سید بابا فخر الدین سہروردی پنگنڈہ ، آندھرا کے مشہور بزرگ ہیں یہ معروف ہیں میٹھے شاہ ولی سہروردی کے نام سے۔
حضرت سید بابا فخرالدین حسینی سہروردی ؒ کی ولادت =========================== حضرت خضر علیہ السلام جنت سے لایا ہوا میوہ دے کر روانہ ہونے کے بعد حضرت سلطان سید حسینؒ اور ان کی اہلیہ حضرت فاطمہ مکی صغیرؒ دونوں نے اس میوہ کو نوش فرمایا ۔ اس کے بعد بی بی فاطمہ مدنی صغیرؒ حاملہ ہوئیں ۔ حضرت خضرعلیہ السلام کے قول کے مطابق بی بی کے شکم سے کلام پاک کی آواز آنے لگی ۔ یہ آواز سن کر آپ ؒ حیران ہوئیں جس وقت درد زہ شروع ہوا تو آپ کے پیٹ سے تلاوت قرآن پاک کی آواز شروع ہوئی ۔ یہ آواز آپ کی محافظ دائیوں نے بھی سنی آپ نے حیران ہو کروضوکیا نماز عشاء ادا کی پھر تھوڑی دیر تک لیٹ گئیں خواب دیکھنے کے بعد جاگ اٹھیں دوبارہ وضو کرکے بارگاہِ خداوندی میں شکرانہ نماز ادا کی ۔ خواب کی کیفیت آپ نے اپنی دائیوں کو سنائی خواب یہ تھا کہ آپ سے ہاتف غیب نے فرمایا کہ اے فاطمہ مدنی ؒ بنت رسول قرآن کی آواز تمہارے پیٹ ہی سے آرہی ہے تھوڑی دیر صبرکر قرآن پورا ہونے والا ہے اس کے بعد ایک فرزند نرینہ پیداہو گا ۔ یہ کیفیت سن کر دائیاں حیران ہوئیں جب سلطان سید حسینؒ کو یہ کیفیت معلوم ہوئی تو فوران فاطمہ مدنی ؒ کے گھر تشریف لائے آپ نے خود بھی تلاوت قرآن پاک کی آواز سنی اور کہا کہ یہ سچ ہے حضرت خضرعلیہ السلام اس کی اطلاع پہلے ہی دے چکے ہیں ۔ پھرآپ ؒ اپنے حجرے کو واپس لوٹ گئے اور مراقبے میں بیٹھ کر خضرعلیہ السلام کے فرمان کے مطابق چار کرامتوں کو یادکر کے فاطمہ مدنیؒ کے گھر کی جانب نگاہ کی اس وقت ہاتف غیب سے آواز آئی کہ اے سلطان سید حسین ابن رسول تیرے گھر میں اللہ تعالیٰ کے نور کا ایک عصا بھی ہے وہ تیرے لئے ابداََ ابداََ ہے آپ دونوں ہاتھ پکڑ کر غور کرنے لگے اس عصا کا کیا نام ہوگا اس وقت ندائے ہاتف آئی اس کا نام جنتی غوّا ص ہوگا اس عصاکو ملائک حضرت فاطمہ مدنی ؒ کے گھڑ رکھ کر چل دئے اس کرامت کو دیکھ کر سلطان سید حسین ؒ شکرانہ نماز ادا کئے دوسری کرامت یہ پیش آئی کہ جس وقت دردِزہ زیادہ ہونے لگا تو فاطمہ مدنی صغیرؒ وضوکرکے مصلے پر ہی کھڑے ہو کر نماز تہجدادا کی امیر مناجات پرھنا شروع کردی دردِزہ زیادہ ہونے کی وجہ سے زمین پر بے ہوش ہوکر گرگئیں۔ اس وقت آپ کے پاس ایک سو دائیاں اور خدمت گار لونڈیاں موجود تھیں دیکھا کہ آپ کے مکان مین ایک نور پیدا ہوا جو مثل بدر ہے تیسری کرامت یہ کہ فاطمہ مدنی صغیرؒ بے ہوشی کے بعد جاگ ا ٹھیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ ایک طفل پر نور آپؒ کے پہلو میں لیٹا ہواہے۔ تاریخ پیدائش چھبیسویں رمضان المبارک شب جمعہ لیلتہ القدر تھی ۔ پیدائش کے وقت آپ ؒ کا سیدھا ہاتھ دونوں آنکھوں کو اور بایاں ہاتھ شرم گاہ کو ڈھانپا ہوا تھا آپ ؒ کا سر مبارک ماں کی طرف اور چہرہ آسمان کی طرف تھا حضرت فاطمہ مدنی ؒ کو دردزہ کی وجہ اتنی طاقت نہ تھی کہ آپ بچہ کو اٹھائیں پھر آپ نے دائیوں کی طرف نظرکی تو دیکھا کہ وہ تمام آنکھیں بند کئے ہوئے حواس گم کردہ کھڑی ہیں آپ نے چیخ کر کہا کہ اے لونڈیوں میں تو دردِزہ کی وجہ سے بے ہوش پڑی تھی تم نے کیوں میری مددنہ کی کیوں خاموش ہو آواز سنتے ہی تمام دائیوں کو ہوش آیا اور کہنے کگیں کہ اے مادر مو منین ہماری بھی سنئے جب آپ نماز تہجد اور دعا کے بعد گر پڑیں تو ہم پریشان ہو کر قریب آنے ہی والے تھے کہ ایک نور مہتاب نمودار ہوااور ہماری آنکھوں کی روشنی زائل ہو گئی اور ہم پر بے ہوشی طاری ہوگئی آپ کی سرزفش آنے تک ہمارا یہی حال رہا ۔ چوتھی کرامت مناجات کے دوران جب آپ پر بے ہوشی کا عالم طاری ہواتو ایک غیبی آواز سنائی دی کہ اے فاطمہ مدنیؒ یہ جنتی تجھ کو خود اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے یہ مہتاب جنتی ہے یہ ظلم وستم کو زیر وزبر اور ختم کرے گا ندائے غیب کے بعد ابلیس لئین میرے بائیں جانب آنے کی کو شش کی مگر ملائک میرے قریب تھے اور نزدیک نہ آسکا چینج کر کہنے لگا کہ اے فاطمہ مدنی ؒ آج کی رات جو جنتی نور مثل مہتاب تیرے شکم میں داخل ہوا ہے جس کے سبب میں شدت گریہ وزاری کر رہا ہوں اے بنت رسول سید حسین اور تیرے شکم سے جو کڑکا پیدا ہوگا وہ بزرگ زادہ اور دین کا پہلوان ہوگا اور میں خواروذلیل ہوجاؤں گا جب میرے اور ابلیس کے درمیان باتیں ہورہی تھیں میں عالم خواب میں تھی اتنے میں آواز ہاتف آئی کہ اے حضرت فاطمہ مدنی ؒ جلد ہو شیار ہو جب یہ آواز میں نے سنی فوراََ جاگ گئی کیا دیکھتی ہوں کہ میرے پیٹ سے فرزند تولد ہو کر فرش پر پڑا ہوا ہے یہ واقعہ سن کر دائیاں حیران رہ گئیں اور فوراََ حضرت سلطان سید حسین کو اطلاع دیں کہ حضرت فاطمہ مدنیؒ کے بطن سے اولاد نرینہ تولد ہوئی ہے آپ نے یہ خو شخبری سنتے ہی نقارہ چینوں کو نوبت بجانے کا حکم دیا ور جب نقارے کی آواز سنیں تب لوگوں کی گاہیں آسمان کی طرف اٹھیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ پرنور ارواح اور حورو ملائک آسمان سے آرہے ہیں یہ منظر دیکھ کر حیران ہوئے اور کہنے لگے یہ تو قیامت کے آثار ہیں اس طرح مختلف قسم کی آراء گشت کرنے لگیں اسیے میں محل سلطان سید حسین سے اعلان ہوا آج رات سلطان حسین کو فرزند ہوا ہے تو علماء و درویشان حضرت خضر علیہ السلام کی پیش گوئی یاد کرنے لگے ۔ تمام شہر سیتان میں ایک بزرگ ہستی تولد ہوئی ہے پیدائش کی تاریخ سن ہجری سے تقدس نکالی گئی ہے ت ق دس 564 ھ ماہ رمضان المبارک شب لیلتہ القدر حضرت سید حسین بھی آسمان سے روحوں کی آمد ورفت کا منظر دیکھ رہے تھے جب آمد ورفت ختم ہوئی تو بالا خانے سے نیچے تشریف لائے اور علماء ودرویشوں کو بلوا کر دریافت کیا کہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے مجھے ایک فرزند عطا ہوا ہے ۔ اس لئے آپ تمام متفقہ طور پر لڑکے کا نام تجویز کریں اس وقت نوسو علماء جمع تھے غور وخوض کے بعد تمام علماء اور درویشوں کو انعام واکرام سے نوازا گیا ۔ لنگر خانے کھولے گئےاور مولود کا اسم گرامی سلطان سید بابا فخرالدین حینی رکھا گیا ۔ جب یہ خبر اطراف واکناف شہر میں پہنچی کہ سلطان سید حسین کے یہاں با کرامت لڑ کا تولد ہوا ہے تو تمام شہروں سے لوگ جوق در جوق تحفہ تحائف بطورنذرانہ پیش کر نے لگے سلطان حسین نے بھی حسب لائقہ خلعت انعامات سے عطا کئے گئے ۔
ولادت
سید فخر الدین جو 564ھ میں پیدا ہو ئے ان کے والد سید حسین ابن سید ابو القاسم ایران کے وسط میں ’’ سیستان‘‘کی ایک ریاست تھی جس کے عادل بادشاہ تھے
تعلیم و تربیت
چھ مہینہ کی ہی مدت میں آپ نے قرآن شریف حفظ کر لیا اور بہت جلد علوم مروجہ میں کافی دسترس حاصل کی ۔
بادشاہت
آپ کے والد بزرگ گوار نے آپ کی ذکاوت اور ذہانت دیکھ کر آپ کو اپنا جا نشین بنا لیا اور آپ کو اپنی ہی زندگی میں کار وبار سلطنت میں حصہ لینے کا موقع دیا۔تقریباً اس وقت آپ کی عمر بیس سال تھی والد بزرگوار کی وفات کے بعد بلا شرکت غیر پچیس سال کی سن میں آپ کو بادشاہ سیستان بنا دیا گیا۔
بادشاہت سے کنارہ کشی
سید بابا فخر الدین کا ارادہ پہلے سے بادشاہ بننے کا ہی نہ تھا وہ چاہتے تھے کہ کہ اپنے چچا زاد بھائی سید علی کو بادشاہ بنا دیں لیکن امرا و وزرا اور تمام رعایا کے تقاضے سے آپ نے بادشاہی اختیار کی ۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ سید بابا فخر الدینؒ دربار میں عدل وانصاف فرما رہے تھے اس وقت ایک تاجر چند عمدہ گھو ڑے لا یا جن میں ایک گھوڑا بہت عمدہ اور تیز رفتار تھا اس گھو ڑے کو دیکھ کر آپ نے ادھر توجہ کی اور عدل وانصاف کے کام سے ذرا سی دیر کے لیے رک رہے تھوڑی دیر کے بعد عدل وانصاف کی طرف متوجہ ہوئے آپ کو اپنا تھوڑی دیر کے لیے عدل وانصاف کو چھوڑ کر گھوڑے کی طرف مائل ہو نا بہت ہی برا معلوم ہوا علما کو بلا کر فتویٰ طلب کیا ایک جید عالم نے اس کا کفارہ ترک بادشاہی بتلایا اوریہ حدیث پڑھی ۔ الدنیا جیفۃ وطالبھا کلاب (یعنی دنیا مردار ہے اور اس کا طلبگا ر کتا ہے)اس حدیث نے آپ کے دل پر بہت اثر کیا اس راست باز عالم سے خوش ہو کر اسے انعام واکرام دیا اور فوراً تخت شاہی سے اتر کر تاج کو سر سے اور مہر کو انگشتری سے نکال ڈالا۔ آپ نے فوراً منا دی کرادی چھوٹے بڑے سب حاضر در بار ہوں بڑے بڑے امرا وزرا تجار رعایا حاضر دربار ہوئے آپ نے ان کے روبرو ایک تقریر کی اور سب کو راضی کر لیا کہ آپ کے بھائی سید مرتضیٰ کو آپ بادشاہی دیویں گے اور اس دربار میں بھائی سے عدل وانصاف کا اقرار لے کر انہیں مالک تخت وتاج کر دیا اور جا بجا بجلی کی طرح یہ خبر پھیل گئی ۔
ورود کشمیر
سید بابا فخر الدین نے سیستان کی بادشاہی اپنے بھائی سید مرتضیٰ کو اور ترکستان کی بادشاہی سید علی کو دیدی آپ سیستان سے چند وفا داروں کے ساتھ کشمیر تشریف لائے جب سرینگر پہو نچے تو وہاں کے راجا کے گھر میں ایک لڑکے کی پیدائش ہو ئی تھی نجومیوں نے اس لڑکے کی ولادت سے راجا کے راج کو زوال کا سبب بتایا تھا راجا نے اس بچے کو جنگل میں پھینک دیا جب کا گزر تین بعد وہاں سے ہوا تو اس روتے بچے کی آواز سن کر اپنے ساتھی عبد العزیز کو اس بچے کو اٹھا کر پالنے کی اجازت دیدی بچہ بھوک سے تڑپتا تھا آپ نے اس کے منہ میں انگشت شہا دت دیا تو اس سے دودھ نکلنے لگا اور اسی طرح وہ بچہ سیراب ہو تا رہا۔ سید علی ترکستان کی سلطنت چھوڑ کر حضرت کی تلاش میں آ گئے اور یہ دونوں حضرات ملکر ہمیشہ چلہ کشی اور روزہ دار رہا کرتے تھے۔ جمنا کے جنگل میںمختلف ریاضتیں کیں آپ حج سے فارغ ہو کر ہندوستان میں ترچنا پلی میں کھمم مٹھ میں ٹہرے آپ کو ایک شیخ کی تلاش ہوئی۔ آپ کو خواب میں مظہر ولی نے فرمایا کہ آپ میرے پاس چلے آئیے انشاء اللہ آپ کا مقصد بر آئے گا آپ نے خواب سے بیدار ہو کر اپنے بھائی کو سنایا یہ سن کر سب یار واحباب خوش ہو گئے۔ ادھر حضرت مظہر ولی نے اپنی لے پالک دختر ماما جگنی کوسید بابافخر الدین ؒ کے پاس بھیجا کہ انھیں بلا لائے حضرت کے حکم سے ماماں جگنی اپنے چند خادموں کو لیکر بابا فخر الدینؒ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے والد کا فرمان سنایا سب کھمم مٹھ سے چل کر ترچنا پلی آئے۔ مظہر ولی ؒ سے آپ کی ملاقات ہوئی تو آپ نے قدم بوسی کی اور مظہر ولی نے گرم جوشی سے آپ کو گلے لگا لیا نے آپ کو آزمانے کے لیے بہت سی مشقتیں کرائیں آپ نے ہر کام کو سر انجام دہی میں بڑی جانفشانی سے کام لیا اس وقت بابا فخر الدینؒ کو قابل جو ہر جان کر آپ کو اپنا مرید بنایا اور اپنی خلافت دی ،خرقہ پہنایا اور ولایت کا ’’ پیالہ‘‘ پلایا اور سید علی مظہر ولی ؒ کے خادموں میں داخل ہو کر شرف حاصل کیا۔ یہاں اپنی طاقت آزمانے کے لیے سید بابافخر الدینؒ ایک سنگ خارا پر کھڑے ہو کر اپنے پاؤں دھنسائے دونوں پاؤں اس سنگ خارگا میں اتر پڑے آج تک یہ یاد گار نشان ترچنا پلی میں موجود ہے۔
وفات
سید بابا فخر الدین کی وفات بروزجمعرات بارھویں تاریخ ماہ جمادی الثانی 694ھ میں ہوئی۔(سن وصال آج سے تقریباً 746 سال پہلے ہے [1]
حوالہ جات
↑ قلندر برحق مولف: مولانا شاہ ابو الحسن ادیب