Biography Hazrat Sayyed Najmuddin Miyan hashmi Dahod سید محمد نجم الدین میاں ہاشمی سہروردی دوحدی

  14 ویں صدی ہجری کے ایک عظیم المرتبت بزرگ قطب الوقت محسن قوم و ملت مخدوم المخادیم مفکر اسلام خان بہادر شاہی ,قاضئ القضاۃ سرکار سید محمد نجم الدین میاں ہاشمی سہروردی دوحدی علیہ الرحمہ

Biography Hazrat Sayyed Najmuddin Miyan hashmi Dahod

سید محمد نجم الدین میاں ہاشمی سہروردی دوحدی



مغلیہ دور کے داہود شریف گجرات کے تاریخی صوفی بزرگسرکار غوث العالمین ملتانی علیہ الرحمہ کے سلسلئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ سے وابستہ داہود شریف ہند کے ایک عظیم المرتبت تاریخی صوفی بزرگ غوث زمانہ غوث الاولیاء غوث قطب محبوب مخدوم شہنشاہ داہود حضرت سیدنا غوث عبدالنبی سہروردی  علیہ الرحمہ حضور شہنشاہ داہود سیدنا غوث عبدالنبی سہروردی علیہ الرحمہ سلسلئہ عالیہ سہروردیہ کے ایک عظیم بزرگ ہیں آپ غوثیت قطبیت اور محبوبیت کے اعلی مقام پر فائز ہیں اس وجہ سے آپ کے مبارک نام کے ساتھ غوث قطب محبوب جیسے الفاظ مبارکہ لکھے جاتے ہیں آپ علیہ الرحمہ کا وطن اصلی اورنگ آباد ملک دکن تھا لیکن بادشاہ جلال الدین بن ہمایوں کے زمانئہ حکومت میں اورنگ آباد دکن سے نقل مکانی فرما کر گجرات کے قصبئہ دوحد موجودہ داہود میں نزول اجلال فرمایاآپ ایک صاحب کرامات بزرگ ہیں آپ سے بہت سی کرامتوں کا صدور ہوا ہے جن میں سے ایک کرامت یہاں بیان کی جاتی ہے لکڑیوں کا پشتارہ اور بادشاہ اکبر :- آج سے تقریبًا 460 سال قبل جب بادشاہ جلال الدین اکبر بن ہمایوں981ھ بمطابق 1573ء میں گجرات فتح کرکے اپنے لشکر کے ساتھ آگراہ جانے کے لیے نکلا تب اس کا گزر داہود سے ہوا تو اس وقت حضور سیدنا غوث عبدالنبی سہروردی علیہ الرحمہ اپنے سر پر لکڑیوں کا ایک پشتارہ رکھے ہوے کہیں تشریف لے جا رہے تھے جسے دیکھ کر بادشاہ اکبر کے سپاہیوں نے حضور شہنشاہ داہود سیدنا غوث عبدالنبی سہروردی علیہ الرحمہ کو مزدور سمجھا جسے آپ علیہ الرحمہ نے کشف سے جان لیا اور اسی اثنا میں آپ علیہ الرحمہ سے یہ کرامت ظاہر ہوئی کہ "آپ کے سر پر رکھا ہوا لکڑیوں کا پشتارہ سر سے ایک گز اونچا ہو گیا تھا" جیسے ہی بادشاہ جلال الدین اکبر بن ہمایوں اور اس کے سپاہیوں نے مذکورہ کرامت دیکھی تو بادشاہ اور اس کے سپاہیوں نے اپنے سروں کو آپ کے آگے جھکا دیا  اور آپ کے عقیدت مندوں میں شامل ہوگئے اس کے بعد بادشاہ اکبر نے آپ سے دعاؤں کی درخواست کی اور پھر آپ سے اجازت لے کر اپنے لشکر کے ساتھ آگرہ روانہ ہو گیا۔حضور شہنشاہ داہود سیدنا غوث عبدالنبی سہروردی علیہ الرحمہ کا عرس سراپا قدس ہر سال 7 ربیع الآخر کو بڑے ہی ادب و احترام اور تزک و احتشام کے ساتھ داہود شریف میں منایا جاتا ہے جس میں دور دراز سے عقیدت مند آپ کی بارگاہ عالیہ میں شریک ہوتے ہیں اور آپ کے غوثیہ سہروردیہ فیوض و برکات سے فیض یاب ہوتے ہیں خدا کا خاص ایک احسان ہیں یہ اولیاء اللہزمانہ   جسم  اور  جان   ہیں  یہ  اولیاء اللہ ۔

دم بہاءالحق 

 14 ویں صدی ہجری کے ایک عظیم المرتبت بزرگ قطب الوقت محسن قوم و ملت مخدوم المخادیم مفکر اسلام خان بہادر شاہی ,قاضئ القضاۃ سرکار سید محمد نجم الدین میاں ہاشمی سہروردی دوحدی علیہ الرحمہ

آپ کی حالات زندگی پر روشنی ڈالتی عقیدتمندانہ تحریر  

اس خاکدان گیتی پر نابغائے روزگار صوفیائے کرام علمائے عظام غازیان اسلام حق پرست سلاطین اکرام عادل قاضیان ذوی الاحترام اور دیگر نیک صفت ہستیوں نے جنم لیا اور ان ستودہ صفات محاسن و کمالات کی حامل ہستیوں نے اپنے اپنے کردار و گفتار انداز و اختیار سے قرآن اور حضور نبئ کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی سنت مبارکہ پر عمل پیرا ہو کر اعلائے کلمۃالحق عدل و انصاف حق و صداقت اخلاق و مساوات نظم و نسق تہذیب و تمدن کو عالم دنیا میں جاری کیا دینی فریضہ کی انجام دہی کے لیے اپنے ملک اپنے وطن مالوف کو الوداع کہ کر کفر و شرک ظلم و تشدد کے تاریک جہان میں پہنچیں اور اسلام و ایمان کے انوار پھیلائے مذہب و ملت بلکہ انسانیت سے بھی کوسوں دور وحشی قبائل میں جاکر ان کے اخلاق قبیحہ و رذیلہ کو اپنی خوش گفتاری و کریمانہ کرادری سے صیقل و صاف کیا ان میں تبلیغ اسلام کرکے ان کو زیور ایمان سے مزین کیا لا تعداد لوگوں کو حق کا راستہ دکھایا رشد و ہدایت پر غامزن فرمایا ان ہستیوں نے اسلام دشمن عناصر دین و ملت سے دور ظالم و جابر و کافر بادشاہوں کے آگے اعلائے کلمۃالحق بلند کیا اور زور ایمان و حق و صداقت سے ایوان باطل میں لرزا طاری کر دیا مسلم صفوں میں چھپے غداروں کو بے نقاب کرکے تہ تیغ کیا اور اسلام دشمن طاقتوں کے وہ سر بفلک قلعے جو کفر و شرک غرور و تکبر زور و ظلم کی آماجگاہ بنے ہوے تھے انہیں فتح کر کے آلائشوں سے پاک و صاف کیا اور ان پر پرچم اسلام لہرا کر سارے جہاں کو اسلام کی حقانیت سے رو شناس کرایا اور یہ باور کرایا کہ اسلام انصاف اور امن پسند مذہب ہے اسلام میں کسی پر کوئی زور و جبر نہیں اس میں گورے کو کالے پر کالے کو گورے پر کوئی فضیلت و فوقیت حاصل نہیں مگر یہ کہ وہ متقی ہو مذہب اسلام میں اونچ نیچ چھوت اچھوت کا کوئی تصور نہیں اسلام مذہب  عدل و انصاف حق و صداقت اخلاق و مساوات اخوت و بھائی چارگی عشق و محبت کا درس حیات دیتا ہے یہ بندگان خدا ﷻاسلام کی نشر و اشاعت کے لیے ہر وقت سر گرم عمل رہیں حق گو علماء نے علم شریعت اور اپنے عالمانہ کردار سے عوام الناس کے ظاہر کو پاک و صاف کیا اور صوفیوں نے اپنا رنگ تصوف دکھایا اپنی تلوار اخلاق سے لوگوں کے کشور قلوب کو فتح کرکے ان کے باطن کو سنوارا غازیان اسلام نے دین و ملت کی بقا اور سر بلندی کے لیے راہ خدا ﷻ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور حق پرست سلاطین وقت نے ظلم و ستم تشدد و بربریت کا خاتمہ کر کے احقاق حق و ابطال باطل کیا اور عالم دنیا میں نظام الٰہی ﷻ نافذ فرما کر اسلام کی صداقت و حقیقت کو آشکارا فرمایا اور انصاف پسند قاضیوں نے قرآن سنت کی روشنی میں عادلانہ فیصلے جاری فرما کر حکومتوں اور دیگر لوگوں کو خلاف شرع و نا حق کام کرنے سے بچائے رکھا بادشاہان وقت کی دینی معاملات میں رہنمائی کرتے رہے غرضکہ ان حضرات کی مسلسل دینی مساعئ جمیلہ سے ہر سمت اسلامی بہاریں نظر آ رہی ہیں ان حضرات کے فیوض و برکات سے کل بھی ایک جہان مستفیض تھا اور آج بھی با فیض ہے اور ان شآءاللہ العزیز تا قیامت فیضیاب رہے گا انہیں صوفیانہ عالمانہ غازیانہ شاہانہ قاضیانہ حق گویان بندگان خدا ﷻ جامع صفات حسنہ عہد آفریں برگزیدہ و تقوی شعار ہستیوں میں ایک روشن کردار قاضیان اسلام کا بھی تھا اسلامی تاریخ میں قاضی حضرات کا کرادر بڑا تابناک و درخشاں رہا ہے قاضی حضرات شرع مبارک کے مطابق عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کسی بڑی شخصیت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے شریعت مطہرہ کی روشنی میں عدل و انصاف حق و صداقت کی ترازوں میں فیصلے سناتے اور شاہان اسلام بھی ان کے  فیصلوں کو تسلیم کرتے اور ان کے مطابق شرعی احکام نافذ کرنے پر پابند ہوتے قرآن و سنت مبارکہ کی روشنی میں ان قاضی حضرات کے شرعی فیصلوں کی بہت سی مثالیں قصے حکایتیں آج بھی تاریخی کتابوں میں موجود ہیں اسلامی کی حکومتوں میں قضاۃ حضرات کی خاص حیثیت ہوا کرتی تھی وہ انتہائی عزت و احترام کے مستحق سمجھے جاتے تھے اور ان کے جاری کردہ فیصلوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا سلاطین اسلام بھی ان کا ادب و احترام فرماتے تھے اور اپنی رعایا کو ان کے آداب ملحوظ خاطر رکھنے کا حکم دیتے انہیں قاضیان اسلام میں سلاطین وقت کی جانب سے منتخب و مقرر کردہ گجرات کے شاہی قاضیان با وقار میں شہر داہود کا شاہی قاضئ ہاشمی گھرانہ بڑی شہرت و بزرگی کا حامل ہے جس میں حضور شاہی قاضئ اسلام نجم الاصفیاء کا نام نامی و اسم گرامی مثل آفتاب و ماہ تاب درخشاں ہے آپ وقت کے قطب  آشنائے نبض شریعت صوفئ راہ طریقت دانائے رموز معرفت رمز شناس حقیقت صاحب عظمت و کرامت غازئ اسلام مخدوم ملت شاہی قاضئ اسلام ہیں جب آپ کا نام ہمارے ذہن میں آتا ہے یا کسی سے ہم سنتے ہیں تو ہمارا ذہن فوراً آپ کی برگزیدہ ذات کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اس وجہ سے آپ کی ذات والا کسی تعارف کی محتاج نہیں مگر چونکہ آپ کے ذکر میں کچھ ایسی حلاوت اور چاشنی ہے جس سے قد مکرر لطف آتا ہے اسی لیے آپ کا ذکر جمیل اجمالی طور پر یہاں پیش کیا جاتا ہے

نام مبارک:- آپ علیہ الرحمہ کا نام نامی اسم گرامی سید محمد نجم الدین میاں ہاشمی آپ کی کنیت ابو زین العابدین ہے آپ کے والد محترم کا نام شمس ملت محمد شمس الدین میاں جبکہ جد بزرگوار کا نام بدر ملت محمد بدرالدین میاں ہے لفظ ہاشمی آپ کے اسم مبارک کا ایک لازمی حصہ ہے آپ علیہ الرحمہ نام اور ذات دونوں اعتبار سے نجم دین و ملت تھے 

ولادت با سعادت:- آپ علیہ الرحمہ کی پیدائش تقریبا 1307 سن ہجری بمطابق 18,88 سن عسوی میں خاندان عالیہ کے خوشگوار علمی روحانی پر شگفتہ ماحول کی ساعت ہمایوں میں ہوئی آپ کی جبین سعادت پر بچپن ہی سے ہوشمندی و بزرگی کے آثار نمایاں تھے 

حلیہ مبارک :- جن حضرات نے آپ علیہ الرحمہ کا زمانہ پایا اور آپ کے نورانی دیدار سے مشرف ہوے ان کا بیان ہے کہ حضور محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ کا قد مبارک درمیانہ تھا چہرہ نورانی ہونٹ گلابی بڑی آنکھیں بازو اور سینہ کشادہ اور بھرے ہوے تھے چہرہ با رعب اور نوربار تھا دیکھنے والے کو ایسا لگتا کہ چہرے پر روشنی لگی ہے آپ کے چہرے کا دیدار ایمان کو تازہ کرتا تھا

شاعر اسلام جناب سامر کھتری صاحب کیا خوب لکھتے ہیں"موٹی موٹی آنکھوں سے نور ایماں ہوتا تھا ظاہر 

چہرے سے تھا رعب نمایاں حضرت نجم الدین میاں"

تعلیم و تربیت:- آپ علیہ الرحمہ بچپن سے ہی بڑے ذہین و فطین تھے آپ صلاحیت خداداد کے مالک تھے بڑی شرافت و قابلیت آپ کے اندر موجود تھی آپ نے ابتدائی ظاہری و باطنی تعلیم و تربیت اپنے والد ماجد حضور شمس ملت محمد شمس الدین میاں علیہ الرحمہ سے حاصل فرمائی ابھی آپ چھوٹے ہی تھے کہ آپ کے مہربان والد محترم کا سایئہ شفقت آپ کے سر سے اٹھ گیا آپ نے باقی ظاہری و باطنی تعیلم و تربیت کی منزلیں اپنے دادا محترم حضور بدر ملت محمد بدرالدین میاں اور والد محترم کے عم محترم حضور رفیع ملت محمد رفیع الدین میاں کے زیر ظلّ عاطفت طے فرمائیں اور ان سے خوب خوب استفادہ فرمایا

منصب قضاء :- سلاطین اسلام کے زمانے میں دو منصب بڑے ہوتے تھے ایک شیخ الاسلام کا منصب اور دوسرا قاضی القضاۃ کا منصب شیخ الاسلام کی نگرانی میں مشائخ و خانقاہ کے معاملات انجام پزیر ہوتے اور قاضی القضاۃ کے زمہ شریعت کے مطابق فیصلے سنانا دینی دنیوی مسائل اور امور کو حل کرنا نیز علماء کی رہنمائی کرنا ہوتا سلاطین وقت مشائخ اور قاضیان اسلام کا بڑا ادب و احترام فرماتے دینی معاملات میں ان سے رہنمائی حاصل کرتے مشائخ و قاضیان اسلام حکومتوں کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تلقین فرماتے اور حتی الامکانب ان کو خلاف شرع فعل کا مرتکب ہونے سے روکتے ان کے جاری کردہ فیصلوں مشوروں کو بادشاہان بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور انہیں تسلیم کرتے غرضکہ شاہان وقت کے ادوار میں قاضیان کا  ایک خاص مقام و مرتبہ ہوتا تھا انصاف پسند عادل پابند شرع و سنت قاضی صاحبان ظالمانہ حکومت وقت کے سامنے بے باک حق گو رعب و دبدبہ اور شان جلالت کے مالک ہوا کرتے تھے اور ان کی رہنمائی میں دینی دنیاوی معاملات انجام پاتے تھے چنانچہ گجرات کے قاضیان اسلام میں حضور سید محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ کا خاندان وجاہت و سیادت علم و فضل زہد و تقویٰ کے ساتھ ساتھ دنیاوی لحاظ سے بھی بزرگی اور امتیازی حیثیت کا حامل تھا شاہان اسلام کی جانب سے آپ کے آباء و اجداد کو شاہی قضاۃ اسلام کا معزز منصب جلیل عطا ہوا تھا اور بادشاہوں کی جانب سے انہیں بہت سی جاگیریں بھی ہدیہ و تحفہ کے طور پر ملی تھیں حضور محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ کے اجداد گرامی جو مختلف شاہان زمانہ مثلاً جلال الدین اکبر بن ہمایوں،نورالدین جہانگیر،سیلم شاہ جہاں،محی الدین محمد اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمہ،غازئ اسلام بادشاہ نادر حسین فدوی معظم شاہ،بہادر شاہ ظفر اور سلطنت برطانیہ کے ادوار میں حسب دستور منصب قضاۃ پر جلوہ فگن رہیں اور شرعی فیصلے سناتے رہیں ان شاہی قاضیان حضرات کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں 

شاہی قاضی رفیق ملت محمد رفیق علیہ الرحمہ 

شاہی قاضی مسعود ملت محمد مسعود علیہ الرحمہ

شاہی قاضی گلاب ملت محمد گلاب علیہ الرحمہ 

شاہی قاضی سراج ملت محمد سراج الدین علیہ الرحمہ 

شاہی قاضی نصیر ملت محمد نصیرالدین علیہ الرحمہ 

شاہی قاضی امین ملت محمد امین الدین علیہ الرحمہ 

شاہی قاضی بدر ملت محمد بدرالدین علیہ الرحمہ 

شاہی قاضی رفیع ملت محمد رفیع الدین علیہ الرحمہ

یہی منصب قضاۃ کا سلسلئہ عالیہ شاہی قاضیہ آپ کے آباء و اجداد سے نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا آپ تک پہنچا اور یوں آپ بفضلہ تبارک و تعالیٰ فقط 9 سال ہی کی عمر قلیل میں اس مسند ارشاد و قضاۃ پر فائزالمرام ہوے اور تا دم آخر انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ اس منصب کے فرائض سر انجام دیتے رہے حضور محمد  نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے محمد زین العابدین المعروف بہ زین الدین میاں بڑے قاضی صاحب اور پھر ان کے بعد آپ کے چھوٹے صاحبزادے محمد ضیاءالدین میاں منصب قضاۃ پر جلوہ فرما ہوے اور اپنے فرائض سر انجام دیے مندرجئہ بالا تمام قضاۃ حضرات کے مزارات پیر با خوبی قبرستان میں زیارت گاہ خواص و عوام ہیں

 جو خاندان عالی شان کے عظیم سپوت تھے 

علمی مقام :- یقیناً جس کو جو بھی ملا ہے اہل بیت اطہار کے در کا صدقہ ملا مگر آپ علیہ الرحمہ چونکہ اہل بیت نبوت علیہ الصوۃ و السلام کے شہزادے تھے لھذا آپ نے علم و فیض کا صدقہ اہل بیت اطہار کے در سے بھی لیا اور گھر سے بھی بلا شبہ آپ علم کے دریا تھے آپ علوم ظاہری و باطنی سے آراستہ و پیراستہ تھے اور دونوں میں کمال رکھتے تھے آپ علیہ الرحمہ قاضیانہ طمطراق،فقیہانہ کمال،عالمانہ جلال،مقررانہ شان،شاعرانہ وصف خوش مقال اور نیز دیگر محاسن و کمالات کے جامع تھے آپ بیک وقت صوفی،عالم،مفتی،قاضئ ،شاعر،ادیب،مصنف،مولف،

منطقی،ریاضی داں،انشاء پرداز مورخ سب کچھ تھے آپ کی صلاحیت و قابلیت کا ہر کوئی اعتراف کرتا علماء،صوفیاء اور قضاۃ حضرات کے ما بین آپ مقبول تھے چنانچہ نا چیز راقم الحروف ایک مرتبہ جب ایک کام کے سلسلے میں پیر محمد شاہ لائبریری احمدآباد گیا تو وہاں میری ملاقات مذکورہ لائبریری کے رکن جناب مشیر احمد صاحب سے ہوئی حضرت موصوف نے اس نا چیز سے  دریافت فرمایا آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں میں نے کہا داہود سے جوں ہی لفظ داہود میری زباں سے بر آمد ہوا تو مشیر احمد صاحب تبسم فرماتے ہوے بولے کیا آپ داہود میں حضور محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ کو جانتے ہیں؟یہ نا چیز بھی مسکراتے ہوے جواباً عرض گزار ہوا جی بالکل  الحمدللہ حضور محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ اس فقیر کے جد محترم ہیں جناب نے کہا  کیا بات ہے ماشآءاللہ سبحان اللہﷻ پھر فرمایا آپ سب کام چھوڑیے پہلے حضور محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ کی سوانح حیات پر ایک مضمون لکھیں "سچ میں حضور محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ ایک بہترین مصنف اور علمی شخصیت تھے اور آپ کا خاندان بھی اہل علم تھا" یہ ہے آپ کی شان کہ آپ کے معاصرین بھی اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ حضور محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ اہل علم و فضل سے ہیں۔حضور کی بارگاہ میں جو بھی مسئلہ پیش آتا خواہ وہ مسئلہ دینی ہو یا دنیاوی آپ علیہ الرحمہ احسن طریقے سے اس کی عقدہ کشائی فرماتے آپ قرآن و حدیث کتب فقہ کی روشنی میں دقیق سے دقیق شرعی مسائل کا حل فرماتے اردو اور فارسی میں احکام شرعیہ تحریر فرماتے عربی فارسی اردو انگلیش گجراتی ہندی زبانوں پر آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا آپ کی اجازت و مشورہ کے بغیر کوئی بھی کام انجام کو نہ پہنچتا آپ اپنے دارالقضاء میں قاضیانہ منصفانہ شایان شان بیٹھتے اور  نکاح،طلاق وغیرہ دینی و دنیاوی امور پر شرعی مسائل کا حل فرماتے اور قرآن و سنت مبارکہ کی روشنی میں احکام و فیصلے سناتے بے اور لوگوں کی دینی دنیاوی سماجی معاملات میں رہنمائی فرماتے تھے 

اثر و رسوخ رعب و دبدبہ :- اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ کو اہل بیت رسالت میں پیدا ہونے کا شرف بخشا تھا اور بہادری شجاعت و بصالت رعب و دبدبہ سے بھی نوازا تھا آپ اوصاف مختلفہ کے جامع تھے آپ کا عوام و خواص پر بڑا اثر و رسوخ تھا آپ کسی کو خاطر میں لائے بغیر حق بات برملا کہتے اور حق بات کہنے کا درس بھی دیتے آپ علیہ الرحمہ خوف خدا کے سوا کسی کا خوف نہ رکھتے کسی کی مخالفت کی کچھ پرواہ نہ کرتے اور یہی اللہ والوں کی شان ہوا کرتی ہے کہ وہ کسی سے مرعوب نہیں ہوتے لھذا سلطنت برطانیہ نے آپ کی اسی خاندانی شرافت و نجابت علمی لیاقت و صلاحیت ہمہ گیری و عقبریت تبحر علمی و بے باکی حق گوئی و رعب و دبدبہ اثر و رسوخ کا اعتراف کرتے ہوے آپ کو خانبہادر اور خان صاحب جیسے معزز خطابات دیے اور آپ کو ان سے مخاطب کیا تھا جن کے آپ ہر حال میں مستحق تھے 

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

خطابت :- حضور محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ جامع صفات تھے خطابت کی دنیا میں بھی آپ کا غلغلہ تھا آپ خطابت کے شہریار تھے آپ کا انداز بیاں منفرد و با کمال تھا محرم الحرام ربیع الاول شریف اور دیگر مواقع پر آپ کے بیانات اپنی مثال آپ تھے آپ کے بیانات نظم و نثر دونوں میں ہوتے آپ حالت قیام میں ہی دو تین گھنٹے بیان فرماتے اور سامعین کے دلوں کو منور و مجلیٰ فرماتے شہر داہود میں سب سے پہلے آپ ہی نے بیانات کا با قاعدہ سلسلہ جاری کیا خصوصاً ماہ محرم الحرام کے بیانات کا اجراء آپ ہی نے فرمایا تھا شان اہل بیت و صحابئہ کرام اپنے منفرد انداز میں پیش کرتے پنجتن پاک کی بارگاہ میں انتہائی والہانہ انداز میں عشق و محبت اہل بیت میں ڈوب کر  عقیدت کا نذرانہ پیش فرماتے بیان کرتے وقت آپ پر ایک عجب وجدانی کیفیت طاری  ہو جاتی عشق اہل بیت میں سرشار ہو جاتے حاضریں آپ کے نور برستے چہرے کا دیدار کرتے ہوے ہمہ تن گوش ہو کر بیان سنتے شہدائے کربلاء کے واقعات بالترتیب بیان کرتے اور ایسی منظر کشی فرماتے کہ سامعین کو ایسا لگتا کہ واقعات کربلاء ان کی نگاہوں کے سامنے ہو رہے ہیں آپ کی تقاریر و  بیانات میں ایسا سوز و گداز ہوتا کہ آپ خود بھی آبدیدہ ہوجاتے اور مجلس میں بیٹھے تمام حاضرین  کی آنکھوں سے بھی آنسو چھلک پڑتے آپ کے بیانات اس قدر مقبول تھے کہ حاضرین و سامعین کا تانتا لگ جاتا ایک جم غفیر نظر آتا محرم الحرام کی محافل میں اپنے تو اپنے بلکہ غیر بھی آپ کے بیانات سماعت کرنے آتے لوگ آپ کے بیانات سن کر مطمئن و پر سکون لوٹتے آپ کے بعد اس سلسلے کو آپ خلف اکبر جناب محمد زین العابدین المعروف بہ زین الدین میاں بڑے قاضی صاحب نے تا دم زیست جاری رکھا آپ اپنے والد محترم کے انداز میں بیانات فرماتے تھے ان کے بعد آپ کے چھوٹے صاحبزادے جناب محمد ضیاءالدین میاں قاضی صاحب بھی کئ سال تک بیان کرتے رہیں حضرت زین الدین میاں بڑے قاضی صاحب  کی تقاریر داہود کے علاوہ گجرات کے مختلف علاقوں میں بھی ہوتیں آج بھی جب ماہ محرالحرام تشریف لاتا ہے تو آپ کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں اور اہل داہود  آپ کو دل کی اتھا گہرائیوں سے یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مقررین و واعظین  ادلتے بدلتے رہیں لیکن بلا شبہ جس انداز میں عشق اہل بیت میں ڈوب کر رقت آمیز سوز و گداز سے لبریز بیانات ہمارے شہر قاضی صاحبان فرماتے تھے ان جیسے واعظین ہم نے آج تک کہیں سنے ہیں بڑے قاضی صاحب کی تقاریر آج بھی داہود علاوہ دوسری جگہوں پر سی ڈی کیسٹ وغیرہ کے ذریعہ سنی جاتی ہیں جن سے سامعین کے علم میں اضافہ ہوتا ہے نیز رقت آمیز و کیف آور آواز سن کر آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور قلبی سکون بھی ملتا ہے 

شاعرانہ وصف:- حضرت محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ ایک خوش نویس شاعر بھی تھے آپ کا شاعرانہ کمال گلزار ہاشمی نامی کتاب میں موجود ہے جو منہ بولتا ثبوت ہے آپ نے نعت و مناقب بہتر سے بہتر انداز میں زینت قرطاس فرمائے ہیں۔حضور محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ کی شاعری کے چند قلمی نسخے آج بھی تبرکاً محفوظ ہیں آپ کی شاعری میں نعت رسول مقبول علیہ الصلوۃ والسلام "وہ نور ذات مطلق کس کس ادا میں آیا" تھی ابتداء اسی سے جو انتہا میں آیا" نے بڑی شہرت حاصل کی حضور شیخ الاسلام محمد مدنی میاں اشرفی الجیلانی کچھوچھوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے بھی اس کلام کو پسند فرمایا اور شہدائے کربلاء خصوصاً امام حسین کی شان میں لکھے کلام نے بھی بہت پزیرائی و شہرت حاصل کی غیبن شاہ بابا ( گھاٹا پیر ) علیہ الرحمہ و دیگر اولیائے کرام کی شان میں بہت سی منقبتیں بھی  تحریر فرمائی تھیں جو ایک شائع شدہ کتاب میں محفوظ ہیں حضور والا کے کلام داہود کے علاوہ دوسری جگہوں پر آج بھی پڑھے اور سنے جاتے ہیں 

تصانیف:- حضرت محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے صفت تصنیف سے بھی نوازا تھا آپ ایک بہترین مصنف بھی تھے اور  قلم کار بھی آپ کے مضامین دہلی سے نکلنے والے رسائل و جرائد بنام "مولوی "پیشوا" وغیرہ میں شائع ہوے اور ہر خاص و عام قاری نے ان سے استفادہ کیا آپ نے بہت سے اوراد و وظائف بھی لکھے اور کتب و رسائل بھی تصنیف و تالیف فرمائی تھیں جن کے اسماء کچھ اس طرح ہیں سراج منیر،رسول مدنی،صدیق اکبر،فاروق اعظم،عثمان غنی،شاہ نجف،شہید کربلاء،انتقام حسین،ساقئ کوثر،گلزار ہاشمی،انسانی تقدیر،مرنے کے بعد کیا ہوگا،خلافت اسلام،چشمئہ پرنم,دیباچہ خونی آنسو مذکورہ کتب و رسائل  انڈیا کے علاہ افریقہ میں بھی پہنچے ان مذکورہ کتب کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی لیکن ان سب میں شہید کربلاء انتقام حسین ساقئ کوثر مقدم ہیں کتب ھذا کو سب سے زیادہ شہرت و پزیرائی ملی مگر  افسوس کے زمان و مکان کی تبدیلی کے باعث سوا کچھ کتابوں کے دوسری کتابیں تلف ہو گئیں عدم موجودگی کی وجہ سے صرف شہید کربلاء ہی اب تک زیور طباعت سے مزین ہو کر عوام و خواص قاری حضرات کی زینت میز بنتی ہے

دینی خدمات :-

حضور سید محمد  نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ جس مبارک سلسلئہ عالیہ سہروردیہ سے تعلق رکھتے ہیں اس سلسلہ نے گجرات سے بنگال کشمیر سے کنیاکماری غرضکہ ہند و پاک انڈونیشیاء،ایشیاء،ملائشیاءجاوا،سماٹرا،جاپان ،چین،

سندھ ،برمہ میانمار،روہنگیا اور عالم کے دیگر علاقے مشرق بعید کے چھوٹے چھوٹے جزیروں تک اسلام کا پیغام حق پہنچایا اور اپنے کریمانہ خلق سے دلوں کی کائنات فتح کر کے لاکھوں کروڑوں غیر مسلموں کو حلقہ بگوش اسلام کیا گمرہوں کو راہ راست پر گامزن فرمایا بیابان و جنگلات  آباد کیے اور ان میں قال اللہ و قال الرسول عزّ و جلّ و علیہ الصلوۃ والسلام کی دلنواز صدائیں بلند کی حق و عرفان عدل و انصاف اور اخلاق مساوات کا درس بے مثال دیا جس کے آثار آج تک ہویدا ہیں حضور محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ کی نویں پشت کے جد اعلیٰ غوث زمانہ قطب یگانہ محبوب خدا مخدوم زماں غوث قطب محبوب مخدوم حضرت سید غوث عبدالنبی سہروردی علیہ الرحمہ جو غوثیہ قطبیہ محبوبیہ کے اعلیٰ مرتبوں پر فائز ہیں آپ بادشاہ جلال الدین اکبر بن ہمایوں کے زمانہ کے عالی مرتبت سہروردی صوفی بزرگ تھے آپ کے وجود مسعود سے  مغلیہ دور کا قصبئہ دوحد ( موجودہ ضلع داہود ) گجرات اور گرد و نواح میں نور و ایمان کے اجالے پھیلے آپ سے ایک جہان نے فیض پایا اور آپ کی کیمیا اثر نگاہ نے بے شمار افراد کو خدائے تعالیٰ کی معرفت عطا کردی آپ کی تبلیغ سے کئ غیر مسلموں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا اور آپ نے راہ راست سے بھٹکے ہوے مسلمانوں کو صراط مستقیم پر گامزن فرمایا آپ علیہ الرحمہ عبادت و ریاضت سے فارغ ہونے کے بعد لوگوں کی داد رسی میں لگ جاتے آپ کی بارگاہ میں حاجت مندوں میلہ لگا رہتا اور آج بھی آپ کے دربار درربار پر گجرات و بیرون گجرات سے مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذہب کے لوگ بھی حاضر ہوتے ہیں اور خدائے تعالیٰ ﷻ سے آپ کے وسیلہ سے اپنی مرادیں،مانگتے منتیں مانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ﷻ کے فضل سے ان کی مرادیں منتیں پوری ہوتی ہیں بلا شبہ آپ کے فیض و کرم کا چشمہ آج بھی آپ کے در سے رواں ہے جس سے ہر ایک مستفید ہو رہا ہے  لھذا حضرت محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ اور آپ کے آباء و اجداد رشد و ہدایت  دینی ملی و سماجی خدمات کے اس کار عظیم کی انجام دہی کے لیے ہر وقت کوشاں رہے ہیں آپ علیہ الرحمہ کا فرمان ہے 

دین کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہو" حضور محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ اپنی تحریر و تقریر  کے ذریعہ تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیتے چنانچہ اہل دوحد و دیگر علاقوں کے مسلمانان کی رہنمائی صلاح و فلاح و بہبودی کے لیے بہت سے گراں قدر کارنامے انجام دیے آپ اور آپ کے آباء و اجداد وقف شدہ اسلامی ملکتیں مثلاً مساجد مکاتیب ( مدرسہ ) مسافر خانے قبرستان کی تولیت و نگرانی بڑی دیانت و امانت داری سے کرتے اور بہت ہی عمدہ طریقے سے الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھاتے مثلاً عالمگیری ( گڑھی ) مسجد جو پہلے انگریزوں کے قبضہ و اختیار میں تھی چند مسلمانان کی معیت میں قانونی طور پر مقدمہ پیش کر کے اسے انگریز افسر سے اپنی تحویل میں لے کر قوم کے سپرد کی،جامع مسجد شاہی عیدگاہ کی تاریخ لکھ کر قوم ان آثار قدیمہ سےآگاہ فرمایا شہر داہود کا ایک سو چار سالہ مرکزی قدیم مدرسئہ مفید اسلام کی ترویج و اشاعت اپنی سرپرستی میں فرماتے رہیں مدرسئہ مفید اسلام کی تاریخ لکھ کر اس کی دیوار پر آویزاں کی سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ نے 415 ہجری میں ایک چھوٹی مسجد بنام مسجد غزنوی تعمیر کروائی تھی حضور محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ کے والد کے چچا محمد رفیع الدین میاں علیہ الرحمہ نے اپنے زمانے میں اس کی جدید تعمیر و توسیع کروائی جس کی تاریخ آج بھی بزبان فارسی غزنوی مسجد میں ایک پتھر پر منقش ہے حضرت محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ کے زمانہ میں جو بھی مدرسہ تعمیر ہوتا اس کا سنگ بنیاد اور افتتاح آپ فرماتے اور اس موقع پر قوم کی حوصلہ افزائی اور علم میں اضافے کے لیے منظوم کلام تحریر فرما کر ان کو سناتے سبزی فروشان مدرسہ کے افتتاح پر آپ نے ایک بہترین کلام لکھا تھا جس کو صدر جلسہ کی حیثیت سے لوگوں کے گوش گزار بھی فرمایا تھا مسلم مسافر خانہ کے احوال پر ایک خطبہ مرتب فرمایا تھا جس کو فاروقی صاحب نے مسافر خانہ کی ایک نشست میں پڑھا تھا وہ منظوم کلام اور خطبہ آج بھی بطور تبرک محفوظ ہیں مساجد کی امامت کے لیے جس کسی امام کا انتخاب ہوتا تو پہلے وہ آپ کی بارگاہ میں آتا آپ اس کا امتحان لیتے پھر مسجد کے لیے تقرری ہوتی ایسے ہی مدرسہ کے مدرس و معلم کا تعین فرماتے مساجد و مکاتیب ( مدرسے ) کے لیے جو متولی ( ٹرسٹی ) بننے کے قابل ہوتے آپ ان کا انتخاب فرما کر تقرر کرتے ضرورت پڑنے پر متولی صاحبان کی اصلاح و رہنمائی بھی کرتے داہود میں وارد ہونے والے نو مسلموں کے ہندوانہ نام آپ نے تبدیل کرکے اسلامی نام تجویز فرمائے تھے اور ان کی ہندوانہ رسم و رواج کو بھی بدلا الغرض دینی خدمات ہوں یا قوم کی اصلاح ہو یا پھر مذہبی،سماجی کام ہو آپ اور آپ کے اجداد ان سب میں پیش پیش رہیں اور ان سب کو بحسن و خوبی انجام دیا ہے

کرامات :-

گودھرا حادثہ ( 2002 ) کی پیش گوئی

 کرامات " دراصل " کرامت " کی جمع ہے جو اکرام اور تکریم کا اسم ہے اس لفظ کے لغوی معنی " نفیس " ہونا عزت دار ہونا اور سخی ہونا " کے ہیں لیکن اصطلاحی طور پر کرامت اس خارق عادات فعل (عادات کے خلاف) کو کہتے ہیں جو مؤمن نیکوکار کے ہاتھ پر ظاہر ہو اور وہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے ولی کے لیے عطیہ ہوتی ہے چنانچہ اہل سنت و جماعت کے ایک عظیم المرتبت بزرگ عارف باللہ ناصح الا ُمہ حضرت سیدنا امام عبد الغنی بن اسماعیل نابلسی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی اپنی کتاب حدیقئہ ندیہ شرح طریقئہ محمدیہ کی جلد ۱ صفحہ۲۹۲ پر کرامت کی تعریف بیان فرماتے ہوے لکھتے ہیں ’’کرامت سے مراد وہ خلافِ عادت امر ہے جس کاظہور تحدی و مقابلہ کے لئے نہ ہو اور وہ ایسے بندے کے ہاتھ پر ظاہر ہو جس کی نیک نامی مشہور و ظاہر ہو وہ اپنے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا مُتَّبِع (تابع،فرمابردار ) درست عقیدہ رکھنے والا اور نیک عمل کا پابند ہو اس تعریف کی تناظر میں دیکھا جائے تو حضور نجم الدین میاں علیہ الرحمہ کی حیات مبارکہ پاکیزہ اور سنت مبارکہ سے عبارت تھی آپ کی ذات والا ستودہ صفات عشق اہل بیت و صحابہ سے لبریز تھی آپ مستور ( پوشیدہ ) صوفیائے کرام میں سے تھے آپ علیہ الرحمہ وقت کے قطب تھے اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو بہت سی خوبیوں اور کرامتوں سے نوازا تھا اگر قوت حافظہ سلامت ہے تو آج سے 19 سال قبل ماضی بعید کے جھروکے سے جھانک کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ 2002 میں ایک جاں گداز ہلاکت خیز سانحہ پیش آیا تھا جس کو گودھرا کانڈ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے چنانچہ حضور محمد نجم الدین میاں علیہ الرحمہ نے اسی 2002 میں وقوع پزیز حادثہ کی طرف اشارہ کرتے ہوے اپنے ایک دیباچہ میں پیش گوئی تحریر فرمائی تھی جس کا نام تھا خونی آنسو آپ نے لکھا تھا " آنے والے پچاس سال میں اللہ اللہ مسلمانوں پر تشدد و بربریت کے پہاڑ توڑے جائیں گے  ظلم و ستیم ہوگا مسلمانوں کا قتل عام ہوگا مساجد مدارس مزارات شہید اور منہدم کر دیے جائیں گے مسلمانان ہند کو بہت پرییشان کیا جائے گا اور ان سب کو میں نے اپنی ظاہری آنکھوں سے نہیں بلکہ دل کی آنکھوں سے دیکھا ہے اور دوران تحریر میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے" اتفاق سے آپ کا تحریر کردہ دیباچہ خونی آنسو گودھرا حادثہ کے تریباً دو یا تین سال بعد کے بعد دستیاب ہوا جس میں مذکورہ باتیں تحریر تھیں جو 50 سال کے اختتام پر درست و صحیح ثابت ہوئیں

بعد وصال زیارت کرانا

حضور محمد نجم الدین میاں علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت محمد زین الدین میاں بڑے قاضی صاحب کی بارگاہ میں ایک صاحب آپ کے بڑے حجرہ میں داخل ہوا اور کچھ ہی لمحوں میں گھبرا کر باہر نکل آیا کسی نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ کیوں اتنے گھبرائے ہوے ہو؟ تو اسے جواب دیتے ہوے کہا کہ "میں بڑے قاضی صاحب کی بارگاہ میں نکاح خوانی کی دعوت دینے گیا تھا لیکن میں جیسے ہی حجرہ میں داخل ہوا تو وہاں میری ان آنکھوں نے کیا  دیکھا کہ حضور نجم الدین میاں علیہ الرحمہ ایک جھولے پر جلوہ فرما ہیں اور کتاب پڑھ رہے ہیں" بس یہ منظر دیکھتے ہی میں گھبرا باہر نکل آیا  

ماشآءاللہ سبحان اللہ یہ شان ہوا کرتی ہے اولیاءاللہ کی کہ بعد وصال بھی لوگوں کو اپنے دیدار سے مشرف کرتے ہیں اور فیض رسانی کا ذریعہ بنتے ہیں 

پیر با خوبی قبرستان میں دیدار

 حضور محمد نجم الدین میاں علیہ الرحمہ کے ایک عقیدتمند کا بیان ہے کہ ایک ہندو نے مجھ سے  کہا کہ "آیک مرتبہ میں آدھی رات گئے پیر باخوبی قبرستان کے راستے اپنے گھر جا رہا تھا کہ میں نے دور سے دیکھا کہ قبرستان میں مسلمانوں کی ایک محفل سجی ہے اور نورانی چہرے والے بزرگ بیٹھے ہوے تھے ان میں ایک بزرگ محرم کا بیان کر رہے تھے  میں نے سوچا کہ چلو  میں بھی جا کر بیٹھ جاوں دیکھتے تو سہی محفل میں کیا ہو رہا ہے بس اسی ارادہ سے میں محفل سے تھوڑی دور ایک درخت کے نیچے جا بیٹھ اور پورا بیان سماعت کیا جب محفل ختم ہوئی تو بیان کرنے والے بزرگ نے میری طرف اشارہ کرتے ہوے ایک بزرگ سے کہا اسے بھی تبرک دو  میں نے ان سے تبرک لیا اور پھر ان بزرگ نے کچھ بزرگوں سے کہا کہ رات بہت ہو چکی ہے اسے اس کے گھر کے راستہ تک چھوڑ آو وہ بزرگ مجھے شمشان گھاٹ ندی تک چھوڑ کر اچانک غائب ہو گئے میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی میرے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا  میں ترساں و لرزاں ( ڈرتے کانپتے ) سیدھا گھر پہنچ کر سو گیا مارے ڈر اور گھبراہٹ کے بخار چڑھ گیا یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد وہ عقیدتمند کہتے ہیں کہ ایک دن میں اس ہندو کو لیکر  بڑے قاضی صاحب کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اس ہندو نے سارا واقعہ بڑے قاضی صاحب کے گوش گزار کرتے ہوے  بیانے کرنے والے بزرگ کا حلیہ بھی بتایا اور جو تبرک وہاں سے ملا تھا اسے بھی پیش کیا تو  بڑے قاضی صاحب نے ایک چھوٹی سی تصویر نکال کر کہا کیا وہ یہی بزرگ تھے ؟ تصویر دیکھ کر وہ حیرت میں پڑ گیا اور  اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا کہ "ہاں جناب قاضی صاحب یہ وہی بزرگ ہیں جن کو میں نے کل رات قبرستان میں بیان کرتے دیکھا تھا اس پر بڑے قاضی صاحب نے کہا وہ ہمارے والد محمد نجم الدین میاں علیہ الرحمہ تھے 

عیدگاہ قبرستان کا واقعہ

ایک مرتبہ آپ عیدگاہ قبرستان راستے سے جا رہے تھے کہ ایک بوھرا شیعہ نے آپ سے کہا کہ حضور یہ کیا بات ہے کہ آپ کا قبرستان خستہ حال ہے قبریں بھی شکستہ ہیں ہمارا قبرستان دیکھیں تو سہی کتنا اچھا ہے اور قبریں بھی پختہ ہے حضور نجم الدین میاں علیہ الرحمہ نے حالت جلال میں اس سے فرمایا  ہمارے عیدگاہ قبرستان کی طرف نظر کر اس نے دیکھا پھر کہا اب اپنے قبرستان کی سمت دیکھ وہ دیکھتے ہی اچانک بے ہوش ہو گیا کچھ دیر بعد اسے ہوش آیا تو حضرت نے پوچھا بتا کیا دیکھا تونے تو اس نے عرض کیا " حضور میں نے آپ کے قبرستان میں دیکھا کہ شکستہ قبر والے ایک باغ میں ٹہل رہے ہیں کوئی آرام میں ہے تو کسی کی قبر میں نور اتر رہا ہے اور جب میں نے اپنے قبرستان کی طرف دیکھا جس کی بظاہر پکی اور خوبصورت نظر آ رہی ہیں لیکن کوئی اوندھا لٹکا ہوا ہے تو کسی پر سانپ بچھو مسلط ہیں قبر والے طرح طرح عذاب میں مبتلاء ہیں پھر وہ شیعہ بوہرا اپنے سوال پر پشیماں ہو کر معافی کا خواستگار ہوا اور عرض کیا "حضور مجھے معاف کر دییجے مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئ حضرت نے اپنی شان کریمی سے اسے معاف کر دیا 

بلا داخل نہ ہوگی

حضور محمد نجم الدین میاں علیہ الرحمہ کے اوراد و وظائف بہت مجرب اور موثر ہوتے آپ کی بارگاہ میں پریشان و تکلیف زدہ لوگ دم دعا تعویذ کرانے آتے حضرور انہیں دعاء تعویذ دیتے دم کرتے اللہ تعالیٰ کی عطا سے حضور کے دم کرنے سے لوگ شفا یاب ہوجاتے جیسا ایک مرتبہ چیچک بیماری نے بہت زور پکڑا تھا آپ علیہ الرحمہ چیچک زدہ افراد پر آیات قرآنی پڑھ کر دم کرتے اور اللہ کے فضل و کرم سے انہیں شفا ملتی ایک دفعہ آپ علیہ الرحمہ شہر داہود کی مشرقی سرحد پر تشریف لے گئے اور کچھ اوراد و وظائف دم کیے پھر آپ اسی طرح مغربی جنوبی شمالی چاروں سرحدوں پر گئے اور اوراد و وظائف پڑھ کر دم کر  دیے کسی نے پوچھا حضور والا یہ آپ نے چاروں سرحدوں پر کیوں دم کیا آپ نے ارشاد فرمایا " داہود میں ایک بہت بڑی بلا داخل ہونے والی تھی لیکن میں نے اوراد و وظائف پڑھ کر دم کر دیا ہے ان شآءاللہ العزیز اس پڑھائی کی خیر و برکت سے وہ بلا اس شہر میں اب داخل نہ ہو سکے گی اور یوں حضور محمد نجم الدین میاں علیہ الرحمہ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا سے داہود میں عظیم بلا کے داخلے سے اہل داہود کو بچا لیا

ماشآءاللہ سبحان اللہ عزّ و جلّ 

سخت گرمی میں مزار پر ٹھنڈک

سلسلئہ عالیہ سہروردیہ کے شیخ طریقت حضرت سید محمد ابراہیم باپو سہروردی بخاری نقشبندی صاحب جو ہر سال ہڈالا راجکوٹ سے داہود حضور سید غوث عبدالنبی سہروردی علیہ الرحمہ کی بارگاہ عالیہ میں حاضری کا شرف حاصل کرتے ہیں ایک مرتبہ میں راقم الحروف ان کے ساتھ تھا پیر صاحب سرکار غوث عبدالنبی سہروردی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر ہوے اور حضور کی بارگاہ میں نذرانئہ عقیدت پیش کرنے کے بعد حضور نجم الدین میاں علیہ الرحمہ کے مزار پر حاضری دی اور گلہائے عقیدت پیش کرکے فاتحہ خوانی کی اس کے بعد پیر صاحب نے مجھ نا چیز سے دریافت فرمایا کہ یہ مزار کن بزرگ کا ہے اس نا چیز نے جواباً عرض کیا یہ مزار میرے جد اعلیٰ کا ہے تو پیر صاحب کہنے لگے "ایک دفعہ شدت کی گرمی تھی اور دھوب اپنا کام کر رہی تھی جب میں اس مزار پر حاضر ہوا تو مجھے ٹھنڈک محسوس ہوئی اور بڑا سکون و اطمینان ملا یہ بہت بڑے بزرگ ہیں پیر صاحب نے نام پوچھا فقیر نے عرض کیا حضرت  کا نام محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ ہے 

 الحمدللہ ہم اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ اولیائے کرام اپنی قبور میں اپنے اجسام کے ساتھ زندہ ہیں اور تحریر کردہ واقعہ سے یہی ثابت ہوا کہ بے شک  اولیاء اللہ مرتے نہیں بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں اور بلا شبہ اولیاءاللہ کی کرامات حق ہیں اور بعد وصال بھی اولیائے کرام بے کسوں حاجتمندوں کی امداد فرماتے ہیں اور وصال کے بعد بھی عالم دنیا میں اپنے حقیقی دیدار سے مشرف بھی کرتے ہیں ان کے پاس کشف القبور کا علم ہوتا ہے احوال قبر سے واقف ہوتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا سے انہیں علم غیب حاصل رہتا ہے اور آئندہ واقعات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں انہیں مقام تصرف بھی عطا کیا جاتا ہے یعنی اولیائے کرام جب چاہے تب ایک جگہ سے دوسری جگہ آ جا سکتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا سے اولیائے کرام بعد وصال بھی اپنے فیوض و برکات جاری رکھتے ہیں لوگوں کو مستفیض کرتے ہیں جو ان کی کرامات تصرفات اختیارات علم غیب وغیرہم سے انکار کرے وہ  بد عقیدہ بد مذہب اور گمراہ ہے

خدا خاص ایک احسان ہے یہ اولیاءاللہ 

زمانہ جسم اور جان ہے یہ اولیاءاللہ

وصال با کمال :-

حضور سید محمد نجم الدین میاں ہاشمی علیہ الرحمہ مسلمانان کے مذہبی پیشوا بھی تھے اور شریعت کے مطابق سیاسی رہنما بھی آپ اپنے قاضیانہ و قاعدانہ فرائض بحسن و خوبی انجام دے چکے تھے آپ نے مسلمانان دوحد کی رہنمائی و پیشوائی فرمائی اور انہیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم دیتے رہے حتی الامکان آپ نے گمراہوں کو راہ راست پر گامزن بھی فرما  دیا تھا آپ نے ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت بھی دیکھی اور دیش آزاد ہوتے بھی  دیکھا تھا اور اس میں آپ نے  شرعی طور پر اپنا سیاسی کردار بھی پیش فرمایا تھا آپ بہت خلیق و کریم بھی تھے اورحرم و نرم دل بھی اور شریعت کے معاملے میں بڑے سخت بھی تھے آپ کے مبارک وجود نے داہود کو بڑا فیض بخشا تھا آپ اس خاندان عالی سے تعلق رکھتے تھے جس نے دینی ملی رفاہی سماجی سیاسی خدمات اور حق گوئی سے کبھی منہ نہیں موڑا تھا حضور نجم الدین میاں علیہ الرحمہ اب اپنی زندگی کی آخری منزلوں سے گزر رہے تھے اور تقریبا 75 سال کی لیل و نہار کے سمے ( ماحول ) ادلتے بدلتے دیکھ چکے تھے 

 اسی لیل و نہار میں ایک دن بتاریخ 29 شوال الکمکرم 1380 ہجری بمطابق 1961 بروز اتوار حسب معمول آپ مغرب کی نماز پڑھ کر ماہ ذی القعدہ کا چاند دیکھنے تشریف لے گئے جب چاند نظر آیا تو آپ نے فرمایا "دیکھتا ہوں یہ چاند کیا رنگ لاتا ہے" دوسرے دن 1 ذی القعدہ 1380 ہجری بمطابق 1961 عسوی بروز پیر اپنے بڑے صاحبزادے محمد زین العابدین المعروف بہ زین الدین میاں بڑے قاضی صاحب سے فرمایا "بیٹا آج اس حجرہ میں جھولے پر عصر کی اذان کے بعد عصر اور مغرب کے درمیان اس فانی دنیا سے میرا انتقال ہو جائے گا" جب رحلت کا وقت قریب تو آپ کے حکم کے مطابق حجرے کے تین چکر لگوائے اور پھر آپ کو جھولے پر لیٹا دیا آپ نے اپنے بڑے صاحبزادے کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوے  فرمایا "بیٹا اہل داہود تیرے سپرد ہے اپنے فرائض اچھے سے انجام دینا" آہ اور بس پھر کیا ہوا کہ اس وقت کے قطب قاضی اسلام مرد مجاہد نے کلمہ پڑھتے ہوے جان جان آفریں کے سپرد کر دی اور ہم سب کو ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے گئے 


انّاللہ و انّاالیہ راجعون 

شہر میں کہرام برپا ہو گیا ہر طرف بجلی کی سی تیزی کے ساتھ یہ غمناک خبر پھیل گئ ہر چھوٹا بڑا اپنے غیر سب کے سب آپ کے در اقدس پر جمع ہوں گئے حضور مفتی اعظم ہند کے ایک مرید حافظ عبدالرحیم صاحب نوری کا کہنا ہے کہ میں اس وقت دارالعلوم شاہ عالم احمدآباد  میں زیر تعلیم تھا کہ اچانک حضور نجم الدین میاں کے وصال کی خبر جانکاہ موصول ہوئی خبر ملتے ہی ایک غم کی لہر دوڑ گئ

آہ ! شہر داہود سوگوار ہو گیا 

آہ ! عقیدتمندوں اور شہر کے باشندوں کے سروں سے بزرگ کامل کا سایہ اٹھ گیا

آہ ! وہ ذات گرامی رخصت ہوگئ جو بلا امتیاز ہر ایک پر مہربان تھی 

آہ ! وہ مقرر بے مثال انتقال کر گیا جس کے بیانات و کلام دلوں کی کائنات میں ہل چل ڈال دیتے تھے 

آہ ! وہ مئومن پارسا رحلت فرما گیا جس کے چہرے کا دہدار ایمان کو تازہ کرتا تھا 

آہ ! وہ صوفی چل بسا جس کا وجود دوست و دشمن اور اہل داہود کے لیے مفید  یکساں تھا

آہ ! وہ رہنما کچھ کر گیا جس نے اپنی زندگی میں داہود پر کوئی آنچ نہ آنے دی

 آہ ! وہ مرد قلندر رخصت ہو گیا

 جس کی زبان پر ذکر الٰہی جاری رہتا تھا

آہ ! وہ دعا گو پردہ کر گیا جس کے نورانی ہاتھ بارگاہ الٰہی میں التجاءو دعاوں کے لیے اٹھتے   اور محتاجوں کی مدد کرتے تھے

آہ ! وہ مصلح قوم و ملت ہمیشہ کے لیے رو پوش ہو گیا جس کے پاوں دیر تک بیان کرنے کے سبب متورم ہو جایا کرتے تھے

آہ ! وہ رہنمائے داہود محسن قوم جدا ہو گیا جو قوم کی اصلاح و بہتری و رہبری کے لے ہمہ وقت کوشاں رہتا تھا

 آج ایک تختہ پر سرمدی حیات  کی چادر تانے آرام فرما تھا اور انہیں آخری غسل دیا جا رہا تھا جب تجہیز و تکفین سے فارغ ہو گئے اور جب جنازہ اٹھایا گیا تو اپنے اور غیروں نے سینکڑوں ہزاروں تعداد میں شرکت کی اور اسی جم غفیر میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئ اور پھر پیر با خوبی قبرستان میں آپ کے جد اعلیٰ حضور سید غوث عبدالنبی سہروردی علیہ الرحمہ کے مزار کے عقب میں ( پیچھے جانب ) ہمیشہ کے لیے سپرد خاک کر دیے گئے 

حضور محمد نجم الدین میاں نے اپنے وصال سے چند روز پہلے چند اشعار تحریر فرما کر اپنے بڑے صاحبزادے سے فرمایا تھا "بیٹا یہ اشعار ایک تختی پر نقش کرا کے میری قبر کے سرہانے نصب کر دینا آپ کے حکم کے مطابق آپ کی وصیت پوری کی گئ اور وہ تختی آج بھی آپ کے سرہانے نصب ہے جو آپ کی یادوں کو تازہ کرتی ہے 

الغرض ہدایت کا یہ آفتاب داہود  جو تقریبا نصف صدی سے شہر داہود و گرد و نواح میں ضیا پاشی کر رہا تھا داہود میں اپنا نور پھیلا کر ہمیشہ کے لیے پیر با خوبی قبرستان میں غروب ہو گیا لیکن ان کا غروب ہونا سورج کا غروب ہونا نہیں ہے بلکہ وہ صرف ہماری نگاہوں سے اجھل ہوے ہیں مگر ان کی ہدایت اور یادوں سے دلوں کی کائنات آج بھی روشن ہے اور جب تک یہ عالم آباد ہے آپ کے تمام معتقدین متوسلین آپ سے برابر فیض و برکت حاصل کرتے رہیں گے 

آپ علیہ الرحمہ کا عرس مبارک ہر سال 1 ذی القعدہ کو  بڑے ادب و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے جس میں قرآن خوانی اور نعت و منقبت کی محفل رکھی جاتی ہے عقیدمند حضرات فرما کر اس میں شرکت فرما کر حضور والا کی بارگاہ عالیہ میں عقیدت کا خراج پیش کرتے ہیں اور اپنے کرم فرما پیشوائے دوحد کے آستانئہ عالیہ پر حاضر ہو کر عقیدت کے پھول پیش کرتے اور حضور والا کے فیضان سے مسفیض ہوتے ہیں 

مذکورہ بالا سطور مختصراً قلم بند کر دی گئ مزید کی اب گنجائش نہیں کیوں کہ سفینہ چاہیے اس بحر بے کرنار کے لیے 

ہزاروں رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تجھ پر

فنا کے بعد بھی باقی ہے شان رہبری تیری"

نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق 

ثبت است بر جریدہءعالم دوام ما"


تمت بالخیر ! گر قبول افتد زہے عز و شرف



ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی