اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی مخالفین کی نظر میں از: محمد ضیاء نعمانی مصباحی
اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی مخالفین کی نظر میں
از: محمد ضیاء نعمانی مصباحی
متعلم:جامعہ اشرفیہ مبارک پور
چودھویں صدی کے مجدد، اعلیٰ حضرت، عظیم المرتبت، امام اہل سنت،فاضل جلیل، عالم نبیل،محدث عدیل،فخر اکابر،شاہ مفتی امام احمد رضا خان محدث بریلوی حنفی رضی اللہ عنہ کی علمی دنیا میں عبقریت مسلم ہے۔۔۔ان کی شخصیت ان کے ہم عصروں میں سب سے بلند ہے۔۔۔ان کی علمی شجرِ بسیط میں تین سو سے زیادہ مضبوط و مستحکم شاخ لگی ہوئی ہیں۔۔۔ ہر شاخ خوبصورت و خوشنماں پرکشش پھل دار اور سایہ دار ہیں۔۔۔ان شاخوں پر جھانکنے والوں کے دل خوش اور طبیعت باغ باغ ہو جاتی ہے۔۔۔غور سے دیکھنے والوں کے دل کی دنیا بدل جاتی ہے۔۔عقیدت و محبت سے تکنے والوں کی جھولیاں بھر جاتی ہیں۔۔علم کے خوگر جب ہر طرف سے مایوس ہو جاتے ہیں تو امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز کے در پر دستک لگاتے ہیں۔۔۔پریشان حال کی پریشانیوں کو دیکھ کر امام احمد رضا ان کو اپنا عزیز بناتے ہیں۔۔اور کہتے ہیں پیارے علمی دنیا میں احمد رضا کے ہوتے ہوئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز کے علوم کو دیکھ کر پڑھ کر اور سن کر دنیا حیران ہے۔اہل علم اور دانشور حضرات حیرت زدہ ہیں۔۔کہ امام احمد رضا خان نہ صرف علم کا اثاثہ رکھتے، دولت رکھتے ہیں بلکہ امام احمد رضا خاں علم کا خزانہ رکھتے ہیں۔۔مدرسہ میں بیٹھ کر درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں علوم و فنون پر دسترس حاصل کرلینا عطائی ہی ہوسکتا ہے۔۔۔
آپ ایک جید اور مخلص عالم تھے، آپ کے اندر محبت رسول اور عشق نبی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، تمام علوم و فنون میں آپ کو مہارت تامہ حاصل تھا، آپ نے جس میدان میں قدم رکھا فتوحات کے علم نصب فرمائے۔ آپ نے "فتاوٰی رضویہ” اور "الدولۃ المکیہ” جیسی ضخیم اور عظیم کتاب تصنیف فرما کر بدعقیدوں کے صدور میں نوکیلا خنجر پیوست کردیا، جس کے درد سے آج بھی یہ لوگ تڑپ رہے ہیں اور علاج کے لیے دوا ڈھونڈ رہے ہیں۔
ہندوستان میں جب گستاخان رسول،وہابی،دیوبندی،مودودوی اور غیر مقلدین نے اپنے سر کو بلند کیا تو آپ نے اپنے نوک قلم سے ان کی سرکوبی کی اور لوگوں کو ان کے شر اور مکر و فریب سے بچایا، اپنے تو اپنے اغیار بھی آپ کے علمی کارناموں اور تبلیغی خدمات سے متاثر ہوئے اور آپ کی تعریف و توصیف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
زیر نظر مضمون میں ان اشخاص کا ذکر کیا جارہا ہے جو آپ کے مخالفین میں سے تھے لیکن اس کے باوجود آپ کے علمی کارناموں کی بنیاد پر، آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور آپ کی تعظیم و تکریم کرتے. قارئین ملاحظہ فرمائیں:
مولانا قاسم نانوتوی(1832-1880) کا موقف:
دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا قاسم نانوتوی صاحب دہلی تشریف رکھتے تھے اور ان کے ساتھ مولانا حسن امروہوی اور امیر شاہ خان صاحب بھی تھے۔شب کو جب سونے لگے توان دونوں نے اپنی چارپائی ذرا الگ کو بچھائی اور باتیں کرنے لگے۔امیر خان صاحب نے مولوی صاحب سے کہا کہ صبح کی نماز ایک برج والی مسجد میں چل کر پڑھیں گے ،سنا ہے کہ وہاں کے امام صاحب قرآن بہت اچھا پڑھتے ہیں ۔
مولوی صاحب نے کہا ارے جاہل پٹھان(آپسی بے تکلفی کی وجہ سے)ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے وہ تو مولانا نانوتوی کی تکفیر کرتا ہے۔اس بات کو مولانا نوتوی نے سن لیا اور زور سے فرمایا:’’احمد حسن!میں تو سمجھتا تھا تو پڑھ لکھ گیا ہے مگر جاہل ہی رہا۔پھر دوسروں کو جاہل کہتا ہے۔
ارے! کیا قاسم کی تکفیر سے وہ قابل امامت نہیں رہا۔میں تو اس سے اس کی دین داری کا معتقد ہو گیا۔اس نے میری کوئی ایسی بات سنی ہوگی جس کی وجہ سے میری تکفیر واجب تھی۔گو روایت غلط پہنچی ہو،تو یہ راوی پر الزام ہے۔تو اس کا سبب دین ہی ہے۔اب میں ان کے پیچھے نماز پڑھوں گا ‘‘۔(الافاضہ الیومیہ من افادات القومیہ چہارم،ص:394)۔
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب:
دیوبندی قطب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب نے کئی مسائل میں اعلیٰ حضرت بریلوی علیہ الرحمہ کے فتاوٰی بعینہ درج کیے ہیں اور آپ کے کئی فتاوٰی کی تصدیق کی ہے۔(فتاویٰ رشیدیہ، ص، 245)
حکیم الامت اشرف علی تھانوی (1863-1943)کا نظریہ
خلیفہ تھانوی مفتی محمد حسن بیان کرتے ہیںکہ حضرت تھانوی صاحب نے فرمایا:’’اگر مجھے مولوی احمد رضا صاحب بریلوی کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع ملتا تو میں پڑھ لیتا‘‘۔ (اسوہ ٔاکابر،ص:7، حیات امداد ص، 38)
دیوبندی عالم کوثر نیازی لکھتے ہیں:مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا شفیع دیوبندی سے میں نے سنا کہ جب مولانا احمد رضا صاحب کی وفات ہو گئی تو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کو آکر کسی نے اطلاع کی۔مولانا تھانوی بے اختیار دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔
حاضرین مجلس ہی میں سے کسی نے پوچھا کہ وہ تو عمر بھر آپ کو کافر کہتے رہے اور آپ ان کے لیے دعائے مغفرت کر رہے ہیں!فرمایا:’’یہی بات سمجھنے کی ہے۔مولانا احمد رضا نے ہم پر کفر کے فتوے اس لیے لگائے کہ انہیں یقین تھا کہ ہم نے توہین رسول کی ہے۔اگر وہ یقین رکھتے ہوئے ہم پر کفر کا فتوی نہ لگاتے تو وہ خود کافر ہو جاتے‘‘۔(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی ایک ہمہ جہت شخصیت،ص:7)۔
مولانا انور شاہ کشمیری دیوبندی (1875-1933) لکھتے ہیں’’جب بندہ ترمذی شریف اور دیگر کتب احادیث کی شروحات لکھ رہا تھا تو حسب ضرورت احادیث کی جزئیات دیکھنے کی ضرورت در پیش آئی تو میں نے شیعہ حضرات،اہل حدیث حضرات اور دیوبندی حضرات کی کتا بیں دیکھیں ۔مگر ذہن مطمئن نہ ہوا۔بالآخر ایک دوست کے مشورے سے مولانا احمد رضا خان کی کتابیں دیکھیں تو میرا دل مطمئن ہوگیا کہ اب بخوبی احادیث کی شروح بلا جھجھک لکھ سکتا ہوں۔
تو واقعی بریلوی حضرات کے سر کردہ عالم مولانا احمد رضا خان صاحب کی تحریریںششتہ اور مضبوط ہیں جسے دیکھ کراندازہ ہوتا ہے کہ یہ مولوی احمد رضا ایک زبردست عالم دین اور فقیہ ہیں‘‘۔(رسالہ ہادی دیوبند،ص:7)۔
دیوبندیوں کے شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
مولانا احمد رضا خان کو تکفیر کے جرم میں برا کہنا بہت ہی برا ہے، کیوں کہ بڑے عالم دین اور بلند پایہ محقق تھے، مولانا احمد رضا خان کی رحلت عالم اسلام کا ایک بڑا سانحہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔(رسالہ ہادی دیوبند ص، 20)
مولانا شبلی نعمانی صاحب(1857-1914) لکھتے ہیں : “مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی جو اپنے عقائد میںسخت ہی متشدد ہیں۔مگر اس کے باوجود مولانا صاحب کا علمی شجر اس قدر بلند درجہ کا ہے کہ اس دور کے تمام عالم دین اس مولوی احمد رضا صاحب کے سامنے پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔اس احقر نے بھی آپ کی متعددکتابیں دیکھی ہیں‘‘۔(رسالہ ندوہ۔اکتوبر 1994ص:17)۔
سید سلیمان ندوی صاحب لکھتے ہیں:
اس احقر نے مولانا احمد رضا خان بریلوی صاحب کی چند کتابیں دیکھیں تو میری آنکھیں خیرہ کی خیرہ رہ گئیں، حیران تھا کہ واقعی مولانا بریلوی صاحب مرحوم کی ہیں جن کے متعلق کل تک یہ سنا تھا کہ وہ صرف اہل بدعت کے ترجمان ہیں اور صرف چند فروعی مسائل تک محدود ہیں، مگر آج پتا چلا کہ نہیں ہر گز نہیں یہ اہل بدعت کے نقیب نہیں بل کہ یہ تو عالم اسلام کے اسکالر اور شاہکار نظر آتے ہیں،جس قدر مولانا مرحوم کی تحریروں میں گہرائی پائی جاتی ہے اس قدر گہرائی تو میرے استاذ مکرم جناب شبلی صاحب اور حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی اور حضرت شیخ التفسیر علامہ شبیر احمد عثمانی کی کتابوں کے اندر بھی نہیں ہے، جس قدر مولانا بریلوی کی تحریروں کے اندر ہے۔(ماہنامہ ندوہ اگست، 1931،ص، 17)
مولانا ابو الحسن علی ندوی صاحب(1914-1999) لکھتے ہیں: فقہ حنفی اور اس کی جزئیات پر جو ان (فاضل بریلوی)کو عبور حاصل تھا ،اس زمانہ میں اس کی نظیر نہیں ملتی‘‘۔نزھۃ الخواطرہشتم ص:41)۔
مولانا معین الدین ندوی صاحب(1903-1974) لکھتے ہیں:
مولانا احمد رضاخان مرحوم صاحب علم و نظر مصنفین میں سے تھے۔دینی علوم خصوصاً فقہ و حدیث پر ان کی نظر وسیع اور گہری تھی۔مولانا نے جس دقت نظر اور تحقیق کے ساتھ علماے استفسار کے جواب تحریر فرمائے ہیں،اس سے ان کی جامعیت ،علمی بصیرت،قرآنی استحضار،ذہانت اور طباعی کا پورا پورا اندازہ ہوتا ہے۔ان کے عالمانہ و محققانہ فتاوی مخالف و موافق ہر طبقہ کے لائق ہیں‘‘۔(سفید وسیاہ۔ص:114)۔
بانی تبلیغی جماعت مولوی محمد الیاس صاحب (1885-1944) کے متعلق محمد عارف رضوی لکھتے ہیں:’’کراچی میں ایک عالم دین نے،جن کا تعلق مسلک دیوبند سے تھا،فرمایاکہ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس صاحب فرماتے تھے : اگر کسی کو محبت رسول سیکھنی ہو تو وہ مولانا احمد رضا بریلوی سے سیکھے‘‘۔(فاضل بریلوی اور ترک موالات۔ص:100)۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب(1903-1979) لکھتے ہیں:
مولانا احمد رضا خان صاحب کے علم وفضل کا میرے دل میں بڑا احترام ہے ۔فی الواقع وہ علوم دینی پر بڑی نظر رکھتے ہیں اور ان کی فضیلت کا اعتراف ان لوگوں کو بھی ہے،جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں۔نزاعی مباحث کی وجہ سے جو تلخیاں پیدا ہوئیں،وہی دراصل ان کے علمی کمالات اور دینی خدمات پر پردہ ڈالنے کا موجب ہوئیں‘‘۔(سفید و سیاہ،ص:112)۔
قارئین! مندرجہ بالا مضمون پڑھنے کے بعد معلوم ہوگیا کہ اعلیٰ حضرت کی ذات کتنی معتبر اور عظیم تھی، اعلیٰ حضرت نے تعلیم نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)کی نشر و اشاعت میں اپنی پوری زندگی صرف کردی اور آپ کے علم کا ڈنکا صرف ہندوستان ہی میں نہیں بل کہ بیرونی ممالک میں بھی بج رہا ہے،اگر بر وقت اعلیٰ حضرت اپنے قلم کو اٹھا کر بدعقیدوں کے خلاف فتوے نہ دیتے اور ان کا آپریشن نہ کرتے تو آج ہم گمراہیوں کے سمندر میں غوطہ زن رہتے اور عشق رسول بھی ہمارے دلوں سے محو ہوجاتا، لیکن اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اعلیٰ حضرت نے بر وقت اپنا قلم اٹھا کر ہم لوگوں کو بد عقیدوں کے مکر و فریب اور ان کی گمراہیوں سے بچایا اور سچا عاشقان رسول بنایا۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم سب کو اہل سنت اور اعلی حضرت کے افکار و نظریات پرچلنے اور ان پر دائم و قائم رہنے کی توفیق و رفیق عطا فرمائے۔ آمین