فاطمہ بنتِ اسد رضی اللہ عنہا
آپ کا نام فاطمہ رضی اللہ عنہااورآپ کے والد کا نام اسد تھا ۔آپ کاسلسلۂ نسب تیسری پشت میں ہاشم بن عبد مناف سے مل جاتاہے۔ آپ مکہ میں پیدا ہوئیں اوروہیں آخری عمر تک زندگی بسر ہوئی۔جب آپ سنِ شعور کو پہونچیں توقبیلہ کے ایک نوجوان معزز سردار ابوطالب بن عبدالمطلب سے آ پ کانکاح ہوا ۔شادی کے تھوڑے عرصہ کے بعدآپ کے بطن سے حضرت علیکرم اللہ وجہہ پیداہوئے۔ آپ پہلی عورت ہیں جن سے ہاشمی لڑکا پیدا ہوا ۔چنانچہ مشہور محدث علامہ حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہلکھتے ہیں کہ ھی اول ھاشمیۃ ولدت الھاشمی یہ پہلی ہاشمی خاتون ہیں کہ جن سے ہاشمی اولاد پیدا ہوئی۔
خدماتِ جلیلہ
آنحضرتﷺ جب حضرت عبدالمطلب کی وفات کے بعد ابوطالب کے سایۂ عاطفت میں آ ئے ہیں تو حضرت فاطمہ بنت اسدرضی اللہ عنہا آپ پر نہایت لطف وکرم کرتیں اور آپ کوراحت وآرام پہونچا نے کے لیے جو ممکن خدمات آپ سے ہوسکتی تھیں انجام دینے میں دریغ نہیں کرتی تھیں۔چنانچہ ایک روز آنحضرت ﷺ اپنے کثیر حلقۂ احباب واصحاب رضی اللہ عنہم میں بیٹھے گفتگو فرمارہے تھے کہ درمیان میں آپ کاتذکرہ آگیا تو فرمانے لگے کہ لم یکن احد بعد ابی طالب دربیٰ منھاابوطالب کے بعد (حضرت )فاطمہ سے زائد اورکوئی مجھ پر مشفق ومہربان نہ تھا۔
اسلام
کوہ حرا سے جب آفتاب ِ رسالت اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ طلوع ہوکر نظرِ شہود پر
جلوہ ریز ہوا اس وقت بنو ہاشم کے بہت سے لوگ رفتہ رفتہ اس کے تابش انوار سے منور ہوئے انہیں میں سے آپ بھی تھیں جو برضا ورغبت حلقہ بگوش اسلام ہوئیں۔نہ صرف آپ مشرف بہ اسلام ہوئیں بلکہ آپ کی بعض اولاد بھی آپ کے ساتھ اس بے بہا دولت سے مالا مال ہوئی۔
اس کے بعد سے آپ نہایت استقلال واستقامت سے اسلام پر جمی رہیں آپ کو بڑی بڑی تکالیف اوربڑے ہی خطرناک مصائب برداشت کرناپڑے،قوم کی گالیاں سنیں ،اعزّا واقرباء نے قطع تعلق کیا اورہر قسم کے جوروستم اورمظالم کے پہاڑ آپ کے سر پر توڑے گئے مگر آپ کے راسخ قدموں کوذرہ برابر لغزش نہیں ہوئی بلکہ راسخ سے راسخ تر ہوتی گئیں۔
ہجرت
قوم کی تکالیف اورایذا اٹھاتے اٹھاتے جب مسلمان بالکل تنگ اورعاجز آگئے توجناب باری عزوجل کے یہاں سے ہجرت کاحکم ملا اگرچہ آپ سے پہلے اورآپ کے بعد بھی مسلمانوں کو اچھی خاصی تعداد مکہ کو الوداع کہہ کر مدینہ کی طرف راہی ہوچکی تھی مگر چند خاص وجوہ اسباب اورموانع کی بنا پر آپ ابھی تک مکہ ہی میں قیام پذیر تھیں مگر جب وہ موانع نہ رہے تو آپ نے بھی ہجرت فرمائی۔مدینہ پہونچکر حضرت علی (ص)کاحضرت فاطمہ بنت رسول اکر م (ﷺ) سے عقد ہوگیا۔آپ حضرت فاطمہرضی اللہ عنہا کوبالکل اپنی اولاد کی طرح مانا کرتی تھیں ۔برابر ان کے کاموں میں شریک رہا کرتیں اورحتی الامکان ان کے آرام کا لحاظ فرمایا کرتیں۔
وفات
اسی اثناء میں آپ بیمار پڑیں اورچند روز بیمار رہ کر اس دارفانی کو الوداع کہتی ہوئی عالم جاودانی کی طرف سدھار گئیں۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
کفن کے لیے آنحضرت (ﷺ) نے اپنی قمیص مبار ک عنایت فرمائی اورقبر تیار ہونے کے بعد آپ اس میں لیٹ گئے۔لوگوں نے تعجب سے دریافت کیا توآپ نے فرمایا کہ ابوطالب کے بعد مجھ پر ان سے زیادہ اورکوئی مہربان نہ تھا۔انہوں نے میری بہت خدمت کی تھی اس لئے میں نے انہیں اپنی قمیص پہنادی کہ جنتی لباس پہننے کو ملے اورقبر میں لیٹ گیا تاکہ ہر طرح کے
عذاب سے محفوظ رہیں۔
اولاد
آپ کی متعدد اولادیں پیدا ہوئیں مگر ان میں حضرت جعفر ،حضرت علی ، حضرت عقیل اورحضرت امِ ہانی رضی اللہ عنہم خاص طور پر قابل ذکر ہیں کہ ان کی وجہ سے اسلام کوبہت مدد ملی۔
فضائل ومناقب
آپ کے فضائل بے شمار ہیں ،درمنثور میں ہے کہ: فاطمۃ الزھراء رضی اللّٰہ عنہا فضائل مشہورۃ وماٰثرمشکورۃ مذکورۃ فی کتب التاریخ یہی فاطمہ ہیں کہ جن کے فضائل ومناقب کتب تاریخ میں مذکورہیں۔
آپ کے انہیں فضائل کی بناپرآنحضرت ﷺآپ کودیکھنے تشریف لے جایا کرتے تھے اوربسااوقات آرام بھی آپ ہی کے یہاں فرمایا کرتے تھے۔