مولانا فیض احمد،بدایونی
ازقلم علامہ یاسین اختر مصباحی
Download Pdf Book Allama Faiz Ahmed Badayuni
ڈاونلوڈ حیات و خدمات علامہ فیض احمد بدایونی عثمانی
Download
حضرت مولانا فیض احمد بن حکیم غلام احمد،عثمانی، بدایونی کی ولادت ۱۲۲۳ھ؍ ۱۸۰۸ء میں مولوی محلہ، بدایوں میں ہوئی۔ آپ ،تین سال کی عمر میں یتیم ہوگئے اِس لئے والدہ ماجدہ نے آپ کی تعلیم و تربیت کا فریضہ ،ایسی شفقت و خوبی و ذَمَّہ داری سے انجام دیا کہ:
آپ ،بڑے ہوکر ایک نامی گرامی عالم و فاضل ہوئے۔
مولانا فیض احمد ،بدایونی ،بے حد محنتی، ذہین اور بلند حوصلہ تھے۔
آپ کے حقیقی ماموں ، اور شفیق اُستاد و مُربی ،حضرت علَّامہ فضلِ رسول، عثمانی ،بدایونی (متوفی ۱۲۸۹ھ/ ۱۸۷۲ء) نے آپ کی مکمل سرپرستی و نگہداشت کی۔
چودہ(۱۴) سال کی عمر میں علومِ نقلیہ و عقلیہ سے فارغُ التحصیل ہونے کے بعد
آپ نے درس وتدریس کا سلسلہ ،شروع کردیا۔
تمام علومِ متداولہ میں آپ کو عبور تھا۔ اپنے اَقران ومعاصرین میں آپ ،امتیازی حیثیت کے مالک تھے۔عربی فارسی اردو، تینوں زبانوں میں شاعری کا بھی اعلیٰ ذوق تھا۔
رسواؔ، آپ کا تخلص تھا۔
اپنے نانا ،حضرت مولانا شاہ عینُ الحق عبد المجید ،عثمانی ،بدایونی (متوفی ۱۷؍محرمُ الحرام ۱۲۶۳ھ؍ جنوری ۱۸۴۷ء) خلیفۂ شمس العارِفین، حضرت سید شاہ آلِ احمد، اچھے میاں، قادری برکاتی ،مارہروی (متوفی ربیعُ الاوَّل ۱۲۳۵ھ/ جنوری ۱۸۲۰ء) سے آپ کو بیعت و اِرادت کے ساتھ، خصوصی فیضان، حاصل ہوا۔ علومِ ظاہری کے ساتھ، علومِ باطنی میں بھی آپ کا پایہ، بلند تھا۔
بدایوں میں ایک مدت تک، سلسلۂ درس و تدریس، جاری رکھنے کے بعد
صدرنظامت ،آگرہ میں پیش کار اور پھر بورڈ آف ریونیو میں آپ، سررشتہ دار ہوئے۔
۱۸۵۷ء سے سالہا سال پہلے کی بات ہے کہ:
سر،ولیم میور، جو آگرہ میں فوج کے مجسٹریٹ اور بعد میں لیفٹیننٹ گورنر صوبہ متحدہ اَوَدھ وآگرہ (۱۸۶۸ء تا ۱۸۷۲ء) ہوا ۔
اُس نے آپ سے عربی زبان سیکھی تھی۔
دَورانِ ملازمت بھی آپ کا تدریسی مشغلہ جاری رہا۔
آپ کے حقیقی ماموں،سیفُ اﷲِ المسلول، علَّامہ فضلِ رسول ،عثمانی ،بدایونی فرماتے ہیں:
(فارسی سے ترجمہ) بِفَضْلِہٖ تَعالیٰ،فیض احمد، جن کا ذکر ہوا
وہ اِس خاکسار کے بھانجے ، نورِ نظر ،لختِ جگر اور قوتِ بازو ہیں۔
کمالاتِ اِنسانی کے جامع ہیں۔ علومِ مروَّجہ میں اپنے معاصرین پر فوقیت رکھتے ہیں۔
مُحبَّان و محبوبانِ خدا سے محبتِ صحیحہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ، اس میں اضافہ فرمائے۔ اِلیٰ آخِرِہٖ۔
(ص ۷۳۔ اَکملُ التاریخ ،حصہ اول۔ مولَّفہ :مولانا ضیاء ُالقادری ،بدایونی۔
طبعِ جدید ،رمضان ۱۴۳۴ھ؍ جولائی ۲۰۱۳ء ۔تاجُ الفحول اکیڈمی ،بدایوں۔طبعِ اول ۱۳۳۴ھ ؍۱۹۱۶ء)
مولانا محمد یعقوب، ضیاء ُالقادری ،بدایونی (متوفی ۱۲؍ جمادیٰ الاخریٰ ۱۳۹۰ھ ؍۱۵؍ اگست ۱۹۷۰ء۔ کراچی )اپنی تاریخی کتاب ’’اَکملُ التاریخ ‘‘ (محرَّرہ ۱۳۳۳ھ ؍۱۹۱۵ء)میں
مولانا فیض احمد ،بدایونی کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’خزانۂ قدرت سے آپ کو، وہ دماغ، عطا ہو اتھا ،جس کی مثال آج کل، ناپید ہے۔
ذراسی عمر میں تمام علومِ معقول و منقول ،نہایت تحقیق و تدقیق کے ساتھ، حاصل فرمائے۔ آپ کی ذہانت و ذکاوتِ خداداد پر، ہم سبق طلبہ، رَشک کرتے تھے۔
پندرہویں سالگرہ، نہ ہونے پائی تھی کہ اجازتِ درس، حاصل ہوگئی۔
تقریر و تحریر میں وہ زور تھا کہ مخاطب، شانِ اِستدلال و ہیبتِ کلام سے ساکت ہوجاتا۔
جب، تکمیل سے فراغِ کامل، حاصل ہوا،دولتِ بیعت ،اپنے مقدس نانا حضرت سید شاہ عینُ الحق عبد المجید قُدِّسَ سِرُّہٗ سے پائی۔
اس کے بعد سلسلۂ ملازمت میں داخل ہو کر، اُس عُہدۂ جلیلہ پر، مامور ہوئے کہ:
تمام سیاہ و سپید آپ کے اختیار میں تھا۔
اُ س وقت، آگرہ، صوبے کا صدر مقام تھا۔ آپ، لیفٹیننٹ کے سررشتہ دارتھے۔ ثروت وامارتِ خاندانی کے سِوَا، عہدہ کی وجاہت ،اُس پر طُرَّہ ،یہ کہ:
سر، ولیم میور، لیفٹیننٹ گورنر ، صوبہ آگرہ اور اَوَدھ، آپ کے شاگردِ خاص اور احترام کنندہ۔
ہزاروں اہلِ حاجت کی دستگیری فرمائی۔
وطن کے اہلِ غرض ،مطلب برآری کے لئے روزانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔
ہروقت، مطبخ ،گرم رہتا۔ فُقرَا و مساکین ،ہمیشہ ،دامنِ دولت سے وابستہ رہتے ۔
کبھی، پیسہ آپ کے ہاتھ میں، نہ رہتا اور مقروض رہتے۔
اہلِ بدایوں پر جو کچھ احسانات آپ کے ہیں، وہ ،کبھی فراموش نہیں ہو سکتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔باوجود، ثروت و وَقار کے، دل فقیرانہ، مزاج شاہانہ۔
فُقَرا سے محبت ،غُربا سے اُلفت ،طلبہ کے شیدائی ،شائقینِ علم کے فدائی تھے۔
شاگردوں کی تمام ضروریات کے خود، متکفَّل ہوتے تھے۔
سلسلۂ درس و تدریس ،اِقامتِ آگرہ میں بھی برابر،جاری رہا۔ شاعری کا مذاقِ سلیم خاص طور پر، جُزوِ طبیعت تھا۔ کلام میں حُسنِ فصاحت اور رنگِ بلاغت ،دونوں، موجود ہیں۔ مضامین آفرینی کے ساتھ، زبان کی صفائی ،سونے پر سہاگا ہے۔ رسواؔ ،تخلص فرماتے تھے۔ عربی ،فارسی،اردو، ہر ایک زبان میں آپ کے اشعار، انمول جواہر ہیں۔‘‘
(ص ۶۳ و ص ۶۴۔ اَکملُ التاریخ ،حصہ اول۔مرتَّبہ: مولانا ضیاء ُالقادری ،بدایونی۔
طبعِ جدید، رمضان ۱۴۳۴ھ؍جولائی ۲۰۱۳ء۔تاجُ الفحول اکیڈمی ،بدایوں)
مولانا فیض احمد، عثمانی ،بدایونی کی تصانیف میں ’’تحفۂ قادری‘‘
اَلتَّعلیقات عَلیٰ فُصُوْصِ الْحِکَمْ اور’’ تعلیمُ الْجَاھِل‘‘ معروف ہیں۔
تین مختلف مواقع پر، سیدخورشید مصطفی رضوی نے آپ کا ذکر
اپنی تاریخی کتاب میں اِس طرح کیا ہے کہ::
محراب شاہ قلندر نے (سیداحمدُ اللہ شاہ،مدراسی کو) تلقینِ جہاد کی۔ مثنوی میں ہے کہ :
لیا ان سے پھر امتحانِ جہاد
کہ پہنچے نصاریٰ پہ تیغِ عِناد
مُرشد کی ہدایت پر، دہلی آئے۔ عُلما و صوفیاے کرام سے تبادلۂ خیال کیا۔ مگر، مایوسی ہوئی۔ صرف، مفتی صدرالدین، آزردہؔ نے کچھ آمادگی کا اظہار کیا اور آگرہ جانے کا مشورہ دیا۔
لِھٰذا ،آگرہ پہنچے۔ مفتی انعام اللہ خاں، وکیل سرکار کے یہاں قیام کیا۔
مفتی صاحب کا مکان ،اہلِ علم کا مرکز تھا اور تمام عُلما کی ان کے یہاں، نشست تھی۔
ہر ایک نے انھیں عزت واحترام سے جگہ دی۔
مولوی فیض احمد ،بدایونی اور ڈاکٹر وزیر خاں، آپ کے گرویدہ ہوگئے۔‘‘
(ص۶۶۸۔ ’’تاریخِ جنگِ آزادی ہند، اٹھارہ سو ستاون‘‘۔مولَّفہ: سید خورشید مصطفی رضوی ۔ مطبوعہ: رضا لائبریری، رام پور۔ ۱۴۲۱ھ؍ ۲۰۰۰ء)
’’انھیں حالات نے مسلمان عُلما کو آگرے کی طرف کھینچا ۔جنھوں نے پادریوں سے معرکۃُ الآرا مناظرے کیے۔ کتابیں لکھیں اور تقریریں کرکے عیسائیت کا رَد کیا۔
ان عُلما کے ساتھ ،یہاں کے اسسٹنٹ سرجن، ڈاکٹر وزیرخاں و مولانا رحمت اللہ ،کیرانوی اور مولانا فیض احمد ،بدایونی بھی تھے۔
(ص۳۷۶۔ ’’تاریخِ جنگِ آزادی ہند ۱۸۵۷ء‘‘۔مؤلَّفہ: سید خورشید مصطفی رضوی)
’’دہلی کی شکست کے بعد، جنرل بخت خاں نے (بدایوں)آکر جہاد کا فتویٰ ،تقسیم کرایا ۔
جس سے جوش و خروش میں اِضافہ ہوا۔ اپریل ۱۸۵۸ء میں ڈاکٹر وزیرخاں، مولانا فیض احمد
اور شہزادہ، فیروز، وغیرہ پہنچے۔ ککرالہ (بدایوں) میںتصادم (بتاریخ۲۷؍اپریل)ہوا۔
جہاں، جنرل پینی کی فوجیں ،حملہ آور ہوئی تھیں۔ جنرل پینی ،جان ،گنوا بیٹھا۔
اور انقلابیوں کی فتح کے آثار، نظر آئے ،مگر، جنرل جانس کی تازہ دَم فوجیں آجانے کے بعد
انھیں پسپا ہونا پڑا اوران کے رہنما، بریلی چلے گئے ،جہاں ،خان بہادر خاں کا اِقتدار تھا۔‘‘
(ص۵۷۳۔ ’’تاریخِ جنگِ آزادی ہند ،۱۸۵۷ء ‘‘۔از سید خورشید مصطفی رضوی)
حضرت مولانا فیض احمد، بدایونی کی مذہبی و سیاسی سرگرمیاں اور انقلابِ ۱۸۵۷ء میں آپ کی نمایاں خدمات، اِس تعارفی تحریر سے مزید ،واضح ہوجاتی ہیں:
’’مولانا فیض احمد نے اخلاق ،بڑے وسیع پائے تھے۔ اہلِ وطن کی آپ، بڑی مدد کرتے تھے۔ بدایوں کا جو شخص پہنچا اور جس کام میں مدد کا خواستگار ہوا ،اُس کی حتَّی الوسع اِمداد کی۔
قیام وطعام کی کفالت کرتے۔ بعض اوقات، ان مصارف کے لئے قرض کی ضرورت پڑتی۔
ہندوستان میں’’ ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کے اِقتدار کے ہمدوش ،مذہبِ عیسوی نے بھی فروغ، حاصل کیا اور ہر ممکن صورت سے اس مغلوب ملک کو مذہبی حیثیت سے بھی فتح کرنے کی کوشش کی گئی۔ کمپنی کی تائید و اِعانت سے مذہبِ مسیحی کی تنظیم اور ترقی، عمل میں آئی۔
ملک کے طول و عرض میں ہرجگہ، اس تنظیم کے آثار، قائم کیے گئے۔ چرچ مشن سوسائٹی بائیبل سوسائٹی، مشن فنڈ، مشن ہسپتال، مشن کالج اور مدارس ،جابجا ،قائم ہوئے۔
مذہبی کتابوں اوررسائل کی اشاعت کے ذریعہ
ہندوستانیوں کے رُجحانات و عقائد، سَلب کرنے کی کوشش کی گئی۔
غرض، یہ وہ زمانہ تھا کہ عیسائیوں نے ہندوستان میں اسلام کے خلاف ،زبردست مُہم جاری کر رکھی تھی۔ ۱۸۵۴ء میں پادری فنڈر (Revd C.C.D. Fonder) یوروپ سے ہندوستان آیا۔ یہاں، اُس نے اور اس کی جماعت نے دل شکن تقریروں کا سلسلہ ،شروع کردیا اور اس کی کتاب ’’میزانُ الحق‘‘ نے خوف و ہراس ،پیدا کردیا تھا۔
پادری فنڈر نے آگرہ کو ،مناظرہ کا گڑھ ٹھہرایا۔
کیوں کہ آگرہ ہی اُس وقت، عُلما کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ اس کا خیال تھا کہ:
اگر، یہاں کسی طرح ،فتح ہوگئی، تو عیسائیت کی تبلیغ میں بڑی مدد ملے گی۔
اُس نے مشاہیر عُلما کو چیلنج دیا۔
آگرہ مجلسِ عُلما میں مشورہ ہوا۔ مولانا فیض احمد کے دوست، ڈاکٹر وزیر خاں، اکبرآبادی نے
چیلنج ،قبول کرلیا اور مذہبِ عیسوی کے مشہور ماہر و مناظر ،مولوی رحمت اللہ کیرانوی جو کہ عرصہ سے پادری مذکور سے خط و کتابت کر رہے تھے، بلائے گئے۔ انھوں نے چھل اینٹ، آگرہ میں قیام کیا۔
ضروری انتظامات کے بعد ۱۱؍رجب ۱۲۷۰ھ مطابق ۱۰؍اپریل ۱۸۵۴ء بروز پیر کٹرہ عبدالمسیح ،آگرہ میں مناظرہ کا پہلا اجلاس ہوا۔
اہلِ اسلام کی جانب سے مناظرِ اوَّل، مولوی رحمت اللہ، عثمانی ،کیرانوی اورمناظرِ دوم، ڈاکٹر وزیرخاں ،اکبرآبادی تھے۔ جن کے معین و مددگار ،مولانا فیض احمد، بدایونی تھے۔
عیسائیوں کی طرف سے مناظرِ اوَّل ،پادری فنڈر اور مناظرِ دوم، پادری فرنچ تھے۔
مجلسِ مناظرہ میں، مسٹر اِسمتھ، حاکمِ صدر دیوانی، مسٹر کرسچین ،سیکنڈ صوبہ بورڈ، مسٹرولیم میور مجسٹریت علاقہ فوج، مسٹر لیڈل، ترجمانِ حکومت، پادری ،ولیم گبن
مفتی ریاض الدین، مولوی حضور احمد، سَہسوانی، مولوی امیراللہ مختار راجہ بنارس، مولوی ضمیرالاسلام، امامِ جامع مسجد آگرہ، مفتی خادم علی، مہتممِ مطلع الاخبار، مفتی سراج الحق مولوی کریم اللہ خان، بچھرایونی ،پنڈت جگل کشور ،راجہ، بلوان سنگھ (بنارس) قاضی حکیم فرزند علی گوپاموی، مولوی سراج الاسلام نیز اور بہت سے عُلما وعمائدین اور رؤساے شہر ،موجود تھے۔
تین روز تک، مناظرہ ہوا۔پادری فنڈر کو انجیل کی تحریف کا اقرار کرنا پڑا۔
اور اُس نے شکستِ فاش کھائی اور آگرہ سے راہِ فرار، اختیار کرکے ،سیدھا یورپ پہنچا۔
اس مناظرہ کی پوری کیفیت ’’اَلْبَحْثُ الشَّریف فِی اِثْباتِ النَّسْخِ وَ التَّحریف‘‘ کے نام سے ،وزیرالدین نے مرتَّب کرکے، حافظ عبداللہ کے اِہتمام سے
۱۲۷۰ھ میں فخرالمطابع ،شاہ جہان آباد میں ولی عہد، مرزا فخرو کے صَرفہ و حکم سے چھپواکر
اَکناف و اَطرافِ ہند میں تقسیم کرادی تھی۔
اور اسی مناظرئہ اکبرآباد کو چھوٹی تقطیع پر حصہ اول ’’مباحثہ مذہبی‘‘ اور دوسرا ’’مراسلاتِ مذہبی‘‘ کے نام سے سید عبداللہ ،اکبرآبادی نے باہتمام، منشی محمد امیر، مطبع منعمیہ ،اکبرآباد سے ۱۲۷۰ھ میں چھپوایا۔ پہلا حصہ ،فارسی میں تقریری مناظرہ کی رودادہے۔
اور دوسرے حصہ میں ڈاکٹر وزیر خاں اور پادری فنڈر کا تحریری مناظرہ ،اردو میں ہے۔
اس کتاب کا عربی ترجمہ، مولوی رحمت اللہ کی کتاب’’ اظہار الحق‘‘ کے حاشیہ پر مطبوعہ ہے جوکہ مطبع محمودیہ، قاہرہ ،مصر سے ۱۳۱۷ھ میں طبع ہوا ہے۔
غرض، اِس تاریخی مناظرہ میں مولانا فیض احمد، بدایونی نے ڈاکٹر وزیر خاں کو ہر طرح مدد دی اور ان کی کامیابی کے لئے مُمِد ہوئے اور، یہ دَورانِ ملازمت میں بڑا کام تھا۔
ہندوستان کی قابلِ فخر تاریخی جامع مسجد، آگرہ ،اُس زمانہ میں عجیب حالت میں تھی۔
صِرف، بیچ کا حصہ ،خالی تھا، جس میں سترّ اَسّی نمازی ،نماز پڑھ سکتے تھے۔
باقی حصہ پر کبوتر بازوں کا قبضہ تھا۔ یا۔ رسیاں بٹنے والے،رسِّیاں بٹتے تھے۔
مسجد کی دکانیں ،بنیوں کے پاس ،رہن تھیں۔
مولانا(فیض احمد ،بدایونی) نے یہ صورت دیکھی، تو بے چین ہوگئے اور طویل جد وجہد کا سلسلہ ،شروع کردیا۔ جس کا اندازہ، مقدمات کی مِسلوں کے معائنہ سے ہوسکتاہے۔
بالآخر، مولانا کو کامیابی ہوئی۔ دوکانیں، خالی کرائی گئیں۔ مسجد کا انتظام ،درست کیا گیا۔ کبوتربازوں کو نکالاگیا۔ رَسّی بٹنے کی لعنت، ختم کرکے مسجد کی درستی کرائی گئی۔
اور مسجد کے انتظام کے لئے لوکل ایجنسی آگرہ کا قیام، عمل میں آیا۔
جس کے تحت، آج تک جامع مسجد آگرہ کا انتظام ہے۔
مولانا سیداحمدُ اللہ شاہ، مدراسی،۱۸۵۷ء سے پہلے، جذبۂ انقلاب لے کر دہلی پہنچے۔
حضرت مولانا صدرُالدین صاحب ،آزردہؔ نے شاہ صاحب کو
آگرہ جانے کا مشورہ دیا اوروہاں کے بزرگوں کے نام ،تعارفی خط بھی لکھ دیا۔
حضرت شاہ صاحب، وہ تعارفی خط لے کر، مفتی انعام اللہ خان بہادر وکیل سرکار کے پاس پہنچے۔ انھوں نے بڑی قدر و منزلت کی۔
یہاں، عُلما و فُضَلا کا اجتماع تھا۔ اس پورے حلقہ میں شاہ صاحب کی بڑی عزت ہوئی۔ محفلِ سماع اور وعظ کا دَور، شروع ہوا۔ یہاں تک کہ شاہ صاحب کو
یہاں اپنے خواب کی تعبیر، نظر آنے لگی۔
بہت لوگ، معتقد ہوگئے۔ عام گردیدگی دیکھ کر حکومت کو بھی فکر ہوئی۔ چنانچہ، حضرت شاہ صاحب سے تعلق رکھنے والے عُلما پر، جو صدرِ نظامت میں عہدہ دار بھی تھے، مقدمہ چلایا۔
مقصد، یہ تھا کہ جماعت، منتشر ہوجائے۔
مگر ،حکومت کو اس میں ناکامی ہوئی۔ کیوں کہ تمام ملزمین، بے داغ، بری کردیئے گئے۔
میرٹھ اور دہلی میں عَلمِ انقلاب (۱۸۵۷ء) بلند ہوا
تو اُس کا فوری اثر، آگرہ پر پڑا، جو صوبائی حکومت کا مرکز تھا۔
کالن صاحب ،لیفٹیننٹ گورنر نے سب فوج ہندوستانی اور انگریزی کو جمع کرکے فہمائش کی۔
جس کا اثر، چند روز رہا، مگر، ماہِ جون میں یہاں بھی واقعات، شروع ہوئے۔ جولائی میںتیزی آئی۔
مجاہدین فوج کی سرپرستی، ڈاکٹر وزیر خاں اور مولوی فیض احمد ،بدایونی نے کی۔
مگر ،جب، حالات کا جائزہ لیا اور دہلی سے پیام و سلام کے ذریعہ، طلبی ہوئی
تو کچھ مسلَّج سپاہ کے ساتھ، ڈاکٹر وزیرخاں اور مولوی فیض احمد ،بدایونی، دہلی، روانہ ہوگئے۔
دہلی میں ایسے ذی علم، سنجیدہ اور بااِخلاص اصحابِ فکر کی ضرورت تھی۔
ان دونوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ڈاکٹر وزیرخاں، جنرل بخت خاں کے مشیرِ خاص کی حیثیت سے کام کرنے لگے اورمولانا فیض احمد صاحب، مرزا مغل کے پیش کار، مقرر ہوئے۔
مختلف معرکوں میں آپ نے شرکت فرمائی۔
۱۹؍ستمبر ۱۸۵۷ء کو، جب ،جنرل بخت خاں نے دہلی سے کوچ کیا
تو مولانا فیض احمد صاحب اور ڈاکٹر وزیرخاں، جنرل بخت خاں کے ساتھ تھے۔
اُس وقت، لکھنؤ میں معرکۂ کارزار گرم تھا۔ مولانا شاہ احمدُاللہ صاحب
دادِ شجاعت دے رہے تھے۔ یہ مولانا فیض احمد صاحب اور ڈاکٹر وزیرخاں، لکھنؤ پہنچے ۔
اور تمام اہم معرکوں میں شاہ احمد اللہ صاحب کے ساتھ رہے۔
سقوطِ لکھنؤ کے بعد، سب کا اجتماع، شاہجہان پور میں ہوا۔
اور یہاں، چند ماہ تک، انگریزوں سے سخت معرکے ہوتے رہے۔
اسی اثنا میں مولانا فیض احمد صاحب، بدایوں پہنچے۔
ڈاکٹر وزیر خاں آپ کے ساتھ تھے اور شاہزادہ ،فیروز شاہ بھی بدایوں پہنچ چکے تھے۔
بدایوں کے معرکوں میں ان مجاہدین نے حصہ لیا۔ ککرالہ (ضلع بدایوں) کے معرکہ میں قیادت کا فرض ،انجام دیا۔ پھر جب ،یہاں بھی ناکامی ہوئی، تو قصبہ محمدی (شاہجہاں پور) پہنچے۔ جہاں، مولانا احمدُاللہ شاہ صاحب نے حکومت ،قائم کی تھی۔
یہ دونوں بزرگ، مولانا(مدراسی) کی وزارت میں داخل ہوئے۔
مولانا شاہ احمدُاللہ کی شہادت کے بعد، مولانا فیض احمد ،ایسے روپوش ہوئے کہ:
آپ کے ماموں ،مولانا فضلِ رسول ،بدایونی نے آپ کی تلاش میں
قسطنطنیہ تک سفر کیا ،مگر ،کہیں ،سراغ نہ لگ سکا۔ رَحِمَہٗ اﷲ۔
پروفیسر، انیس زیدی لکھتے ہیں:
عید کے ہفتہ بھر بعد ہی یعنی ۲؍جون کو بریلی سے باغی فوج کا ایک دستہ آیا ۔
اور اس نے عملی طور پر انگریزی حکومت کا خاتمہ کردیا۔۔۔۔۔۔خزانہ پرقبضہ کرلیا۔
قیدیوں کو آزاد کردیا۔ پولیس اور انگریزی اہل کار ،بھاگ گئے۔۔۔۔۔۔۔
ضلع کا حاکم ،ولیم ایڈورڈس (William Edwards
اور دوسرے انگریز افسران، فرار ،یا روپوش ہوگئے۔
انگریزی حکومت کے ختم ہوجانے کی وجہ سے ہر طرف افرا تفری پھیل گئی اور لوٹ مار شروع ہوگئی۔
اِس موقع پر مولانا فضلِ رسول بدایونی نے فہم و فراست کا ثبوت دیا۔
نظم و ضبط، قایم کیا اور جان و مال بچانے کی کوشش کی، جس میں وہ، کامیاب بھی ہوئے۔
حبیبُ الاخبار ،بدایوں، اپنی ۲۵؍ جون کی اشاعت میں لکھتا ہے:
افرا تفری اور انتشار کے دَور میں گورنر روہیل کھنڈ، نواب خان بہادر نے
۱۷؍ جون کو عبدالرحمن خاں کو بدایوں کا حاکم، مقرر کردیا۔ عبدالرحمن خاں نے سابقہ افراد کو ان کے عہدوں پر برقرار رکھا۔ اور جہاں، ضروری سمجھا ،اپنے اعتماد کے افراد کو مقرر کیا۔
۔۔۔۔ اسی دَوران ،ڈاکٹر وزیرخاں، جنرل بخت خاں، مولانا فیض احمد، بدایونی
اپنے ساتھیوں کے ساتھ، بدایوں آئے اور فتواے جہاد کی تشہیر کی۔
اس فتویٰ پر مولانا فضل حق خیرآبادی، مفتی صدرُ الدین آزردہؔ
مفتی فضلِ کریم اورمولوی عبدالقادر ،وغیرہ کے دستخط تھے۔
ان حضرات کی آمد اور فتویٰ کی تشہیر کی وجہ سے، بدایوں اور اس کے مضافات کے ہزاروں افراد، مجاہدین میں شامل ہوگئے۔ مجلہ بدایوں، کراچی، شمارہ مئی جون ۱۹۹۱ء۔
(ص۱۳و ۱۴۔ انسائیکلوپیڈیا آف بدایوں ۔جلد۲۔ ادارہ مجلہ بدایوں ۔مطبوعہ کراچی۔ ۲۰۰۴ء)
پروفیسر محمدایوب ،قادری (متوفی نومبر ۱۹۸۳ء ۔کراچی) لکھتے ہیں:
جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء میں عُلماے بدایوں نے نمایاں حصہ لیا۔
ان میں سرِ فہرست مولانا فیض احمد ،بدایونی کا نام ہے ،جو اپنے دَور کے نامور عالم تھے۔
سینٹرل بورڈ آف ریونیو میں ملازم تھے۔ عربی کے بلند پایہ ادیب و شاعر تھے۔
انھوں نے آگرہ کے قیام میں مولانا رحمتُ اللہ، کیرانوی اور پادری فنڈر کے
مناظرہ میں حصہ لیا اور مولوی رحمت اللہ کے مددگار رہے۔
پھر، جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء میں مردانہ وَار حصہ لیا۔ وہ ،دہلی بھی گئے۔
آخری معرکہ، ککرالہ (بدایوں) میں ہوا۔ اس میں ڈاکٹر وزیرخاں، شہزادہ فیروز شاہ جیسے بطلِ حریت بھی موجود تھے۔ انگریزوں کا مشہور جرنیل پینی مارا گیا۔
مجلہ بدایوں، کراچی، شمارہ جنوری ۱۹۹۴ء۔
(ص۲۶۔ انسائیکلوپیڈیا آف بدایوں۔ جلد۲۔مطبوعہ کراچی ۲۰۰۴ء)
mmm