شیخ المشائخ شبیہِ غوث الاعظم مولانا سید شاہ ابواحمد محمد علی حسین اشرفی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم ِ گرامی شاہ محمد علی حسین ،کنیت ابو احمد ،خاندانی خطاب اشرفی میاں ۔
تاریخِ ولادت: 22/ ربیع الثانی 1266ھ بروز پیر ،بوقت صبح صادق پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم: حضرت مولانا گل محمد خلیل آبادی علیہ الرحمۃ نےبسم اللہ خوانی کی رسم ادا کرائی، مولانا امانت علی کچھوچھوی، مولانا سلامت علی گور کھپوری اور مولانا قلندر بخش کچھوچھوی علیہم الرحمۃ سے علومِ دینیہ کی تحصیل و تکمیل فرمائی۔
بیعت وخلافت: 1282ھ میں اپنے برادر اکبر قطب المشائخ حضرت شاہ اشرف حسین علیہ الرحمہ سےمرید ہوکر تکمیل سلوک فرماکر اجازت وخلافت حاصل فرمائی۔
سیرت وخصائص: خانوادۂ اشرفیہ کے مشہور ومعروف بزرگ حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ کی تبلیغی خدمات اور ارشادات کا دائرہ کاراتنا وسیع ہے کہ احاطۂ تحریر میں لانا مشکل ہے ۔ عہد ِخردسے زندگی کی آخری لمحے تک اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں کوشاں رہے ،اوردینِ اسلام کے فروغ کے لئے تا عمرجدو جہد کرتے رہے۔لاکھوں گم گشتہ راہوں کو راہ ِمستقیم پر گامزن فرمایا۔تشنگان علوم و معرفت اور متلاشیان حق کو جامِ معرفت سے سرشار کرکے حق کی راہ دکھائی۔ تبلیغ و ارشاد کا ہی جذبہ کارفرما تھا کہ آپ نے ہند وپاک کے علاوہ بہت سارے ممالک ِاسلامیہ کی سیر وسیاحت فرمائی۔ اس وجہ لوگ آپ کو مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا پرتو،اور مخدوم اشرف کا مظہر اتم وحقیقی جانشین کہنے لگے۔ اس ضمن میں آپ نے لاکھوں غیر مسلموں کو مشرف بہ اسلام کیا اور لاکھوں افراد آپ کے دست ِمبار ک پر تائب ہوئے۔ آپ کی ذات سے سلسلہ اشرفیہ کو بڑا فروغ حاصل ہوا ۔آپ کی عظیم روحانی شخصیت کو دیکھ کر ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش، نیپال اور عرب ممالک میں عدن، جدہ، مکۃ المکرمہ، مدینۃالمنورہ، شام، حلب،ترکی، عراق، مصر، یمن کے جید علماء کرام نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی اور اکثر علماء کرام اور سادات عظام روحانی تربیت کے بعد سلسلہ عالیہ اشرفیہ کی اجازت وخلافت سے سر فراز کیےگئے۔حضرت مخدوم سلطان اشرف سمنانی علیہ الرحمہ کےبعد سلسلہ عالیہ اشرفیہ میں آپ جیسا مرجع الخلائق کوئی دوسرابزرگ نہیں گذرا۔
حضور اشرفی میاں کو اللہ تعا لیٰ نے حسنِ سیرت کیساتھ حسنِ صورت میں بھی بلند مرتبہ پر فائز فرمایا تھا۔آپ اعلیٰ اوصاف وخصوصیات کے ساتھ ، ظاہری شکل وصورت میں حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کےہم شبیہ تھے۔ہزار ہا افراد تو صرف آپ کے حُسن خدا داد کی زیارت سےحلقہ بگوش اسلام ہوئے، اربابِ مشاہدہ نےاس کی تصدیق فرمائی ہے۔
حضرت مولانا سید شاہ اظہار اشرف کی روایت ہے:کہ ایک مرتبہ حضر ت اشرفی میاں قدس سرہ حضرت سلطان المشائخ محبوب الٰہی رضی اللہ عنہ کے مزار پاک کے اندر سے فاتحہ پڑھ کر نکل رہےتھے،اور اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا علیہ الرحمہ بغرضِ فاتحہ اندر جارہے تھےکہ فاضل بریلوی کی نظر آپ پر پڑی، دیکھا تو بالکل ہم شکل محبوب الٰہی وغوث الثقلین تھے، اسی وقت برجستہ یہ شعر کہا :
؎ اشرؔفی اے رخت آئینہء حسن ِخوباں
اے نظر کردہ و پروردہءِ سہ محبوباں
وصال: 11/رجب المرجب،1355ھ میں آپ کا وصال ہوا، مرقد درگاہ مخدوم سید اشرف میں زیارت گاہ ِ عام وخاص ہے۔
حضرت مولانا شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
علی حسین نام نامی، پیر، شاہ اور اعلیٰ حضرت خاندانی خطاب، اشرفی تخلص کی ۲۲؍ربیع الثانی ۱۲۶۶ھ بروز دو شنبہ بوقت صبح صادق ولادت ہوئی، حضرت مولانا گل محمد خلیل آبادی علیہ الرحمۃ نےبسم اللہ خوانی کی رسم ادا کرائی، مولوی امانت علی کچھوچھوی، اورمولانا سلامت علی گور کھپوری اور مولانا قلندر بخش کچھوچھوی علیہم الرحمۃ سے فارسی عربی کی تحصیل کی، ۱۲۸۲ھ میں اپنے برادر اکبر قطب المشائخ حضرت شاہ اشرف حسین قد سرہٗ سےمرید ہوکر تکمیل سلوک فماکر اجازت وخلافت حاصل فرمائی، ۱۳۹۳ھ میں پہلا حج کی، دربار نبوی سے خاص نعمتیں مرحمت ہوئیں، ۱۲۹۷ھ میں مسند سجادہ نشین پر فائزہوکر مصروف ہدایت وارشاد ہوئے ۱۳۲۳ھ میں دوبارہ حج وزیارت کا سفر کیا، تیسری بار ۱۳۲۹ھ میں مناسک حج کی ادائیگی اور دیدار روضۂ نبوی کےبعد بیت المقدس، شام و مصر، حامہ شریف ، کربلائے معلی بفداد و مقدس کی زیارت سے شرف یاب ہوئے، چوتھا اور آخری سفر حج وزیارت ۱۳۵۴ھ میں مذکورہ بالادیار میں صدہا علماء ومشائخ داخل سلسلہ ہوئے، اور اجازت وخلافت سے سر فراز کیےگئے، حضرت میاں راج صاحب سوندھ شریف ضلع گڑگانواں نے سلسلہ قادریہ زاہدیہ کی اجازت کے ساتھ سلطان الاذکار ودیگر اشغال مخصوصہ کی اجازت دی اور ایک دونی عطا فرمائی، مولانا سید شاہ محمد امیر کاملی نے سلسلہ قادریہ منوریہ کی اجازت سےنوازا، حضرت شاہ آل رسول مارہروی حضرت شاہ حافظ احمد حسین خاں شاہجہانپوری، حضرت شاہ خلیل احمد مخاطب بہ عین اللہ صفی پوری نے اپنے سلاسل کی اجازتیں عطا فرمائیں، اعلیٰ حضرت سرکار کھچوچھہ علاوہ باطنی اعلیٰ اوصاف وخصوصیات کے ظاہری شکل وصورت میں حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہٗ کےہم شکل و صورت تھے، ارباب مشاہدہ نےاس کی تصدیق کی ہے، ولیعہد سجادہ سرکار کلاں حضرت مولانا سید شاہ اظہار اشرف مدظلہٗ کی روایت ہے کہ ایک بار اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ حضرت سلطان المشائخ محبوب الٰہی رضی اللہ عنہ کے مزار پاک کے اندر سے فاتحہ پڑھ کر نکل رہےتھےاور فاضل بریلوی امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا قدس سرہٗ بفرض فاتحہ جارہے تھےکہ فاضل بریلوی کی نظر اعلیٰ حضرت پر پڑی، دیکھا تو بالکل ہم شکل محبوب الٰہی تھے، اسی وقت برجستہ یہ شعر کہا ؎
اشرفی اے رخت آئینۂ حُسنِ خوباں
اےنظر کردۂ پر ورۂ ملہ محبوباں
ہزار ہا افراد تو صرف آپ کے حُسن خدا داد کی زیارت سےحلقہ بگوش اسلام ہوئے، آپ کی تقریر نہایت مؤثر ہوتی تھی،مواعظ میں جس انداز میں آپ ثمنوی پڑھتےوہ بے نظیر تھا،۔۔۔۔حضرت مخدوم سلطان اشرف سمنانی کچھوچھوی کےبعد سلسلہ عالیہ اشرفیہ میں آپ جیسا مرجع الخلائق کوئی دوسرےبزرگ نہیں گذرے، آپ ہیکی ذات مبارکہ سے شرق سے غرب اور شمال سےجنوب تک صدیوں بعد سلسلہ اشرفیہ بلادِ اسلامی میں پھیلا۔
آپ کا دربار میکدۂ عرفان وآگہہی تھا، جہاںبادہ گساران طریقت کا ہر وقت میلہ لگارہتا تھا، آپ متقدمین صوفیہکی روش پر فکر سخن بھی فرماتے تھے، آپ کے محبوب مُرید اور مشہور مبلغ اسلام میر غلام بھیک نیرنگ وکیل انبالہ نےدیوان عرفان ترجمان کا مجموعہ بنام ‘‘تحائف اشرفی’’ ۱۳۳۳ھ میں مرتب کر کےشائع کیا، دوبارہ ازہر بکڈ یو کراچی نے شائع کیا ہے۔
گیارہویں رجب ۱۳۵۵ھ کو طویل عمر میں حضرت کا وصال ہوا، مرقد درگاہ مخدوم سید اشرف میں زیارت گاہ ہے، آپ کے خلفاء میں سے چند کا ذکر اسی تذکرہ میں مرقوم ہے
(چراغ صفوی)