پاس ان کاکیا جواب ہوگا۔‘‘
کتاب نورالابصار میں خُزیمہ اسدی سے منقول ہے کہ میں ۶۱ھ میں کوفہ گیا تومقام دربہ میں امام زین العابدین(ص) سے جب کہ وہ کربلا سے ابن زیاد کے پاس کوفہ جارہے تھے ملاقات ہوئی۔کوفہ کی عورتوں کایہ حال تھا کہ گریبان چاک کئے ہوئے نوحہ وشیون کررہی تھیں۔امام زین العابدین (ص) ان سے فرماتے تھے کہ اے اہل کوفہ! آج تم ہم پر ماتم کررہے ہو لیکن یہ توبتلائو کہ ہم کویہاں بلا کر اس بلا میں مبتلاکس نے کیا اورحضرت زینب رضی اﷲعنہاکے متعلق فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم کسی پردہ نشین عورت کومیں نے ان سے زیادہ فصیح البیان نہیں دیکھا گویا کہ وہ حضرت علیکرم اللہ وجہہ الکریم کے خطیبانہ اندا زبیان کی یاد تازہ کررہی تھیں۔انہوں نے لوگوں کواشارہ فرمایا کہ خاموش ہوجائو ۔جب لوگ چپ ہوگئے توآپ نے فرمایا ’’اہل کوفہ !مدد نصرت سے ہاتھ کھینچ کر اب رورہے ہو،خدا کرے تمہارے آنسو کبھی نہ رُکیں اورنالہ وشیون کبھی نہ کم ہو ۔ تمہاراحال مثل اس بے وقوف عورت کے ہے جس نے نہایت جانفشانی کے ساتھ دن بھر نہایت مضبوط سوت بٹا اور شام کو توڑ ڈالا ۔تم نے یقینا اپنے عہد توڑ دیئے مجھے یقین ہوگیا کہ تم لوگ گرجتے تو بہت ہو لیکن برستے کم ہو، تم لوگ نہایت کمزور اورجلدباز ہو، تم لوگوں کے قلوب پر بغض وکینہ کی بیماری ہے ۔چاپلوسی میں لونڈیوں سے بدتر ہو ،تم لوگوں کاحال بعینہٖ یہ ہے کہ جیسے گھوڑے کاچراگاہ یاخاک آلودچاندی کے ذرّات ۔آگاہ ہوجائو تم نے نہایت زبردست گناہ کا ارتکا ب کیا ہے ،خدا کرے تم ہمیشہ روئو اورکبھی ہنسنا نصیب نہ ہو۔مجھے یقین ہے کہ تم اپنی اس حرکت میں پانی کی کیچڑ کی وجہ سے نہیں پھسلے بلکہ تمہارا مقصود ہی فرزند رسول، گوہرمعدن رسالت کو اپنے برہان کے دار ومدار اوراپنی مشعلِ ہدایت اورجوانانِ جنت کے سردار کے خون کی دلدل میں پھنسانا تھا۔
اے اہل کوفہ!بربادی ہوتمہارے لئے تم نے نہایت نامعقول حرکت کی اوراپنے پروردگار
کوبھی ناخوش کیا اورعذاب الٰہی میں بھی گرفتار ہوگئے ،کیا تم جانتے ہوکہ تم نے کس باعزّت فرزندِ رسول (ﷺ) کو شہید کیا اورمحترم بناتِ رسول (ﷺ) کوکیسا بے پردہ کیا ہے ۔یقینا تم نے نہایت سفیہانہ کاروائی کی ،بہت ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے آسمان ٹکڑے ہوجائے اورزمین پھٹ جائے اورپہاڑ سرنگوں ہوجائیں۔
یقینا تم نے زمانہ بھر کی بے حیائی وبے شرمی کومات کردیا ،میرا خیال ہے کہ آسمان سے خون کی بارش ہوجائے تو عجب نہیں ۔لیکن یادر کھو آخرت بھی کوئی چیز ہے اوراس دن بڑی رسوائی ہوگی ہر گز جہنم سے چھٹکار احاصل کرکے عذاب الٰہی سے نجات نہ پاسکوگے ،بیشک سب کا پالنہار ہربات کو ملاحظہ کررہا ہے۔‘‘
اس بلیغ وفصیح خطبہ کے بعد حضرت زینبرضی اﷲعنہا خیمہ میں چلی گئی ۔راوی کابیان ہے کہ جس وقت حضرت زینب رضی اﷲعنہا نے تقریر ختم کی ہے لوگوں نے اپنے سر اور داڑھی کے بال نوچ ڈالے ۔ایک پیر دیرینہ سال توا س قدر رویا کہ آنسوئوں سے اس کی ساری داڑھی تر ہوگئی۔تھوڑی دیر کے بعد یہ شخص حضرت زینبرضی اﷲعنہا کے قریب آکر عرض کرنے لگا کہ اے بنتِ رسول (ﷺ) آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوجائیں آپ کے خاندان کے بوڑھے آپ کی اُمّت کے تمام بوڑھوں سے بہتر ہیں اورآپ کے خاندان کے جوان تمام جوانوں میں بہتر ہیں ۔خدا آپ کی نسل کو ہمیشہ پھلا پھولارکھے ۔
جب سب کوفہ کی طرف جانے لگے توحضرت زینبرضی اﷲعنہا کہنے لگیں۔’’اے محمد (ﷺ) آپ کے اوپر آسمان کے فرشتے درود پڑھیں ۔دیکھئے یہ حسین (ص) خاک وخون میں لتھڑے ہوئے دست وپابریدہ پڑے ہیں،ان کی لڑکیاں قید کرلی گئی ہیں اوراولاد قتل کردی گئی ان پرخاک اُڑ رہی ہے ۔ حضرت زینب رضی اﷲعنہا کے اس شیون کوسن کر دوست دشمن سب رونے لگے پھر جب آپ کو ابن زیاد کے سامنے لے جایا گیا توآپ اس قدر معمولی کپڑے پہنے ہوئے تھیں کہ کوئی شناخت نہیں کرسکتا تھا ۔عبداللہ بن زیاد نے دریافت کیا کہ یہ کون عورت بیٹھی ہوئی ہے۔ مگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا اس طرح اس نے تین دفعہ پوچھا مگر آپ نے کسی مرتبہ
بھی جواب نہیں دیا مگر آپ کی لونڈیوں میں سے کسی نے بتایا کہ یہ زینب بنت علیرضی اﷲعنہاہیں اس نے کہا شکر ہے جس نے تم کو رسوا کیا اورتمہار ے مردوں کوقتل کیا اورتمہاری آبرومٹادی ۔حضرت زینب رضی اﷲعنہاجواب دیتی ہیں’’اس اللہ کا شکر ہے جس نے ہماری، محمد (ﷺ) کے ذریعے سے توقیر کی اورہم لوگوں کوخوب پاک کیا ۔یقینا بہت جلد تجھ کو رسوائی اورذلّت کامنہ دیکھنا پڑے گا۔‘‘
ابن زیاد پھر ہنس کر کہتا ہے کہ تمہارے خاندان والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیامعاملہ کیا ۔ آپ جواب دیتی ہیں:’’کہ اللہ تعالیٰ نے ان کوشہادت عنایت کی اورکیا کیا؟‘‘اس گفتگو سے ابن زیاد کو غصہ آگیااورکہنے لگا کہ تمہارے خاندان کے گمراہ سرکش اورنافرمانوں کے قتل سے میرا غصہ ٹھنڈا ہوگیا ۔یہ سُن کر حضرت زینب رضی اللہ عنہا رودیں اور فرمانے لگیں ۔خدا کی قسم تونے ہمارے خاندان والوں کو قتل کرکے مستورات کو بے پردہ کیااوربچوں کو نیست ونابود کرکے کیا لیا۔اگر اسی سے تیرے انتقام کی پیاس بجھ سکتی ہے توضرور تو اپنی پیاس بجھا لے۔پھر ابن زیاد نے ان سے کہا کہ یقینا تم نہایت بہادر ہو اورخدا کی قسم تمہارے باپ بھی بہادر تھے ۔حضرت زینب رضی اﷲعنہااس پر چپ نہ ہوئیں اورکہنے لگیں کہ ایک عورت کوشجاعت سے کیاتعلق ہے۔
پھر ابن زیاد امام زین العابدین (ص) کی طرف متوجہ ہوا اوراس نے پوچھا کہ تمہاراکیانام ہے ۔انہوں نے جواب دیا ۔علی بن حسین (امام زین العابدین کانام ہے)پھر اس نے کہا کہ کیا علی بن حسین شہید نہیں ہوئے ۔یہ خاموش رہے تواس نے دریافت کیا کہ چُپ کیوں ہوگئے ۔یہ سُن کر وہ جواب دیتے ہیں کہ میرے دوسرے بھائی کا نام بھی علی بن حسین تھا مگر وہ اس معرکہ میں شہید ہوگئے۔
یہ سُن کر ابن زیاد نے کہا کہ خدا کی قسم تم بھی انہیں لوگوں میں سے ہو یعنی تمہاری موت کابھی وقت آگیا ہے۔ پھرا بن زیاد نے ایک شخص سے کہا کہ ذرا تحقیق کرویہ لڑکا ابھی جوانی کی حد کو پہنچا ہے یانہیں۔چنانچہ مری بن معاذ الاحمر نے جستجو کی تومعلوم ہوا کہ جوان ہوگئے ہیں ۔ابن زیاد نے حکم دیا کہ ان کو بھی قتل کردیا جائے ۔یہ سن کر امام زین العابدین (ص) نے فرمایا کہ جب
مجھے بھی شہید کردوگے توپھر ان عورتوں کی کون نگہداشت کرے گا ۔یہ سن کر حضرت زینب امام زین العابدین (ص) سے لپٹ گئیں اورابن زیاد سے پوچھنے لگیں۔اے ابن زیاد جو کچھ ہوچکا کیاوہ تجھ کو کافی نہیں ہے؟ کیا تیری پیاس ہمارے خونوں سے ابھی تک بجھی نہیں ہے؟ کیاہمارے خاندان کاایک شخص بھی باقی رکھنا نہیں چاہتا ۔یہ کہہ کر بے ساختہ امام زین العابدین (ص) کولپٹالیا اورابن زیاد سے کہا کہ اگر تومسلمان ہے اوران کو قتل کرنا چاہتا ہے توان کے ساتھ مجھ کو بھی قتل کردے،امام زین العابدین (ص)نے فرمایا کہ اے ابن زیاد اگر تیری ان عورتوں سے کوئی قرابت ہے توان کے ہمراہ کسی پرہیزگارآدمی کوکردے کہ وہ بربنائے اخوت سفر میں ان کے ہمراہ رہے ۔ابن زیاد نے تھوڑی دیر حضرت زینبرضی اﷲعنہاکی طرف دیکھا پھر کہا کہ رشتہ بھی عجیب چیز ہے ۔خدا کی قسم میراگمان ہے کہ اگر( امام) زین العابدین (ص) کو قتل کردوں توزینبرضی اﷲعنہاکوبھی یہی مرغوب ہوگا کہ وہ خود بھی ان کے ساتھ قتل ہوجائیں ۔اچھا اس لڑکے کوچھوڑ دو کہ وہ اپنی عورتوں کے ساتھ چلا جائے ۔
جب اسیرانِ کربلا ملک شام میں یزید کے پاس پہنچے تودیکھا کہ امام حسین رضی اﷲعنہاکاسرمبارک اس کے سامنے رکھا ہوا ہے۔حضرت فاطمہرضی اﷲعنہا اورحضرت سکینہرضی اﷲعنہا نے اونچی ہو کر سرمبارک کودیکھنا چاہا اوریزید کایہ خیال کہ یہ سرمبارک کونہ دیکھ سکیں ۔لیکن جب انہوںنے سر مبارک کو دیکھا توچلا چلا کر رونے لگیں ۔ان کے رونے کی وجہ سے یزید کے گھر میں نالہ وشیون کی آواز بلند ہوگئی۔حضرت معاویہ (ص) کی صاحبزادیاں بھی بے قرار ہوگئیں ۔ حضرت فاطمہرضی اﷲعنہانے جو حضرت سکینہ رضی اﷲعنہاسے عمر میں بڑی تھیں فرمایا افسوس ہے کہ آج رسول (ﷺ) کی بیٹیاں یزید کی قید میں ہیں ۔یہ سُن کر یزید نے کہا کہ اے میری بھتیجی تم لوگوں کے ساتھ جومعاملہ پیش آیا میں اس کو نہایت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہوں۔
پھرحضرت فاطمہرضی اﷲعنہا نے فرمایا کہ ہمارے پاس اب ایک ہار تک بھی نہیں باقی رہا سب لوٹ لیاگیا۔یزید نے کہا کہ جو کچھ تمہارامال واسباب لوٹاگیا ہے میں اس سے بہت زیادہ تم لوگوں کو دے دوں گا ۔اتنے میں کسی شامی نے کھڑے ہو کریزید سے کہا امیر المومنین فاطمہ کومجھے
بخش دیجئے۔یہ سُن کر حضرت فاطمہرضی اﷲعنہانے حضرت زینب رضی اﷲعنہا کا دامن پکڑلیا اورچیخنے لگیں ۔ حضرت زینب رضی اﷲعنہانے فرمایا کہ اے بدنصیب تویہ کیا کہتا ہے کہ یہ نہ تجھ کومل سکتی ہے نہ یزیدکو ۔ یہ سُن کر یزید کو غصّہ آگیا اور اس نے کہا کہ خدا کی قسم ! اگر میں چاہوں تواس لڑکی کواپنے لئے خاص کرسکتا ہوں۔
حضرت زینب رضی اﷲعنہانے جواب دیا ۔خدا کی قسم ہر گز نہیں ۔جب تک جان میں جان ہے یہ نہیں ہوسکتا۔یزید نے غضبناک ہو کر کہا کہ ایسا سخت مجھ کو جواب دیتی ہو ۔حضرت زینب رضی اﷲعنہا نے برجستہ جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے باپ بھائی اورنانا کے دین کی وجہ سے تجھ کو اورتیرے باپ دادا کو ہدایت دی ۔یزید نے کہا کہ اے دشمن خداجھوٹ بولتی ہے ۔
حضر ت زینب رضی اﷲعنہانے فرما یا کہ توبادشاہ ہوکر گالی بکتا ہے اس وقت تیرے پنجۂ ظلم میںہم لوگ گرفتار ہیں جوتیرا جی چاہے کہہ لے،اس کلمہ سے یزید شرمندہ ہو کرخاموش ہوگیا ۔ان واقعات سے حضرت زینب رضی اﷲعنہاکی شجاعت کابخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا۔
حضرت زینبرضی اﷲعنہاکی قبر شریف کے متعلق اختلاف ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دمشق میں ہے اوربعض لوگ مصر میں بتلاتے ہیں اوریہی زیادہ مشہور ہے۔ مصر میں حضرت زینب رضی اﷲعنہاکے مزار کے متعلق ایک بہت بڑا وقف بھی ہے ۔مزار کے متعلق ایک مسجد بھی ہے۔بیان کیا جاتا ہے کہ اس مسجد سے بہتر ملکِ مصر میں دوسری مسجد نہیں ہے۔
مزار شام کاحال
شام (سوریا)میں آپ کے مزار کی شہرت یقینی ہے کہ اس میں شک وشبہ کاتصور نہیں یہاں تک کہ وہا ں کابڑا علاقہ زینبیہ کے نام سے موسوم ہے ۔ایک بزرگ مزا رکے اندر چلے جاتے توانہیں بی بی زینب نے خواب میں فرمایا کہ پردہ کاخیال کرو۔ (زیارات الشام)