Biography Dr Wazeer Khan AkbarAbadi تعارف حضرت مجاہدآزادی حضرت ڈاکٹر وزیرعلی خان اکبرآبادی

 فاضلِ توریت و انجیل و مجا ہد ِانقلاب
 مولانا ڈاکٹر وزیر علی خاں، اکبرآبادی
از مولانا یاسین اختر مصباحی


 مولانا ڈاکٹر وزیر علی خاں،بہاری ثُمَّ اکبرآبادی (متوفی ۱۲۸۹ھ/ ۱۸۷۳ء)

 سرزمینِ بہار سے آگرہ آکر،آباد ہوئے تھے۔

ان کے والد، محمدنذیر خاں نے انھیں ابتدائی تعلیم کے بعد، مُرشد آباد (بنگال)  بھیج کر

انھیں انگریزی تعلیم دلائی اور اس کے بعد  انگلینڈ بھیج دیا۔ 

مولانا وزیرخاں نے انگلینڈ میں ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم، حاصل کی۔ 

چوں کہ آپ کا ذوق، علمی تھا ،اِس لئے بڑی محنت سے آپ نے یونانی اور عِبْرَانی زبانیں بھی سیکھیں اور انجیل و توریت وغیرہ کا مع شروح و حواشی ،عمیق مطالعہ کیا۔

ہندوستان، واپسی کے بعد ،پہلے، کلکتہ کے بڑے اسپتال میں 

حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ سرجن، مقرَّر ہوئے۔ اس کے بعد، آگرہ آئے۔ 

یہاں، مفتی انعام اللہ، گوپامئوی ،وکیل صدر سے رَبط و ضَبط ہوا۔ مولانا سیداحمدُ اللہ شاہ مدراسی نے آگرہ میں’’ مجلسِ عُلَما‘‘ بنائی تھی،جس کے اہم ممبر ،مولانا ڈاکٹر وزیرخاں بھی بن گئے اورجہادِ حُرِّیت کا جوش و جذبہ آپ کے اندر پیدا ہوا، جس نے رفتہ رفتہ ایک انقلابی شکل ،اِختیار کرلی۔

مفتی انتظام اللہ ،شہابی ،اکبرآبادی(متوفی ۱۹۶۸ء) لکھتے ہیں:


’’ڈاکٹر وزیر خاں صاحب کو ،انگریز دشمنی اور حُرِّیت نوازی کا چَسکا شاہ (احمدُاللہ، مدراسی) صاحب کے فیضِ صحبت سے پڑا۔ 

شاہ صاحب ،انگریزی حکومت کے خلاف ،میدان ،تیار کر رہے تھے۔

 چنانچہ ،جی فارسٹر اپنی تصنیف ’’اِنڈین میوٹنی‘‘ میں

مولانا احمدُ اللہ شاہ، مدراسی کے با رے میں لکھتاہے:

’’اَوَدھ کے باغیوں کی تجاویز اور سازش کی تحقیقات کی گئی ،تو معلوم ہوا کہ:

 اِس مولوی کو انگریز حکَّام ،بہ حیثیت، احمد شاہ فقیر اور صوفی

 عرصہ سے جانتے تھے۔ شمالی مغربی صوبہ جات میں ظاہراً،مذہبی تبلیغ کی خاطر پِھر چکے تھے۔ لیکن، فرنگیوں کے لئے ،یہ راز ہی رہا۔

اپنے سفر کے دَوران ،ایک عرصہ تک، وہ آگرہ میں مقیم رہے۔

 حیرت انگیز اثر، شہر کے مسلم باشندوں پرتھا۔

 شہر کے مجسٹریٹ ان کی جُملہ نقل و حرکت پر نظر رکھتے تھے۔ 

عرصہ بعد، یقین ہوگیا کہ:

 وہ، برطانوی حکومت کے خلاف، ایک سازش کر رہے تھے ۔

لیکن ،پھر بھی ان کو ،باغیانہ جُرم میں ملوث، نہ پایاگیا۔ وہ آزاد، رہے۔‘‘

غرض کہ شاہ صاحب نے عُلَما کی مجلس، جس تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے قائم کی تھی وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کو ختم کرنا تھا۔‘‘ الخ۔

 (ص۸۱۔ ’’غدر کے چند عُلَما‘‘۔مؤلَّفہ :مفتی انتظام اللہ شہابی۔مطبوعہ دینی بک ڈپو ،۔اردو بازار، دہلی۶)

انقلابِ ۱۸۵۷ء سے پہلے، ۱۸۵۴ء میں آگرہ کے اندر مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ایک تاریخی مناظرہ ہوا تھا، جس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات، کافی بھڑک اٹھے تھے۔ 

پادری فنڈر نے عُلما کو مناظرہ کا چیلنج دیا، جسے آپ کی تجویز پر ’’مجلسِ عُلما‘‘نے منظور کیا اوراس مناظرہ میں مسلمانوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فتحِ مبین سے نوازا۔

مفتی انتظام اللہ ،شہابی ،اکبرآبادی(متوفی ۱۹۶۸ء) لکھتے ہیں:

’’انگلستان سے بڑے بڑے عُلَما ے عیسویت، ہندوستان، روانہ کیے جاتے۔

قِسِّیسِ اعظم ،فنڈر ،۱۸۵۳ء میں ہندوستان آیا۔ گورنروں کے یہاں، قیام کرتا تھا۔ 

دلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر اسلام کے خلاف، وعظ کہا کرتا تھا۔ 

یہ عربی فارسی کا بڑا عالم اور فنِ مناظرہ کا واقف کار ہی نہیں، بلکہ بڑا شاطر تھا……

اس کو معلوم ہوا کہ صدر نظامت کی وجہ سے آگرہ، عُلَما کا مرکز بنا ہوا ہے۔ 

اس کو خیال ہوا کہ اگر، یہاں کے عُلَما کو مناظرہ میں شکست دے دی جائے

 تو کثیرالتعداد اہلِ اسلام ،اپنے مذہب سے منحرف ہوکر ،مشرف بہ عیسویت ہوجائیں گے۔

اس زعمِ باطل میں آگرہ آیا۔ اعلیٰ حُکَّام کے یہاں مقیم ہوا، اور مشاہیر عُلَما کو، کھلا چیلنج دے دیا۔

’’مجلسِ عُلَما ‘‘میں مشورہ ہوا اور ڈاکٹر وزیر خاں نے پادری فنڈر کا چیلنج ،منظور کرلیا ۔

اور اپنے دوست ،مولوی رحمت اللہ ،کیرانوی کو، بلابھیجا۔

 وہ، بھی ڈاکٹر صاحب کی طرح ،شوقیہ، مذہبِ عیسویت کا مطالعہ کیے ہوئے تھے۔

 مولوی رحمت اللہ نے پادری فنڈر سے خط و کتابت کے ذریعہ ،مناظرہ، شروع کر رکھاتھا۔ 

چنانچہ ،مولوی صاحب آگرہ آئے۔‘‘    (ص۸۲۔’’غدر کے چند عُلَما‘‘۔مطبوعہ :دہلی)

اپنے رسالہ’’ اَسبابِ بغاوتِ ہند‘‘ مطبوعہ ۱۸۵۸ء (مشمولہ’’ حیاتِ جاوید‘‘ مؤلَّفہ:خواجہ الطاف حسین حالیؔ ۔مطبوعہ :قومی کونسل برائے فروغِ اردو۔نئی دہلی)میں 

سر سیداحمد خاں (متوفی ۱۳۱۵ھ؍مارچ۱۸۹۸ء)نے لکھا ہے کہ:

’’ حکومت نے ،پادریوں کو اتنی چھوٹ ،دے رکھی تھی کہ:

 وہ، جگہ جگہ تقریریں کرتے تھے اور عیسائیت کی تبلیغ کے ساتھ

 مسلمانوں اور ہندوئوں کے مذہب کے بارے میں سخت حملے اور دل آزار باتیں کیا کرتے تھے۔

 مفت لٹریچر، تقسیم کرتے تھے اور انگریز حُکَّام، لوگوں کو پادریوں کے وعظ و تقریر میں شرکت کے لئے ،بعض اوقات ،مجبور کیا کرتے ،جس سے ہندو اور مسلمان ،ناراض ہوجایا کرتے تھے۔

 مشنری اسکول کے امتحانات میںہونے والے مذہبی سوالات کے جوابات 

جو طلبہ، عیسائی مذہب کے مطابق ،دیا کرتے، اُنھیں انعام دیا جاتا۔ وغیرہ وغیرہ۔

آگے، سر سید لکھتے ہیں:

یہ سب خرابیاں، لوگوں کے دلوں میں ہورہی تھیں کہ:

 دفعۃً ،۱۸۵۴ء میں پادری، اے ایڈمنڈ نے دار ُالاِمارت، کلکتہ سے

 عموماً اور خصوصاً ،سرکاری معزَّز نوکروں کے پاس ،چھٹیات بھیجیں۔ جن کا مطلب ،یہ تھا کہ :

اب’’تمام ہندوستان میں ایک عملداری ہوگئی۔ تار برقی سے سب جگہ، خبر ایک ہوگئی۔

 ریلوے سڑک سے سب جگہ کی آمد و رفت ،ایک ہوگئی۔

 مذہب بھی ایک چاہیے۔ اِس لئے مناسب ہے کہ:

 تم لوگ بھی عیسائی ایک مذہب ہوجائو۔‘‘

میں سچ کہتا ہوں کہ ان چھٹیات کے آنے کے بعد، خوف کے مارے

 سب کی آنکھوں میں اندھیرا چھاگیا۔ پانْو تلے کی مٹی نکل گئی۔ سب کو یقین ہوگیا کہ:

 ہندوستانی، جس وقت کے منتظر تھے، وہ وقت، اب آگیا۔ 

اب جتنے سرکاری نوکر ہیں، اوَّل سب کو، کرِسْٹَان ہونا پڑے گا اور پھر تمام رَعِیَّت کو۔ 

سب لوگ ،بے شک سمجھتے تھے کہ :

یہ چھٹیاں، گورنمنٹ کے حکم سے آئی ہیں۔‘‘ الخ۔ 

(ص۸۲۱ و ۸۲۲۔’’حیاتِ جاوید‘‘۔ مؤلَّفہ: خواجہ الطاف حسین حالیؔ۔

مطبوعہ: قومی کونسل برائے فروغِ اردو، نئی دہلی)

۱۸۵۴ء میں آگرہ کے اندر، پادری فنڈر سے مولانا رحمتُ اللہ، کیرانوی کی سرپرستی و نگرانی میں فیصلہ کن مناظرہ ہوا۔ مولانا ڈاکٹر وزیر خاں، اکبرآبادی، مسلمانوں کی طرف سے مناظرِ اول ،اور مولانا فیض احمد،عثمانی ،بدایونی،ان کے خصوصی معاون تھے۔ 

ان کے علاوہ، معروف شخصیتوں میں مولانا مظفرعلی شاہ جعفری قادری، مفتی اِکرام اللہ گوپاموی، مولانا غلام امام شہید، مولانا سراج الحق بن مولانا فیض احمد،عثمانی ،بدایونی، مولانا طفیل احمد ،خیرآبادی، مولانا سراج الاسلام، امامِ جامع مسجد ،اکبرآباد ،وغیرہ، شریکِ مناظرہ تھے۔

سید سلیمان ندوی (متوفی ۱۹۵۳ء۔کراچی)لکھتے ہیں:

’’اور خصوصیت کے ساتھ، ڈاکٹر وزیر خاں اور مولانا رحمتُ اللہ ،کیرانوی کا وجود،تورَدِّعیسائیت میں تائید ِغیبی سے کم نہیں۔

اور کون، باور کرسکتا تھا کہ اس وقت:

 پادری فنڈر کے مقابلے کے لئے ڈاکٹر وزیر خاں جیسا آدمی پیدا ہوگا۔

جو عیسائیوں کے تمام اَسرار کا واقف اور ان کی مذہبی تصانیف کا ماہرِ کامل 

اوریونانی وعبرانی کا ایسا واقف ،جو عیسائیوں کو ،خود ان ہی کی تصنیفات سے ملزم ٹھہرائے گا۔

 اور مولانا رحمتُ اللہ صاحب کے ساتھ، مل کر، اسلام کی حفاظت کا قلعہ، دَم کے دَم میں کھڑاکردے گا۔‘‘ (ص۱۵،دیپاچہ’’ حیاتِ شبلی ‘‘،از سید سلیمان ندوی،مطبوعہ: دارُالمصنّفین ،اعظم گڑھ)

کتاب اللہ کا، تغیُّر و تبدُّل سے محفوظ رہنا، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّم  کی رسالت ثابت کرنا اور اِبطالِ تثلیث کے لئے تحریفِ انجیل کا ثبوت پیش کرنا، مسلم عُلَما کی ذِمَّہ داری تھی۔ 

جب کہ پادری فنڈر اور اس کے حواریوں کے ذِمَّہ ،یہ ثابت کرنا تھا کہ:

 موجودہ انجیل میں کوئی تحریف، نہیں ہے۔ اور یہ، وہی صحیفۂ آسمانی ہے

 جو حضرت عیسیٰ علَیْہِ السَّلام پر ،نازل ہوا تھا۔ اور عیسائیوں کا عقیدئہ تَثلیث ،برحق ہے۔

اس مناظرہ میں شکستِ فاش کے بعد،پادری فنڈر کو، صرف آگرہ نہیں

 بلکہ ہندوستان سے فرار ہونا پڑا۔ پوری روداد ِمناظرئہ آگرہ ،اسی دَور میں شایع ہوچکی ہے۔

مولانا ڈاکٹر وزیر خاں،بہاری، اکبرآبادی، انقلابِ۱۸۵۷ء کے نمایاں قائدین میںتھے۔ انہوں نے اور مولانا فیض احمد عثمانی ،بدایونی نے آگرہ سے دہلی پہنچ کر 

انقلاب میں سرگرمی کے ساتھ، حصہ لیا اور انقلابیوں کی ہدایت وقیادت کا فریضہ، انجام دیا۔

سرکاری مُخبِر،عبداللَّطیف اپنے روزنامچہ میں لکھتا ہے:

۲۷؍شوال۔۲۱؍ جون(۱۸۵۷ء)

’’اکبرآباد کے چالاک ڈاکٹر، وزیرخاں کی طبیعت ،شورش و فساد کی طرف، مائل ہوئی۔ آج انھوں نے فسادیوں کے ساتھ، اِشتعال انگیز نعرہ لگایا اور ایک آگ سی لگا دی۔ ‘‘

 (فارسی سے ترجمہ۔ ص۱۳۹۔ ’’۱۸۵۷ء کا تاریخی روزنامچہ‘‘۔مرتَّبہ: پروفیسر خلیق احمد نظامی۔مطبوعہ: دہلی)

مفتی انتظام اللہ ،شہابی، اکبرآبادی ،مولانا ڈاکٹر وزیرخاں کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ڈاکٹر وزیرخاں، مَردانہ وار نکل آئے۔ آگرہ میں، جو فوج، فدائیوں کی آئی

 اُس کی سرپرستی ،ڈاکٹر صاحب نے کی۔ انگریز ،قلعہ بند ہوگئے۔

 یہ مولوی فیض احمد، بدایونی کو ،ساتھ لے کر دہلی پہنچے۔ بہادر شاہ کا دربار جَما ہوا تھا۔

بریلی سے جنرل بخت خاں آچکے تھے۔ ’’وَار کونسل‘‘ بنی ہوئی تھی۔

 مرزا مغل، خضرسلطان جواں بخت، مرزا عبداللہ، حکیم احسنُ اللہ خاں، نواب زینت محل 

 مفتی صدرُالدین خاں ،مولوی امام بخش ،صہبائی ؔ،اس کے ارکان تھے۔

ڈاکٹر (وزیرخاں)بھی مجلسِ شوریٰ میں داخل کرلیے گئے۔ جنرل بخت خاں، لارڈ گورنر تھے۔ انھوں نے ڈاکٹر صاحب کو اپنے ہمراہ لیا۔ مولوی فیض احمد، مرزا مغل کے پیشکار ،مقرر ہوئے۔

جنرل (بخت خاں)صاحب نے انگریزی فوج کو،جہاں مقابلہ ہوا ،شکست دی۔

 مرزا مغل ایک معرکہ میں منہ کی کھا آئے۔ ادھر، مرزا الٰہی بخش نے مرزا مغل کو گانٹھ لیا تھا اورخوف زدہ کردیا تھا کہ جنرل، روہیلہ ہے۔ نواب، غلام قادر خاں روہیلہ کے خاندان سے ہے۔

بہادر شاہ اور تمہارے پردے میں انگریزوں کو نکال کر، خود تخت نشین ہونا چاہتاہے۔

مرزا مغل ،کان کے کچے۔ دوست دشمن کو، نہ پہچان سکے۔ 

جنرل بخت خاں نے ایک مورچہ ،خود سنبھالا۔ 

دوسرا مورچہ ،کشمیری گیٹ کا ،مرزا مغل کے سپرد کیا۔

 مرزا نے وقت پر ہمت ،ہار دی۔ جیتی ہوئی بازی، ہاتھ سے جاتی رہی۔

جنرل بخت نے ،یہ رنگ دیکھ کر ،ڈاکٹر وزیرخاں سے کہا:

 ’’اپنی فوج کو علیحدہ کرلو اور اپنے ہم نَوا ،جو، ہوں، اُن کو ساتھ لو۔ یہ مغل بچے، انگریز سے 

سازباز کرگئے۔ نتیجہ ،یہ نظر آتاہے کہ ہم سب ،یہیں ،کھیت ہو کے رہ ہوجائیں گے۔‘‘

مقبرئہ ہمایوں، جاکر ،بادشاہ کی خدمت میں جنرل بخت خاں ،باریاب ہوا ۔

اور سب حال ،عرض کیا۔ اور کہا کہ آپ میرے ساتھ چلیے۔

 مگر، نواب، زینت محل نے بادشاہ کو ،اس کی ہمراہی کے لئے آمادہ، نہ ہونے دیا۔

 آخرش، جنرل صاحب ،دلی سے روانہ ہوگئے۔ ان کے جاتے ہی مقبرئہ ہمایوں میں بہادر شاہ گرفتار کرلیے گئے۔ ‘‘الخ ۔ (ص۸۶ و ۸۷۔’’ غدر کے چند عُلَما‘‘۔مؤلِّفہ :مفتی انتظام اللہ ،شہابی۔مطبوعہ: دہلی)

جنرل بخت خاں، روہیلہ، ڈاکٹر وزیر خاں، اکبرآبادی اور مولانا فیض احمد ،بدایونی

مع اپنی فوج کے، دہلی سے لکھنؤ چلے گئے اور وہاں، مولانا سیداحمدُاللہ شاہ ،مدراسی سے مل کر 

ان کے پرچم کے نیچے، انگریزوں کے خلاف ،مورچہ بندی کی۔

 بعد کے حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ:

 لکھنؤ چھوڑ کر سب کو شاہجہاں پور جانا پڑا۔ پھر، جب وہاں بھی انگریزوں سے شکست کی نوبت آئی، تو جتنے عُلَما و قائدین، وہاں، مولانا سیداحمدُ اللہ، مدراسی کے ساتھ تھے، اُن میں سے اکثر نے نیپال کا رخ کیا اور وہیں روپوشی و کس مپرسی کی زندگی گذار کر، اِس جہان سے رخصت ہوگئے۔

مفتی انتظام اللہ ،شہابی،اکبرآبادی لکھتے ہیں:

’’سب ساتھی، جدھر، موقع ملا، چلتے ہوئے۔ ڈاکٹر وزیر خاں ،حجاز، روانہ ہوگئے۔ مکہ معظمہ جاکر مولوی رحمت اللہ ،کیرانوی کے پاس، مقیم ہوگئے۔ اور اپنا مَطَبْ ،وہاں کھول لیا۔ 

ایک عرب سردار، عبداللہ الیمنی سے تعلقات ہوگئے۔ اس کی بیوی، سخت علیل ہوئی۔ جانبر ہونے کی کوئی توقع، نہ تھی۔ ڈاکٹر وزیرخاں کے علاج سے اس کو شفا ہوئی۔

 عبداللہ الیمنی نے ڈاکٹر صاحب کی مالی خدمت کرنی چاہی ،مگر آپ نے منظور ،نہ کی۔ 

عبداللہ، آپ کا بڑا معتقد ہوگیا۔ 

حکومتِ برطانیہ کا ہندوستان پر، کامل تسلُّط ہوگیا، تو اپنے باغیوں کی تلاش میں سرگرمِ سَعی رہی۔ ہندوستان میں جو ہاتھ لگا، پھانسی، یا۔ انڈمان کی سزادی گئی۔

ڈاکٹر صاحب کی تلاش ،جاری تھی۔ معلوم ہوا کہ وہ، مکہ معظمہ میں ہیں ۔

تو سلطان عبدالعزیز (خاں ،تُرکی) سے مُراسلات کا سلسلہ ،جاری کیا اور لکھا کہ:

 ہمارا باغی، آپ کی قلمرومیں ہے، اس کو ہمیں دیا جائے۔ ‘‘

سلطان نے شریف، عبداللہ، امیرِ مکہ کو لکھا۔ انھوں نے ڈاکٹر صاحب سے اظہارِ واقعہ کیا۔ اور کہا کہ آپ کو بچانا، میرے امکان سے باہر ہے۔ البتَّہ ،عبداللہ الیمنی سے آپ ملیے ۔ 

چنانچہ، ڈاکٹر صاحب ان سے ملے ۔ عرب سردارنے، ان سے کہا :

 ڈاکٹر صاحـب! دس ہزار عرب میرے قبیلہ کے ہیں۔

 بچہ بچہ، کٹ جائے گا، جب کوئی آپ کو ہاتھ لگا سکتاہے۔

 اور شریفِ مکہ کو کہلا بھیجاکہ: سلطانِ روم (تُرکی) کو لکھ دیں کہ:

 ڈاکٹر صاحب ،عبداللہ الیمنی کی امان میں ہیں ۔ کوئی، آنکھ، نہیں ملا سکتا ۔ ‘‘

چنانچہ، سلطان نے صاف انکار لکھ دیا کہ: ڈاکٹر صاحب کو ،نہیں دیا جا سکتا۔ 

حکومتِ برطانیہ، خاموش ہوگئی ۔‘‘ (ص ۸۹۔’’ غد ر کے چند عُلَما‘‘ ۔مطبوعہ :دہلی) 

مولانا ڈاکٹر وزیر خان،بہاری، اکبرآبادی نے مکہ مکرمہ ہی میں چودہ(۱۴) سال تک  طبابت کرکے اپنی زندگی بسر کی اور وہیں۱۲۸۹ھ/ ۱۸۷۳ء میں آپ کا انتقال بھی ہوا۔

 جنت المعلیٰ، مکہ مکرَّمہ میں آپ کی تدفین ہوئی۔رَحِمَہٗ اللّٰہُ تَعالیٰ رَحْمَۃً وَاسِعَۃً۔


mmm


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی