حضرت سیدنا خواجہ امیر ابوالعلاء قدس سرہ العزیز
بانی سلسلئہ ابوالعلائیہ نقشبندیہ
=============================
قطب الواصلین حضرت سیدنا خواجہ امیر ابوالعلاء قدس سرہ سلسلئہ ابوالعلائیہ نقشبندیہ کے امام کہلائے جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا روحانی اویسی سلسلہ ہے جس میں دریائے فیضِ نقشبندیہ و دریائے فیضِ چشتیہ موجزن ہے اس لیے اس طریقیہ کو مجمع البحرین کہتے ہیں۔ تاریخ تصوف کے مطابق حضرت سیدنا سرکار خواجہ امیر ابوالعلاء قدس سرہ کو بلا واسط حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فیض پہنچا تھا اس لیے آپکو اویسی علی مرتضیٰ بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت خواجہ امیر ابوالعلاء قدس سرہ کا سن ولادت 990 ہجری ہے۔ آپ کے والد کا نام سید ابووفا تھا اور آپ کے خاندان نےاکبر بادشاہ کے دور اقتدار میں سمرقند سے ہجرت فرماکر فتح پور سکری میں سکونت اختیار کی تھی۔ دربار اکبری سے آپ کے داد حضرت حضرت امیر عبد السلام ؒ کو وظیفہ بھی مقرر ہوا تھا ۔ ابھی آپ کم سن ہی تھے کہ آپ کے والد کا وصال ہوگیا اور پھر آپ اپنے داد کی ریر کفالت رہے۔ آپ کے داد کے وصال کے بعد آپ کی کفالت آپکے نانا حضرت خواجہ محمد فیض ؒ نے فرمائی جوہندوستان کےضلع برودان میں نظامت کے عہدے پر فائز تھے۔ آپ نے اپنے نانا کی نگرانی میں تفسیر، حدیث فقہ، منطق، صرف و نحو میں اعلیٰ قابلیت حاصل کی اورفارسی زبان پر عبور حاصل کیا۔ ابھی جملہ علوم سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ آپ کے نانا کا بھی وصال ہوگیا جو ایک مہم میں شہید ہوئے تھے۔ راجہ مان سنگھ حضرت خواجہ امیر ابوالعلاء قدس سرہ کی علمی و انتظامی قابلیت کا معترف تھا اس ہی لیے اس نے آپ کی نانا کی جگہ آپ کا تقرر کردیا۔
عہدہ نظامت کے فرائض آپ بخوبی انجام دیتے رہے۔ آپ دن میں فرائض منصبی کی انجام دہی اور رات عبادت میں گزارتے تھے۔ ایک رات آپ خواب میں حضور اکرم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ حضور اکرمﷺ نے آپ سے فرمایا اب اس دنیا کو چھوڑ دو ۔اس خواب کے بعد آپ کو دنیا سے نفرت ہوگی اور آپ نے نظامت کے عہدے سےسبکدوش ہونےکا مصمم ارادکرلیا اور خاصی شاہی مشکلات کے بعد اپنے اس عہدے سے مستفیس ہوگے۔
حضرت خواجہ امیر ابوالعلاء قدس سرہ نے اپنا مال ومتاع راہ حق میں خیرات کیا اور عبادات و ریاضت وذکر و مراقبات میں مشغل رہنے لگے۔ ایک دن آپ مشغول مراقبہ تھے کہ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ بصورت مثالی تشریف لائے اور آپ سے فرمایا کہ تمھارا حصہ خواجہ معین الدین اجمیری ؒ پاس ہے جاؤاور ان سے اپنا حصہ پاؤ۔ آپ بحکم سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اجمیر شریف روانہ ہوئے اور خواجہ معین الدین اجمیری کے مزار پُر انوار پر حاضر ہوئے۔ دوران حاضری حضرت خواجہ معین الدین اجمیری ؒ سے آپ کی بلمشافہ بصورت مثالی ملاقات ہوئی اور حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ نے آپ کی جانب خصوصی توجہ مبذول فرمائی۔سلسلہ ابو العلائیہ میں اس توجہ کو توجہِ عینی کہتے ہیں۔
آپ حضرت خواجہ غریب نوازکے آستانے پر معتکف رہنے لگے۔ ایک رات کا واقعہ ہے کہ آپ حضرت خواجہ غریب نواز ؒکے مزار اقدس کا طواف کررہے تھے کہ حضرت خواجہ غریب نواز ؒ بصورت مثالی جلوہ گر ہوئے اور ایک سرخ رنگ کی چیز جو دانہ تسبیح کے برابر تھی اپنی مٹھی میں بند کرکے آ کے دہن مبارک میں داخل کی، منہ میں اس متبرک دانے کو ڈالٹے ہی آپ کا قلب روشن ہوگیا اور جملہ حجابات اُٹھ گئے۔حضرت خواجہ غریب نواز نے آپ سے فرمایا کہ اس دور حاضر میں سید زادے اور خواجہ زادے بہت ہیں مگر مشیت الہیٰ نے تم کو انتخاب کیا ہے اور اس نعمت سے تمہیں ممتاز فرمایا ہے جو سو سال یا پانچ سو سال بعد کسی بندے خاص کو عنایت ہوتی ہے۔پھریہ بھی ارشادفرمایا کہ بابا ہماری تمام عمر کی کمائی یہ ایک چیز تھی جو ہم نے تم کو دے دی اب تم اس پرنگاہ رکھنا۔ یہاں سے جو لینا تھا وہ تم نے لے لیا ہے اب مرتبہ فضیلت تم کو اپنے چچا بزرگوار حضرت خواجہ امیر عبد اللہؒ سے ملے گا ان سے بیعت کرؤ۔ حضرت خواجہ امیر ابوالعلاء قدس سرہ نے حضرت خواجہ غریب نواز سے عرض کی کہ مجھے سارا فیض آپ سے پہنچا ہے اور ہمارے چچا محترم طریقہ نقشبندیہ میں ہیں وہ مجھے سماع کی اجازت نہیں دیں گے، جس پر حضرت خواجہ غریب نواز نے آپ سےفرمایا وہ تمہیں سماع کی اجازت دیں گے اور سلسلہ نقش بندیہ میں تم سے سماع جاری ہوگا ۔
حضرت خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے حکم کے مطابق آپ اجمیر شریف سے اگرہ تشریف لائے اورحضرت خواجہ امیر عبد اللہ ؒکی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے دست حق پر بیعت ہونے کی سعادت حاصل کی۔حضرت خواجہ امیر عبد اللہؒ نے آپ کو سلسلہ نقشبندیہ میں داخل فرمایا اور بسہولت تمام منازل سلوک و مقامات طے کروانے کے بعد خرقہ خلافت سے سرفراز فرمایا اور آپ کو سلسلہ عالیہ کے تبرکات مقدسہ بھی تفویض فرمائے اور اپنی صاحبزادی سے عقد بھی کردیا۔ حضرت خواجہ امیر ابوالعلاء قدس سرہ کا سلسلہ طریقت پانچ واسطوں بشمول حضرت شیخ خواجہ یعقوب چرخیؒ سے ہوتا ہوا حضرت خواجہ خواجگان بہاؤالدین نقشبند بخاری نقشبندیؒ سے جا ملتا ہے۔
آپ کے شیخ طریقت حضرت سیدنا امیر عبداللہ نقشبندی احراری ایک باخدا شیخِ طریقت اور قظبِ وقت تھے، ایک موقع پر آپ نے حضرت خواجہ امیر ابوالعلاء قدس سرہ سے فرمایا، اے ابو العلیٰ جو کچھ تمھیں ملنا تھا وہ تو خواجہ اجمیری کی بارگاہ سے تمہیں مل گیا ہے اب تمہیں سماع کی بھی اجازت ہےکیونکہ یہ بھی جذبات الہیہ کی موجب پیدائش و افزائش ہے مگر سلسلہ نقشبندیہ کی اذکار و اشغال سے غافل نہ رہنا۔
آپ کو حضرت امیر عبداللہ نقشبندی احراری نے اپنی حیات میں ہی اپنا جانشین مقرر کردیا تھا۔ اپنے پیر ومرشد کے وصال کے بعد آپ ان کی مسند رشد وہدایت پر جلوہ افروز ہوئے۔ سلسلہ ابو العلائی میں تعلیم و تلقین وفیضانِ جذبات الہیہ سے لوگوں کو مشرف کیا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں ایک خاص کیفیتِ ابو العلائی ہے جسے توجہِ عینی دینا کہا جاتا ہے،یہ توجہ دیتے ہی سالک جذبات الہیہ سے معمور ہوجاتا ہے اور اپنی خودی کو در گزر کرکے باخدا ہوجاتا ہے۔
آپ کا 9 صفرالمظفر سن 1061ھ وصال ہوا اور آگرہ میں مدفون ہوئے۔ رسالہ فناوبقا" آپ کی ایک علمی یادگارہے۔ آٓپ کی وفات کےبعدآپ کےچھوٹےصاحب زادےحضرت امیرنورالعلیٰ آپ کےسجادہ نشین ہوئے۔حضرت خواجہ محمدی عرف خواجہ فولادؒ،حضرت ملاولی محمؒد،حضرت لاڈ خاںؒ،حضرت میر سید کالپوریؒ اور حضرت سیددوست محمدبرہان پوریؒ کا شمار آپ کےمقتدرخلفاء میں ہوتا ہے۔
والسلام (محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ)