Biography Hazrat Molana Hakeem Muhammad Moosa Amritsari حکیم ِاہل ِسنت حکیم محمد موسیٰ امرتسری

حکیم ِاہل ِسنت حکیم محمد موسیٰ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ

اے حکیم اہلِ سنت موسٰی طورِ رضا
تیری بزمِ علم تھی یا جلوۂ نور ِرضا



ولادت و خاندان:

ہندوستان کی مردم خیزآباد یوں میں پنجاب کا ایک تاریخی شہرامر تسر بھی ہے۔ تقسیم ہند سے قبل یہ شہر اہلِ علم و دانش کی جو لانگاہ اور اہل عشق و عرفان کا مرکزِ فیضان تھا۔ اس کی خاک سے ایک سے بڑھکر ا یک یگانۂ روزگار اور کج کلاہان فکر و فن اٹھے اس شہر کے حوالے سے جب اہل عشق و تصوف اور ارباب علم و حکمت کی داستان چھڑ جاتی ہے تو روح میں تازگی اور دماغ میں بالید گی کی لہر دوڑ جاتی ہے مگر حوادث روز گار کی دست درازیوں نے بھی کتنے چمن اجاڑدئے آج کے امر تسر پر جب نگاہ پڑتی ہے تو عہد ماضی کے تمام حقائق ایک خواب سے معلوم ہوتے ہیں۔ حکیم محمد موسٰی چشتی امر تسری اسی شہر کے ایک علمی اور اور طبیب خاندان میں ۲۸/ المظفر۱۳۴۶ھ/ ۲۷/ اگست ۱۹۲۷میں پیدا ہوئے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن مجید ناظرہ قاری کریم بخش مرحوم سے پڑھا۔ کتب فارسی مفتی عبدالرحمان ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ مدرس مدرسہ نعمانیہ امرتسر سے پڑھیں۔ نیز حضرت علامہ مولانا محمد عالم آسی رحمۃ اللہ علیہ سے علمی استفادہ کیا۔ کتب طب اور مثنوی حضرت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کے پہلے دو دفتر والد گرامی سے پڑھے۔ علم ریاضی کی باقاعدہ تحصیل کی اور بہی کھاتے کا حساب محمد شفیع پاندے سے حاصل کیا۔

آپ نے روحانی علم حاصل کرنے کے لئے حضرت قبلہ میاں علی محمد چشتی نظامی بستی شریف (ضلع ہوشیار پور‘ بھارت) کے ہاتھ‘ پر سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ نصیریہ فخریہ میں بیعت فرمائی۔ آپ کے والد گرامی بھی حضرت قبلہ میاں صاحب سے بیعت تھے۔ گویا آپ اپنے والد گرامی کے روحانی پیر بھائی بھی ہیں۔

آپ عابد‘ زاہد‘ تہجد گزار اور علم و عرفان کے منبع تھے۔ صاحب ذوق شوق‘ وسیع القلب‘ خوش خلق اور اشفق بزرگ تھے۔ آپ کے اخلاق و اوصاف کے بارے میں پروفیسر محمد ایوب صاحب قادری رقم طراز ہیں۔

’’حکیم صاحب نہایت وسیع القلب‘ مہمان نواز‘ علم و ادب کے شیدائی‘ معارف پرور‘ پرانی قدروں کے محافظ اور مجموعہ اخلاق و آداب ہیں۔ اب کا مطب طبی مرکز سے زیادہ علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کا مرکز ہے۔‘‘ آپ نے ۱۹۷۴ء میں حج بیت اللہ شریف اور زیارت گنبد خضرا کا شرف حاصل کیا۔ قطب مدینہ حضرت مولانا ضیاءالدین مدنی قادری رضوی رحمۃ اللہ علیہ سے دلائل الخیرات اور قصیدہ بردہ شریف کی اجازت حاصل کی۔ حضرت مولانا مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اعزازی خلافت سلسلہ قادریہ رزاقیہ برکاتیہ رضویہ میں بھی عطا فرمائی۔ اس سے قبل آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں صاحب مجاز تھے۔

قرآن مجید ترجمہ اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ (کنزالایمان) کی ضرورت ہوتی تو حضرت علامہ مفتی سید احمد ابوالبرکات رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں جاکر حاصل کرنا پڑتا ان دنوں کنزالایمان بھی غیر مجلد ہوتا تھا اور اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف سے میرے جیسے کم علم لوگ واقف ہی نہ تھے گویا اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے علمی مقام اور تحقیقی کام سے عوام تو عوام خواص بھی بے خبر تھے۔ لاہور کے سنی عوام زیادہ تر حضرت مولانا عبدالقادر المعروف بہ غلام قادر بھیروی رحمۃ اللہ علیہ سے خوب متاثر تھے۔ جہاں بھی اہلِ علم کسے پاس حاضری ہوتی یا عوام کے ساتھ بات چیت ہوتی تو لوگ مولانا غلام قادر بھیروی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بات کرتے۔ حضرت قبلہ حکیم صاحب مرحوم نے ۱۹۶۸ء میں ’’مرکزی مجلس رضا‘‘ کا قیام فرمایا اور اعلٰی حضرت کا لڑیچر چھپوا کر ملک کے کونے کونے میں بلا معاوضہ تقسیم کرنا شروع کیا۔ بلکہ بیرون ملک بھی بھجواتے جس سے مخالفین کے قلوب و اذہان میں زلزلہ آگیا۔ الحمدللہ! آج اعلٰی حضرت کے تحقیقی کام پر کئی اسکالرز پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ یہ حضرت حکیم صاحب کا ہی فیضان ہے۔

’’مرکزی مجلس رضا‘‘ کے زیر اہتمام نوری مسجد ریلوے اسٹیشن لاہور میں ہر سال اعلٰی حضرت قدس سرہ کا عرس منایا جاتا تھا جس میں عوام کے علاوہ علماء کرام اور مشائخ عظام کا جم غفیر ہوتا ہے اسے حکیم صاحب کی وسیع القلبی ہی کہا جائے گا کہ چشتی مشرب رکھتے ہوئے قادری بزرگ کے عرس کا اہتمام فرماتے تھے۔ اخلاق اور خلوص کا یہ عالم کہ معمولی کام کرنے والوں کی بھی دلجوئی فرماتے تھے۔ یہ آپ ہی کا مقام تھا ورنہ علمائے کرام دوسروں کو سر اٹھانے نہیں دیتے۔

آپ کے والد ماجد فقیر محمد چشتی رحمۃ اللہ علیہ ماہر طبیب تھے شہر امر تسر میں انتہائی کامیاب مطب کرتے تھے پابند صوم و صلوٰۃ، خوش خلق، نیک سیرت، صالح و ضع قطع کے صوفی منش انسان تھے۔ اپنے رشتے کے چچا مولوی حکیم فتح الدین سے سلسلہ چشتیہ میں فیض حاصل کیا اور ان ہی کے اشارے پر حضرت مولانا الحاج میاں علی محمد خاں سجادہ نشین بستی شریف (م۱۵/ محرم الحرام ۱۳۹۵ھ)سے بیعت ہوئے۔ تقسیم کے بعد لاہور میں مطب کیا ۱۳۱۷ھ میں آپ کا وصال ہوا لاہور میں حضرت میاں میر علیہ الرحمہ کے پہلو میں قبر مبارک ہے۔ حکیم اہلِ سنت کے خاندان کے تمام بزرگ مذہباً حنفی اور مشرباً صوفی تھے طبابت آپ کا خاندانی مشغلہ ہے آپ کے تین بڑے بھائی اور ایک چھوٹے بھائی بھی طبیب ہیں اگرچہ وہ مطب نہیں کرتے۔حکیم اہلِ سنت نے تقسیم سے قبل امر تسر کے رستا خیز واقعات اور سیاسی کشمکش کے حالات اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھے تھے ان حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں!

جب تحریک پاکستان چل رہی تھی اس وقت امر تسر میں اکثر و بیشترجلسے ہوا کرتے تھے میں نے ان جلسوں میں اکثر میں بطور سامع کے شرکت کی مسلم لیگ کے جلسے شیخ صادق حسن صاحب کے زیرانتظام ہواکرتے تھے جس میں اکثر مولانا عبدالستار خاں نیازی،راجہ غضنفر علی وغیرہ بطور مقرر تشریف لاتے تھے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مولانا نیازی کا عالم شباب تھا ان کا چہرہ بجلی کے قمقموں سے زیادہ سرخ اور چمک دار ہوا کرتا تھا۔ ان سے بھی زیادہ شعلہ بیان مقرر جو امر تسر سے آئے تھے مولوی بشیر احمد اخگر تھے۔ اس طرح راولپنڈی کے سید مصطفٰی شاہ گیلانی بھی بہت اچھی تقریر کیا کرتے تھے۔ ایک آدمی اور تھا جسے لاہور والوں نے مار دیا میں اکثر لوگوں سے پوچھتا ہوں بتاؤ وہ کہاں ہیں وہ تھے پروفیسر عنایت اللہ یہ صاحب ان سے بہتر مقرر تھے یہ لوگ پورے ملک کے دورے کر کے اپنی شعلہ بیانی سے کانگریس اور احراری مقرروں کے مقابلے میں مسلم لیگ کی راہ ہموار کرتے تھے۔ ان پڑھے لکھے مقرروں کے علاوہ ایک ان پڑھ مقرر جو اس زمانہ میں بہت مشہور ہوئے لاہور مزنگ کے استاد عشق لہر تھے، استاد عشق لہر اپنی پنجابی شاعری کو اپنے مخصوص انداز میں جب پڑھتے تھے تو مجمع میں آگ لگا دیا کرتے تھے مگر پاکستان بننے کے بعد ان محنتوں کی ان قومی ہیروں کی پزیرائی کا حال دیکھتا ہوں تو مجھے افسوس ہوتا ہے۔ حکومت تحریک پاکستان کے کارکنوں اور رہنماؤں کو ہر سال ایوارڈ سے نوازتی ہے ان میں اکثر محسنوں کو نظر انداز کیا گیا۔

حکیم اہلِ سنت کے والد گرامی تحقیق و مطالعہ کا بھی بڑا پاکیزہ ذوق رکھتے تھے امر تسر میں ۲۵ ہزار کتابیں خود ان کے ذاتی کتب خانہ میں موجود تھیں مگر تقسیم کے فسادات میں غیر مسلموں نے آپ کے کتب خانہ اور مطب کو نذر آتش کر دیا۔ مگر ان تمام قربانیوں کے باوجود پاکستان میں مہاجرین کو ان کا حق نہ مل سکا۔

حکیم اہلِ سنت اپنے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں:

اس وقت انگریز و ہند و ہمارے مد مقابل تھے، مسلمانو ں کے سامنے آزادی اور اسلام کی سر بلندی کا نصب العین تھا، جب میرے والد صاحب کا کتب خانہ اور دوا خانہ سکھوں نے جلا دیا۔ تو اس وقت لوگ والد صاحب سے اظہار افسوس کرنے آئے تو والد صاحب کے الفاظ تھے جب پاکستان بن جائے گا تو ہم سمجھیں گے کہ ہماری یہ قربانی قبول ہو گئی ہمارا کتب خانہ امر تسر کا سب سے بڑا کتب خانہ تھا اس میں ۲۵ ہزار کتابیں تھیں۔

ان سب قربانیوں کے بعد جب میں دیکھتا ہوں اس ۱۴/ اگست کو یوم آزادی کی صبح میں اپنے دروازے پر کھڑا ہوا اپنی تسبیح گھما رہا تھا۔ میں سوچ رہاتھا کہ یہاں سے پندرہ میل سر حد ہے اور وہاں سے دس میل دور ہمارا وطن امر تسر ہے آج ہم اپنے وطن جا نہیں سکتے، اسے دیکھ نہیں سکتے، اپنے بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھ نہیں سکتے آخر کیوں؟ اس لیے کہ ہم ایک ملک اسلام کے لئے بنانا چاہتے تھے مگر آج میں دیکھتا ہوں کہ یہ تو زنا خانہ بنا ہوا ہے میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔

آپ لوگوں کو اندازہ نہیں کہ لوگ کیا کچھ قربان کر کے پاکستان آئے۔ شیخ صادق جو کہ امر تسر کے بہت بڑے امیر کبیر مسلمان رہنما تھے وہ تقسیم ملک سے پہلے کروڑپتی تھے مشرقی پنجاب کا ایک ہی مسلمان تھا جس کی چار ملیں تھیں آج آپ ان کی اولاد کو پاکستان میں تلاش کر کے بتائیں؟ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان دشمنوں کے لئے بنا ہے اس کے بنانے والوں کی اولاد کا بھی پتہ نہیں چلتا۔

حکیم اہلِ سنت کے مندرجہ بالا تا ثرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں پاکستان کے حامی علماء حق اور ترک وطن کرنے والے مہاجرین کے ساتھ ہونے والی نا نصافیوں کا شدید احساس تھا، وہ نظام مصطفٰی ﷺوالے پاکستان کے خواہاں تھے مگر ان کا وہ خواب شرمندۃ تعبیر نہ ہوسکا۔

تعلیم و مطب:

اپنے والد گرامی سے قرآن عظیم پڑھا، قاری کریم بخش سے قرات سیکھی، فارسی کتابیں کریما سعدی، پندنامہ، گلستاں، بوستاں، سکندرنامہ، زلیخا، احسن القواعد، اخلاق محسنی وغیرہ اور عربی صرف کی کتابیں مفتی عبدالرحمٰن ہزاروی مدرس مدرسہ نعمانیہ امر تسر سے پڑھیں۔ حضرت مولانا آسی علیہ الرحمہ کی درسگاہ سے بھی استفادہ کیا، اپنے والد ماجد سے علم طب کی تعلیم حاصلی کی، مثنوی شریف کے پہلے دو دفتر پڑھے اور انہیں کے زیر سایہ مطب کی تربیت پائی فطری ذوق علم اور کثرت مطالعہ سے تاریخ و اد ب اور تصوف و اسلامیات کے مختلف صیغوں میں درک و کمال حاصل کیا۔ عربی، فارسی، اردو، پنجابی زبان و ادب پر ان کی گہری نظر تھی وہ علمی حلقوں میں ایک بلند پایہ ادیب اور محقق کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔

۱۲/ اگست ۱۹۴۷میں امر تسر سے پاکستان تشریف لائے، چھ ماہ تک سر گودھا میں اور پھر اپنے والد گرامی کی طلب پر لاہور چلے گئے۔ لاہور پہنچ کر والد صاحب کے ساتھ لوہاری دروازہ کے باہر مطب شروع کیا، ۱۹۴۹میں رام گلی میں علیحدہ مطب کیا۔ ان دنوں آپ ۵۵ ریلوے روڈ لاہور میں مطب چلا رہے تھے۔

حکیم اہلِ سنت نے زندگی بھر طبابت کی ۔یہی ان کا پاکیزہ ذریعہ معاش تھا۔ طبابت کرتے تھے مگر اخلاص پیشہ کہلاتے تھے، وہ کار مطب عبادت سمجھ کر انجام دیتے تھے۔ وہ حسن کے پیکر اور خدمت خلق کے خوگر تھے، تلاش رزق سے زیادہ رضائے مولٰی کے متلاشی رہتے تھے۔ خاندانی طبیب تھے فن طب میں اعلٰی مقام رکھتے تھے، وہ سچ مچ مسیحائے قوم تھے ان کا مطب جسمانی اور روحانی بیماریوں کا شفا خانہ اور دین و دانش کا مرکز ِفیضان تھا۔ بقول پروفیسر محمد ایوب قادری ’’ان کا مطب طبی مرکز سے زیادہ علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کا مرکز ہے۔

حکیم اہلِ سنت نے کسی درسگاہ میں بیٹھ کر درس نہیں دیا مگر ان کے فیض یافتگان کی فہرست طویل ہے۔ اہل قلم اور اہل تحقیق عام طور پر ان کے پاس آتے اور حکیم صاحب بھر پور ہمدردی کے ساتھ ان کے موضوع کے حوالے سے ماخذ اور مراجع کی نشاند ہی فرماتے رہتے باتوں میں بہت سی علمی گھتیاں سلجھا دیتے اور علم و تحقیق کے پیاسوں کو سیراب فرما دیتے۔

پروفیسر محمد صدیق فرماتے ہیں:

ان کا مطب نہ صرف جسمانی مریضوں کو شفا بخش ادویات فرہم کرتا ہے بلکہ متلا شیان علم کے لئے بھی مجرب نسخے تجویز کرتا ہے جس سے وہ ہمیشہ کے لئے صحت یاب ہو جاتے ہیں

ان کی بزم دین و دانش کے ایک حال آشنا رقم طراز ہیں۔

حکیم صاحب کی شخصیت کے یوں تو کئی پہلو ہیں مگر آپ کی شخصیت کا ایک نمایاں و صف آپ کا نوجوان دانشور محققین کی حوصلہ افزائی کرنا، ان سے شفقت سے پیش آنا ہے ملک بھر کی یونیورسیٹیوں میں مختلف علوم میں پی۔ ایچ۔ ڈی۔ ایم فل کے طلبہ کو ان کے موضوع کے لئے درکار ماخذ کی نشاند ہی اور رہنمائی کے لئےآپ ایک معتبر نام کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ آپ کی مجلس میں بیٹھنے والے علم کے متلاشیوں کو آپ نے ڈاکٹر، مصنف اور اسکالر بنا دیا۔ حکیم صاحب اپنی ذات میں ایک تحریک، ایک ادارہ ہیں۔

ان کی زندگی کا ایک روحانی ورق:

حکیم اہلِ سنت اخلاص و عمل کے بھی پیکر تھے، اخلاق و معاملات میں سنت مصطفٰی ﷺکے آئینہ دار تھے احسان و تصوف کے حال آشنا اور اولیاء ومشائخ کی بارگاہوں کے ادب شناس تھے، اسلاف کی روایات کے خاموش امین اور پر جوش داعی تھے۔پیر طریقت حضرت مولانا الحاج میاں علی محمد خاں علیہ الرحمہ سے سلسلہ چشتیہ میں بیعت تھے ۱۳۹۳ھ کو مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے، ایک عرصہ تک شہر حبیب میں قیام کا موقع ملا، وہاں دنیائے اسلام کے بڑے بڑے شیوخ اور علما کرام کی مجالس سے استفادہ کیا، شیخ العرب و العجم حضرت مولانا ضیاءالدین احمد قادری رضوی مدنی رحمۃ اللہ علیہ خلیفئہ اعلٰی حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے مجاز ہوئے ’’سلسلہ قادریہ‘‘ کے معمولات کی اجازت دی شیخ الدلائل شیخ محمد ہاشم شفرون رحمۃ اللہ علیہ سے ’’دلائل الخیرات اور قصیدہ بردہ‘‘ کی اجازتیں حاصل کیں۔

ان کا وجود فیضانِ مشائخ کا مرکزِ انوار تھا، ان کی زندگی صبر و قناعت کی پیکر تھی، ان کا مطالعہ احسان و تصوف کے دبستانوں کا خوشاچیں تھا، ان کی زبان ذکر و فکر سے معمور تھی، ان کا قلم برگذید ان اسلام کے افکار و خدمات کا ترجمان تھا، ان کی محفل افق علم کے ستاروں کی کہکشاں تھی، جہاں عشق و عرفان کی خوشبوئیں تھیں اور دین و دانش کی چاندنی تھی۔

ان کی شب دو شیں کے ہم نشیں پیر زادہ اقبال احمد فاروقی فرماتے ہیں:

آپ کی مجلس علما، ادباء، صوفیاء، شعراء، اور مؤلفین و مصنفین سے بھری رہتی ہے۔ چشتی ہیں مگر نقشبندی سلسلہ تصوف کے ترجمان ہیں، نظامی ہیں مگر مجددی تعلیمات کی اشاعت کرتے ہیں طبیب ہیں مگر اعتقادی بیماریوں کا علاج کرتےہیں۔

بڑے متواضع اور ملنسار تھے مہمانوں کی خاطر تواضع میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے تھے، چائے کا وقت ہو تو چائے، کھانے کا وقت ہو تو کھانا ہر فصل کے ثمرات سے اپنے احباب کی تواضع کرتے تھے مگر بقول محمد حنیف جن احباب سے انھیں خاص انس تھا انھیں خمیرہ گاؤزباں کی ا یک خوراک کھلاتے تھے۔ معاملات میں بہت صاف ستھرے تھے، اپنی ذاتی کمائی کا ایک بڑا حصہ’’مرکزی مجلس رضا‘‘ اور دیگر دینی و اشاعتی اداروں پر صرف کیا مجلس کی مکمل باگ ڈور ان کے ہاتھ میں تھی مگر کبھی ایک پائی بھی اپنی ذات پر خرچ نہیں کی اس عہد بلا خیز میں وہ عزیمت و استقامت اور دیانت و صداقت کی ایک مثال تھے۔

علامہ عبدالحکیم شرف قادری اپنے ایک مکتوب میں رقم طراز ہیں۔

اخلاق کا یہ عالم ہے کہ ہر ماہ سینکڑوں روپے اپنی گرہ سے ’’مرکزی مجلس رضا‘‘ پر خرچ کرتے ہیں مجلس کی ایک پائی بھی اپنی ذات پر خرچ کرنے کے روادار نہیں ہیں۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے انھوں نے وصیت کی تھی کہ میری وفات پر بھی ’’مجلس رضا‘‘ کے فنڈ میں سے کچھ خرچ نہ کیا جائے بلکہ اگر تجہیز و تکفین کے لئے ضرورت پڑے تو میری کتابیں فروخت کر کے کام چلایا جائے۔ غرضیکہ مجلس کے فنڈ سے اپنی ذات کو عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرح بالکل الگ تھلگ رکھا اور ایک پیسہ بھی اپنی ذات پر خرچ نہیں کیا۔

ذوقِ مطالعہ اور خدمت لوح و قلم:

حکیم اہلِ سنت نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھا تو گھر آنگن میں علم و ادب کی خوشبوئیں تھیں، دین و دانش کی جلوہ ریزیاں تھیں رنگارنگ کتب کی قوس قزح تھی، تہذیب و ثقافت کی دودھیا چاندی تھی۔ ماہرین تعلیم کا تجربہ بتاتا ہے کہ جب کوئی اخاذ طبع، محنت و مطالعہ کا خوگر، علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کی گھنی چھاؤں میں نشو و نما پاتا ہے توکلیوں کی طرح چٹکتا ہے۔ پھولوں کی طرح مہکتا ہے۔ چاندنی کی طرح چمکتا ہے۔ چڑھتے سورج کی طرح ابھرتا ہے اور سمندروں کی طرح پھیل جاتا ہے۔

حکیم صاحب کو کتابیں جمع کرنے کا ذوق اور تحقیقی مطالعہ کا شوق اپنے پدر بزر گوار سے وراثت میں ملا تھا۔ انھیں کتابوں سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا، انھیں اپنے ذوق کی کتاب جہاں اور جس قیمت پر بھی ملتی حاصل کر کے ہی دم لیتے۔ ان کی دلچسپی کے موضوعات مختلف تھے، مذاہب عالم، تاریخ و سیر، سوانح و تذکار، تصوف واسلامیات اور جہان رضویات ۔وہ نصف صدی سے مسلسل کتابیں جمع کر رہے تھے۔ان کی لائبریری میں نایاب کتابیں بھی دستیاب تھیں۔ انھوں نے اپنے مطب کی کمائی کا بیشتر حصہ کتابیں خریدنے میں صرف کیا تھا۔

محمد اشرف لودھی آپ کی لائبریری کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

دوا خانہ کی بالائی منزل پر قائم کتب خانہ کی شہرت لاہور سے نکل کر نہ صرف پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا تک پہنچ چکی ہے۔ پرانی وضع کے حکیم محمد موسٰی امر تسری کا ہاتھ جدید علمی تحقیقی کی نبض پر اتنا گہرا ہے کہ ہر نئی چھپنے والی کتاب اور دربدر کی ٹھوکریں کھانے والے قدیم نسخوں کے خریدار حکیم صاحب ہیں۔ آپ نے امر تسر میں اپنے والد صاحب کا ۲۵ ہزار کتابوں پر مشتمل کتب خانہ جل جانے کے بعد اس روایت کو پاکستان میں آکر زندہ کیا اور اپنی حیات ہی اس کتب خانہ میں اتنی نایاب اور اہم کتابیں جمع کردیں کہ نہ صرف لاہور بلکہ یورپ کے محقیقن نے لاہور آکر آپ کے کتب خانہ سے استفادہ کیا۔

لیکن اس سے بھی بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس درویش صفت مرد قلندر نے دس ہزار کتابوں پر مشتمل اپنا پورا کتب خانہ افادہ عام کے لئے پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری کے لئے عطیہ کردیا، علمی دنیا میں ایثار و قربانی کا یہ وہ مثالی کارنامہ ہے جو صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔

سکندر لوٹ کر بھی خوش نہیں دولت زمانے کی
قلندر مایۂ ہستی لٹا کر رقص کرتا ہے

حکیم اہلِ سنت ایک بلند پایہ قلم کار، دل پذیر تذکرہ نگار، عظیم محقق اور بصیرت افروز مبصر تھے، کتابوں پر ان کے تبصرے بڑی جامعیت اوراہمیت کے حامل ہوتے تھے وہ تبصرہ لکھنے سے پہلے پوری کتاب کا تنقیدی مطالعہ کرتے تھے اور پھر کسی تعلق و دوستی کی رعایت کئے بغیر جو حق ہو تا پوری جامعیت سے سپرد قلم کر دیتے، آپ نے زیادہ تبصرے مجلّہ ’’فیض الاسلام‘‘ راولپنڈی کے لئے لکھے تھے، پہلے اپنے اصلی نام سے لکھتے تھے لیکن ان کی حق گوئی اور تنقید نگاری مصنفین و مؤلفین کے لئے ناگوار خاطر ہونے لگی اور کچھ لوگ ناراضگی کا اظہار کرنے لگے تو حکیم صاحب نے ’’آثم‘‘ کے قلمی نام سے لکھنا شروع کیا پھر علامہ عرشی کے مشورے سے ’’حکیم‘‘ نام سے ادبی دنیا میں نثر و نظم کی زلفیں سنوارتے رہے اور صالح تنقید نگاری کو فروغ دیتے رہے۔آپ نے تاریخ و سیر، تصوف و اسلامیات، تنقید و ادب اور تذکار و سوانحیات کی اہم کتب پر پیش لفظ، تعارف مصنف اور مقدمے تحریر کئے ہیں ان کی تعداد بھی قریب سو (۱۰۰) تک پہنچ جاتی ہے ان میں مکتوبات امام ربانی، کشف المحجوب اور عباد الرحمٰن کے مقدمات تواہل علم و دانش کی توجہ کے مرکز بن گئے ہیں۔ اور مختلف موضوعات پر آپ کے تحقیقی، ادبی اور سوانحی مضامین و مقالات کی فہرست سو سے بھی متجاوز ہے جو پاک و ہند کے رسائل و جرائد میں شائع ہو کر علم و ادب کی دنیا میں دھوم مچا چکے ہیں۔ آپ کی مطبوعہ تصانیف حسب ذیل ہیں۔

۱۔ اذکار جمیل ’’سوانح شیخ طریقت سید برکت علی شاہ خلچبالوی۔

۲۔ مولانا غلام محمد ترنم امر تسری، احوال و آثار۔

۳۔ ذکر مغفور۔ سوانح پیر طریقت حضرت سید مغفور القادری۔

۴۔ سوانح مولانا نور احمد پسروی ثم امرتسری۔

۵۔ تذکرہ مشاہیر امرتسری۔

اے کاش! کوئی قلم کار تلاش و تحقیق اور مکمل یکسوئی کے ساتھ آپ کے منتشر قلمی جواہر کو سلک ترتیب میں سجادے تو کئی گر انقدر اور وقیع مجموعے بن جائیں۔ اور اہلِ علم و ادب کی آنکھیں پر نور اور دل مسرور ہو جائیں۔ حکیم اہلِ سنت رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ انتہائی اہم اور بنیادی کام ہے جسے اولین ترجیحات میں شامل کرنا چاہیئے۔

اور اب ذکر ان کی ’’مجلس رضا‘‘ کا:

آج امام احمد رضا کا علمی شہرہ مدارس سے یونیورسٹیوں تک پہنچ چکا ہے ان کی آفاقی فکر کا غلغلہ عجم سے عرب تک سنا جا رہا ہے، ان کی عبقری شخصیت کی دھمک مشرق سے مغرب تک محسوس کی جا رہی ہے۔ دانش کدوں میں ان کی فکر و شخصیت پر ریسرچ ہو رہی ہے۔ ان کی نثر و نظم یونیورسٹیوں میں داخل نصاب ہو چکی ہے، سائنسدان ان کے فلسفیانہ نظریات پر سر دھن رہے ہیں۔ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر درجنوں یونیورسیٹیوں سے پی، ایچ، ڈی کی ڈگریاں تفویض کی جا چکی ہیں۔ ان کے تجدیدی اور فقہی کارناموں پر اہل قلم بے تکان لکھتے چلے جا رہے ہیں۔ بیسویں صدی عیسوی کے آخری دودہائیوں میں جتنا آپ پر لکھا گیا کسی پر نہ لکھا گیا۔ عالم اسلام کی مرکزی درسگاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور نے عرس عزیزی منعقدہ یکم جمادی الآخرہ ۱۴۲۰ھ کو علما، مشائخ اور دانشوروں کے اجتماع میں یہ اعلان کر دیا۔ ’’امام احمد رضا بیسویں صدی عیسوی کی سب سے عظیم شخصیت‘‘۔ اور الجامعۃ الاشرفیہ کے مجلس شوریٰ کے رکن ڈاکٹر شرر مصباحی پکار اٹھے۔

جو کل تھا وہ رضا کے کریموں کے نام تھا
جو آج ہے وہ سارا کا سارا رضا کا ہے
ایوان نجدیت ہو کہ قصر وہابیت
سب تہس نہس ہے وہ دھماکہ رضا کاہے۔

مگر ایک دور تھا امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ بآں فضل و کمال بے نام و نشان تھا۔ سلطان شعر و سخن تھا مگر گمنام تھا، مجدد اعظم تھا مگر بدنام تھا۔ غیروں کی ریشہ دوانیاں شباب پر تھیں، حقائق کو چھپایا جا رہا تھا امام احمد رضا کا چاند سا چہرہ تعصّبات کے پردوں میں ڈھانپ دیا گیا تھا۔ اتنی بد گمانیاں پھیلا دی گئیں تھیں کہ اہل قلم اس طرف رخ ہی نہیں کرتے تھے۔

حکیم اہلِ سنت رحمۃ اللہ علیہ کو اس ماحول میں رہانہ گیا، حساس دل تھا تڑپ اٹھا۔ اور انتہائی بے سر و سامانی کے عالم میں پورے عزم و حوصلے کے ساتھ چند احباب کو لیکر میدان عمل میں اتر پڑے۔ اور ۱۹۶۸میں ’’مرکزی مجلس رضا‘‘ کی بنیاد رکھ دی۔ جس کا بنیادی مقصد امام احمد رضا اور فکر رضا کا تعارف تھا، مسلک ِاعلٰی حضرت کو عام کرنا تھا۔

حکیم اہل، سنت ’’مرکزی مجلس رضا لاہور‘‘ کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں!

مطالعہ میرا شروع سے شغف رہا ہے میرے مطالعہ کے نتیجے میں مجھے اس بات نے پریشان کیا کہ تحریک پاکستان کی تاریخ میں ان علماء نے کہ جنہوں نے کھل کر پاکستان کی مخالفت کی انگریزوں کی کاسہ لیسی کی، ان کا تذکرہ تو ہیروز (Heroes) کے طور پر ملتا ہے۔ اور اعلٰی حضرت احمد رضا بریلوی کہ جن کے حوالے سے تاریخ میں انگریز دوستی یا تعلق کا کوئی حوالہ نہیں ملتا بلکہ انگریزوں کے شدید مخالف نظر آتے ہیں ان کا سرے سے کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے۔ میں ان سوالات کو پروفیسر ایوب قادری (جو کہ لاہور میں جب بھی تشریف لاتے ہاں قیام کرتے تھے) سے اکثر کیا کرتا مگر کیوں کہ ان کا دیوبندیت کی جانب زیادہ جھکاؤ تھا۔ اس لئے وہ میرے اس سوال کے جواب کو گول کر جاتے جس سے مجھے اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پڑھنے کی مزید جستجو ہوئی یہ ۱۹۶۰کی بات ہے۔ میں نے اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف جو کہ اس دور میں نایاب تھیں تلاش کر کے پڑھیں اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اعلٰی حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ حالیہ تاریخ کی ایک مظلوم شخصیت ہیں لہٰذا ان پر کام کرنے کا ارادہ کیا اور کام شروع کر دیا۔

آپ نے مرکزی مجلس رضا لاہور سے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف اعلٰی معیار پر شائع کر کے ملک اور بیرون ملک میں لاکھوں کی تعداد میں مفت تقسیم کیں، اہل قلم کو رضویات کی جانب متوجہ کیا، عنوانات اور مواد دے دے کر امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے سیکڑوں مقالات اور درجنوں کتابیں لکھوائیں۔ جو دور تھے انہیں قریب کیا، جو قریب تھے انہیں مستعد کیا، جو متنفر تھے انہیں دلائل سے ہمنوا کیا اس طرح غلط فہمیوں کے بادل چھٹنے لگے، حقائق کے اجالے پھیلنے لگے اور پھر گلستان رضا میں بہار آگئی۔ آج پروفیسر مسعود احمد کا نام رضویات پر اتھارٹی (Authority) سمجھا جاتا ہے مگر انہیں ’’جہان رضا‘‘ میں لانے والے کا نام حکیم اہلِ سنت ہے۔

پروفیسر مسعود احمد رقم طراز ہیں!

محسن اہلِ سنت محترم حکیم محمد موسٰی امرتسری اور علامہ محمد عبدالحکیم اختر شاہ جہاں پوری کی تحریک پر ۱۹۷۰میں راقم نے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ پر کام کا آغاز کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جامعات و کلیات اور تحقیقی اداروں میں محققین اور دانشور امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے علمی مقام سے واقف نہ تھے بلکہ ان اداروں میں تو امام احمد رضارحمۃ اللہ علیہ کا ذکر و فکر معیوب سمجھا جاتا تھا اور خود راقم بھی حقائق سے باخبر نہ تھا۔

جماعت اہلِ سنت کے مشہور محقق اور مصنف حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادری فرماتے ہیں!

حقیقت یہ ہے کہ محترم حکیم محمد موسٰی امرتسری (علیہ الرحمۃ) نے مجلس رضا قائم کر کے اہلِ سنت و جماعت کے عوام و خواص کو پڑھنے لکھنے کا شعور عطا کیا اور مجھ جیسے نو آموز قلم کاروں کی حوصلہ افزائی ہی نہیں رہنمائی بھی کی۔ یہی وجہ تھی کہ ہم جیسے لوگ ان کےبستہ فتراک (چمڑے کے تسمے جو زمین کے عقب میں دائیں بائیں جانب شکار یا سامان باندھنے کے واسطے لگے ہوتے ہیں، شکار بند) تھے اور بڑے بڑے علم، مشائخ ان کی زیارت کے لئے آیا کرتے تھے۔

رئیس القلم علامہ ارشد القادری مصباحی بساط رضویات کا عالمی جائزہ لیتے ہوئے رقم طراز ہیں!

’’ایشیا میں ’’رضویات‘‘ پر تحقیقی کام کرنے والا سب سے قدیم ادارہ پاکستان میں ہے جو ’’مرکزی مجلس رضا‘‘ کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ اس کا صدر دفتر لاہور میں ہے۔ ادارہ کے بانیوں میں نقیب اہلِ سنت حضرت مولانا حکیم محمد موسٰی امرتسری کا نام سنہرے حرفوں میں لکھے جانے کے قابل ہےکہ موصوف نے ادارہ کے ذریعہ سیدنا امام احمد رضا فاضل بریلوی کی عبقری شخصیت، ان کے علمی کمالات، ان کی تصنیفی خدمات ان کے زہد و تقویٰ، ان کے مقام عشق و عرفان اور ان کے تجدیدی کارناموں سے دنیا کے بہت بڑے حصے کو روشناس کرایا۔‘‘

مولانا محمود احمد قادری اپنی تلوّن مزاجی کے باوجود یہ لکھنے پر مجبور ہیں:

یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ علوم و معارف احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے تعارف کے لئے کئی ادارے کام کر رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اس کا جذبہ ٔسعید حکیم ِاہلِ سنت مولانا حکیم محمد موسٰی چشتی نظامی امرتسری امیر مرکزی مجس رضا لاہور نے پیدا کیا اور وہی اس کارواں کے قافلہ سالار بھی ہیں۔

حکیم اہلِ سنت نے مرکزی مجلس رضا لاہور کے پلیٹ فارم سے درجنوں کتابیں عربی، اردو، انگریزی، سندھی اور پشتو میں اٹھارہ لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں شائع کر کے دنیا بھر میں تقسیم کرائیں اور بقول علامہ اقبال احمد فاروقی ’’آج مرکزی مجلس رضا‘‘ اشاعتی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنے ماہنامہ ’’جہان رضا‘‘ کے صفحات پر افکار رضا کو دنیا کے گوشے گوشے تک پھیلانے میں مصروف ہے اس کا سارا کریڈٹ (Credit) حکیم محمد موسٰی مرحوم کو جاتا ہے‘‘۔ایک مخالف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم نے تو مولانا احمد رضا خان بریلوی کو دفن کر دیا تھا مگر حکیم محمد موسٰی امرتسری نے انہیں زندہ کر دیا‘‘ الفضل ماشہدت بہ الاعداء۔

ان گر انقدر تاثرات کی تیز روشنی میں آپ اس نتیجے تک پہنچ چکے ہوں گے کہ حکیم اہلِ سنت گلشن رضا کی سیر کرنے والے قافلہ ہائے شوق کے میر کارواں تھے۔ جو تصنیف و اشاعت کی پر خاروادیوں میں آبلہ پائی کے درد کا احساس کئے بغیر منزل کی جانب بڑھتے ہی رہے۔ اور انہوں نے فکر رضا کی اشاعت کا پہاڑ کے برابر کارنامہ اتنی لگن، دردمندی، نظم اور اخلاص کے ساتھ انجام دیا کہ ان کی آواز صدا بصحرا ثابت نہ ہوئی بلکہ آپ کی آواز پر اہل علم و قلم، اہل نقد و نظر، مصنفین، نارشرین ،مخلصین اور معاونین کی بھیڑ جمع ہوگئی اور ’’مجلس رضا‘‘ آسمان رضا کی کہکشاں بن گئی۔

مجلس رضا کی تحریک و دعوت اور نقش عمل پر ایشیاء ویورپ اور افریقہ امریکہ میں درجنوں ادارے قائم ہوئے۔ رضا اکیڈمی لندن، رضوی انٹرنیشنل سوسائٹی افریقہ، المجمع الاسلامی مبارکپور، رضا اکیڈمی بمبئی، ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی، المجمع المصباحی مبارکپور وغیرہ وغیرہ اور اب تو امام احمد رضا کا نام و کام اتنا دلکش اور مقبول انام ہو گیا ہے کہ مخالفین و معاندین بھی امام احمد رضا کی تصانیف بڑے چاؤ سے شائع کر رہے ہیں دہلی میں تقریباً ۲۵/ ناشرین ’’کنزالایمان مع خزائن العرفان‘‘ شائع کر کے ملک کے گوشے گوشے میں پھیلا رہے ہیں جو سب کے سب دیوبندی ہیں چند دیوبندی ناشرین نے اپنے مکتبوں کا نام بھی نام رضا سے منسوب کیا ہے ’’مکتبہ رضویہ دہلی‘‘ مکتبہ رضویہ نوریہ دہلی‘‘ اور رضا بک فاؤنڈیشن کا مالک بھی بریلوی نہیں ہے۔ لیکن ابھی سر کی آنکھیں کھلی ہیں دل کی آنکھیں نہیں کھلی ہیں دل کی آنکھیں کھل گئیں تو پورا وجود نور ایمان سے جگمگا اٹھے گا اور ہماری آواز میں آواز ملا کر پکار اٹھیں گے۔

ڈال دی قلب میں عظمت مصطفٰی
سیدی اعلٰی حضرت پہ لاکھوں سلام

اے کلیم وادی طورِ رضا!

مولانا محمد ارشاد احمد رضوی مصباحی جامعہ اشرفیہ مبارک پور (انڈیا) کی شگفتہ تحریر جس نے حکیم محمد موسٰی امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات کو مبارک پور سے ہد یہ تحسین پیش کیا ہے۔ آپ اس ان دیکھے سکالر کی پھولوں میں گھری ہوئی باتیں ملاحظہ فرمائیں۔

اے حکیم اہلِ سنت موسٰی طورِرضا
تیری بزمِ علم تھی یا جلوۂ نور رضا

حکیم اہلِ سنت محمد موسٰی امرتسری (1927-1999) ایک تاریخ ساز شخصیت کے مالک تھے۔ ایسی ہستیاں کم کم وجود میں آتی ہیں۔ راقم پندرہ سال سے جامعہ اشرفیہ کے علمی ماحول میں موجود ہے۔ابتدا سے لے کر اب تک حکیم صاحب کا ذکر خیر، مرکزی مجلس رضا کے پلیٹ فارم سےا ن کی سر فروشانہ دینی خدمات کا غلغلہ اساتذہ اور احباب کے حلقوں میں سنتا رہا۔ان کا اخلاص، ان کا استقلال، ان کا ایثار، ہمیشہ دلوں میں احترام کا ماحول پیدا کیے رہا، خصوصاً امام اہلِ سنت، مجددین و ملت امام احمد رضا قادری برکاتی قدس سرہ سے اس چشتی مشرب صوفی بزرگ کی والہانہ وابستگی اور شیفتگی کی حد تک لگاؤ تو ہم اہلِ سنت کے واسطے بہت جاذ بیت رکھتا تھا۔

یہ مجمع اخلاق و محاسن ۲۸/صفرالمظفر ۱۳۴۶ھ /۲۷/اگست۱۹۲۷/ کو امرتسر کی تاریخی سر زمین پر پیدا ہوا اور پھر اس نخل کرم کو عابدانہ تعلیمی ماحول ملا۔ والد ماجد حکیم فقیر محمد چشتی نظامی متوفی ۱۳۱۷ ھ ایک صوفی مشرب بزرگ تھے جنہیں نالہ نیم شبی کی لذت بھی میسر تھی اور فخرالاطبا کا اعزاز بھی۔ طبابت خاندانی پیشہ تھا اس لیے نفاست اور شرافت خاندانی میراث تھی۔

حکیم صاحب علوم و فنون کی متوسط تکمیل کے بعد طبابت کے پیشہ سے وابستہ ہوگئے جو آپ کے واسطے مسائل حیات کے پیچ و خم سلجھانے کا واحد ذریعہ تھا۔ بقول خود:

"میں صبح سے مغرب تک مطب کرتا ہوں، مطب میری آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔ میں رزق حلال پر یقین رکھتا ہوں۔ اس مطب کی آمدنی سے گھر کی کفالت، کتابوں کا خریدنا اور کتابوں کی چھپائی میں قلمکاروں کی مقدور بھر معاونت کے معاملات چلتے ہیں۔"(۱)

حکیم اہلِ سنت کا مطب، جسمانی شفا خانے کے ساتھ ساتھ علمی اور روحانی سر چشمہ فیض بھی تھا جہاں تشنگان ِذوق، جوق در جوق حاضر ہوتے اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق سیراب ہوا کرتے۔

ڈاکٹر احمد حسین قلعداری صاحب کے لفظوں میں:

میں نے دیکھا کہ مطب پرا ربابِ علم وحکمت کا مجمع رہتا، چائے چلتی رہتی اور علم و حکمت کے چشمے ابلتے رہتے۔ مطب کیا تھا؟ عباسیوں کا بیت الحکمت تھا۔ عباسیوں کے بیت الحکمت میں علماء، فضلا کا اجتماع شاید ہفتہ عشرہ کے بعد ہوتا، اس بیت الحکمت میں اربابِ عقل و دانش سارا سارا دن بیٹھے رہتے۔

اس جمگھٹے کے جذب و کشش میں حکیم اہلِ سنت کی علم دوستی اور معلوماتی ہمہ جہتی کے ساتھ ساتھ آپ کی سادہ دلی اور کریمانہ اخلاق کابھی بہت زیادہ دخل تھا۔ جو آپ سے ایک بارمل لیتا اسے آپ کے حسن اخلاق کا گرویدہ ہونا پڑتا۔

مولانا محمد صدیق ہزاروی ’’تعارف علمائے اہلِ سنت‘‘ میں لکھتے ہیں:

حکیم محمد موسٰی امرتسری نہایت وسیع القلب اور خلیق و شفیق انسان ہیں اور اہلِ سنت کے نو خیز اہلِ قلم حضرات کی خوب حوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔

آپ کے اخلاق و اوصاف کے متعلق پروفیسر محمد ایوب قادری لکھتے ہیں:

حکیم صاحب نہایت وسیع الاخلاق، مہمان نواز، علم و ادب کے شیدائی، معارف پرور، پرانی قدروں کے محافظ اور مجموعہ اخلاق و آداب ہیں۔ ان کا مطب، طبی مرکز سے زیادہ علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کا مرکز ہے۔

محمد عطاءالرحمٰن لاہوری صاحب ایک امریکی اسکالر کے حوالے سے حکیم اہلِ سنت کے اخلاق جذب و اثر کے بارے میں لکھتے ہیں:

دراصل حکیم صاحب کی ذات کو پر کشش بنانے والی چیز ان کا اخلاق تھا، ان کی محبت تھی، ان کی الفت تھی--- کیا امیر، کیا غریب؟ سبھی ان کے شفقت و التفات کے دریا سے فیض یاب ہوتے تھے۔ ایک دنیا اس بات کی گواہی دے گی کہ ان کا ابر کرم ہر آنے والے پر بلا تخصیص اور بلا تفریق برستا تھا اور اس حقیقت کا تو انکار ممکن ہی نہیں کہ مئے خانے میں ہجوم تب ہی ہوتا ہے جب پیر مغاں مرد خلیق ہوتا ہے---حکیم صاحب کی شفقت کا ایک نمونہ ملا حظہ فرمایئے:

امریکی اسکالر آرتھر فرینک (Arthur Frank Buchlar) نے میں ہارورڈ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ پیش کیا۔ اپنی تحقیق کے سلسلے میں وہ لاہور میں قیام کے دوران حکیم صاحب سے بھی رہنمائی لیتے رہے۔ انہوں نے اپنے مقالے کے آغاز میں اظہار تشکر کے لیے حکیم صاحب کا ذکر ایک پیر اگراف میں کیا ہے۔ اس کا ترجمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے تا کہ معلوم ہو سکے کہ ایک مغربی محقق، حکیم صاحب کی علمی مدد کو کس انداز میں بیان کرتا ہے:

’’میرے بشریاتی عملی تجربے کا بڑا حصہ نہ ختم ہونے والی اس تلاش و جستجو کا نتیجہ ہے جو مجھے صوفیانہ مواد کے لیے کرنا پڑی۔ یہ مواد پاکستان بھر میں ذاتی اور عوامی ذخائر کتب میں بکھرا پڑا ہے۔ کون کون سی کتابیں لکھی گئیں اور کہاں کہاں موجود ہیں؟ یہ کتابیاتی معلومات کا زندہ خزانہ ہیں۔ انہوں نے ہی اس تحقیق میں میری سب سے زیادہ رہنمائی کی بہت سے لوگوں کے لیے حکیم صاحب ایک صوفی ہیں جن کا پیشہ طبابت ہے۔ میں ہفتے میں ایک بار ان کے مطب پر حاضری دیتا جہاں وہ فاضل اسکالروں اور مصنفین کے ملے جلے سا معین کے درمیان مسند صدارت پر رونق افروز ہوتے اور اس کے ساتھ ساتھ مریضوں کی ایک قطار مطب میں داخل ہوتی اور چلی جاتی۔ علمی گفتگو اور نسخہ نویسی کے ساتھ ساتھ وہ مجھے لاہور شہر کے قرب و جوار میں کتابیں تلاش کرنے کے لیے دس کام بتا دیتے، جب میں یہ کام مکمل کر لیتا تو ان کو جا کر بتاتا، وہ کئی اور کام مجھے تفویض کر دیتے۔اگرچہ میں نے شروع میں اس طریق کار کو پسند نہ کیا کیونکہ علمی کمی کی وجہ سے کتابوں کے بارے میں ہی سوچتا۔ انجام کار میں ایسے مقامات پر گیا جہاں میں دوسری صورت میں کبھی نہ جاتا جیسے قرآنی مکاتب، مساجد اور یہاں تک کہ کپڑے کی دکان میں بھی۔ تا ہم اس دوران میں نے پاکستانی کلچر اور مذہب کے بارے میں بہت کچھ جان لیا۔‘‘(۱)

فکر و قلم کا یہ بزم آرا خود بھی ان کی توانائیوں سے آراستہ و پیراستہ تھا۔

پیر زادہ اقبال احمد صاحب فاروقی لکھتے ہیں:

آپ نہایت بلند پایہ ادیب اور علم و حکمت کا قیمتی ذخیرہ ہیں۔ آپ کی تصانیف میں (۱) تذکرہ علماء امرتسر (غیر مطبوعہ) (۲) مولانا غلام محمد ترنم رحمہ اللہ (۳) مولانا نور احمد امرتسری (۴) ذکر مغفور (تذکرہ سید مغفور القادری رحمہ اللہ) (۵) اذکار جمیل (تذکرہ سید برکت علی شاہ خلیجا نوی) بہت ہی مشہور ہوئیں۔ آپ نے کئی علمی کتابوں پر زور دار دیبا چے لکھے۔ مقدمہ ’’کشف المحجوب‘‘ مقدمہ ’’مکتوبات مجدد الف ثانی رحمہ اللہ‘‘ اور مقدمہ ’’عبادالرحمٰن‘‘ اہل علم کی توجہ کا مرکز بن گئے۔(۱)

حکیم اہلِ سنت کے حسن اخلاق کا چرچا اپنی جگہ، علم دوستی کا جذبہ فراواں بھی تسلیم، بے نفسی اور ایثار بھی تعارف کے محتاج نہیں لیکن اس چشتی مشرب کی امام اہلِ سنت سیدنا اعلٰی حضرت قدس سرہ کے ساتھ ایسی والہانہ شیفتگی کہ خود ہی نذر عقیدت لے کر حاضر نہیں ہوتے بلکہ ان کی عقیدتوں کی مشعل لے کر سراپا تحریک بن جاتے ہیں، اک جہان کے لیے باعث حیرت ہے۔ عقل عجب سے دائرہ میں گردش کرتی محسوس ہوتی ہے۔ جناب محمد اشرف لودھی صاحب مدیر ماہنامہ ’’ساحل‘‘ کراچی نے کچھ اسی طرح کا سوال حکیم اہلِ سنت سے کیا۔

حکیم صاحب! آپ سے کئی حوالوں سے گفتگو کرنی ہے۔ سب سے پہلے تو "مجلس رضا لاہور" کہ جس کو آپ نے قائم کیا، وہ کیا عوامل تھے کہ آپ باوجود اس کے کہ نہ تو اعلٰی حضرت احمد رضا بریلوی کے تلامذہ اور نہ ہی سلسلہ سے آپ کا تعلق تھا، اس ملک میں ان کے کتنے تلامذہ اور خلفا کے ہوتے ہوئے آپ نے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت اور ان کی خدمات کو روشناس کرانے کا بیڑا اٹھایا؟

آپ نے فرمایا:

مطالعہ میرا شروع سے شغف رہا ہے۔ میرے مطالعہ کے نتیجہ میں مجھے اس بات نے پریشان کیا کہ تحریک پاکستان کی تاریخ میں ان علما نے کہ جنہون نے کھل کر پاکستان کی مخالفت کی، انگریزوں کی کاسہ لیسی کی، ان کا تذکرہ تو ہیرو کے طور پر ملتا ہے اور اعلٰی حضرت احمد رضا بریلوی کہ جن کے حوالے سے تاریخ میں انگریز دوستی یا تعلق کا کوئی حوالہ نہیں ملتا بلکہ انگریزوں کے شدید مخالف نظر آتے ہیں، ان کا سرے سے کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے؟ میں ان سوالات کو پروفیسر ایوب قادری جو کہ لاہور میں جب بھی تشریف لاتے میرے یہاں قیام کرتے تھے، سے اکثر کیا کرتا مگر چونکہ ان کا دیوبندیت کی جانب زیادہ جھکاؤ تھا اس لیے وہ میرے اس سوال کے جواب کو گول کر جاتے جس سے مجھے اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پڑھنے کی مزید جستجو ہوئی۔ یہ ۱۹۶۰ء کی بات ہے، میں نے اعلٰی حضرت کی تصانیف جو کہ اس دور میں نایاب تھیں، تلاش کر کے پڑھیں اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ اعلٰی حضرت فاضل بریلوی حالیہ تاریخ کی ایک مظلوم شخصیت ہیں لہٰذا اس پر کام کرنے کا ارادہ کیا اور کام شروع کر دیا۔[1]

امام اہلِ سنت قدس سرہ کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اتباع سنت کی عجب پر کیف اور دلر باسی برکت ہے کہ جو آپ سے قریب ہوتا ہے وہ آپ ہی کا جو کر رہ جاتا ہے۔ حکیم محمد موسٰی امرتسری کی رودادِ محبت ان کی زبانی آپ سن ہی چکے۔ محترمی ڈاکٹر محمد مسعود احمد مد ظلہ ۱۹۷۰میں جب متوجہ ہوئے تو اس جہان عشق و معرفت کی زعفران زار دلکشی میں کھو کر رہ گئے، اب تک ’’جہان رضا‘‘ کی سیر ہو رہی ہے لیکن طبیعت ہے کہ سیر ہی نہیں ہوتی۔۔۔ آپ خود لکھتے ہیں:

راقم ۱۹۵۷ء سے برابر لکھ رہا ہے، ۱۹۶۹ء تک امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے مطالعہ سے محروم رہا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ما سوا والد ماجد حضرت مفتی اعظم محمد مظہر اللہ الرحمہ راقم کے بیشتر اساتذہ کا تعلق امام احمد رضا کے مخالفین یا مخالفین کے مویدین سے رہا لیکن جب ۰۷۹۱ء میں مطالعہ کا آغاز کیا تو ایک اور ہی عالم نظر آیا جس نے حیران و ششدر ک دیا۔ اللہ اکبر! حقیقت کیا تھی اور کیا بتایا گیا؟ اب جوں جوں مطالعہ کرتا ہوں حیرانگی بڑھتی جاتی ہے۔[2]

جامعہ ازہر مصر کے پروفیسر ابو حازم محمد محفوظ متوجہ ہوئے تو امام احمد رضا انہیں ’’المجد والا اکبر الامام‘‘ نظر آئے۔ امام احمد رضا کے حوالے سے وہ اب تک پانچ عربی کتابیں عالم عرب کو پیش کر چکے ہیں--- مقالات اور اخباری مضامین اس کے علاوہ ہیں اور اب فکر رضا کی توسیع و اشاعت میں تو وہ مصر کے پروفیسر مسعود بن چکے ہیں۔

برطانیہ کے نو مسلم دانشور ڈاکٹر پروفیسر محمد ہارون مرحوم متوجہ ہوئے تو بیسیوں انگریزی کتابیں یورپی ممالک کو پیش کر ڈالیں جن میں تصانیف رضا کے تراجم بھی ہیں اور تعارفی کتابیں بھی--- لطف کی بات یہ ہے کہ یہ سارے مرحلے انعام اور تعریف سے بے نیاز ہو کر محض رضائے الٰہی کی طلب اور خلوص دل سے طے ہوتے جا رہے ہیں اور غیب سے اسباب پیدا ہوتے جاتے ہیں--- بقول مسعود ملت:

حقیقت یہ ہے کہ امام احمد رضا پر خلوص سے کام کرنے والوں کی غیبی مدد ہوتی ہے۔ یہ راقم کا ذاتی تجربہ ہے اور یہ بارگاہ ایزدی میں امام احمد رضا کی مقبولیت کی دلیل ہے۔

حکیم اہلِ سنت علیہ الرحمہ کا رضویات کے حوالے سے سب سے عظیم کارنامہ مرکزی مجلس رضا لاہور کا قیام اور استحکام ہے۔ اسی پلیٹ فارم سے آپ نے امام اہلِ سنت سیدنا اعلٰی حضرت قدس سرہ کے افکار و علوم کی نشر و اشاعت کا وہ لازوال کارنامہ انجام دیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ اس کی خشت اول کیسے رکھی گئی اور سب سے پہلے یوم رضا کا انعقاد کس حال اور انداز میں ہوا؟ اسے خود بانی کی زبانی سینے:

’’مجلس کے کا آغاز میں میرے پہلے ہم خیال مرحوم قاضی عبدالنبی کو کب تھے۔ میں پنجاب پبلک لائبریری اور پنجاب یونیورسٹی لائبریری جایا کرتا تھا۔ قاضی صاحب سے میری وہاں دوستی ہو گئی تھی۔ میں نے امام احمد رضا کے بارے میں مل کر لاہور میں مجلس رضا کے نام سے تنظیم قائم کی اور اس کے زیر اہتمام لاہور میں یومِ رضا سالانہ جلسہ کی داغ بیل ڈالی۔ میں نے مجلس کے کام لے لیے ابتدا میں مولانا عبدالستار خاں نیازی صاحب سے رابطہ قائم کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کام میں مولویوں کی مخلافت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میں نے مولانا سے کہا کہ آپ گورنر ملک امیر محمد خان کالا باغ سے تو نہیں ڈرتے، مولویوں سے ڈرتے ہیں۔ یہ سست اور بیکار لوگ ہیں، ان کی پروانہ کریں۔ مجلس کے کاموں میں میری سب سے زیادہ رہنمائی مولوی ابراہیم علی چشتی علیہ الرحمہ نے کی۔ مولوی ابراہیم چشتی پنجاب مسلم لیگ کے بانی اور مولانا عبدالستار نیازی، م- ش اور حمید نظامی کے استاد تھے۔ میں نے مولوی صاحب کے ذریعہ نیازی صاحب کو مجلس کے کاموں کے لیے تیار کیا چنانچہ پہلا یوم رضا جو کہ ۱۹۸۶ء میں ہوا، اس میں مولوی ابراہیم علی چشتی، م- ش اور مولانا نیازی صاحب وغیرہ سب شریک تھے۔ غالباً مولانا غلام علی اوکاڑوی صاحب بھی مجلس کے اس پہلے جسلہ میں شریک تھے۔ اس پہلے یومِ رضا کے جلسہ سے لاہور کے عوامی اور علمی حلقوں میں اعلٰی حضرت کے بارے میں گفتگو شروع ہو گئی۔

اس پہلے جلسہ کے موقع پر مقررین کے پاس اعلٰی حضرت کے بارے میں کہنے کے لیے مواد کی کمی تھی۔ مولانا عبدالستار نیازی صاحب کو میں نے اعلٰی حضرت کی کتاب ’’حرمت سجدۂ تعظیمی‘‘ اور ’’مقال العرفا‘‘ پڑھنے کے لیے دیں۔ اعلٰی حضرت کے علمی حوالے سے مجھے علی گڑھ کے مولانا مقتدا خاں شیروانی سے خاصی مدد ملی۔ انہوں نے میری رہنمائی ا علٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے کسی تعلق کے بنا پر نہیں کی۔ وہ تو سر سید احمد خان کے ساتھیوں میں سے تھے۔ انہوں نے بڑی عمر پائی، میری ان سے پہلے سے خط و کتابت تھی غالباً پروفیسر ایوب قادری نے ان سے مجھے متعارف کروایا تھا چنانچہ مولانا شیروانی نے مجھے اعلٰی حضرت کی کتاب ’’المحجۃ الموتمنہ‘‘ بھیج دی۔ یہ کتاب ہمارے لیے بڑی مفید ثابت ہوئی۔ اس وقت تک پورے پاکستان میں یہ کتاب نہیں تھی، اس کے بعد مولانا شیروانی نے مولانا سید سلیمان اشرف صاحب کی کتاب ’’النور‘‘ بھیج دی، وہ بھی اس طرح کہ آدھی ایک بار اور آدھی دوسری بار تو ہم نے ان دو کتابوں میں سے اعلٰی حضرت کی تحریروں سے ان کے دو قومی نظریے سے اتفاق کو منظر عام پر پیش کیا۔ مولانا مقتدا خان چونکہ کانگریس کے مخالف تھے لہٰذا انہوں نے کانگریس دشمنی میں ہماری یہ مدد کی۔ ’’المحجۃ الموتمنۃ‘‘ اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے آخری دور کی تصنیف تھی۔ ہم نے اس کتاب کی نقلیں یہاں علمی حلقوں میں پڑھوائیں۔

یوم رضا کے اہتمام کے سلسلہ میں ابتدا میں ایک میں تھا اور ایک ظہور دین تھا۔ بعد میں ایک محمد نظامی صوفی اللہ دتہ نعت خواں ہوا کرتے تھے۔ ہم رات میں مزنگ میں بیٹھ کر لئی پکاتے تھے پھر سارے لاہور میں سائیکل پر ’’یومِ رضا‘‘ کے اشتہار لگاتے تھے۔ ایک بشیر حسین ناظم صاحب کے سالے سلیم صاحب بھی ہمارے ساتھ کام کرتے تھے۔ آج کل وہ کسی بینک کے منیجر ہیں۔ ہم لاہور کے علاوہ لاہور کے مضافات کے دیہاتوں میں بھی یومِ رضا کے اشتہار لگواتے تھے۔ میں صبح فجر کی نماز پڑھ کر دریائے راوی کے بند پر کھڑا ہوجاتا تھا اور گاؤں کی جانب کسی جانیوالے شخص کو پوسٹر دیدیتا تھا اور وہ مولانا ریاض تک پہنچا دیتا تھا، وہ اسے دوسرے گاؤں دیہات تک پہنچا دیتے تھے۔ یہ سب کام ایک ہی آدمی کرتا تھا۔ بعد میں میاں زبیر بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے۔ بہادلپور کے ایک مولانا ہاشمی صاحب ہوا کرتے تھے۔ وہ بھی بڑی باقاعدگی سے جب بھی چٹھی جاتی تشریف لے آتے۔ مولانا عمر اچھروی صاحب نے بھی ایک بار یومِ رضا کے جسلہ میں شرکت کی، وہ ان کی آخری تقریب تھی۔ ایک بار میں بغیر کسی حوالے کے پیر صغت اللہ مجددی کے چچا زاد بھائی، کابل کے پیر فضل عثمان مجددی صاحب جو کہ لاہور میں ماڈل ٹاؤن میں رہتے تھے، کے یہاں چلا گیا اور انہیں یومِ رضا کے جلسہ میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی دعوت دی۔ انہوں نے سرسری انداز میں آنے کی ہامی بھر لی۔ میں تو سمجھا تھا کہ وہ نہیں آئیں گے مگر وہ جلسہ میں آئے۔ ان میں دینداری اس درجہ تھی کہ جب وہ جلسہ گاہ میں پہنچے تو تلاوت کلام پاک ہو رہی تھی۔ میں مسجد کے باہر کھڑا تھا، ان سے آگے چلنے کی درخواست کی، وہ فوراً مسجد میں جوتوں کے قریب ہی بیٹھ گئے۔ بعد میں جب تلاوت ختم ہو گئی تو کہا کہ اب آگے چلتے ہیں۔ تلاوت کلام کا اس درجہ احترام ان کی دینداری کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘[3]

پھر مرکزی مجلس رضا کے چمنستان سے اس بلبل بوستان رضانے عشق رضا کے وہ نغمے گائے کہ سارا چمن چہچہانے لگا۔

وہ چمن میں کیا گیا گویادبستاں کھل گیا

لوگ جوق در جوق کوچہ رضا میں کھچنے لگے، وارفتگی کشاں کشاں آستان رضا تک لے جانے لگی۔ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کا ایک نادیدہ عاشق بد کنے والوں کو بلاتا رہا، سونے والوں کو جگاتا رہا، آنے والوں کی رہنمائی کرتا رہا۔

ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیئے ہیں انداز خسروانہ

خوب لکھا ہے اخلاق احمد رضوی سہسرامی صاحب نے:

مرکزی مجلس رضا ہو یا سنی رائٹرز گلڈ، یومِ رضا کا شاندار اجلاس ہو یا مطب کی بارونق علمی محفل، ہر جگہ یہ بلبل بوستان رضا اس عاشق رسول ﷺکے علم و فن کے گیت گاتا رہا، اس کے عشق پر سوزکی حرارتیں تقسیم کرتا رہا۔ یہ بوڑھا مجاہد اسمبلی کے اراکین، وزراء، وکلا، جج صاحبان، پروفیسر ان، دانشوران، ادباء، محققین، علماء، طلبا ءسبھی کو بیدار کرتا رہا، عصری تقاضے یاد دلاتا رہا، گلشن رضا کی سیر کراتا، غلط فہیموں کے غبار دور کرتا رہا، روٹھوں کو مناتا رہا، بچھڑوں کو ملاتا رہا، ہر سال لاکھوں کے اخراجات سے یومِ رضا کا اہتمام، مقالات یومِ رضا کی اشاعت، اٹھارہ لاکھ سے زائد اسلامیات اور رضویات پر سہ لسانی لڑیچر کی مفت تقسیم، اس بوڑھے مجاہد کے وہ لازوال کارنامے ہیں جو رہتی دنیا تک یادگار ہیں گے۔ آج علمی حلقوں میں فکر رضا کی جو رونقیں دکھائی دیتی ہیں وہ سب حکیم اہلِ سنت علیہ الرحمہ کی جا نفشاں کا دشوں کا اثر ہیں۔[4]

مگر کو رذوقوں کو اس بلبل ہزار داستان کی نغمہ سنجی ایک آنکھ نہ بھائی، وہ روٹھے روٹھے سے رہنے لگے، بات ذرا اور آگے بڑھی تو راہ و رسم بھی ختم کر ڈالی لیکن پاکیزہ روحیں مستانہ وار جھومنے لگیں، اس کے نغموں پہ جان دینے لگیں۔ سنیے یہ داستان طلسم کشا خود اسی کی زبانی سینے:

’’میرے وہ دوست جو کہ پکے دیوبندی تھے انہوں نے تو مجھ سے کنارہ کشتی اختیار کر لی اور وہ لوگ جو تھے تو سنی بریلوی مگر انداز گول مول تھا، ان کو پکا بریلوی بننا پڑا مثلاً مولانا عبدالستار خان نیازی، مجلس کے کام کے بعد ہی پکے بریلوی بن گئے۔ ہمارے دوست مرحوم پروفیسر ایوب قادری جو کہ تھے تو ہمارے ہی مگر ان پر دیوبندیوں نے قبضہ کر رکھا تھا، ان سے بھی ہم نے بہت کچھ لکھوایا۔ ایک دو بار یومِ رضا کے موقع پر لاہور میں تھے تو جلسہ میں بھی آکر بیٹھے۔ ہم ’’انوار رضا‘‘ کے لیے مختلف اہلِ قلم سے رابطہ کر کے اعلٰی حضرت پر مقالات لکھوا کر چھاپتے تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد صاحب بھی اس طرح ہمارے رابطہ میں آئے۔ ان کے ذریعہ مسعود صاحب کی ایک کتاب جو کہ شاہ محمد غوث گوالیاری علیہ الرحمہ پر تھی، مجھ تک پہنچی۔ انوار رضا کے لیے مقالہ کے لیے جب مسعود صاحب سے خط و کتابت ہوئی تو انہوں نے ’’اعلٰی حضرت اور تحریک ترک موالات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ہم نے کہا: آپ لکھیں۔ جب ان کا مسودہ مجھے ملا تو میں نے دیکھا کہ بہت ہی عمدہ تحریر تھی، ایسی اردو لکھنے والے ہمارے یہاں کم ہوں گے۔ ہم نے چھاپا اور کتاب بار بار چھپی اور اس کا خاصا اثر ہوا۔[5]

راقم کے مقالے ’’فاضل بریلوی اور ترک موالات‘‘ کا شائع ہونا تھا کہ غیظ و غضب کی لہر دوڑ گئی کیونکہ تسلیم شدہ حقائق تار عنکبوت کی طرح بکھرنے لگے۔ ایک یونیورسٹی کے شیخ الحدیث نے اپنی نجی محفل میں راقم سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: "میں فلاں پبلشر سے کہوں گا کہ پروفیسر مسعود احمد کی کتابیں نہ چھاپا کریں "دوسری یونیورسٹی کے صدر شعبۂ تاریخ بھی ناراض ہوگئے اور دیرینہ دوستی بھی ختم کردی۔ راقم نے عرض کیا: ’’تاریخی حقائق عقائد نہیں ہوتے، آپ میری بات غلط ثابت کر دیں، میں اپنی بات کاٹ کر آپ کی بات لکھ دوں گا، کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ، یہ تو تحقیق و ریسرچ ہے، جو بات ثابت ہوگی وہی لکھی جائے گی‘‘پھر خدا کی شان کہ مولوی حسین احمد دیوبندی کی کتاب ’’الشہاب الثاقب‘‘ میں یہ بات مل گئی کہ جب سید صاحب صوبہ سرحد میں اپنی کار روائیوں میں مصروف تھے تو انگریز اسلحہ سے ان کی مدد کر رہے تھے، چنانچہ مقالے کے دوسرے ایڈیشن میں یہ حوالہ پیش کر دیا گیا اور معترضین خاموش ہو گئے۔ تاریخ میں غلط بیانی یا دھونس سے کسی بات کو منوانے کی گنجائش نہیں۔لیڈن یونیورسٹی ہالینڈ کے کہنہ سال مستشرق پروفیسر ڈاکٹر جے ایم ایس بلیان نے راقم کے اس موقف کی تائید کی کہ سید صاحب نے انگریزوں کے خلاف کوئی جدوجہد نہیں کی۔ حقائق و شواہد کی روشنی میں ہر محقق اسی نتیجے پر پہنچے گا ------ تو عرض یہ کر رہا تھا کہ راقم کا مقالہ ’’فاضل بریلوی اور ترک موالات‘‘ شائع ہوا تو امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے مخالفین نے ان پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا پھر جب راقم کی کتاب ’’فاضل بریلوی علمائے حجاز کی نظر میں‘‘ ۱۹۷۳ء میں شائع ہوئی اور امام احمد رضا کی عرب و عجم میں ہمہ گیر مقبولیت کے جلوے دکھائے گئے تو ماہر القادری صاحب نے اپنے رسالے ’’فاران‘‘ (کراچی) میں ایک طویل مضمون لکھ کر مخالفین و معاندین کو خبر دار کیا کہ اگر دانشوروں نے امام احمد رضا کی عظمت و جلالت کے جلوے دیکھ لیے تو پھر ان کی نظروں میں کوئی نہیں سمائے گا۔ یہی کتاب جب مسلم یونیورسٹی علی گڑھ بھیجی گئی تو وہاں شعبہ سنی دینیات کے صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد رضوان اللہ مرحوم نے اپنے ساتھی پروفیسروں کو دکھائی۔ انہوں نے پڑھ کر بیک زبان کہا کہ اس سے قبل ہم سخت غلط فہمی میں مبتلا تھے۔ بیس پچیس پروفیسروں نے یہ بات کہی۔ پھر کیا ہوا؟ یہ کتاب ڈاکٹر رضوان صاحب کی میز پر رکھی ہوئی تھی، وہ کسی کام سے باہر گئے، امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے کسی مخالف نے پار کر لی، واپس آئے تو کتاب میز پر نہ تھی۔ یہ بات مرحوم نے راقم کو خود بتائی۔ اس قسم کی اوچھی حرکتوں سے حق اور سچائی کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ جس کی قسمت میں بلند ہونا ہے وہ بلند ہو کر رہتا ہے۔[6]

ان تمام کبیدہ خاطریوں اور ناخوشگواریوں کے باوجود اہلِ سنت کا یہ حکیم اور عاشق مصطفٰیﷺ، امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کا نادیدہ عاشق، اللہ کے اس محبوب بندے کے گن گا تا رہا، اس کے عشق رسولﷺ کی سرشاریاں عام کرتا رہا یہاں تک کہ مندی مندی آنکھیں کھلنے لگیں، تھکی تھکی نگاہیں اٹھنے لگیں، دبی دبی آرزوئیں پھڑکنے لگیں، کھنچی کھنچی گرد نیں خم ہونےلگیں، جلے جلے دل ٹھنڈے ہونے لگے، رندھے رندھے گلے کھلنے لگے اور پھر فکر رضا کا ایک آوازہ سا بلند ہوا اور سارا جہان گنگنانے لگا

اے رؔضا جان عنا دل ترے نغموں کے نثار
بلبل باغ مدینہ تیرا کہنا کیا ہے!

ہاں! اے حکیم اہلِ سنت! تو طور رضا کا کلیم تھا، تو فکر رضا کا ندیم تھا، تو بہار رضا کی نسیم تھا، تو نے فضاؤں میں عشق رضا کی خوشبوئیں بکھیر دیں، تو نے دلوں میں نغمات رضا کی ترنگیں بھر دیں، تو نے کانوں میں رس گھول دئیے- زندہ باد! اے محبت رضا کے امیں! پائندہ باد! اے جہان رضا کے مکیں! تیری عظمتوں کو سلام، تیری الفتوں کو سلام، تیری امانتوں کو سلام، تیری دیانتوں کو سلام

اے حکیم اہلِ سنت! موسٰی طورِ رضا
تیری بزمِ علم تھی یا جلوۂ نورِ رضا

وصال مبارک:

۸ شعبان العظم ۱۴۲۰ھ مطابق ۱۷ نومبر ۱۹۹۹ء کو آپ کے وصال کی بات آپ کے اہل خانہ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے روز وصال صبح قہوہ اپنے ہاتھ سے تیار فرمایا اور اپنی زوجہ محترمہ کو بھی دیا۔ مطب پر آئے، تھوڑی سی قے آئی اور درِ دولت تشریف لے آئے۔ فرمایا جسم میں تھوڑی سا درد ہو رہا ہے۔ گھر والے دبانے لگے پھر کوئی معمولی سی دوا کھائی۔ قہوہ الائچی، سبز چائے اور دار چینی پیا۔ پھر کچھ وقفہ کے بعد دو مرتبہ کہا ’’اللہ ہو‘ اللہ ہو‘‘ اور تقریباً بوقت پونے بارہ بجے دوپہر اللہ رب ذوالجلال اور رسول اکرمﷺکی بارگاہ میں جا پہنچے۔

اک شخص سارے شہر کو دیران کر گیا!

احقر(سید محمد سرفراز قادری ایم اے ،چودہ سال تک حکیم صاحب کے رفیق کار رہے) مستری رشید کے ساتھ قبرستان پہنچا۔ جب آپ کے اس مدفن کی قبر کشائی کی جسے آپ نے خود تعمیر کرایا تھا تو قارئین یقین کیجئے کہ یہ جگہ ۵ سال قبل تعمیر کے بعد بند کر دی گئی تھی۔ اندر کوئی کیڑا مکوڑا یا جالا وغیرہ نظر نہ آیا۔ ایک خوشبو تھی جو ہر طرف بکھر گئی۔ خوشبو ہی خوشبو۔ آپ فنافی اللہ کے درجہ پر فائز تھے۔ آپ ہمیشہ صابر و شاکر تھے۔ آپ کا سب کچھ اللہ کے لیے ہی تھا تو پھر ایسا کیوں نہ ہوتا۔

غسل مبارک اور نمازِ جنازہ:

غسل کے انتظامات میں محترم فاروق شاہ صاحب نے خصوصی دلچسپی لی اور رحمت علی قادری صاحب نے غسل دیا۔ نماز جنازہ کا حال فاروق مصطفوی صاحب کی زبانی سنئے۔

’’عاشق حبیبﷺ۔ مداح غوث و رضا محب داتا و خواجہ‘ مقبول حضرت میاں میر،(رحمۃ اللہ علیہم اجمعین)خلیفہ قطب مدینہ حکیم اہلِ سنت کا آخری دیدار بڑا دل کشا و دل افروز تھا۔ آپ کا چہرہ مبارک بعد وصال ظاہری زندگی سے زیادہ تابندہ تھا۔ مسکراہٹ اور تازگی عیاں تھی اور نیاز مندان حکیم اہلِ سنت ان کا کھلا کھلا چہرہ دیکھ کر ورطہ حیرت میں پڑ گئے۔ آخری دیدار کے دوران کلمہ طیبہ کا ورد جاری رہا۔ نماز جنازہ آپ کے دیرینہ دوست حضرت پیر سید محمد حسن گیلانی نوری نے پڑھائی اور نماز جنازہ میں اپنی بخشش اور خدا کا فضل چاہنے والوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ علماء و مشائخ‘ ڈاکٹرز‘ ججز‘ وکلاء‘ صحافی اور ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔

’’احاطہ مقابر چشتیاں‘‘ قبرستان میاں میررحمۃ اللہ علیہ رات گیارہ بجے سسکیوں‘ محبت بھری آہوں‘ پر خلوص آنسوؤں اور کلمہ شہادت کی صداؤں میں حکیم اہلِ سنت کا جسد خاکی اپنی والدہ محترمہ کے پہلو میں اپنی ہی زیر نگرانی تیار کردہ قبر میں اتار دیا گیا۔ وصیت کے مطابق تمام تبرکات پیر و مرشد‘ آثار بزرگان‘ اجازت نامے اور اسناد صلحاء قبر میں محفوظ کر دی گئیں۔ تلاوت قرآن پاک ہوتی رہی‘ مزار اقدس پر مٹی ڈالتے رہے۔ تلاوت کے بعد صاجزادہ میاں زبیر احمد صاحب کی تحریک پر جس کی ابتدا انہوں نے خود کی‘ پانچ مرتبہ اذان دی گئی۔ دو نعتیں اعلٰی حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی پڑھی گئیں۔

(۱) ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیئے ہیں!

(۲) نعمتیں باتٹا جس سمت وہ ذیشان گیا!

جس وقت مندرجہ ذیل شعر پڑھا گیا تو لوگوں کے ذہن میں اس کی عملی تفسیر قبلہ پیر صاحب کی صورت میں سامنے آئی ؎

انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا

بارگاہِ رسالت میں استغاثے کے بعد اویس خاں صاحب نے درود تاج اور قاضی صلاح الدین صاحب ضیائی نے ’’شجرہ قادریہ رضویہ ضیائیہ‘‘ پڑھا۔ آخر میں درود و سلام کے بعد دعا زبدۃ الحکماء حضرت سید امین الدین قادری خوشحالی نے کرائی اور یوں حکیم اہلِ سنت کا سفر آخرت جو صبح بارہ بجے سے قبل شروع ہوا تھا‘ بارہ بجے رات سے قبل اختتام پذیر ہوا۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!

ایک خواب:

شب وصال میری زوجہ جو حضرت سے غایت درجہ عقیدت اور ادب رکھتی ہے‘ نے خواب دیکھا کہ آپ ہمارے غریب خانہ پر تشریف لائے ہیں۔ گھر شیشے کا بن گیا ہے اور بہت بڑا ہجوم آپ کے پیچھے آرہا ہے۔ اندر دولت خانہ پر ہیں اور گھر کے عقب میں ایک دروازہ کھل گیا ہے جس کے باہر بہت خوبصورت باغ ہے۔ قبلہ پیر صاحب کی زوجہ محترمہ (اور ہماری ماں) اللہ تعالٰی انہیں صحت اور عمر عطا فرمائے‘ دریافت کرتی ہیں اب آپ نے ادھر دروازہ بنا لیا ہے۔ فرمایا ’’ہاں‘ اس لیے کہ آنے جانے میں آسانی رہے‘‘۔

علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے!

؎ الفاظ و معافی میں تفاوت نہیں لیکن
ملاں کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں
کر گسکا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

ماخذومراجع:

(ماہنامہ جہان رضا(لاہور)اکتوبر،نومبر۲۰۰۰ء/شعبان،رمضان۱۴۲۱ھ۔جلد۹۔شمارہ۔۹۰)کے مختلف مضامین سے اقتباس کیا گیا ہے۔

[1]۔ ماہنامہ جہان رضا، مئی ۳۹۹۱ء، ص ۱۴، ۱۵۔

[2]۔ گناہ بے گناہی، ص ۵۔

[3]۔ ماہنامہ جہان رضا، مئی ۳۹۹۱ء، ص ۱۵، ۱۶ اور ۱۸۔

[4]۔ جہان رضا، ۰۰۰۲ء۔

[5]۔

[6]۔ آئینہ رضویات، حصہ دوم، کراچی، ص ۲۹۰ تا ۲۹۲۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی