Biography Hazrat Khwaja Nooruddin Shah Jamali حضرت شیخ نور الدین خیرپور میرس

مولانا نور الدین رحمۃ اللہ (والدِ گرامی خواجہ فیض محمد شاہ جمالی علیہ الرحمہ )

مفتی محمد ظریف فیضی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

دورانِ تعلیم ایک دن راقم نے اپنے مرشد کریم (قبلہ شاہ جمالی)سے پوچھا حضور: میں نے سنا ہے کہ آپ کے والد صاحب مسلمان ہوئے تھے؟ فرمایا !ہاں میرے دادا کے گھر اولاد نہ ہوتی تھی۔ میرے پر دادا نے پیر غائبی کی خانقاہ پہ جا کر دعا کی "کہ اے اللہ میرے بیٹے کے گھر صاحب جمال و بخت والا بیٹا پیدا ہو"۔ (پیر غائبی کے مزار پہ لوگوں کی مُرادیں پوری ہوتی تھیں)۔



راقم نے عرض کیا حضور! آپ کے اجداد کہاں رہتے تھے۔؟ اور کیا کام کرتے تھے۔؟ فرمایا :نواب ریاست" خیر پور میرس"کے خزانچی و معاون تھے اور تمام آمد و خرچ و حساب و کتاب میرے اجداد کے پاس رہتا تھا، میری قوم کو دیوان کہاجاتا تھا اور نواب صاحب کی معتمد علیہ قوم تھی۔

غرض یہ کہ بفضل خدا میرے دادا صاحب کے گھر میرے والد صاحب(مولانا نور محمد ) پیدا ہوئے۔ میرے والد صاحب بچپن ہی سے بہت ذہین اور بڑے خوبصورت تھے۔ سرکاری اسکول میں اُردو تعلیم حاصل کرتے تھے، کلاس میں تمام ساتھیوں سے زیادہ نمبر حاصل کرتے۔ اتفاقاً ایک ماسٹر صاحب جو کہ مولانا عبد الرحمن صاحب قادری سکھر والے کے مرید تھے، کے پاس میرے والد صاحب کے اسباق تھے۔ میرے والد صاحب مذہبی گفتگو میں بہت ہوشیار تھے، مسلمان لڑکوں کو سوال و جواب میں حیران کردیتے جن کا حل ان کے مسلمان اُستاد کرتے تھے"۔

آخرالامر میرے والد صاحب پہ استاد بزرگ کا ایسا اثر پڑا کہ بچپن ہی میں خواجہ عبدالرحمن قادری کے پاس گئے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔

میرے والد صاحب کا نام نامی اسمِ گرامی خواجہ نور الدین تھا اور آپ کی وفات ۲۵ ربیع الثانی ۱۳۳۵ھ کو ہوئی مسلمان ہونے کے بعد حضرت خواجہ عبدالرحمٰن صاحب کے گھر ان کے بچوں میں رہنے لگے، جب میرے دادا صاحب کو خبر ہوئی تو میرے والد صاحب کو سکھر سے اپنے گھرلے آئے خواجہ عبدالرحمن صاحب کے طلباء غمگین ہوگئے کہ ہمارے شیخ کو ہم سے دور کرلیا گیا ہے، دوسری صبح کو خواجہ صاحب کی لڑکی نے اپنے والد صاحب کو خواب سُنایا، کہ نور الدین صاحب کو حضرت مولا علی مشکل کشا اپنے ساتھ لیے جارہے ہیں تو خواجہ صاحب نے فرمایا :مبُارک ہو کہ شیخ نور الدین اسلام میں پختہ ہیں، انکا ہاتھ حضرت مولا علی کے ہاتھ میں آگیا ہے۔

حضرت شیخ نور الدّین خیرپور میرس میں آکر پنجگانہ اذان و نماز شروع کردی، والدین اور دوسرے رشتہ داروں نے ہر طریقہ سے اسلام سے ہٹانے کی کوشش کی اور دھمکا یا ۔مگرآپ کے قلب میں اسلام مکمل طور پر رچ بس چکا تھا کہ کچھ اثر نہ ہوا۔ ماں باپ کے آپ اکلوتے بیٹے تھے اور حسین و جمیل تھے، آخر کار والدین خاموش ہوگئے، لیکن خواجہ عبد الرحمن صاحب پہ عدالت میں مقدمہ دائر کردیا گیا ، کہ انہوں نے نابالغ بچے کو مسلمان کیا ہے۔ قادری صاحب کو عدالت میں بلایا گیا، حاکم نے پوچھا کہ اس بچے کو تم نے کیوں مسلمان کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اس کو مسلمان کرنے والے نے مسلمان کیاہے ، تین بار یہی سوال و جواب ہوتا رہا تو حضرت خواجہ عبدالرحمن صاحب جلال میں آگئے اور ایک قریب کھڑے ہوئے ہندو کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ کیا اس کو میں نے مسلمان کیا ہے؟ تو وہ ہندو بے ساختہ کلمہ پڑھنے لگا، اسی طرح وہاں موجود ایک ایک ہندو کی طرف اشارہ کرتے گئے ار فرماتے گئے کہ کیا اسکو بھی میں نے مسلمان کیا ہے! جس طرف اشارہ کرتے گئے اسکے منہ سے کلمہ طیبہ جاری ہوتا گیا اور باقی ہندو بھاگ گئے ۔ آپ کی اس کرامت کی وجہ سے مقدمہ خارج ہوگیا۔

مولانا نور الدین صاحب آزاد ہوکر مولانا عبدالغفور صاحب کے مدرسہ میں پڑھنے لگے، بعدہٗ سیت پور ضلع مظفر گڑھ تشریف لائے اور مولانا جندوڈہ صاحب (خلیفہ خواجہ اللہ بخش تونسوی)کے پاس علم حاصل کرتے رہے، استاد محترم کی نظرِ شفقت سے آپ کو سلسلہ جمالیہ عبیدیہ میں بیعت نصیب ہوئی ۔ خواجہ عبیداللہ صاحب ملتانی جو کہ خلیفہ ہیں خواجہ خدا بخش صاحب خیر پوری اور خواجہ عبدالرحمن صاحب ملتانی ثم العربی (جو کہ قبلہ شاہجمالی کریم کے مرشد ہیں) کے والد ہیں، مولانا جندوڈہ صاحب کے پاس کچھ عرصہ پڑھتے رہے۔

خواجہ نورالدّین رحمۃاللہ علیہ کاتقوٰی:

ایک عورت آپ کے حسن و جمال پہ فریفتہ ہوگئی، ملاقات کے کئی طریقے اختیار کیے، لیکن خدا کے فضل و کرم سے اُس کے مکر سے محفوظ رہے۔

ایک دفعہ رات کے وقت آپ ایک بستی سے روٹیاں لے کر آرہے تھے کہ راستہ میں اُسی عورت نے آپ پہ حملہ کردیا، فوراً آپ نے آہ و فغاں شروع کردی، روٹیاں اور سالن وغیرہ گرگئے ، زور زور سےکہتے ہوئے پکارا تو مدرسہ سے طلباء اور دوسرے لوگ دوڑے ہوئے آگئے لیکن قدموں کے نشان کے علاوہ کچھ نہ پایا، آپ نے عورت کا نام تک بھی نہیں لیا، صرف یہی فرماتے رہے کہ بلا تھی، اللہ تعالیٰ نے مجھے بلا سے بچا لیا۔ اسی وجہ سے آپ سیت پور چھوڑ کر قصبہ شاہجمال ضلع ڈیرہ غازی خاں میں حضرت مولانا نصیر بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے چلے گئے، وہاں آپ نے تمام علوم عقلیہ و نقلیہ حاصل کیے۔

حضرت مولانا نور الدین صاحب، صاحب، وجدو حال و عارف و کامل تھے، اذان خود دیتے تھے جب اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ ،پر پہنچتے تو محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مستغرق ہوجاتے اور وجد کی حالت میں منبر پہ گِر پڑتے، پھر اُٹھتے اور اَذان کہتے ایک رات آپ تہجد کی نماز پڑھ کر سوگئے، خواب میں دیکھا کہ آسمان سے ایک خوانچہ اُتر رہا ہے، پوچھا کس کے لیے ہے جواب ملا کہ مولانا نور الدین صاحب کیلیے ہے، لیکن وہ سوگئے اس رات کے بعد پھر کبھی تہجد کے بعد نہ سوتے، بعد اشراق قیلولہ فرماتے۔

استاذیم مولانا غلام حسن صاحب فرماتے ہیں کہ جب میں مولانا نور الدین صاحب کی خدمت میں تحفۃ الاحرار پڑھتا تھا تو ایک مرتبہ استاذیم صاحب نے مجھے فرمایا "میرے ساتھ دریائے سندھ کے پار چلو، جب ہم دریا کے کنارےپہنچے تو کشتی موجود نہ تھی تو استاذیم صاحب نے فرمایا "غلام حسن ! پانی (ایک ہاتھ) ہے میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ" فقیر استاذیم صاحب کے قدموں پہ قدم رکھتا گیا حتٰی کہ ہم دریائے سندھ کے پار پہنچ گئے اور پانی ٹخنوں کے اُوپر بھی نہ گیا، میں حیران رہ گیا کہ استاذیم صاحب کتنے صاحب کمال ہیں۔

حضور قبلہ شاہجمالی کریم کا دستور تھا کہ جب آپ وعظ فرماتے تو اپنے ساتھ اپنے والد کریم کو چارپائی پہ بٹھاتے اور تقریر فرماتے مرشدی قبلہ شاہجمالی نے فرمایا کہ ایک رات محفل میلاد یا محفل معراج ہونی تھی تو حضرت مولانا نور الدین صاحب کو سخت بخار تھا، قبلہ شاہجمالی نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور! آپ کو بخار ہے محفل میں نہ جائیں، گھر پہ سوجائیں۔ آپ قبلہ شاہجمالی کے مشورے سے گھر پہ سوگئے۔ حضور قبلہ شاہجمالی نے وعظ شروع فرمایا، حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں تقریر بامِ عروج پہ تھی حضور والد کرم گھر میں تقریر سُن رہے تھے، عالم وجد میں بستر علالت سے اُٹھ کر روتے ہوئے مجلسِ وعظ میں آپہنچے تمام لوگوں پہ وجد طاری تھا، عشّاقانِ مصطفٰی تڑپ رہے تھے اور ساقی جامِ وحدت کے چھلکتے جام پلا رہا تھا، عالم مستی میں مست ہو کر پا کوباں و گریہ کناں تڑپ رہے تھے۔

مرشدی شاہجمالی کریم سے آپ کو بے پناہ محبت تھی، آپ ہرّیو گئے تو وہاں بیمار ہوگئے، مرشدی شاہجمالی اپنے والد کرم کی خدمت کے لیے ہرّہو پہنچے، طبع پرسی فرمائی تو والدِ کریم نے فرمایا کہ تم آگئے مجھے شفا ہوگئی۔ لِقَاءُ الْخَلِیْلِ شِفَاءُ الْعَلِیْلِ،

اے آمد نت باعث آباویٔ ما

دیدارِ شما باعثِ شفایابی ما

مولانا فتح محمد صاحب نے فرمایا کہ والد صاحب بحالت بخار استاذیم مولانا شاہجمالی کےپاس تشریف لائے جب کہ استاذیم صاحب مسجد کے جنوبی کنارہ کے قریب پڑھا رہے تھے آپ آکر سوگئے اور فرمایا "میری قبر مسجد کے جنوبی طرف بنانا" اس کے بعد دو یا تین دن ہی گذرے کہ ۲۵ ربیع الثانی ۱۳۳۵ھ کو اس دارِ فانی کو الوداع کہہ کر دارِ آخرت کو رحلت فرمائی۔ حسبِ وصیّت مسجد کے جنوب کی طرف آپ کے استاد حضرت مولانا نصیر بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ آپ کو دفن کیا گیا۔ حضرت صاحب نے خود آپ کو شرقًا غربًا لٹا کر غسل دیا ور اپنے ہاتھ سے تجہیز و تکفین کرکے جنازہ پڑھایا۔ (ماخوذ از : درج اللالی فی حیاتِ خواجہ شاہ جمالی۔مؤلفہ :مولانا محمد ظریف فیضی علیہ الرحمہ )

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی