بحر العلوم ، محدثِ عصر حضرت علامہ مفتی ضیاء الحسن ضیاؔ سہسرامی علیہ الرحمہ Mufti ziyaul hasan ziya sahasrami

 بحر العلوم ، محدثِ عصر حضرت علامہ مفتی ضیاء الحسن ضیاؔ سہسرامی علیہ الرحمہ :

 بحر العلوم ، محدثِ عصر حضرت علامہ مفتی ضیاء الحسن ضیاؔ سہسرامی علیہ الرحمہ
 Mufti ziyaul hasan ziya sahasram


( طفیل احمد مصباحی )

بحر العلوم ، عارفِ باللہ ، محدثِ سہسرام حضرت علامہ مفتی محمد ضیاء الحسن ضیاؔ سہسرامی علیہ الرحمہ ( متوفیٰ : ۱۴۰۱ ھ / ۱۹۸۱ ء ) اپنے وقت کے جامعِ معقول و منقول اور علمی جاہ و جلال رکھنے والے ایک مسلم الثبوت عالم و فاضل تھے ۔ ایک بلند پایہ مدرس و محدث کی حیثیت سے آپ کی شہرت پورے ملک میں پھیلی ہوئی تھی ۔ درسِ نظامی کے تمام فنون پر مہارتِ تامہ رکھتے تھے ۔ نصف صدی سے زائد عرصہ تک آپ نے تدریسی خدمات بحسن و خوبی انجام دیں اور سینکڑوں تلامذہ کو فیضیاب کیا ۔ آپ علم کے ساتھ عرفان ، حکمت کے ساتھ روحانیت اور شریعت کے ساتھ طریقت کے بھی شہسوار تھے اور تصوف و روحانیت کے بلند مقام پر فائز تھے ۔ وہ جتنے بڑے عالم و مدرس ، محدث و مفتی اور ادیب و شاعر تھے ، اتنے بڑے صوفی ، مرشدِ کامل اور عارفِ باللہ بھی تھے ۔ ان کو شریعت و طریقت کا " مجمع البحرین " سمجھنا چاہیے ۔ علاوہ ازیں اردو و فارسی و عربی کے ایک مایۂ ناز ادیب و شاعر تھے ۔ حضور مجاہدِ ملت و حضور حافظِ ملت جیسی عظیم المرتبت ہستیوں نے آپ کی شخصیت کی ہمہ گیری کو تسلیم کیا ہے ۔ حضرت محدثِ سہسرامی کی بلند قامت علمی و روحانی شخصیت کا اندازہ لگانے کے لیے یہ اقتباس ملاحظہ کریں ۔

پاسبانِ ملت ، مناظرِ اسلام حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی لکھتے ہیں :

افسوس صد ہزار افسوس ! علم و آگہی کا ایک اور قلعہ منہدم ہو گیا ۔ حضرت علامہ محمد ضیاء الحسن صاحب محدث دار العلوم خیریہ ، سہسرام ( ضلع روہتاس ، بہار ) ایک علمی خانوادہ کے چشم و چراغ تھے ........... تقریباً نصف صدی سے بھی زائد دار العلوم خیریہ کی مسندِ تدریس کو جِلا بخشتے رہے ۔ آپ نے درس و تدریس میں ہندوستان گیر شہرت حاصل کی ۔ ملک کا چپہ چپہ آپ کی علمی صلاحیتوں کا معترف ہے ۔ تفسیر و حدیث ، فقہ و اصولِ فقہ ، منطق و فلسفہ ، فرائض و بلاغت ، عروض و فصاحت اور ہیئت و توقیت جیسے تمام علوم و فنون میں آپ کو دسترس حاصل تھی ۔ اس کے علاوہ آپ عربی فارسی و اردو ادب کے بہترین ماہر اور بلند پایہ شاعر بھی تھے ۔ حضرت علامہ نے اپنی علمی صلاحیت سے بہت سے تاریک دلوں کو عشقِ نبوی کے نور سے منور و مجلیٰ فرمایا ۔ اس علمی جاہ و جلال کے با وجود آپ ایک با کرامت ولیِ کامل اور عابدِ شب زندہ دار بھی تھے ۔ گویا آپ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے ، جن کا صحیح شمار بھی ممکن نہیں ......... حضرت مولانا کاملؔ سہسرامی رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد دار العلوم خیریہ کی نظامت کی ذمہ داری مولانا سید مظفر حسین صاحب ایم پی نے آپ کے سپرد فرمائی تھی اور آپ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک بحسن و خوبی انجام دیتے رہے ۔ گویا آپ کی حیاتِ پاک کا گہرائی سے مطالعہ و تجزیہ کرنے کے بعد یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ آپ اپنے معاصرین میں منفرد شخصیت کے حامل تھے ۔ آپ اسلاف کی یادگار و نمونہ تھے ۔ آپ جہاں اپنے بڑوں اور ہم عصروں کے سامنے حسنِ اخلاق و کرم کا مجسمہ تھے ، وہیں بچوں کے لیے شفقت و محبت کی چلتی پھرتی تصویر تھے ۔ آپ بذلہ سنج ، منکسر المزاج ، خوش اخلاق ، اعلیٰ کردار و بلند اطوار تھے ۔ آپ سے ملنے والا ہر شخص آپ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا ۔ حضرت علامہ کے وصال سے کسی فرد یا خاندان ہی کا نقصان نہیں ہے ، بلکہ پوری ملتِ اسلامیہ یتیم ہو گئی ۔ علم و معرفت اور شعور و آگہی کا ہرا بھرا چمن ویران ہو گیا ۔ شعر و سخن کی محفل سونی ہو گئی ۔ دار العلوم خیریہ کا لہلہاتا ہوا گلستاں اپنے شفیق و مکرم نگہباں سے محروم ہو گیا ۔

( اداریہ ماہنامہ پاسبان ، الہٰ آباد ، ص : ۷ ، اکتوبر و نومبر ۱۹۸۱ ء )

*ولادت اور تعلیم و تدریس* :

حضرت ضیاؔ سہسرامی ۸ / ربیع الاول ۱۳۲۱ ھ / ۱۸۸۹ ء ، بروز جمعہ سہسرام ( ضلع روہتاس ، بہار ) کے محلہ منڈی کشور خاں میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والدِ گرامی جناب مولانا حافظ محمد حسن مرحوم نہایت شریف ، متواضع ، نیک طینت اور متدین انسان تھے ۔ مولانا حکیم نور الحسن اور مولانا قاری محمود الحسن ، حضرت ضیاؔ سہسرامی کے چھوٹے بھائی تھے ۔ غرض کہ گھر کا ماحول علمی و روحانی تھا ، جس کے سانچے میں ڈھل کر حضرت ضیاؔ سہسرامی کی شخصیت تابناک بنی ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم و تربیت کے مراحل اپنے والد کی آغوشِ شفقت میں طے کیے ۔ متوسط عربی درجات کی تعلیم دار العلوم خیریہ نظامیہ ، سہسرام میں حاصل کی ۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے استاذ العلماء ، زبدۃ الاتقیاء حضرت علامہ عبد الکافی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مدرسہ سبحانیہ ، الہٰ آباد میں داخلہ لیا اور مروجہ منتہی علوم و فنون کی تحصیل کر کے ۱۳۴۷ ھ میں سندِ فراغت سے نوازے گئے ۔ آپ شروع سے نہایت ذہین ، محنتی ، قوی الحافظہ اور اعلیٰ علمی صلاحیتوں کے مالک تھے ۔ انہیں خوبیوں کے پیشِ نظر آپ کے استاذ علامہ عبد الکافی الہٰ آبادی نے اسی مادرِ علمی میں تدریسی ذمہ داریاں سپرد کر دیں ۔ چند مہینے وہاں تدریسی فرائض انجام دینے کے بعد مدرسہ رحمانیہ ، رائے بریلی مدرسِ اول کی حیثیت سے تشریف لے گئے ۔ اس مدرسہ میں آپ کے استاذِ محترم اور خسر حضرت علامہ محمد فرخند علی فرحتؔ سہسرامی علیہ الرحمہ بھی تدریسی خدمت انجام دے چکے تھے ۔ رائے بریلی کے بعد مدرسہ اشرفیہ ، راندیر ، سورت کی مسندِ تدریس کو زینت بخشی اور تقریباً ڈیڑھ سال علم و حکمت کی خیرات لٹاتے رہے ۔ اس کے بعد آپ دار العلوم خیریہ نظامیہ ، سہسرام کے مدرس ہوئے اور بتدریج ارتقا کے مراحل طے کرتے ہوئے صدر مدرس ، مہتم اور شیخ الحدیث کے منصبِ جلیل پر متمکن ہوئے اور تا دمِ حیات اسی ادارے سے وابستہ رہے اور ہزاروں تشنگانِ علوم نبویہ کو اپنے چشمۂ علم و حکمت سے سیراب فرمایا ۔ اس علمی گلشن کو آپ نے خونِ جگر پِلا کر سرسبز و شاداب کیا اور اس باغ سے نوع بہ نوع علمی پھول کھِلائے ۔ دار العلوم خیریہ آپ کی اصل علمی و فکری و عملی جولان گاہ ہے ۔ ڈاکٹر ارشاد احمد ساحلؔ سہسرامی لکھتے ہیں :

دار العلوم خیریہ نظامیہ ، سہسرام میں تقرری کے بعد پوری زندگی آپ نے اس مادرِ علمی کے فروغ و بقا کے لیے وقف کر دی اور تا دمِ حیات اس کے مناصبِ علمیہ کی صدارت آپ سے اعزاز پاتی رہی ۔ عربی ، فارسی اور اردو میں اتھارٹی تھے ۔ آپ کے آثارِ علمیہ کا جس نے مطالعہ کیا ہے یا جس سعادت مند نے آپ سے علمی یا مجلسی فیض اٹھایا ہے ، وہ اس کی بھرپور تائید کرے گا ............ آپ کے کرامت آثار حالاتِ زندگی کا ایک زمانہ شاہد ہے ۔ آپ کے دورِ حیات میں دو شخصیتوں کی بزرگی کا خوب چرچا تھا ۔ ضیاء السالکین حضرت علامہ محمد ضیاء الحسن نقشبندی یعنی خود آپ کی ذاتِ گرامی اور دوسری شخصیت ہے پیکرِ صدق و صفا حضرت عبد اللہ شاہ علیہ الرحمہ ۔ ان دونوں بزرگوں سے مدینۃ الاولیاء سہسرام کی نور بار فضائیں دیر تک فیضیاب ہوتی رہیں ۔

( صادق سہسرامی : حیات اور شاعری ، ص : ۱۴۳ )

حضرت ضیاؔ سہسرامی سلسلۂ نقشبندیہ کے ایک با کمال بزرگ تھے اور اپنے استاذ حضرت علامہ عبد الکافی الہٰ آبادی سے بیعت و خلافت کا شرف رکھتے تھے ۔ پورے شہر میں آپ کی ولایت اور کرامت آثار زندگی کی شہرت تھی ۔ سلسلۂ نقشبندیہ میں اخفائے احوال پر بہت زور دیا جاتا ہے ۔ آپ اسی مسلک پر گامزن تھے ۔ نام و نمود اور شہرت و ناموری سے کوسوں دور رہتے تھے ۔ صوفیانہ وضع اور قلندرانہ مزاج رکھتے تھے اور درویشانہ زندگی گزرانے کے عادی تھے ۔ علم و فضل کے علاوہ سادگی و سنجیدگی ، عبادت و ریاضت ، زہد و تقوی ، امانت و دیانت اور صبر و قناعت مثالی تھی ۔ آپ کی یہی عادت و خصوصیت آپ کے نام ور تلمیذ بقیۃ السلف ، عمدۃ الخلف حضرت علامہ مفتی حافظ و قاری محمد ظل الرحمٰن رحمتؔ ضیائی علیہ الرحمہ ( سابق مہتمم و شیخ الحدیث دار العلوم خیریہ ، سہسرام ) کے اندر بھی پائی جاتی تھی ۔ آپ راقم الحروف کے استاذ اور ہم وطن تھے ۔

*عربی زبان و ادب میں کمال* :

محدثِ سہسرام حضرت ضیاؔ سہسرامی کو عربی زبان و ادب میں مہارت حاصل تھی ۔ مادری زبان کی طرح عربی بولتے تھے ۔ آپ کی عربی شاعری بھی قابلِ قدر اور لائقِ رشک تھی ۔ آپ نے فارسی کے علاوہ طویل عربی قصائد بھی لکھے ہیں ۔ آپ کے تلیمذِ رشید حضرت علامہ مفتی محمد ظل الرحمٰن رحمتؔ ضیائی بھاگل پوری علیہ الرحمہ نے آپ کی عربی دانی سے متعلق ایک واقعہ میرے خسر محترم ، عاشقِ مفتیِ اعظم ہند ، پیکرِ اخلاص و تقویٰ جناب محمد اسلام اُوَرْسیئر صاحب قبلہ کو بتایا تھا کہ ایک مرتبہ جناب مولانا ابو الوفا فصیحی غازی پوری تقریر کرنے کی غرض سے سہسرام گئے ہوئے تھے ۔ چوں کہ بڑے خطیب تھے ، اس لیے ان سے ملاقات کرنے کے لیے حضرت ضیاؔ سہسرامی اور حضرت مفتی ظل الرحمٰن بھاگل پوری تشریف لے گئے ۔ ابو الوفا فصیحی صاحب ایک موٹے تکیے پر ٹیک لگائے شاہانہ انداز میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ حضرت ضیاء سہسرامی کو دیکھ کر اپنی جگہ سے ہِلے تک نہیں اور اپنی قابلیت دکھانے کے لیے عربی زبان میں بات کرنے لگے ۔ پھر کیا تھا ، حضرت ضیاؔ سہسرامی نے بھی عربی میں گفتگو شروع کر دی ۔ یہاں تک کہ پانچ منٹ کے اندر ہی فصیحؔی صاحب کی قابلیت اور عربی دانی کا بھوت اتر گیا اور وہ حضرت ضیاؔ سہسرامی سے اردو میں گفتگو کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ غرض کہ آپ کی عربی دانی مسلم ہے ۔ آپ کا شمار ہندوستان کے ان مایۂ ناز علما و مشائخ اور عظیم المرتبت ادبا و شعرا میں ہوتا ہے ، جن کی عربی دانی مسلّمات میں سے ہے ۔ پیکرِ علم و اخلاق حضرت علامہ و مولانا حاجی امداد علی بھاگل پوری دام ظلہ العالی ( جو راقم الحروف کے ہم وطن ہیں ) کے سفرِ حج کے موقع پر آپ نے بزبانِ عربی ایک تہنیت نامہ تحریر فرمایا تھا ۔ یہ تہنیت نامہ در اصل " قطعۂ تاریخِ حج " ہے ، جس کے آخری مصرعہ " اعنی دام ذالک الفوز العظیم " سے " ۱۹۷۰ ء " کی تاریخ بر آمد ہوتی ہے ۔ خطیبِ عصر ، شاعرِ باکمال حضرت علامہ مفتی محمد اطہر حسن ضیائی دام ظلہ کے شکریے کے ساتھ یہ تہنیت نامہ یہاں درج کیا جاتا ہے :

فاز بالحج لبیب صالح

خیر شبان ذوی القلب السلیم

ایھا الامداد " امداد علی "

نلت ما نلت من الشرف العظیم

یابن ذی العزم الرفیع المحکم

حاجی الحرمین ذی الرائ السلیم

مخلصی الحاج القمرؔ الذی

ذو العنایات و ذو الفخر الفخیم

استجیب دعوۃ الابوین لک

فی جناب القدس للمولیٰ الریم

فاجتنیت منًی بحسن دعائھم

زرت مکۃ و المدینہ و الحطیم

فاعتصم فیھم بقول المصطفیٰ

تحت قدم الام جنات النعیم

و ارضھم ما دمت حیا قائما

ان رضوا فتصیب رضوان الرحیم

ذاک فضل اللہ یعطی من یشاء

فاحمد اللہ علیٰ الفضل الجسیم

و الزم التقویٰ حیاتک احتسب

باتباعک الصراط المستقیم

یا ضیاؔ ھذا الدعاء ارخہ !!

اعنی دام ذالک الفوز العظیم

جلالۃ العلم حضور حافظِ ملت علیہ الرحمہ ، حضرت ضیاؔ سہسرامی کے علم و فضل کے قائل و مدّاح تھے ۔ ایک مرتبہ آپ نے حضرت مفتی ظلّ الرحمٰن رحمتؔ ضیائی بھاگل پوری سے فرمایا کہ " شرحِ تہذیب اور منطق کی دیگر کتب پڑھانے کا حق مفتی ضیاء الحسن سہسرامی کے شاگردوں کو ہی حاصل ہے " ۔ حضرت علامہ حاجی امداد علی ضیائی دام ظلہ العالی ( خطیب و امام جامع مسجد ، شری رام پور ، ضلع احمد نگر ، مہاراشٹر ) نے راقم الحروف کو بتایا کہ :

غالباً ۱۹۷۳ ء کی بات ہے کہ جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ دار العلوم خیریہ نظامیہ ، سہسرام کے سالانہ جلسۂ دستار بندی میں تشریف لے گئے تھے ۔ حضرت محدثِ سہسرام اس وقت خیریہ کے مہتمم ، صدر مدرس اور شیخ الحدیث تھے ۔ آپ نے جلسے میں حافظ ملت کے سامنے عربی زبان میں فصیح و بلیغ تقریر فرمائی اور دار العلوم خیریہ کا بڑا عمدہ تعارف کرایا ، جس سے حافظ ملت کافی متاثر ہوئے اور آپ نے بھرے اجلاس میں فرمایا کہ " ہماری قوم بلا وجہ مایوسی کی شکار ہو رہی ہے ۔ ہماری جماعت میں مفتی ضیاء الحسن کی شکل میں آج بھی ایک سے ایک شہباز موجود ہیں " ۔ بعد ازاں حافظ ملت نے آپ کو ختمِ بخاری اور طلبہ کا امتحان لینے کی غرض سے جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور آنے کی دعوت دی اور آپ وہاں تشریف لے گئے ۔ جب تک حافظِ ملت زندہ رہے ، حضرت محدثِ سہسرام ممتحن کی حیثیت سے اشرفیہ مبارک پور تشریف لے جاتے رہے ۔ حافظِ ملت کے وصال کے بعد بھی آپ دو تین بار بحیثیتِ ممتحن اشرفیہ تشریف لے گئے ۔

*شعر و شاعری* :

سرزمینِ سہسرام کو معدن الاولیاء ، مخزن العلماء اور منبع الشعراء ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ سہسرام کے کنکر پتھر بھی شاعری کرتے ہیں ۔ اس مرکزِ علم و ادب میں بڑے بڑے باکمال ادبا و شعرا پیدا ہوئے اور اپنی شعری و ادبی صلاحیتوں کو لوہا منوایا ۔ حضرت ضیاؔ سہسرامی جہاں بہت بڑے عالم و مفتی اور محدث و مدرس تھے ، وہیں ایک قادر الکلام اور پُر گو شاعر بھی تھے ۔ اردو و فارسی کے علاوہ عربی میں بھی شاعری کرتے تھے ۔ آپ کا مجموعۂ کلام آپ کے صاحب زادے جناب ڈاکٹر مظفر حسن عالی مرحوم نے " خونِ جگر " کے نام سے ترتیب دیا تھا ، لیکن افسوس وہ اب تک شائع نہیں ہو پایا ہے ۔ حضرت ضیاؔ سہسرامی کی شاعری سے متعلق جناب محمد ارتضاء الدین حاذقؔ سہسرامی لکھتے ہیں :

مولانا ضیاء الحسن صاحب کو عہدِ طالبِ علمی سے شعر گوئی کا ذوق ہے ۔ مدرسہ خیریہ ، سہسرام میں رہ کر ان کے شوقِ شاعری کو مولانا فرخند علی صاحب فرحتؔ ( سہسرامی ) کے ذوقِ ادب نے پروان چڑھایا ۔ انہیں سے اس صنفِ سخن میں شرفِ تلمذ حاصل ہے ۔ عہدِ طالبِ علمی سے آج تک غزلیں ، نعتیں ، نظمیں اور قطعاتِ تاریخ وغیرہ کہتے رہے ہیں ۔ عربی ، فارسی ، اردو ہر ایک زبان میں سخن گوئی کی عادت ہے ۔ عربی میں طویل قصیدے اور فارسی میں بھی طویل قصیدے لکھے ہیں ۔ فارسی اور اردو میں " قطعاتِ تاریخ " بھی اچھا لکھتے ہیں ۔ مولانا فرخند علی صاحب فرحتؔ مرحوم کی درج ذیل مصرع سے تاریخِ رحلت لکھی ہے ۔ " حیٌّ لقد رَضِیَ اللہُ عنہ " ۔ ان کی غزلیں بھی پاکیزہ خیالات اور شگفتہ بیانی سے مملو ہوتی ہیں ۔ مدرسہ خیریہ ( سہسرام ) کے " گلدستہ " میں آپ کے عہدِ طالب علمی کا کلام شائع ہو چکا ہے ، جس کو " مسلم شعرائے بہار " کے مؤلف ( مولوی احمد اللہ ندوی ) نے بھی نقل فرمایا ہے ۔

( رجالِ سہسرام ، ص : ۱۹۸ ، ۱۹۹ ، ناشر : خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری ، پٹنہ )

*اردو نمونۂ کلام* :

اثرِ جذبِ محبت سے مسخّر ہو کر

خود چلے آئیں گے وہ سامنے مضطر ہو کر

چبھ گئیں دل میں ادائیں تری نشتر ہو کر

تیری ابرو نے مجھے مارا ہے خنجر ہو کر

ضوفشاں ہجر کی شب ہوتے ہیں سینے میں مرے

داغِ دل ، داغِ جگر ، مہرِ منور ہو کر

چھپ کے نظروں سے کیا لاکھوں کو بسمل جس نے

کیا غضب ڈھائے گا وہ پردے سے باہر ہو کر

آئے بھی وہ دمِ آخر تو تکلم تھا محال

رہ گئی آنکھ سے بس آنکھ برابر ہو کر

سامنے ان کے نہ اک حرفِ تمنا نکلا

آرزو دل کی رہی دل ہی میں مضمر رہ کر

دیکھیے سچی محبت کا اثر ہے یہ ضیاؔ !!

وہ بھی اب رحم پہ مائل ہے ستمگر ہو کر

( تذکرہ مسلم شعرائے بہار ، جلد سوم ، ص : ۲۸۰ ، ناشر : درج نہیں )

آغوشِ دل ہے داغِ درخشاں لیے ہوئے

حسنِ ازل سے زیست کا ساماں لیے ہوئے

دار و مدار جس پہ ہے ساری بَہار کا

وہ کیف ہے تبسمِ جاناں لیے ہوئے

دیکھی ہے جس نے ایک جھلک حسنِ یار کی

وہ پھر رہا ہے تارِ گریباں لیے ہوئے

پوری ہوئی نہ ایک تمنا بھی اے ضیاؔ

نکلا ہوں ان کی بزم سے ارماں لیے ہوئے

*وصالِ پُر ملال* :

مجاہدِ ملت حضرت علامہ شاہ حبیب الرحمٰن قادری عباسی اڑیسہ علیہ الرحمہ ( جو آپ کے مخلص احباب و رفقا میں سے تھے ) کے عرس چہلم کے موقع پر دھام نگر شریف ، ضلع بھدرک ، اڑیسہ تشریف لے گئے تھے ۔ واپسی میں جب ٹاٹا ( جمشید پور ، جھارکھنڈ ) پہنچے تو ایک موٹر / ٹیمپو حادثے کے شکار ہو گئے اور ۱۴ / جمادیٰ الآخرہ ۱۴۰۱ ھ - مطابق ۱۸ / اپریل ۱۹۸۱ ء کو وصال فرمایا ۔ آپ کے رفیقِ درس حضرت مولانا شمس الضحیٰ سہسرامی علیہ الرحمہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور پہاڑ کے دامن میں اپنے استاذ و خسر علامہ فرخند علی سہسرامی علیہ الرحمہ کے پہلو میں مدفون ہوئے ۔ وصال کے بعد آپ کی یہ کرامت دیکھی گئی کہ دو دن کی لاش پر ذرہ برابر کوئی اثر نہیں تھا ۔ چہرہ چمک رہا تھا ، ایسا معلوم ہوتا کہ محوِ استراحت ہیں ۔ غسل کے وقت جسم کو جس سمت موڑا جاتا ، آسانی سے مڑ جاتا تھا ۔

*نوٹ* : جناب حاذقؔ سہسرامی نے " رجالِ سہسرام " میں آپ کی تاریخِ وفات جمادیٰ الآخرہ ۱۴۱۳ ھ بتائی ہے ۔ جب کہ ڈاکٹر مفتی ارشاد احمد ساحلؔ سہسرامی نے " صادقؔ سہسرامی : حیات اور شاعری میں " میں آپ کی تاریخِ وفات ۱۴ / جمادیٰ الآخرہ ۱۴۰۱ ھ لکھی ہے ۔ و اللہ اعلم بالصواب ۔ سن ہجری جو بھی ہو ، لیکن اپریل ۱۹۸۱ ء میں آپ کی وفات متحقق ہے ۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی