قاضی شمس الدین احمد جونپوری (تذکرہ / سوانح)
جونپور ہر زمانے میں تاریخ کی دنیا میں غیر معمولی خوبیوں کا مالک رہا ہے، تہذیب وتمدن کے آئینے میں چمکتا رہا، کِشتِ فن وادب کی یہاں سے ہمیشہ آبیاری کی گئی ہے۔ اس کے چہرے پر حسن و بہار کا غازہ مسلا گیا۔ اس لیے تاریخ اسے شیراز ہند سے یاد کرتی ہے۔ بڑے بڑے بزرگوں کی یادگاریں آج بھی اس سر زمین پر ہیں جو داستانِ ماضی کی یاد دلاتی ہیں۔
ولادت وخاندان:
اس جونپر کے ماہرین میں ابجل المتکلمین حضرت مفتی شمس الدین احمد رضوی جعفری تھے۔ آپ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئ ے جو علمی اعتبار سے ایک اعلیٰ اور معیاری خاندان تھا، نانا محترم اور جد امجد دونوں وقت کے جید صاحبِ لیاقت تھے، اور اس وقت جونپور میں علم وحکمت کے چشمے بہار ہے تھے اور ماحول بھی علمی اعتبار سے بہت زیادہ سندر تھا۔ مفتی قاضی شمس الدین احمد علیہ الرحمۃ کی ولادت جونپور کے ایک محلہ میر مسرت میں ہوئی، جعفری زینبی نسب آباء واجداد شاہانِ مشرقی کے زمانے میں منصب قضاء پر فائز تھے۔ تاریخ ولادت ۲۸؍ذی الحجہ ۱۳۲۲ھ؍ ۵مارچ ۱۹۰۵ء ہے۔
تعلیم وتربیت:
حضرت مفتی قاضی شمس الدین احمد کو ان دونوں بزرگوں کی شفقتوں اور پدری محبتوں نے آپ کی بہترین نشو ونما کی اور اس علمی ماحول اور اعلیٰ سماج نے تو آپ کو کہاں سے کہا ں تک پہنچادیا۔ قاضی شمس الدین احمد کی ابتدائی تعلیم جون پور میں ہوئی۔ جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں صدر الافاضل مولانا نعیم الدین رضوی مراد آبادی علیہ الرحمہ سے درس لیا۔ صدر الشریعہ مولانا امجد علی رضوی اعظمی علیہ الرحمہ کی شہرت سن کر اجمیر شریف دارالعلوم معینیہ عثمانیہ پہنچے، کامل انہماک ویکسوئی سے اساتذۂِ دارالعلوم سے پڑھا، حدیث پاک اور امہات کتب کی حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ سے تکمیل کی۔
۱۳۵۲ھ میں جب صدر الشریعہ نے اجمیر شریف چھوڑ کر بریلی شریف مراجعت فرمائی اور چالیس طلبہ کی جماعت (جو علوم و فنون کامل اور چنداں آفتاب وماہتاب تھے) جو حضرت صدر الشریعہ کے ساتھ بریلی پہنچے ان میں قاضی شمس الدین احمد بھی تھے، دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف سے فراغت حاصل کی۔
آغازِ درس:
مفتی قاضی شمس الدین احمد نے فراغت کے بعد دارالعلوم منظر اسلام میں درس دینا شروع کیا۔ جامعہ نعیمیہ مراد آباد، مدرسہ منظر حق ٹانڈہ ضلع فیض آباد، مدرسہ حنفیہ جون پور میں درس دیا۔ آخر الذکر مدارس میں صدر المدرسین رہے، بعدہٗ جامعہ رضویہ حمیدیہ بنارس میں مسندِ صدارت پر فائز ہوئے اور علوم وحکمت، تفسیر وحدیث اور فقہ کا خصوصی درس دیا۔ اکابر علماء میں بہ اعتبار علم وفضل قاضی شمس الدین احمد کا بلند مقام ہے [1] ۔
بیعت وخلافت:
حضرت مفتی قاضی شمس الدین احمد دس برس کی عمر میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی قدس سرہٗ سے مرید ہوے [2] ۔ شہزادۂ امام احمد رضا مفتی اعظم ہند علامہ الشاہ مصطفیٰ رضا نوری نے جمیع سلاسل کی خلافت واجازت عطا فرمائی [3] ۔ مزید برآں حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلوی قدس سرہٗ نے اجازت سے نوازا۔
عالمِ نکتہ داں:
حضرت قاضی شمس الدین احمد کا بچپن دیگر بچوں سے الگ تھلگ تھا۔ شروع سے محنت وعرق ریزی کے عادی تھے۔ پڑھنے میں د ل چسپی لیتے تھے اور نہایت ہی ذوق وشوق سے حصولِ علم کیا کرتے۔ دل میں بلند حوصلہ، پختہ ارادہ اورعزم وہمت رکھتے تھے۔ کئی بار قاضی شمس الدین احمد نے بطور تحدیث نعمت فرمایا کہ عالمِ نکتہ داں ہونے کی خبر جد محترم نے دی تھی، اور وہ فرمایا کرتے کہ ‘‘کہیے مولانا عالمِ نکتہ داں’’۔
سادگی ومزاج:
آج کی دنیا، جس میں تصنع اور تکلف کی افراط وتفریط ہے، اوریہ زندگی کےہر شعبے میں ہے، کوئی ایک شعبہ بھی اس سے خالی نہیں ہے، مگر شمس العلماء قاضی شمس الدین احمد نے اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی اپنے دامن کو تصنُّع اور تکلُّف کی آلودگیوں سے پاک رکھا۔ آپ سادگی پسند تھے، مزاج سادہ تھا تو لباس بھی سادہ زیب تن فرماتے۔ مگر قاضی شمس الدین احمد کی اس سادگی میں بھی ایک عجب طرح کی کشش اور جاذبیت ہوتی، کس کی؟ علم وفن، ادب وحکمت کی۔ پیشانی چوڑی جس پر معرفت وحکمت کی گہری چھاپ تھی۔ آنکھیں چھوٹی مگر تفکرات کی دنیا میں وسیع، جوفکر وتدبر کے آنچل کے سائے میں اٹھتیں اور نکات عجیبہ دقائق لطیفہ کے جہانِ تازہ تلاش کر لیتی تھیں۔ جسم نہایت ہی لا غرودبلا تھا مگر علمی کشش اور فنی رعب ودبدبہ کا پیکر تھا۔
اندازِ مُطالعۂ کتب:
مفتی قاضی شمس الدین احمد کا مطالعۂ کتب بھی جدا گانہ ہے جب مطالعہ فرماتے تو پنسل یا قلم پاس ہوتا تھا۔ اخبارات ، جرائد ، درسی کتابوں یا اردو ڈائجسٹ کا مطالعہ کر رہے ہیں، کسی جگہ کوئی اہم عبارت مل جاتی تو آپ اسے اپنی بیاض میں نقل فرمالیتے۔ قاضی شمس الدین احمد کا یہ انداز تا عمر باقی رہا۔ قطرہ قطرہ دریامی شود کے مصداق وہ بیاض اچھی خاصی ضخیم ہوگئی، جو کشکول جعفری کے نام سے ان کے شاگردوں کےدرمیان مشہور ہے۔ یقیناً وہ کشکول حقیقت و معلومات اور حقائق ومعارف کا خزانہ ہے۔
علم وفضل:
حضرت مفتی قاضی شمس الدین احمد کو علم کے ہر میدان میں دسترس حاصل تھی۔ فقہ ہو یا حدیث، منطق ہو یا فلسفہ، علمِ کلام ہو یا اصولِ فقہ، تاریخ ہو یا تنقید، تفسیر ہو یا علمِ تکسیر، ہر فن میں آپ سیر حاصل گفتگو فرماتے، اور معلومات کا دریا بہاتے۔ جس طرف آپکی نگاہ اٹھتی، مضامین کا تانتا بندھ جاتا اوروہ الفاظ وعبارت کا رُوپ دھار لیتے۔ صرف اتنا ہی ہیں بلکہ فصاحت وبلاغت کے سانچے میں ڈھل جاتے۔ اور قاضی شمس الدین احمد کی زبان سے جو الفاظ نکلتے وہ الفاظ نہیں ہوتے بلکہ پھول ہوتے، اور اپنی بوئے عنبریں سے ہر طالب علم کی مشامِ جاں کو معطر کرتے۔
حدیث اس انداز سے پڑھاتے کہ "امام بخاری ومسلم" کی یاد تازہ ہوجاتی۔ اسماء الرجال پر گفتگو فرماتے تو راویوں کے حالات زندگی، ان کے علمی کمالات، طرزِ معاشرت اس طرح واضح فرماتے کہ" تہذیب التہذیب" کا جلوہ نگاہوں میں پھر جاتا۔ فقہ پر لب کشاہوتے تحقیقات وتدقیقات کا جلوۂ رنگیں بکھیرتے۔ ائمہ کے اختلافات پر ہر ایک کی سندیں اور مسائل کی ترجیحات بڑے ہی اچھوتے انداز میں بیان فرماتے فقہی حزئیات مفتی قاضی شمس الدین احمد کی نگاہوں میں روشن تھیں۔
تنقیدی نظریہ:
مفتی قاضی شمس الدین احمد کی کیسی ذہانت وفطانت تھی؟ اللہ اللہ۔ جرأت و بے باکی آپ کےمزاج میں کوٹ کوٹ کر بھردی گئی تھی، ہر کسی کے سامنے اس کی غلطیوں کی نشان دہی فرمادیا کرتےتھے۔ تنقید آپ کی اچھی تھی اور بر ملا تنقید کیا کرتے تھے۔ کلام کے تجزیہ پر آپ کو عبور حاصل تھا۔ ہرکسی کی اور ہر قسم کی بات تسلیم کرنےکے عادی نہ تھے جب تک کہ اس کی دلیل نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علامہ سعدی شیرازی کا یہ قول "ہرچہ گفتنی دلیلش بیار"
بار بار دہرایا کرتے اور جب دلیل سامنے آتی تو اس کے مقدمات کو پرکھتے۔ اس کے بعد کسی کو تسلیم کرنے کی باری آتی۔ اس اعتبار سے قاضی شمس الدین احمد کا تنقیدی شعور بلند وبالامعیاری تھا۔ آپ کی تنقید میں تعمیر زیادہ ہوتی۔ اس میں کہیں کہیں ظفر و مزاح سے کام لیتے جس سے تنقید کا رنگ و روغن دوبالا ہوجاتا اور سامعین کےلیے لطف ومزہ۔
امام احمد رضا کےمتعلق تنقید:
مفتی قاضی شمس الدین احمد علیہ الرحمۃ کی اس تنقیدی صلاحیت کے باوجود آپ کی نگاہ میں ایک ایسی شخصیت تھی جنہیں آپ تنقید سےالگ تھلگ تصور کرتےتھے، اور وہ ذات تھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی قدس سرہٗ کی۔ آپ امام احمد رضا بریلوی کےمتعلق باربار فرمایا کرتےکہ:
‘‘میں اعلیٰ حضرت کو آنکھ بند کر کےجانتا ہوں اس لیے کہ انہوں نے جو مسائل کی تحقیق و تنفیح کی، بالکل صحیح کی۔ اس میں چوں چرا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
آپ حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کا بے حد احترام کرتے، اس مرکزِ علم وفن کی بارگاہ میں علمی گفتگو فرماتے، لب کشا ہوتے تو ادب واحترام کے دائرہ میں، اور ادب واحترام کا یہ عالم ہوتا کہ کہیں ادب سے بات کرنے میں جھجکتے اور کہیں رُکتے۔ یہ تھا کمالِ ادب مرشدِ اعظم شہزادۂ اعلیٰ حضرت کی باگاہ میں۔
تصانیف:
حضرت مفتی قاضی شمس الدین احمد تا حیات رشد وہدایت کا پیغام دیتے رہے، اور اپنی یادوں کےنقوش چھوڑے جن میں مندرجہ ذیل تصانیف یادگار کا درجہ رکھتی ہیں۔
۱۔ قانونِ شریعت حصہ اول، دوم
۲۔ قواعد النظر
۳۔ قواعد الاعراب
۴۔ کشکولِ جعفری
چند مشہور تلامذہ
قاضی شمس الدین احمد کے شاگردوں میں کثیر تعداد، جو اب علمی درس گاہوں میں بیٹھ کر اُن سے حاصل کیے ہوئے جواہر ریزوں کو بکھیر رہے ہیں، اور صحیح علم وفن کو آباد کر رہے ہیں۔ چند تلامذہ کے اسماء گرامی درجِ ذیل ہیں:
۱۔ مولانا مفتی محمد اعظم رضوی ٹانڈوی شیخ الحدیث دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف
۲۔ مولانا شمس الدین صدیقی رضوی صدر المدرسین مسعود العلوم چھوٹی تکیہ بہرائچ
۳۔ مولانا حسام الدین احمد ہشام صاحبزادہ وجانشین (جونپور)
۴۔ مولانا شمشاد حسین رضوی بھاگلپوری
انتقال پُر ملال:
یکم محرم الحرام ۱۴۱۰ھ کی وہ صبح کس قدر دل خراش اور روح فرسا ہوگی جس میں قاضی شمس الدین احمد کی جان جاں آفریں کے جوارِ رحمت میں گہری اور ابدی نیند سوگئی، اور جامِ وصال محبوب حقیقی نوش فرمایا۔۔۔۔ وقت وصال سینۂ مبارک پر حضرت امام غزالی قدس سرہٗ کی معرکۃ الآراء تصنیف کیمیائے سعادت کھلی رکھی تھی اور وہ بھی موت کا باب تھا [4] ۔
[1] ۔محمود احمد قادری، مولانا: تذکرۂ علماء اہلِ سنت ص ۱۰۴
[2] ۔محمود احمد قادری، مولانا: تذکرۂ علماء اہلِ سنت ص ۱۰۴
[3] ۔قلمی یاد داشت مولانا محمد انور علی رضوی بہرائچی استاذ دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف
[4] ۔(الف) سہ ماہی دامنِ مصطفیٰ بریلی (مضمون مولانا شمشاد حسین رضوی) ص ۳۸ تا ۴۲ بابت محرم، صفر، ربیع الاول ؍اگست، ستمبر ،اکتوبر ۱۹۸۸ء ۱۴۰۸ھ
(ب) شمس الدین احمد رضوی، قاضی مفتی: قانونِ شریعت۔
نوٹ: تفصیلی حالات کے لیے دیکھیے قانونِ شریعت جدید ایڈیشن۔ ۱۲رضوی غفرلہٗ