یتیم شہید بچہ
حضرت عبدالواحد بن زید قدس سرہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ ہم جنگ کی تیاری کررہے تھے میںنے اپنے ایک ساتھی کوکہا کہ مجلس میں زور سے قرآن پاک کی یہی دوآیتیں :اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰیۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ وَمَنْ اَوْفٰی بِعَہْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ وَ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِوَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ وَبَشِّرِالْمُؤْمِنِیْنَ ْ(ترجمہ)بے شک اللہ نے مسلمانوں سے اُن کے مال اور جان خریدلئے ہیں اِس بدلے پر کہ اُن کے لیے جنت ہے اللہ کی راہ میں لڑیں تو ماریں اور مریں اُس کے ذمہ کرم پر سچا وعدہ توریت اور انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ قول کا پورا کون؟ توخوشیاں مناؤ اپنے سودے کی جو تم نے اُس سے کیا ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔توبہ والے، عبادت والے، سراہنے والے ، روزے والے، رکوع والے ،سجدہ والے، بھلائی کے بتانے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدیں نگاہ رکھنے والے اور خوشی سناؤ مسلمانوں کو ۔ ) (پارہ۱۱، سو ر ۃ التوبہ،آیت۱۱۱،۱۱۲)
پڑھ دے تاکہ لوگوں کو جہاد کی ترغیب نصیب ہو۔چنانچہ جب یہ دوآیتیں پڑھی گئیں توہمارے ہاں ایک نوجوان جس کی زیادہ سے زیادہ پندرہ سال عمر ہوگی حاضرہواا وروہ تھا بھی یتیم ۔ یعنی انہی ایام میں اس کا باپ فوت ہوچکاتھا اوراسے وراثت میں بکثرت مال ودولت حاصل ہوئی تھی اس نے مجھے کہا اے عبدالواحد بن زید کیا یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے جان ومال لے کر بہشت عنایت فرماتا ہے ۔میں نے کہاں ہاں بالکل صحیح ہے اُس نے کہا توپھر آپ گواہ ہوجائیے میں مال وجان اللہ تعالیٰ کے سپرد کر کے بہشت لینا چاہتا ہوں۔میں نے اُسے کہا عزیز ذرا سوچ لے۔تلوار کی سختی بہت تیز ہوتی ہے اورتوابھی بچہ ہے نامعلوم تلوار کی سختی تم برداشت نہ کرسکو اورپھر اس عزم سے باز رہو ۔اس نے کہا ’’اے عبدالواحد بن زید‘‘ یقین کیجئے
میں نے تو اللہ تعالیٰ کواپنی جان ومال بہشت کے عوض پیش کردی۔اب اس عزم سے ہٹنا کسی ناقص العقل کاکام ہوگا۔آپ گواہ رہیں میں اپنے عزم پرڈٹاہواہوں۔حضرت عبدالواحد (ص) فرماتے ہیں بچے کی ان باتوں سے ہم سب حیران تھے۔اورہم سب اپنے آپ کوملامت کرتے کہ چھوٹا بچہ ہو کر کتنا سمجھداری رکھتا ہے اورہم کمزوری کاثبوت دے رہے ہیں۔وہ نوجوان مجھے مذکورہ بالاباتیں کہہ کر گھر چلا گیا اورواپس آکر گھر کا ساراسامان میرے سپر د کردیا۔صرف ایک گھوڑا ایک تلوار وجنگی ضروریات کیلئے تھوڑا سامال اپنے پاس رکھا ۔جب روانگی کاوقت قریب ہوا توسب سے پہلے لشکر گاہ میں حاضر ہو کر کہا السلام علیکم ! میں نے سلام کاجواب دے کر کہا ’’تیری تجارت ان شاء اللہ تعالیٰ رنگ لائے گی۔‘‘اس کے بعد سب چل پڑے اوروہ نوجوان ہمارے ساتھ تھا ۔ اوراتنا شوق کہ دن کوروزہ سے رہتا اوررات میں عبادت میں مصروف ۔بلکہ ہم سب کی اورہماری سواریوں کی بڑی شوق سے خدمت کرتے ہوئے چلتا رہتا ۔اورجب ہم سوجاتے تو وہ ہم سب پر پہرا دیتا ۔یہاں تک کہ دارالروم(میدانِ جنگ)میں پہنچے تو وہ اچانک بڑے زور سے کہتا تھا ’’ہائے ‘‘۔’’العیناء المرضیہ ‘‘
میرے ساتھیوں نے کہا افسوس نوجوان کو وسوسۂ شیطانی نے گھیر لیا اب اس کا دماغی توازن بھی صحیح نہیں رہا ۔میں نے اسے بلا کر پوچھا عزیز،’’العیناء المرضیہ‘‘کاکیا مطلب ہے اورتم اس کا کلمہ بار با ر کیوں دہراتے ہو۔اُس نے کہا حضرت !ماجرایوں ہے کہ میں ایک شب سورہاتھا مجھے اونگھ سی آگئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاں کوئی آنے والا آیا ہے اورکہا چلو۔’’العیناء المرضیہ ‘‘کے پاس، یہ کہہ کر مجھے ایک باغ میں لایا گیا ۔جس کے اندر ایک ٹھنڈے پانی کی نہر چل رہی تھی اوراس کے کنارے چند حسین لڑکیاں بیٹھیں تھیں۔جن کے لباس اورزیورات اتنے قیمتی اوربہترین تھے جو کبھی نہ دیکھے نہ سنے اورنہ ہی اب میں ان کے متعلق کچھ بتاسکتا ہوں۔جب انہوں نے مجھے دیکھا بڑے تپاک سے میراا ستقبال کیا اورآپس میں کہنے لگیں۔’’العیناء المرضیہ ‘ ‘ کے شوہر گرامی یہی ہیں۔میں نے انہیں السلام علیکن کہہ کر پوچھا ’’العیناء المرضیہ ‘‘تمہیں میں کوئی ہے انہوں نے کہا نہیں۔جناب وہ تو ہماری آقا اورہم ان کی
نوکرانیاں ہیں ۔ ذرا آگے تشریف لے جائیے۔ میں آگے بڑھا تو مجھے ایک بہترین محل نظر آیا جس کے اندر ٹھنڈے میٹھے دودھ کی نہر جاری تھی اوراس کے کنارے پہلے کی طرح چند حسین و جمیل نوخیز لڑکیاں بیٹھی تھیں جنہیں دیکھتے ہی ہر انسان اپنے قابو سے باہر ہوجائے ۔انہوں نے پہلی لڑکیوں کی طرح میرا ستقبال کیا اوران سے بھی وہی گفتگو ہوئی۔انہوں نے بھی وہی کہا کہ ہم اس کی خادمہ ہیں۔ذرا آگے بڑھئے ۔میں تھوڑا آگے بڑھا تو بہترین محل نظرآیا ۔اس کے اندر شراب طہور کی نہر چل رہی تھی۔اس کے کنارے حسب دستور چند لڑکیاں بیٹھیں تھیں۔جن کے حُسن وجمال کو دیکھ کر پچھلی تمام حسین وجمیلہ لڑکیوں کا حسن وجمال میرے ذہن سے اتر گیا ۔ان سے بھی وہی گفتگو ہوئی۔انہوں نے بھی آگے چلنے کو کہا ۔میں کچھ آگے گیا تو دیکھا کہ ایک نہر شہد کی چل رہی ہے۔اس کے آگے ایک موتیوں کا بہترین محل ہے ۔ جس کے آگے ایک حسینہ جمیلہ لڑکی بیٹھی نظر آئی ۔ وہ مجھے دیکھ کر خوش ہوئی اورباہر سے آواز دی۔’’العیناء المرضیہ ‘‘تمہیں مبار ک ہو تیر اشوہر آگیا ہے ۔میں جونہی خیمہ کے قریب گیا اوراند رجھانک کر دیکھا تو وہ ’’العیناء المرضیہ ‘‘ ایک سنہری پلنگ پر بیٹھی ہے۔اسے جب میں نے دیکھا تو میرے ہوش اڑگئے اوروہ مجھے کہتی تھی، مرحبا یاولی اللّٰہتمہیں مژدہ باد!یہاں پر تمہارے تشریف لانے کا وقت قریب آگیا ہے ۔میں نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگانا چاہاتواس نے کہا کہ ٹھہرئیے۔ابھی تمہارے گلے لگانے کا وقت نہیں آیا ۔اس لیے کہ تم عالمِ دنیا میںہوالبتہ واپس چلے جائو۔جنگ میں شرکت کرو ۔شام تک تمہارا رہنا سہنا عالم دنیا میں لکھا ہے۔بعد ازاں تم ہمارے ہاں تشریف لاکر روزہ یہاں افطار کروگے ۔ (ان شاء اللہ)
اے عبدالواحد بن زید !یہ ماجراہوا ۔اسکے بعد میں جاگا تونہ مجھے قرار ہے نہ سکون،میں تو ایک لمحہ بھی اس دنیا میںنہیں رہنا چاہتا ۔مجھے ’’العیناء المرضیہ‘‘ کی یاد ستارہی ہے ۔
ہم ابھی باہم گفتگو میں تھے کہ دشمنانِ اسلام کی طرف سے جنگ کااعلان ہوگیا اسی اثناء میں دشمنوں کا ابتدائی دستہ تلواریں چمکاتاہوا ہمارے مجاہدین کے مقابلے کیلئے میدان جنگ میں آدھمکا توفوراً وہی نوجوان میدان جنگ میں کود پڑااوربڑے جذبے کے ساتھ جوانمردی کے جوہر دکھلائے ۔دشمنوں کے نوبہادروں کو جہنم رسید کیا دسویں پر حملہ کیا تو میں نے نوجوان کو دیکھا
کہ خون سے لت پت ہوگیا اوراس پر دشمنوں کے تیروں اورتلواروں کے کافی زخم آچکے تھے میرے پہنچتے ہی ہنستے ہوئے دم توڑا۔(روح البیان :پ۱۱)