Biography Hazrat Allama Ahmed Mukhtar Siddiqui Meerathi مبلغِ اسلام شاہ احمد مختار صدیقی میرٹھی

امام احمدرضاکے عظیم خلیفہ اورمبلغِ اسلام کے برادرِاکبروشیخِ بیعت

حضرت علامہ احمد مختار میر ٹھی علیہ الرحمہ

تحریر: مظہر حسین علیمی ۔ممبئی

ولادت باسعادت:

اعلی حضرت فاضل بریلوی رضی اﷲتعالیٰ عنہ کے خلیفۂ اجل اور مبلغِ اسلام حضرت علامہ عبدالعلیم صدیقی مہاجر مدنی کے شیخِ اجازت حضرت علامہ مولانا الشاہ احمد مختار صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ محلہ مشائخان میرٹھ میں ۷ محرم ا لحرم۱۲۹۴ھ کو پیدا ہوئے ۔ آپ کے والدِ ماجد مولا نا الشاہ عبدالحکیم صدیقی نے احمد مختار اور دادی صا حبہ نے امام الدین نام تجویز کیا ۔پانچ برس کی عمر میں قرآنِ مجید ختم کیا ۔ فارسی و عربی کے مبادیات والدِ ماجدسے پڑھیںاور تکمیل مدرسہ اسلامی اندر کورٹ میرٹھ میں کی ۔ ۱۳۱۰ھ میں سولہ برس کی عمر میں فارغ التحصیل ہوئے ۔ ۱۳۲۱ھ مکہ معظمہ میں شیخ الدلائل حضرت مولاناشاہ عبدالحق الہ آبادی سے حدیث کی کتابوں کا درس لیا۔ ۱۳۲۲ھ میں ایک سال مدینۂ منورہ میں حاضررہ کر حضرت شیخ رضوان رحمۃ اﷲ علیہ سے تحصیلِ علم کر کے سند یں حاصل کیں ۔ (۱)



بیعت و خلافت:

علومِ ظاہر ی کی تکمیل کے بعد علومِ باطنی کے حصول کی طرف متوجہ ہوئے۔ اعلی حضرت امامِ اہلِ سنت مولانا شاہ احمد رضا خاںبریلوی قدس سرہ کے حلقۂ ارادات میں شامل ہو کر کسبِ فیض کیا۔تزکیۂ قلب کے بعد اجازت و خلافت سے سر فراز ہوئے اور مخصو صین کی صف میں جگہ پا ئی ۔ عاشقِ رسول سید نا امام احمد رضا قدس سر ہ السامی نے اپنے اس چہیتے خلیفہ کا تذ کر ہ الاستمد اد میں ان الفاظ میں فرمایا ہے:

مجبور احمد مختار ان کو
کرتا ہے مر جاتے یہ ہیں

اعلی حضرت امام احمد رضا کے اس شعر سے جہاں مبلغِ اسلام حضرت احمد مختار میر ٹھی کا علمی مقام و مرتبہ واضح ہو تا ہے ، وہیںیہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ آپ اپنے پاس ایسے دلا ئلِ قاہرہ رکھتے ہیں جو دشمنانِ خدا و رسول پر برقِ خا طف بن کر گر تے ہیں اور شریعت کے موقف کو اتنے محکم انداز میں باطل کے سامنے پیش کر تے ہیں کہ باطل کو سواے خاموشی کے کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

سرکارِدیوہ قطبِ عالم حضرت حاجی سید وارث علی شاہ کی بھی آپ پر خاص نظرِ عنایت تھی ۔سلسلۂ عالیہ اشر فیہ اور اس کے اشغال واذ کا ر کی اجازت اعلیٰ حضرت قطب المشائخ مخدوم شاہ علی حسین سرکار کچھو چھہ نے عنایت فرمائی ۔مبلغِ اسلام علامہ شاہ احمد مختار میرٹھی بلند پایہ بزرگ اور ولیِ کامل تھے ۔میرے اس دعوی کی دلیل یہ ہے کہ خورشید احمد سعیدی رقم طراز ہیں:

جہاں تک آپ کی روحانی تربیت کا تعلق ہے آپ نے اسے اپنے بڑے بھائی حضرت مولانا شاہ احمد مختار صدیقی رحمۃ اﷲتعالی علیہ سے حاصل اور مکمل کیا۔آپ کو تصوف کے کئی سلا سل میں رشدوہد ایت کی اجازت حاصل تھی۔(۲)

دینی، تدریسی اور علمی خدمات:

پیر زادہ علامہ اقبال احمد فاروقی تحریر فرماتے ہیں:
حج سے واپسی پر میر ٹھ کے قومی مدرسے میں مدرس اور اسلامیہ کا لج اٹاوہ میں عربی زبان وادب کے پروفیسر مقرر ہوئے۔شاہ جہاں بیگم کے اسلامی مدرسہ بھوپال میں صدر مدرس مقر ر ہوئے ۔شد ھی تحریک کے دور ان بر ما گئے وہاں ایک اسلامی دارالعلوم کی بنیاد رکھی، مانڈے میں اعلیٰ تعلیم کا کالج قائم کیا۔ ڈربن میں عورتوں کی تعلیم کے لیے ایک درس گاہ بنا ئی، ۱۹۰۸ء میں افر یقہ پہنچے اور(ایک روزنامہ ) الاسلام جاری کیا۔(۳)

پاکستانی قلم کا ر محمد صلا ح الدین سعیدی لکھتے ہیں :

علا مہ عبدا لحکیم جو شؔ میر ٹھی کو اﷲ تبارک و تعا لیٰ نے کئی فرزند عطا فر ما ئے اور وہ سب اسلام کے عظیم سپوت ثابت ہوئے ۔ سب سے بڑے مولانا احمد مختارصدیقی اپنے خاندانی پس منظر کے علا وہ اس وجہ سے بھی ممتاز مقام رکھتے تھے کہ آپ کو اعلیٰ حضرت امام احمدرضا سے اجازت وخلافت حاصل تھی۔ ممبئی میں ایک عرصے تک دینی خدمات انجام دینے کے بعد آپ جنوبی افریقہ سے شہر ڈربن تشریف لے گئے اور ڈربن میں مر کزی جامع مسجد کی بنیاد رکھی اور اس مسجد میں مسلسل ۳۵سال خطیب رہے۔آپ ایک عالم با عمل اور صوفی با صفا تھے ۔آپ کی تبلیغی مساعی سے ڈربن میںکئی اسلامی مدارس قائم ہوئے اور مسلمانوںکو تحفظ حاصل ہوا۔ (۴)

آپ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ اشخاص وافر اد جب تک زندہ ہیں اشاعتِ دینِ متین کریں گے لیکن اشاعتِ دین وسنیت کو استحکام مساجد ومدارس اور تنظیموں سے ہی مل سکتا ہے کیوں کہ مساجد، مدارس اور تنظیموں کی عمر یں دراز ہوتی ہیں۔ اس لیے حضرت نے اسلام کی ترویج واشاعت اور صحیح اسلامی تعلیمات سے لوگوں کو روشناس کرانے کے لیے مساجد ومدارس اور تنظیمیں قائم فرمائیں۔

آپ کی قائم کر دہ تنظیموں میں سے ایک تنظیم بزمِ اخوان الصفاء بھی ہے۔علامہ سید عظمت علی شاہ ہمدانی لکھتے ہیں :
مجھے جنوبی افر یقہ جانے کا موقع ملاتو ڈربن میں بارہویں شب ربیع الاول (جووہاں بڑی رات کے نام سے منائی جاتی ہے)بہت بڑی مسجد صوفی سجانی مسجد میں عظیم الشان جلسئہ میلا د النبی میں تقر یر تھی ۔جلسے کا اہتمام جس تزک واحتشام اور شان و شوکت سے کیا گیا تھا اور مسجد کو جس عمد گی، نفاست، حسن وخوبی اور خوش اسلوبی سے سجایا گیا تھا اور جو حسین ،دل کش، روح پر ور اور پر کیف منظر تھا اس کا تعلق تو بس دید سے ہے ،نہ گفت وشنید میں اسے بیان کیا جا سکتا ہے اور نہ تحریر و تقر یر میں ۔ناظمِ جلسہ نے جلسے کی کاررو ائی کے دوران وضاحت کی کہ یہ عظیم الشان جلسۂ عید میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم ’’بزمِ اخوان الصفاء‘‘ کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا ہے اور’’ بزمِ اخوان الصفاء‘‘ مسلم اتحاداور اخوت، بھائی چارے کے فروغ کے لیے ۱۹۳۴ھ میں الحاج مولانا شاہ احمد مختار صدیقی القادری نے قائم کی تھی ۔ (۵)

صحافتی بصیرت:

خلفاے اعلی حضرت میں سے ہر ایک نے اسلام وسنیت کی عظیم خدمات انجام دیں ۔آپ کے خلفا نے علم وفن کے ہر میدان میںاپنا پر چم بلند کیا ۔آپ کا ہر خلیفہ اپنی جگہ میر مجلس اور قافلہ سالارہے اور ہرایک کی تاریخِ حیات زریں اور روشن خدمات سے تابناک ہے۔ مبلغِ اسلام حضرت علامہ احمد مختار صدیقی میر ٹھی قلم کی قوت سے واقف تھے اس لیے آپ نے ۹۰۸اء میں افریقہ سے گجر اتی زبان بولنے والوں کے درمیان دعوتِ دین کی غرض سے الا سلام نامی اخبار جاری کیاجوبڑی کامیابی کے ساتھ ایک عرصے تک شائع ہو تا رہا ۔جس میں مسلمانوںکی دینی تر بیت کے ساتھ ساتھ مسلم مسائل،عالمی حالا ت اورد عوتی فکر پر ر یو یو مقالات ہو تے تھے۔ اس اخبار نے برِ اعظم افریقہ میں مسلمانوں کی دینی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کیا۔

مولاناعبد السلام رضوی رکن امام احمد رضا اکیڈمی بریلی شریف آپ کی دینی وملی خدمات کے حوالے سے فرماتے ہیں:

حضرت مولانا احمد مختار صاحب میر ٹھی(ولادت: ۱۲۹۴ھ/ وفات: ۱۳۵۷ھ)نے مدت العمر(پوری زندگی) تبلیغ وار شاد میں گزاری ۔بر صغیر ہند کے علاوہ افریقہ ،جز ائرِ انڈو نیشیامیں تبلیغی مرا کز قائم کیے اور ہزاروں غیر مسلموں کو داخلِ اسلام کیا ۔ بر ما کا سفر کیا تو وہاں ایک اسکو ل قائم کیا۔مانڈ ے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک درسگاہ کی بنیاد ڈالی، ڈربن میں عورتوں کو تعلیم کی جانب متوجہ کیا ۔قومی اور ملکی معاملات میں آپ کو خصوصی دلچسپی تھی۔حجازِ مقدس میں سعودی خاندان نے بر سر اقتد ار آنے کے بعد مدینۂ منورہ میں جنت البقیع اور جنت المعلیٰ میں توڑپھوڑ کا سلسلہ شروع کیا تو عالمِ اسلام میں نجدیوں کے اس اقدام سے ہلچل مچ گئی ۔۱۹۲۴ء میں مسلمانانِ بمبئی نے سلطان سعودِاول کو اس جراء ت سے باز رکھنے کے لیے آپ کی قیادت میں ایک وفد بھیجا ۔حضرت سید حبیب صاحب ایڈیڑ سیاست لا ہور اور مولانا فضل اﷲ مالک علیمیہ بک ڈپو،ممبئی آپ کے رفقاے وفدتھے۔(۶)

سیدصابر حسین شاہ بخاری رقم طراز ہیں :

’’ مولاناشاہ احمد مختار صدیقی میر ٹھی رحمۃ اﷲ علیہ کی ملی خدمات تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔آپ نے نہ صرف آل انڈیا سنی کا نفرنس کے تاسیسی اجلاس میں نمایاںطور پر شرکت فرمائی بلکہ کانفرنس میں جو مختلف تجاویز منظور ہو ئیں جن کا تعلق عہد ے دارانِ مر کزی کمیٹی اور نظامِ عمل وغیرہ سے تھا ۔ ان قراردادوں کے پیش کر نے کی سعادت بھی آپ کے حصے میں آئی ۔(۷)

آپ کے بر ادرِ صغیر مو لا نا نذیر احمد صد یقی خجندی آپ کی منظوم سوانح حیات میں رقم طر ا ز ہیں:

حصو لِ فیضِ با طن کے بڑے مشتا ق تھے دل سے
نہ گھبرا تے مشقت سے نہ ڈر تے تھے وہ مشکل سے

 کچھو چھہ اور بریلی اور جلو ہ گا ہِ فضلِ ربا نی
شرا بِ معر فت پیتے رہے ہر ایک محفل سے
جہا ں وہ مو قع پا تے تھے وہیں مسلم بنا تے تھے
زہے ہمت رہا یہ فیض جاری جیل کے اندر
زمانہ جانتا ہے انھیں جو شوق تھا اس کا

انہی کے دم سے افریقہ میں چر چا ہو گیا گھرگھر

ایک اورمقام پرفرماتے ہیں:

خد ا نے جب مقدرت دی جب ہو ا مر تبہ اعلی
تو اول شہر میں اپنے بہا یا علم کا در یا
اٹا وہ میں رہے کچھ روز اور اند و ر بھی ٹھہرے
رہا بھو پا ل میں فیضانِ علمِ دین کا چر چا
کبھی و سا مرود آئے کبھی دمن میں جا پہنچے
کبھی اندیر ٹھہر ے علم سے ممتاز فر ما یا
خو شا قسمت رہے دو سا ل مکے اور مد ینے میں
تو اس عر صے میں ان کی شا نِ علم ہو تی رہی با لا
( حیا ت مخدو م الاو لیا ء محبو بِ ربا نی:ص۳۹۴ )

نعت گوئی:

رسولِ کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح سرائی عظیم نعمت ہے۔ نعت گوئی نہایت نازک صنف ہے ۔اس خاردار وادی سے کامیاب نکل جانابڑی سعادت کی بات ہے۔ حضرت علامہ احمد مختار میرٹھی کا میاب نعت گوشاعر تھے ۔آپ کو نعت گوئی ورثے میں ملی تھی،اورایساکیوں نہ ہوتاکہ آپ کے والدِ ماجد حضرت علا مہ عبدالحکیم جوشؔ میر ٹھی اورآپ کے چچامولانااسماعیل میرٹھی اپنی دیگرعظمتوں کے ساتھ ساتھ بلند پایہ شاعر بھی تھے۔

راقم السطور کی نگا ہوں سے حضرت موصوف کا مجموعۂ کلام یا دیوان تو نہیںگزرا،ہاں مختلف کتابوں میں آپ کے چند اشعار نظر سے گزرے ۔ذیل میں وہ اشعارپیش کیے جاتے ہیںجن سے نعت گوئی پرحضرت کے درک وکمال کااندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

آپ کے نعتیہ اشعا ر مبلغِ اسلا م کی کتاب’’ذکرِ حبیب‘‘ میں شا مل ہیں جن میں چند اشعا ر درج ذیل ہیں:

مرے دل میں ہے آرزوے مدینہ
چلوں ہند سے کا ش سوے مدینہ
مری جاں ہو قبرِ مبا رک پہ قر باں
مری خا ک ہو خا کِ کو ے مدینہ
نہ ہے جان تن میں ،نہ پہلو میں دل ہے
سدھا رے وہ پہلے ہی سو ے مدینہ
الٰہی! بحقِ نبی اب دکھا دے
ہے کب سے مجھے جستجوے مد ینہ
نہ ہے زوروقوت ،نہ ہے مال ودولت
مگرشوق رہبرہے سوئے مدینہ
یہ مختارِؔ عاصی بھی پہنچے مدینہ
طفیل محمد بہ کوئے مدینہ

اپنے آقاومولیٰ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح سرا ئی کرتے ہوئے نغمہ سنج ہیں:

اﷲاﷲ وہ جمالِ شہِ بطحا دیکھو
نورِحق جلوہ نما ہے رخِ زیبا دیکھو
اسمِ اﷲ کا مظہر ہے جمالِ احمد
قابلِ دید ہوںآنکھیں تو یہ جلوہ دیکھو
جن کو فردوسِ بریں کی ہو تمنا مختارؔ
ان سے کہہ دو کہ چلو پہلے مدینہ دیکھو
رب کے حضور مناجات کرتے ہوئے عرض کر تے ہیں:
مجھے اس کا جلوہ دکھا دے خدایا
جسے تو نے آئینہ اپنا بنایا
خدا نور ہے آسمان و زمیں کا
محمد ہے اس نور کا پہلا سایہ
الٰہی بحقِ شفیعِ قیامت
میرے سرپہ ہو ابرِ رحمت کا سایہ
یہ مختارِؔؔ عاصی بھی پہنچے مدینہ
کوئی راہ ایسی بتادے خدایا
(۸)

ماخذومراجع:

۱) تذکرئہ علماے اہلِ سنت: ص۳۲
۲) تبلیغِ اسلام کے اصول و فلسفہ: ص۶
۳)الا ستمد اد : حاشیہ، اقبال احمد فاروقی ،ص ۹۴، ۹۵
۴) قائدِ اہلِ سنت علامہ شاہ احمد نورانی: ص۱۴۵، مطبوعہ لاہور ۵)ماہنا مہ کا روانِ قمر: کراچی، مارچ۲۰۰۴ء شمار نمبر ۷، ص ۵۵
۶) مقالہ: عہدِ رضا میں وابستگانِ رضا کی صحا فتی خد مات، سالنامہ یادگار رضا ممبئی ۲۰۰۹ء
۷) انوارِ رضا گو ہر آباد کا خصوصی شمار ہ تاجدار بریلی نمبر: ص ۳۰۶
۸) عظیم مبلغِ اسلام: تذکرہ خانوادئہ علیمیہ، مضمون نگار : محترمہ ڈاکٹر فرید ہ احمد صدیقی ،ص ۵۶ ،۵۷۔

{۔۔۔۔۔۔}

٭ مدیرماہ نامہ سنی دعوت اسلامی،ممبئی۔

وصال:
حضرت علامہ شاہ احمد مختار صدّیقی میرٹھی علم و عمل سے بھر پور زندگی گزار کر، بروز پیر، بعدِ مغرب، ۱۲(بارہ) جمادی الاولیٰ ۱۳۵۷ھ مطابق ۱۰ (دس) جولائی ۱۹۳۸ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 
آپکا مزار انتقال دَمَّن (پرتگیز)، انڈیا میں ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی