Biography Hazrat Sheikh Abu Saeed Chisthi Sabri Gangoohi حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی

حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ

نام ونسب: اسم گرامی: حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی۔لقب: شیخ المشائخ۔ سلسلہ نسب: حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی بن حضرت شیخ نور گنگوہی بن حضرت شیخ علی گنگوہی بن قطب العالم حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی بن شیخ اسماعیل بن شیخ صفی الدین ﷭۔ آپ﷫ کے اجداد میں شیخ صفی الدین﷫ حضرت میرسیداشرف جہانگیرسمنانی﷫ کے مرید اور اپنے وقت کے عارفِ کامل تھے۔آپ کاسلسلہ نسب چندواسطوں سےامام الائمہ حضرت امام ابوحنیفہ﷫ پرمنتہی ہوتاہے۔ (حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی اور ان کی تعلیمات، ص145) اسی طرح آپ﷫ حضرت جلال الدین تھانیسری چشتی صابری﷫ کے نواسے ہیں۔(اقتباس الانوار، ص731)



ولادت: آپ﷫ کی ولادت باسعادت گنگوہ ،ہند میں حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی﷫ کے پوتےشیخ نور الدین ﷫ کے گھر پر ہوئی۔ تاریخ و سن ولادت معلوم نہ ہوسکا۔

تحصیل علم: حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی﷫ کا تعلق ایک علمی و روحانی خانوادے سے تھا۔آپ﷫ کی تعلیم و تربیت خصوصی طور پر ہوئی۔آپ﷫ ظاہری و باطنی علوم کے جامع تھے۔

بیعت و خلافت: حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی﷫ حضرت شیخ نظام الدین بلخی چشتی صابری﷫ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے، اور کثیر مجاہدات و ریاضات کے بعد خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے۔ حاجب مراۃ الاسرار لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ ابو سعید کو حضرت شیخ حمید الدین سے بھی خلافت تھی جو حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی قدس سرہٗ کی ساتویں پشت میں تھے۔(ایضا)

سیرت و خصائص: مجسم ولایت، شمع قصر ہدایت،مملو از رشحات کمال، ناطق لسان فی الاحوال، قطب ارشاد شیخ المشائخ حضرت شیخ ابو سعید چشتی صابری گنگوہی ﷫ ۔آپ﷫ کیا تھے؟ مُلکِ او اَدْنیٰ پر پرواز کرنے والے شہباز اور اقلیمِ ثمَّ دنیٰ میں نشیمن رکھنے والےشہباز ِ بلند پرواز تھے۔ آپ بڑے بلند ہمت تھے اور آپ کا تصرف نہایت قوی تھا۔ آپ فقر و فنا میں یگانۂ روزگار اور عشق وصفا میں بے نظیرِ زماں تھے۔ وقت کے تمام علماء ومشائخ آپ کےمعتقد اور حلقہ بگوش تھے۔ اپنے مشائخ عظام کی طرح آپ کشف وکرامات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ بلکہ اپنےمریدین وخلفاء کو کشف وکرامات سے سخت نفرت دلاتےتھے۔ حقائقِ توحید اور دقائق تجرید وتفرید کے بیان کرنے میں آپ بے نظیر تھے۔ اور آپ کا جمال باکمال کشاں کشاں ہر شخص کو آپ کے پاس کھچا کھچ لے آتا تھا۔ طالبانِ حق کیلئے آپ کی نظر ایسی کیمیا اثر رکھتی تھی کہ جس شخص پر آپ کی نظر شفقت ہوجاتی تھی آپ کا شیدابن جاتا تھا اور جو شخص آپ کی تعلیم وتربیت سے بہرہ ور ہوتا فوراً اپنی ذات سے بے خبر ہوکر ذات ِحق کے قریب ہوجاتا تھا۔ آپ کی ذات بابرکات ایسا وجودِ مسعود اور سراپا فیض تھی کہ ایک ہی توجہ سے طالبان حق کو اس قدر فیض پہنچاتے تھے کہ ان کو جمال نحن اقرب الیہ من حبل الورید کا مشاہدہ ہوجاتا تھا۔

خلافتِ کبریٰ: آپ﷫ کا خاندانی تعلق قطب العالم حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی﷫ سے ہے۔خاندانی برکات و فیوض بھی حاصل تھے۔ ایک رات آپ حضرت قطب العالم شیخ عبدالقدوس﷫کے مزار مبارک پر دردِ مفارقت میں بیٹھے رورہے تھے کہ قبر سے حضرت قطب العالم نکل آئے اور فرمایا کہ اے ابو سعید! اگر تمہیں خدا کی طلب ہے تو شیخ نظام الدین کے پاس بلخ جاؤ کیونکہ ہماری نسبت کے حامل اس وقت وہی ہیں اور وہ بلخ میں ہیں اور یہ نسبت بھی ان کے ساتھ بلخ میں ہے۔ غرضیکہ حضرت شیخ ابو سعید تین رات حضرت شیخ کے روضہ میں بیٹھے رہے اور ہر رات یہی آواز سنتے رہے۔ تیسری رات جب دو گھڑی رات باقی تھی تو حضرت قطب العالم کی روحانیت ایک نہایت ہی حسین و جمیل آدمی کی شکل میں ظاہر ہوئی لیکن شیخ ابو سعید یہ معلوم نہ کر سکے کہ وہ کون ہیں۔ اس کے بعد حضرت قطب العالم کی روحانیت نے آپ سے فرمایا کہ کیوں بیٹھے ہو اٹھو اور اگر تمہیں بلخ کا راستہ معلوم نہیں ہے تو چلو میں تمہارے ساتھ جاکر تمہیں شیخ نظام الدین کے حوالہ کر آتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے شیخ ابو سعید کا ہاتھ پکڑا اور گھوڑے پر سوار کر کے بلخ کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب حضرت شیخ نظام الدین بلخی ﷫ کے پاس پہنچ گئے تو حضرت شیخ نظام الدین سے فرمایا کہ میرا یہ بیٹا ابو سعید طلبِ حق میں تمہارے پاس آیا ہے ہماری امانت اس کے سپرد کردینا اور اس کی تربیت میں ایسی کوشش کرنا کہ ہمارا حق ادا ہوجائے۔ اس کی اتنی عزت نہ کرنا کہ انانیت وتکبر زیادہ ہو اور مقصد سے محروم ہوجائے۔ اس وجہ سے کہ اس کوچہ میں عجز وانکسار سے کام بنتا ہےتین دن تک رسولِ خداﷺ کے حکم کے مطابق اس کی ضیافت کرو اس کے بعد جس طرح میں نے کہا ہے عمل کرو۔

چنانچہ حضرت شیخ نظام الدین حضرت قطب العالم کے حکم کےمطابق باہر تشریف لے گئے اور ان کو تعظیم کے ساتھ اپنی خانقاہ میں لے آئے۔ آپکے لیے عمدہ فرش اور جگہ کا انتظام کیا گیا اور تین دن تک ضیافت ہوتی رہی۔ پھر ریاضت و مجاہدات کروائے، حضرت شیخ ابو سعیدنے بارہ سال تک رات دن یہی شغل کیا اور فتح نصیب ہوئی یعنی ذات لاکیف کا شہود حاصل ہوا۔اس سے آگے کےمقامات منکشف نہیں ہورہے تھے۔جب حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی نے حضرت شیخ کے سامنے بیان کیا کہ اس قدر ریاضت و مجاہدہ کے بعد بھی فتح یاب نہیں ہو رہا تو آپ نے فرمایا کہ حصول مقصد میں تمہاری ناکامی کی وجہ تمہارے اعمال واشغال ہیں جس سے تمہارے اندر عُجب (خود پسندی یا تکبر) پیدا ہوگیا ہے۔ اب تمہارے درد کی دوا یہ ہے کہ اپ نے نفس کو ذلیل کرو۔ حضرت شیخ کے بیٹوں نے شکار کیلئے چند کتے رکھے ہوئے تھے آپ نے حضرت شیخ ابو سعید کو ان کتوں کی خدمت میں پر مامور کردیا تاکہ اس ذلت کی وجہ سے نفس کی انانیت اور مجاہدات وعبادت کا ضرر دفع ہو۔ جب کافی عرصہ تک انہوں نے کتوں کی خدمت بجالائی تو آپ کی طبیعت میں کافی فرق آگیا اور نفس کا غلبہ کم ہوگیا۔ ایک دن خوب بارش ہوئی اور کوچہ وبازار اور صحرا کیچڑ سے بھر گئے۔ اس وقت حضرت شیخ ابو سعید کتوں کی رسیاں ہاتھ میں تھامے جارہے تھے کہ کتوں کی نظر دوسرے کتوں پر پڑی اور اُن پر حملہ آور ہوکر بڑی تیزی سے دَوڑ پڑے جس کی وجہ سے حضرت شیخ ابو سعید زمین پر گر پڑے لیکن چونکہ آپ نے رسیوں کو ہاتھ میں مضبوط پکڑا ہوا تھا کافی دور تک کتے آپ کو پانی اور کیچڑ میں گھسیٹتے رہے جس سے آپ کا جسم اور کپڑے گندے ہوگئے۔

ا س وقت آپ کے دل میں خیال آیا کہ یاخدا وند! تیرا ایک بندہ شیخ نظام الدین ہے کہ ساری خلقت ان کے پاؤں کی خاک کو آنکھوں کا سر مہ بنارہی ہے اور دوسری طرف میں ہوں کہ اس قدر ذلیل و خوار ہوں۔ اس خیال کا دل میں آنا تھا کہ عنایت حق شامل ہوئی اور نورِ سرخ کا ایک ستون عرش سے تحت الثریٰ تک آپ پر جلوہ گر ہوا۔ اسکے بعد وہ نور اطراف عالم میں پھیل گیا۔جب حضرت شیخ ابو سعید کیلئے یہ خار زار گُل وگلزار میں تبدیل ہوگیا تو حضرت شیخ نظام الدین قدس سرہٗ نے جو اس وقت گھر کی چھت پر بیٹھے تماشا دیکھ رہےتھے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ دیکھو میرے پیر زادہ کو کس عمل سے وصولی الی اللہ حاصل ہوا ہے اور کس طرح خارستان میں اُسکا گُل مقصود کھل کر اُسے عزت دو جہانی حاصل ہوئی ہے چنانچہ آپ نے چند آدمیوں کو بھیجا کہ آپ کو اس کیچڑ اور پانی سے نکال کر خانقاہ میں لے آئیں اور چارپائی پر لٹادیں۔ انہوں نے تعمیل ارشاد کی۔ جب حضرت شیخ ابو سعید کو افاقہ ہوا تو آپ نے ساری روئیداد حضرت شیخ کے سامنے بیان کی۔ یہ سُن کر حضرت اقدس بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ولایت محمدی کی ابتدا جو ابتدائے عالم لاہوت ہے تجھے مبارک ہو۔ لیکن ولایت محمدی کی انتہا جو مقام لاہوت کی انتہا ہے ابھی بہت دور ہے۔ فی الحال ان کتوں کی خدمت جاری رکھو اور شغل سہ پایہ بھی حسبِ معمول کرتے رہو۔

اس کے بعد آپ کےمرشد نے آنحضرتﷺ سے تاج ولایت محمدیہ لیکر آپ کے سر پر رکھا ۔ اس کے بعد حضرت لاکیف (ذات احدیت) اور بے شکل وبے مثال نے پردۂ غیب سے ظاہر ہوکر بحیثیت اصالت آپ پر ایسی جلوہ گری کی کہ آپ کے ہوش جاتے رہے اور بارہ دن تک آپ کا جسم مبارک مردۂ بے جان کی طرح پڑا رہا۔ اگر حضرت شیخ اہل خانقاہ کو پہلے سے آگاہ نہ کرتے تو وہ لوگ آپ کو مردہ سمجھ کر دفن کردیتے۔ جب بارہ دن کے بعد آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے حضرت شیخ کی خدمت میں ماجرا بیان کیا۔ یہ آنحضرت ﷺ کی جانب سے تجھے خلافت کبریٰ عطا ہوئی ہے اس کے بعد حضرت شیخ نظام الدین قدس سرہٗ نے سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کی متابعت میں اپنی طرف سے بھی مشائخ عظام کی امانت مع خرقۂ خلافت واسم اعظم آپ کے حوالہ کیا ۔غرضیکہ حضرت شیخ ابو سعید اپنے پیر حضرت نظام الدین بلخی قدس سرہٗ سے نعمت دو جہانی حاصل کر کے بلخ سے گنگوہ تشریف لائے اور حضرت شیخ کے حکم کےمطابق مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے۔ سلسلہ عالیہ چشتیہ اور دین اسلام کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے 1040ھ کو واصل باللہ ہوئے۔مزار فیض آثار گنگوہ ضلع انبالہ انڈیا میں مرجع عام ہے خاص ہے۔(اقتباس الانوار، ص735) آں روح جسم ولایت، شمع قصر ہدایت،مملو از رشحات کمال، ناطق ملسان احوال فارغ از گفتگوئے اغیار، دُر‎ فضائے شہو د دوست طیار، ہردم از بلند ہمتی ہمدم نعرل ھل من مزید قطب ارشاد شیخ المشائخ واولیاء حضرت شیخ ابو سعید قدس سرہٗ کیا تھے ملک او ادنیٰ پر پرواز کرنے والے شاہباز اور قلیم ثمہ دنی میں نشمین رکھنے والے ہما بلند پرواز تھے۔ آپ بڑے بلند ہمت تھے اور آپکا تصرف نہایت قوی تھا۔ آپ فقر و فنا میں یگانۂ روزگار اور عشق وصفا میں بے نظیر زماں تھے۔ وقت کے تمام علماء ومشائخ آپکےمعتقد اور حلقہ بگوش تھے۔ اپنے مشائخ عظام کی طرح آپ کشف وکرامات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ بلکہ آپکےم ریدین وخلفاء کو کشف وکرامات سے سخت نفرت تھے۔ حقائق توحید اور دقائق تجرید وتفرید کے بیان کرنے میں آپ بے نظیر تھے۔ اور آپکا جمال باکمال کشاں کشاں ہر شخص کو آپکے پاس لے آتا تھا۔ طالبان ھق کیلئے آپ کی نظر ایسی کیمیا اثر رکھتی تھی کہ جس شخص پر آپکی نظر شفقت ہوجاتی تھی آپکا والہ وشیدابن جاتا تھا اور جو شخص آپکی تعلیم وتربیت سے بہرہ ور ہوتا فوراً اپنی خودی سے بے خبر ہوجاتا تھا آپکی ذات بابرکات ایسا وجودِ اکبر اور فیض اقدس تھی اور ایک ہی توجہ سے طالبان حق کو اس قدر فیض پہنچاتے تھے کہ ان کو جمال ن حن اقرب الیہ من حبل الورید کا مشاہدہ ہوجاتا تھا۔

ایک ہی نظر سے کام بن گیا روایت ہے کہ ایک کم ہمت سالک طلبِ حق میں سفر کر رہا تھا۔ جس جگہ کسی عارف کامل کا نام سنتا تھا اسکے پاس جاکر عرضداشت پیش کرتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ مجھے اسی وقت خدا سے ملادو۔ ہر بزرگ اسکو یہی جواب دیتا تھا کہ ہمارے پاس کچھ عرصہ رہ کر ریاضت و مج اہدہ کرو قرب حاصل ہوگا۔ لیکن وہ کسی کی بات نہیں کرتا تھا۔ اور یہی رٹ لگا ئے جاتا تھا کہ مجھے اسی وقت بغیر ریاضت و مجاہدہ واصل باللہ کردو۔ غرضیکہ وہ آدم شہر بشہر اور ملک بملک پھرتا ہوا گنگوہ شریف پہنچا۔ جب اس نے حضرت شیخ ابو سعید کا نام سنا تو آپکی خدمت میں ح اضر ہوا۔ اس وقت آپ مرتبہ اطلاق اور بے رنگی (فنا) میں غرق کھڑے تھے۔ اور ایک لکڑی آپکے ہاتھ میں تھی۔ اس طالب کم ہمت نے آپکے قریب جاکر کہا کہ میں طالب خدا ہوں مجھے بغیر ریاضت و مجاہدہ شہود ذاتِ بے کیف سےمشرف کریں۔ میں نے جس بزرگ کے پاس جاکر یہ عرض کیا تو اس نے یہی جواب دیا کہ کچھ عرصہ میرے پاس رہ کر مجاہدہ کرو مقصد حاصل ہوجائے گا۔ لیکن مجھے کوئی ایسا صاحب تصرف درویش نہیں ملا کہ ایک ہی نظر میں مجھے مطلوب سے ملادے۔ یہ سنکر حضرت شیخ نے ابو سعید قدس سرہٗ نے جلال میں آکر فرمایا کہ میں تجھے تین ضربوں سے خدا تک پہنچادونگا۔ چنانچہ وہ لکڑی جو آپ کے ہاتھ میں تھی آ نے اسکے قلب پر ماری تو اس پر عالم ملکوت ظاہر ہوگیا۔ جب دوسری ضرب لگائی تو عالم جبروت مکشوف ہوگیا، جب تیسری ضرب لگائی حضرت لاکیف کا شہود حاصل ہوگیا۔ جسکی وجہس ے وہ بیخود ہوکر گر پڑا۔ نودن کے بعد جب وہ ہوش میں آیا توحضرت اقدس نے آپکو سلوک کی تعلیم دی تاکہ اسکا وہ حال مقام بن جائے (یعنی دائمی ہوجائے) چنانچہ اس نے ایک سال حضرت اقدس کی خدمت میں رہ کر ریاضت ومجاہدہ کیا اور جس مقام کو اس نے حضرت شیخ کے نور ولایت سے اجمالاً کیا تھا اب اُسے تفصیلاً اسکی سیر کرائی گئی اور خلافت دیکر رخصت کردیا گیا۔ اسی طرح کثرت سے لوگ آپ سے فیضیاب ہوئے۔

مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی قدس سرہٗ حضرت قطب العالم شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ کے پوتے تھے اور آپکی والدہ ماجدہ حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری کی دختر نیک اختر تھیں۔ آپ نے جمال حال کچھ عرصہ سپاہ گری کے لباس میں چھپائے رکھا۔ لیکن جب غلبۂ حال میں اضافہ ہوا اور محبوب حقیقی کےجلوے بڑھ گئے تو آپ ترک و تجرید اختیر کر کے حضرت شیخ جلال الدین تھانیسر قدس سرہٗ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورمرید ہوگئے۔ لیکن چونکہ حضرت اقدس اس وقت ضعیف ہوکر فنائے احدیت میں دائماً مستغرق ہوچکے تھے اور اس ظاہری جہان سے بے خبر تھے۔ آپ نے اس کارخانۂ مشیخیت کو حضرت شیخ نظام الدین بلخی قدس سرہٗ کے سپرد کیا۔ چنانچہ آپ نے انکو ذکر نفری واثبات اور اسم ذات تلقین فماکر اسکی مداومت کا حکم فرمایا حضرت شیخ ابو سعید حضرت شیخ کے حکم کےمطابق شب وروز ذکر جبری میں منہمک رہے اور آخر عالم ملکوت وجبروت کے انوار جلوہ گر ہونے لگے۔ چونکہ آپبلند ہمت تھے لہذا ہر وقت مازاغ البصر وما طغیٰ کے مصدابق جمال دوست کی طلب میں مستغرق رہنے لگے۔ آپ نے ان انوار کی طرف توجہ نہ کی۔ ھل من مزید کے نعرے بلند کرتے رہے۔ اور ذات لاکیف کےطلب گار رہے۔

یاد رہے کہ انوار کے تین اقسام ہیں ۔ اگر وہ نورِ جلال ہے تو آفتاب یا سونا یا آتش کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اگر وہ نورِ جمال ہے تو چاند یا چاندی یا پانی کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے اگر وہ نورِ ذات بے کیف و منزہ از صفات ہے تو بمصداق آیہ کریمہ یھدی اللہ بنورہٖ من یشاءُ (اللہ اپنے نور کے ذریعے جسے چاہے اپنی طرف بلاتا ہے) اولیاء کرام کے سوا کوئی شخص اس سے بہرا ور نہیں ہوسکتا۔ اور وہ ایسا فنور ہے کہ جب آدمی نیند میں ہوتا ہے یا آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتا تو اس میں غرق ہوجاتا ہے لیکن نہ اسکو ظاہری آنکھ دیکھ سکتی ہے نہ کان سُن سکتے ہیں نہ زبان بیان کر سکتی ہے چنانچہ سالک ہر وقت اس نور میں غرق رہتا ہے اور حواس ظاہری کا محتاج نہیں ہوتا۔ بلکہ اُسکے تمام قوائے باحرہ، سامعہ، ذائقہ، لامسہ یکر نگ ہوجاتے ہیں۔ اس نور کو نورِ ذات کہتے ہیں۔ اور یہی وہ نور ذات ہے کہ جسکے طلب گار حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی قدس سرہٗ تھے اور ابھی تک وہاں تک رسائی حاصل نہیں ہوئی تھی حتیٰ کہ خدا وند تعالیٰ ک ے حکم کےم طابق اور بلخ کے لوگوں کی خواہشات کی وجہ سے حضرت شیخ نظام الدین تھانیسری قدس سرہٗ کو بلخ جانا پڑا۔ جب ہجرت کر کے آپ بلخ پہنچے اور وہاں سکونت اختیار کرلی تو حضرت شیخ ابو سعید آتش فراق میں شب وروز بیقرار ہونے لگے۔ حتیٰ کہ آپ ذکر وشغل بھی بھول گئے اور انوار وظلمت سے بے خبر ہوکر وہودشت میں پھرتے رہے ۔ ایک رات آپ حضرت قطب العالم شیخ عبدالقدوس کے مزار مبارک پر دردِ مفارقت میں بیٹھے رورہے تھے کہ قبر سے حضرت قطب العالم نکل آئے اور فرمایا کہ اے ابو سعید! اگر تمہیں خدا کی طلب ہے تو شیخ نظام الدین کے پاس بلخ جاؤ کیونکہ وہ خدا کو وہیں لے گئے ہیں یعنی ہماری نسبت کے حامل اس وقت وہی ہیں اور وہ بلخ میں ہیں۔ اور یہ نسبت بھی انکے ساتھ بلخ میں ہے۔ غرضیکہ حضرت شیخ ابو سعید تین رات حضرت شیخ کے روضہ میں بیٹھے رہے اور ہر رات یہی آواز سنتے رہے۔ تیسری رات جب دو گھڑی رات باقی تھی تو حضرت قطب العالم کی روحانیت ایک نہایت ہی حسین و جمیل آدمی کی شکل میں ظاہر ہوئی لیکن شیخ ابو سعید یہ معلوم نہ کر سکے کہ وہ کون ہیں۔ اسکے بعد حضرت قطب العالم کی روحانیت نے آپ سے فرمایا کہ کیوں بیٹھے ہو اٹھو اور اگر تمہیں بلخ کا راستہ معلوم نہیں ہے تو چلو میں تمہارے ساتھ جاکر تمہیں شیخ نظام الدیلن کے حوالہ کر آتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے شیخ ابو سعید کا ہاتھ پکڑا اور گھوڑے پر سوار کر کے بلخ کی طرف روانہ ہوگئے۔ دو دن تک آپ ان کے ساتھ شریک سفر رہے۔ جب منزل قریب آجاتی تو حضرت شیخ آگے بڑھ کر رہائش کیلئے اچھی جگہ تلاش کر لیتے تھے اور خود گم ہوجاتے تھے۔ جب شیخ ابو سعید اس جگہ قیام فرماتے تو آپکے لیے عمدہ فرش، بہترین مکان دلکش عمارت، باغ باغیچے اور چشمہ ہائے آب خوش خلق لوگ اور لذیذ کھانے کا انتظام ہوجاتا تھا۔ اور ساری رات آرام سے بسر کرتے تھے۔ اور تمام لوگ آپکی خدمت کیلئے کمر بستہ رہتے تھے۔ علی الصبح آپ دوسری منزل کی طرف روانہ ہوجاتے تھے غرضیکہ سارا راستہ اسی طرح طے ہوا۔ جب بلخ تین کوس دورہ رہ گیا تو حضرت قطب العالم کی روحانیت نےجو سارا راستہ آپکے ساتھ رہی حضرت شیخ نظام الدین سے فرمایا کہ میرا بیٹا ابو سعید طلبِ حق میں تمہارے پاس آیا ہے ہماری امانت اسکے سپرد کردینا اور اسکی تربیت میں ایسی کوشش کرنا کہ ہمارا حق ادا ہوجاے۔ لیکن اسکی ذلیل و خوار ہوجائے تاکہ مطلوب حقیقی تک رسائی ہوسکے۔ اسکی اتنی عزت نہ کرنا کہ انانیت وتکبر زیادہ ہو اور مقصد سے محروم ہوجائے۔ اس وجہ سے کہ اس کوچہ میں عجز وانکسار سے کام بنتا ہے۔ لیکن فی المال اتنا کام کرو کہ اسکے استقبال کے لیے باہر چلے جاؤ اور اُسے عزت واکرام کے ساتھ لے جاؤ۔ تین دن تک رسولِ خداﷺ کے حکم کے مطابق اسکی ضیافت کرو اسکے بعد جس طرح میں نے کہا ہے عمل کرو۔ چنانچہ حضرت شیخ نظام الدین حضرت قطب العالم کے حکم کےمطابق باہر تشریف لے گئے اور انکو تعظیم کے ساتھ اپنی خانقاہ میں لے آئے۔ آپکے لیے عمدہ فرش اور جگہ کا انتظام کیا گیا اور تین دن تک ضیافت ہوتی رہی۔ روات ہے کہ جب حضرت شیخ ابو سعید کی حضرت شیخ نظام الدین سے ملاقات ہوئی تو حضرت قطب العالم کی روحانیت انکی نظروں سے غائب ہوگئی۔ چوتھے دن حضرت شیخ حضرت شیخ ابو سعید کو خلوت میں لے گئے اور حضرت قطب العالم کی روحانیت سے جو فرمان ہوا تھا سب انکے سامنے بیان کردیا اور یہ بھی فرمایا کہ وہ شخص جو آپکا ہاتھ پکڑ کر یہاں لے آیا ہے اور جس نے سفر میں آپکے لیے عمدہ مکان اور کھانے وغیرہ کا انتظام کیا وہ آپکے دادا حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ تھے۔ اسکے بعد حضرت شیخ نظام الدین نے انکو شغل بہونکم اور شغل سہ پایہ تلقین فرمایا اور شغل سہ پایہ پر کاص زور دیا۔ یہ فرمایا کہ آپکا کام اسی شغل سے بن جائے گا۔ رات دن یہی شغل کرو اور دوسرے کسی شغل کی طرف توجہ نہ کرو۔ کہتے ہیں حضرت شیخ ابو سعید نے ۱۲سال تک رات دن یہی شغل کیا اور فتح نصیب ہوئی یعنی ذات لاکیف کا شہود حاصل ہوا۔ اس حالت میں جب آپ پر تجلیات صوری اور مثالی کا ظہور ہوتا تو آپ انکی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے بلکہ مقام قلندری کے جویان تھے جو فوق الوصل ہے (یعنی وصل سے اوپر ہے) جیسا کہ کسی عارف نے کہا ہے؎

قلندر آنکہ فوق الوصل جودی قلندر وہ ہے جو مق ام وصل سے بھی اوپر کے مقام کا متلاشی ہے) اس بارہ سال کے عرصہ میں حضرت شیخ ابو سعید سوائے اس جھاگ کے جو آپکے م نہ میں بھرجاتی تھی اور کوئی چیز نہیں کھاتے تھے۔ بارہ سال کے بعد آپ نے حضرت شیخ کی خدمت میں حقیقت حال بیان کی اور یہ عرض کیا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ح صول ذات میرے نصیب میں نہیں ہے۔ حضور نے جو شغل تعلیم فرمایا اس احقر نے اس پر حتیٰ الوسع عمل کیا آب جو فرمان ہو بندہ بجالانے کو تیار ہے۔

روایت ہے کہ حضرت شیخ ابو سعید قدس سرہٗ نے شغل سہ پایہ کو ایک سانس میں تین یا چار سو بار تک پہنچادیا تھا اور اس میں نو دفعہ ذکر اسم ذات کرنے کے بعد ایک تسبیح کا دانہ گراتے تھے۔ اور یہ چیز عاشقانِ جانباز کیلئے مشکل نہیں ہے۔ خصوصاً حضرت شیخ ابو سعید جیسے عاشق کے لیے جنکا جسم روح اور روح عین نور بن چکا تھا کیونکہ بہت سے بزرگان نے شغل حبس دم اس طرح کیا ہے کہ ساری رات میں صرف چار دفعہ سانس لیتے تھے اور بعض حضرات تو رات بھر میں ایک سانس لیتے تھے۔ نقل ہے کہ اخوند ملاشاہ (بدخشی) قدس سرہٗ جو حضرت میاں میر لاہوری قدس سرہٗ کے اکمل خلفاء میں سے تھے نماز عشاء کے بعد حبس دم کرتے تھے (یعنی پہلا سانس لیتے تھے) ور صبح کی نماز کے وقت وہ سانس چھوڑتے تھے۔ خواہ رات بڑی ہو یا چھوٹی اور آپ پندرہ سال تک یہی شغل کرتے رہے ۔ لیکن حضرت شاہ ابو سعید تو سالکین کے سردار تھے آپکے کے لیے رات بھر ایک سانس لینا اور اس ایک سانس میں چار سو مرتبہ اسمِ ذات کا ذکر کر کے شغل سہ پایہ میں مشغول ہونا کیا مشکل تھا۔ بلکہ آپ مجاہدات میں اس قدر بلند مقام پر پہنچ گئے تھے کہ اگر ساری عمر میں ایک سانس لیتے تو انکے لیے کوئی مشکل نہ تھا ساری رات حبس دم کر کے شغل سہ پایہ میں گفدار دینے کا کام تو آپکےمریدین اور مریدین کے مریدن بھی کر سکتے تے۔

حصولِ خلافت ولایت کبریٰ غرضیکہ جب حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی نے حضرت شیخ کے سامنے بیان کیا کہ اس قدر ریاضت و مجاہدہ کے بعد بھی فتح یاب نہیں ہو رہا تو آپ نے فرمایا کہ حصول مقصد میں تمہاری ناکامی کی وجہ تمہارے اعمال واشغال ہیں جس سے تمہارے اندر عجب (پندار یا تکبر) پیدا ہوگیا ہے۔ اب تمہارے درد کی دوا یہ ہے کہ اپ نے نفس کو ذلیل کرو۔ حضرت شیخ کے بیٹوں نے شکار کیلئے چند کتے رکے ہوئے تھے آپ نے حضرت شیخ ابو سعید کو ان کتوں کی خدمت میں پر مامور کردیا تاکہ اس ذلت کی وجہ سے نفس کی انانیت اورم جاہدات وعبادت کا ضرور دفع ہو۔ جب کافی عرصہ تک انہوں نے کتوں کی خدمت بجالائی تو آپکی طبیعت میں کافی فرق آگیا اور نفس کا غلبہ کم ہوگیا۔ ایک دن خوب بارش ہوئی اور کوچہ وبازار اور صحرا کیچڑ سے بر گے۔ اس وقت حضرت شیخ ابو سعید کتوں کی رسیاں ہاتھ میں تھامے جارہے تھے کہ کتوں کی نظر دوسرے کتوں پر پڑی اور اُن پر حملہ اور ہوکر بڑی تیزی اور تندی سے دوڑ پڑے جسکی وجہ سے حضرت شیخ ابو سعید زمین پر گر پڑے لیکن چونکہ آپ نے رسیوں کو ہاتھ میں مضبوط پکڑا ہوا تھا کافی دور تک کتے آپکو پانی اور کیچڑ میں گھسیٹتے رہے جس سے آپکا جسم اور کپڑے گندے ہوگے۔ ا س وقت آپکے دل میں خیال آیا کہ خدا وند! تیرا ایک بندہ شیخ نظام الدین ہے کہ ساری خلقت انکے پاؤں کی خاک کو آنکھوں کا سر مہ بنارہی ہے اور دوسری طرف میں ہوں کہ اس قدر ذلیل و خوار ہوں۔ اس خیال کا دل میں آنا تھا کہ عنایت حق شامل ہوئی اور نورِ سرخ کا ایک ستون عرش سے تحت الثریٰ تک آپ پر جلوہ گر ہوا۔ اسکے بعد وہ نور اطراف عالم میں پھیل گیا اور پھر ایک لطیف نورانی شکل میں متمشل (مشکل) ہوکر آپ سے یوں مخاطب ہوا کہ موسیٰ نے سوال رَبِّ اَرِنِیق کر کے میرے دیدار کی درخواست کی تھی لیکن وہ تیغ لن ترانی سے مجروح ہوا۔ اور محمد مصطفیٰ (ﷺ) نے شب معراج مجھے دیکھکر انی آراۂ (میں نے اُسے یعنی خدا کو دیکھا) کا اقرار کیا۔ لیکن تھے یہ دولت مفت میں مل گئی ہے اسے غنیمت سمجھو اور غم مت کھاؤ۔ جب حضرت شیخ ابو سعید کیلئے یہ خار زار گُل وگلزار میں تبدیل ہوگیا تو حضرت شیخ نظام الدین قدس سرہٗ نے جو اس وقت گھر کی چھت پر بیٹھے تماشا دیکھ رہے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ دیکھو میرے پیر زادہ کو کس عمل سے وصولی الی اللہ حاصل ہوا ہے اور کس طرح خارستان میں اُسکا گُل مقصود کھل کر اُسے عزت دو جہانی حاصل ہوئی ہے چنانچہ آپ نے چند آدمیوں کو بھیجا کہ آپکو اس کیچڑ اور پانی سے نکال کر خانقاہ میں لے آئیں اور چارپائی پر لٹادیں۔ انہوں نے تعمیل ارشاد کی۔ جب حضرت شیخ ابو سعید کو افاقہ ہوا تو آپ نے ساری روئیداد حضرت شیخ کے سامنے بیان کی۔ یہ سُن کر حضرت اقدس بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ولایت محمدی کی ابتدا جو ابتدائے عالم لاہوت ہے تجھے مبارک ہو۔ لیکن ولایت محمدی کی انتہا جو مقام لاہوت کی انتہا ہے ابھی بہت دور ہے۔ فی الحال ان کتوں کی خدمت جاری رکھو اور شغل سہ پایہ بھی حسبِ معمول کرتے رہو۔ فی الحال ان کتوں کی خدمت جاری رکھو اور شغل سہ پایہ بھی حسب معمول کرتے رہو۔ چنانچہ آپ عرصۂ دراز تک اس میں مشغول رہے اور مجاہدات کرتے رہے۔ لیکن جب ان معمولات میں آپکو لذت محسوس ہونے لگی تو آگے ترقی کا راستہ بند ہوگیا [1] ۔ آپ جس قدر کوشش کرتے تھے وہ مقام کہ جسکی طرف حضرت شیخ نے ارشاد فرمایا تھا حاصل نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ آپ نے حضرت شیخ کی خدمت میں عرضداشت پیش کی تو آپ نے فرمایا کہ اب تمہاری بیماری کا علاج یہ ہے کہ تمام ریاضات وجاہدہ چھوڑ دو اور خوب کھاؤ پیو اور آرام کرو اگر دوست نے ریاضت ومجاہدہ پر رحم نہیں فرمایا اور مطلوت حقیقی جو مقامات ولایت محمدی کی انتہا ہے تک رسائی نہیں ہوتی تو شاید تمہاری سستی اور کاہلی پر نظر کر کے تمہارے لیے دروازہ کھول دے۔ چنانچہ شیخ ابو سعید نے ریاضت ومجاہدہ ترک کردیا او رعیش وعشرت کی زندگی بسر کرنے لگے۔ آپ کافی عرصہ تک اسی حال میں رہے۔ آخر ایک رات جب آپ سوے ہوئے تھے تو کسی شخص نے نہایت سریلی آواز میں کچھ گانا شروع کیا اسکا آپ پر ایسا اثر ہوا کہ آپ بے خودی میں غرق ہوگئے اور اس بے خودی کی حالت میں انوار ذات میں سے آپکے دل پر ایسا نور چمکا کہ ’’جمال لی مع اللہ وقت‘‘ آپ پر جلوہ گر ہوا۔ اسکے بعد وہ آدمی نظروں سے غائب ہوگیا۔ جب قدرے افاقہ ہوا تو آپ نے حق تعالیٰ کی بارگاہ میں مناجات کی کہ خداوند مالکا! یہ حالت بعدہٗ مجھے کس طرح حاصل ہوسکتی ہے فرمان ہا کہ جب تیرا انتقال ہوگا جب محبوب حقیقی سےموت کا یہ اشارہ پایا تو آپ اٹھے اور شد و مشد اور تحت و فوق کے ساتھ شگل سہ پایہ میں مشغول ہوگئے [2] ۔ اور اس بات کا مصم ارادہ کرلیا کہ سانس ہرگز نہیں بدلا جائے گا کواہ موت کیوں نہ آجائے (یعنی مرتے دم تک حبس دم کے ساتھ یہ شغلجاری رکھونگا) چنانچہ جب ایک پہر اس طریقے سے گذر گیا تو علام اطلاق (ذات بحت) کا ن ور آپ پر چمکا جس نے آپ کی ہستی کو تاخت و تاراج کر ڈالا اور لی مع اللہ وقت کا راز آپ پر ظاہر ہوا۔ پس مقید (شیخ کا تعین انسانی) ذات مطلق میں مبدل ہوا اور عبد کی جگہ رب نے لے لی جیسا کہ دوانۂ حق وقطب وقت حضرت شیخ مسعود بک قدس سرہٗ نے فرمایا ہے۔

رفت زمسعود بک جملہ صفات بشر

 

چونکہ ہمہ زات بود بازہمان ذات شُد

(مسعود بیگ جملہ وصفات بشری سے آزاد ہوا چونکہ پہلے بھی وہ ذات تھا وہ پھر ذات ہوگیا) یعنی پہلے وہ نظریۂ وحدت الوجود کے مطابق ذاق حق سے علیحدہ نہ تھا اب وہ عرفانی طور پر در حقیقت ذات حق میں گم ہوگیا) جب حضرت شیخ ابو سعید قدس سرہٗ پر اطلاق کا غلبہ ہوا اور قید بشری سے نجات ملی اور لاشعوری کیفیت طاری ہوئی تو آپ نے جو سانس روک رکھا تھا وہ بے اختیاری سے نکل گیا اور ایسا دھکہ لگا کہ جس سے آپکو پہلو پھٹ گیا اور سارا پیٹ خون سے بھر گیا۔ یہ بھی حضرت رسالت پناہﷺ کے نقش قدم پر ایک قسم کا شق صدر تھا [3] ۔ جس سے لوازمات بشری سے آپ بالکل آزاد ہوگئے اور معراج معنوی متحقق ہوگیا۔ اس سے حضرت اقدس آٹھ پہر مگلوب الحال رہے۔ تیسری رات آپکو قدرے افاقہ ہوا تو کیا دیکھتے ہیں کہ پہلو میں سوراخ ہوچکا ہے میرا پہلو راہِ دوست میں پھٹ گیا ہے اور جان دوست پر فدا ہوگئی ہے۔ جب آپ نے حق تعالیٰ کا اس طرح شکر ادا کیا تو ادھر حق تعالیٰ کی طرف سے بلاواسطہ (براہِ راست) فرمان ہوا کہ اسے ابو سعید چونکہ تم نے اپنی جان میری خاطر قربان کردی ہے اب ہم تجھے از سرِ نوزندہ کرتے ہیں اور تجھے صحت عطا کرتے ہیں یہ میری طرف سے دو اہے منہ کھولو اور دوا کھاؤ۔ جب انہوں نےمنہ کھولا تو غیب سے ایک ہاتھ بر آمد ہوا اور آپکے منہ میں دوائی ڈال کر غیب ہوگیا۔ جب آپ نے دوائی کھائی تو ساری تکلیف جاتی رہی اور صحیح وسلامت ہوگئے۔ اسکے بعد حق تعالیٰ کی طرف سے فرمان ہوا کہ کچھ عرصہ مرغی کا گوش کھاؤتاکہ باقی کمی پوری ہوجائے اور صحت کامل حاصل ہو۔ چنانچہ آپ نے چند یوم مرغی کا گوش استعمال کیا جس سے پوری طرح صحت یاب ہوگئے آپکے کمالات کا اسی بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خالق کائنات کے ساتھ آپ کی کیا نسبت تھی۔ جب آپ نے یہ حالات من وعن اپنے شیخ علیہ رحمہ کی خدمت میں عرض کیے تو آپ نے فرمایا کہ ابھی کچھ کسر باقی رہ گئی ہے اور کمالات نبوی میں سے کچھ حصہ ابھ ی تم نے طے کرنا ہے۔ چند یوم مزیدہ مجاہدہ کرو تاکہ سیر نزولی [4] کی حقیقت تم پر جلوہ گر ہوجائے جیسا کہ تم نے سیر عروجی طے کی ہے۔ چنانچہ حضرت شیخ نے آپکو مراقبہ ہوا (شغل ٹکٹکی) کرنے کا حکم فرمایا۔ جب اس مراقبہ میں آپ شب وروز مشغول ہو ئے تو آپکے جسم نے روح کی صفت اختیار کرلی بلکہ عین نور تنزیہی ہوگئے ایک دفعہ نصف شب کے وقت آپ اس مراقبہ میں مشغول تھے کہ اچانک بے خودی کی حالت طاری ہوگئی۔ اس وقت آپ کو ایسا معلوم ہوا کہ ایک بڑا مور جسکا پورا وجود نورِ سرخ کا تھا م لک احدیت سے پرواز کر کے آپکے ہاتھ پر بیٹھ گیا اور کہا کہ میں ہوں احمد بلامیم۔ اسکے بعد ا س امور کی دائیں آنکھ سے ایک نوری صورت نور سفید کے گھ وڑے پر سوار اور بائیں آنکھ سے ایک نورانی شکل سیاہ وسفید گھوڑے پر سوا ر وکر باہر آئی اُس وقت آپکو یہ معلوم ہورہا تھا کہ پہلی صورت ذات پاک حضرت رسالت پناہﷺ ہے اور دوسری آپکے مرشد کی حقیقت ہے۔ وہاں آپ نے ایک محل دیکھا جو یاقوت احمر سے بنا ہوا ہے اور اس کی شعائیں آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہیں۔ اس محل کے دو دروازے تھے۔ ایک شریعت کا دوسرا طریقت کا۔ اسکے بعد وہ دونوں ورتیں یعنی آنحضرت ﷺ کی صورت اور آپ کےمرشد پاک کی صورت آپ کو طریقت کے دروازہ کے ذریعے محل کے اندر لے گئیں۔ اس م حل کے اندر ایک تخت تھا جو نور سرخ سے بنا ہوا تھا اور اسکی شعائیں چاروں طرف پھیل رہی تھیں۔ چنانچہ آپکو اس تخت پر بٹھایا گیا۔ اسکے بعد آنحضرتﷺ کے فرمان کے مطابق آپ کےشیخ نے آپکو ایسی خلعت خلافت نبوی زیب تن کرائی جو اللہ نور السمٰوٰت والارض کے نقوش سے منقش تھی۔ اسکے بعد عالمِ ارواح کی تمام روحوں نے آپ کو مبارک باد دی۔ اسکے بعد آپ کی دا یں آنکھ کے سامنے شکل آفتاب بائیں آنکھ کے سامنے شکل ماہتاب اور سامنے کی جانب کئی شمعیں ظاہر ہوئیں۔ جس سے آپکے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ کیا صورتیں ہیں۔ اس پرآنحضرت ﷺ کی روحانیت نے روشن ضمیری سے آپکی دل کی بات معلوم کر کے فرمایا کہ شکل آفتاب شیخ محمد صادق بن شیخ فتح اللہ گنگوہی ہے جو تمہارا خلیفہ جانشین ہوگا اور شکلِ ماہتاب شیخ ابراہیم رام پوری ہے جو خلافت سےمشرف ہوگا۔ اور مختلف شمعوں کی صورتیں تمہارے دوسرے خلفاء اور مریدین ہیں۔ جب حضرت شیخ ابو سعید کو آنحضرتﷺ کی طرف سے یہ بشارت ملی تو سجدۂ شکر میں گر گئے۔ اسکے بعد آپ کےمرشد نے آنحضرتﷺ سے تاج ولایت محمدیہ لیکر آپکے سر پر رکھا اور آنحضرتﷺ سے رخصت حاصل کر کے آپکو محل کے دروازۂ شریعت کے ذریعے باہر لائے۔ اسکے بعد حضرت لاکیف (ذات احدیت) اور بے شکل وبے مژال نے پردۂ غیب سے ظاہر ہوکر بحیثیت اصالت آپ پر ایسی جلوہ گری کی کہ آپ کے ہوش جاتے رہے اور بارہ دن آپکا جسم مبارک مردۂ بے جان کی طرح پڑا رہا۔ اگر حضرت شیخ اہل خانقاہ کو پہلے سے آگاہ نہ کرتے تو وہ لوگ آپکو مردہ سمجھ کر دفن کردیتے۔ جب بارہ دن کے بعد آپکو افاقہ ہوا تو آپ نے حضرت شیخ کی خدمت میں ماجرا بیان کیا۔ اس عجیب وغریب واقعہ سے جو در اصل تجلی ذاتی تھی اور فصل ووصل سے منزہ تھی حضرت شیخ پر محویت طاری ہوگئی اور تشبیہہ سے تنزیہہ سے پیوست ہوگئے اگر چہ تین پہر کے بعد حضرت شیخ کو کچھ افاقہ ہوا تاہم یہ حالت تین دن تک طاری رہی۔ جب پوری طرح آپ عین سے علم (عین الیقین سے علم الیقین) کی طرف آئے تو حضرت شیخ ابو سعید پر نواز شات کی بارش کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ طاؤس نوری (نور کا مور) جو تم نے دیکھا تھا حضرت رسالت پناہﷺ کی نبوت مطلقہ کی صورت تھی اور وہ شکل جو مور کی دائیں آنکھ سے ظاہر ہوئی آنحضرتﷺ کی نبوت مطلقہ کی صورت تھی۔ اور وہ شکل جو اسکی بائیں آنکھ سے ظاہر ہوئی دوسرے اولیاء اور انبیاء کی ولایت مطلقہ کی حقیقت تھی جو آپکو دکھائی گئی۔ اور وہ محل جو تم نے دیکھا قصر عشق تھا اور دروازۂ طریقت کے ذریعے اندر جانے کا مطلب یہ تھا کہ مشہودِ ذات میں تمہارا عروج یا بالفاظ دیگر تمہارا شہودِ عروجی بطریق جذب تھا جو خاصۂ ولایت انبیاء ہے اور اس محل سے دروازہ شریعت کے ذریعے باہر آنے کا مطلب ہ ہے کہ تمہارا شہودِ نزولی کمالات نبوی سے وابستہ ہے۔ چنانچہ اسی کے مطابق تجھے حضرت رسالت پناہﷺ اور جمیع مشائخ کی جو خلافت ونیابت عنایت ہوئی ہے۔ یہ آنحضرت ﷺ کی جانب سے تجھے خلافت کبریٰ عطا ہوئی ہے اسکے بعد حضرت شیخ نظام الدین قدس سرہٗ نے سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کی متابعت میں اپنی طرف سے بھی مشائخ عظام کی امانت مع خرقۂ خلافت واسم اعظم آپکے حوالہ کیا اور نائب کل بنا اور جانشین مطلق مقرر فرمایا اور گنگوہ بھیج دیا جو آپکا آباؤ اجدائی وطن تھا۔ حاجب مراۃ الاسرار لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ ابو سعید کو حضرت شیخ حمید الدین سے بھی خلافت تھی جو حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی قدس سرہٗ کی ساتویں پشت میں تھے۔

غرضیکہ حضرت شیخ ابو سعید اپنے پیر حضرت نظام الدین بلخی قدس سرہٗ سے نعمت دو جہانی حاصل کر کے بلخ سے گنگوہ تشریف لائے اور حضرت شیخ کے حکم کےمطابق مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے۔ لیکن اپنے آپکو چھپانے کی خاطر آپ کتان (اعلیٰ کپڑا) کا لباس زیب تن فرماتے تھے اور لوگوں کی ہدایت کی طرف کم متوجہ ہوتے تھے۔

حضرت شیخ محمد صادق کا مرید ہونا اس زمانے میں حضرت شیخ محمد صادق بن شیخ فتح اللہ گنگوہی کی عمر چودہ پندرہ سال تھی اور بڑے حسین وجمیل تھے۔ ایک دن انکا گذر حضرت شیخ ابو سعید کی خانقاہ میں ہوا انکو دیکھتے ہی حضرت شیخ نے فرمایا کہ مجھے اپنے نعمت کےآثار اس بچے کی پیشانی میں نظر آرہے ہیں۔ چنانچہ آپ نے ایک نظر سے انکا دل مسخر کرلیا اور وہ کمال عجز ودنیاز کے ساتھ بیعت سے مشرف ہوگئے۔ حضرت شیخ کے حسن تربیت سے۔ قلیل مدت میں مرتبہ تکمیل وارشاد کو پہنچ کر آپ ہدایت خلق میں مشغول ہوگئے اسکی تفصیل اپنی جگہ پر آرہی ہے۔

جب حضرت شیخ محمد صادق کو یہ کمالات حاصل ہوئے تو آپکی ولایت کا شہر ہ اطراف عالم میں بلند ہوا اور طالبان راہِ حقیقت ہر طرف سے آستانۂ عالیہ پر حاضر ہونے لگے۔ خلق کثیر آپکے فیض سے بہرہ مند ہوئی اور ایک جہان آپکا گردیدہ ہوگیا۔ کافی لوگ مرتبہ تکمیل وارشاد تک پہنچے۔ چنانچہ آپکے بعض خلفاء کے اسمائے گرامی کتاب ہذا م یں بیان کیے جائینگے۔

مجاہدات کا ادنیٰ نمونہ اس فقیر نے اپنے مشائخ سے بطریق تواتر سُنا ہے کہ ایک دفعہ کسی شخص نے حضرت قطب الاقطاب شیخ ابو سعید قدس سرہٗ سے دریافت کیا کہ ح ضرت قطب العالم شیخ عبدالقدوس حنفی نے کسی قسم کا ریاضت ومجاہدہ کیا۔ آپ نے جواب دیا کہ جب سردی کا موسم آئے تو اُس وقت دریافت کرنا میں تجھے جواب شافی دونگا اور حضرت اقدس کے مجاہدات کا نمونہ دکھاؤں گا۔ جب سردی کاموسم آیا تو اس شخص نے آپکی خدمت میں یاد دہانی کرائی۔ آپ نے فرمایا چالیس مٹکے پانی سے بھر کر ہوا میں رکھو۔ لوگوں نے حکم کی تعمیل کی۔ دوسرے روز آپنے سائل کو طلب کیا اور فرمایا کہ دو تین آدمی جمع ہوکر کھڑےہوجاؤ۔ جب میرے سر کی چوٹی سے دھواں نکلنا شروع ہو تو پانی کےپیالے بھر بھر کر میرے سر پر ڈالتے رہنا اس کےبعد حضرت اقدس نے شغل حبس دم کر کے سانس کو ام الدماغ (سر کی چوٹی) میں بند کردیا۔ اور مراقبۂ اطلاق اور ذات بے کیف میں چلے گئے۔ کچھ دیر کےبعد آپکے سر سے بلکہ سارے جسم سے سرخی مائل سیاہ رنگ کا دھواں نکلنا شروع ہوا جس سے آپکا سارا جسم شعلۂ آتش بن گیا۔ یہ دیکھ کر ان لوگوں نے آپکے سر پر پانی ڈالنا شروع کیا حالانکہ سردی سخت تھی ہوا تیز اور برف جم رہی تھی۔ جب آپ کے جسم پر پانی گرتا تھا تو آپکے باطن کی حرارت اس قدر تیز تھی کہ جونہی پانی آپ پر گرتا تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جلتے ہوئے توے پر پانی پڑ رہا ہے آن کی آن میں پانی خشک ہوجاتا ا ور زمین پر ایک قطرہ بھی نہیں گرتا تھا۔ اسی طرح چالیس مٹکے آپ کے سر پر گرائے گئے اور انکا سارا پانی آپ کے جسم پر جذب ہوگیا۔ اسکے بعد آپ نے سانس باہر نکالا اور سر اٹھاکر فرمایا کہ حضرت قطب العالم کی ایک ادنیٰ ریاضت یہ ہے جو تم نے دیکھی اعلیٰ ریاضت تو بیان نہیں آسکتی۔

ایک عجیب و غریب مشاہدہ احقر راقم الحروف نے مشائخ سے یہ روایت بھی تواتر کے ساتھ سُنی ہے کہ ایک دن حضرت شیخ ابو سعید قدس سرہٗ غسل فرمارہے تھے اور حضرت شیخ محمد صادق آپکے سر پر پانی ڈال رہے تھے۔ عین اسی وقت حضرت شیخ محمد صادق کو ایک مشاہدہ ہوا وہ یہ تھا کہ حضرت شیخ ابو سعید کے جسم سے پانی کا جو قطرہ گرتا تھا ایک حسین و جمیل اَمَرد (بے ریش) نوجوان کی صورت اختیار کرلیتا تھا اور آسمان کی طرف پرواز کر جاتا تھا۔ حتیٰ کہ انکی ن ظر سے غائب ہوجاتا تھا۔ حضرت شیخ محمد صادق نے حضرت شیخ سے اس واقعہ کی ح قیقت دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ چونکہ حق تعالیٰ نے تجھے یہ کشف عطا فرمایا اب میں تجھے بتاتا ہوں کہ عشق میں ایک مقام ہے کہ جسےدارلاسرار کہتے ہیں۔ اور ہزاروں سالکین میں بہت تھورے اس مقام سے واصل ہوتےہیں۔ جو شخص اس مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے اسکی علامت یہ ے کہ جو چیز اسکے جسم سےمساس کرتی ہے وہ عالم معنی (باطن) میں ایک مثالی صورت میں متشکل ہوجاتی ہے نہ کہ اس جہان کی جسمانی صورت میں۔ اور وہ صورت صاحبِ بصریت حضرات کی نظر صورت صبیح (سفید رنگ کا محبوب) یا صورت ملیح (سانوےرنگ کا محبوب) میں نظر آتی ہے۔ اب چونکہ میں اس وقت انوار بےکیف کےشہود میں تھا جو پانی میرے جسم کو لگ کر گرتا تھا روح کی طرح نور بے کیف میں آکر خوبصورت شکل اختیار کرلیتا اوراپنی اصل (عالم قدس) کی طرف رجوع کرتا تھا پس یہ صورت مثالیہ جو تم نے دیکھی انوار سرخ ذاتیہ کے تعینات تھے جو حق تعالیٰ کے فضل سے تم پر ظاہر ہوئے یہ اقلیم لاہوت میں رسائی کی ابتدا ہے جو تمہیں مبارک ہو۔ حضرت شیخ ابو سعید کے کمالات اور کرامات اظہر من الشمس ہیں۔ آپکی عمر دراز تھی۔ جب وصال کا وقت آیا تو آپ نے مشائخ کی امانت مع اسم اعظم وخرقۂ خلافت وسجادگی حضرت شیخ محمد صادق گنگوہی حنفی قدس سرہٗ کے سپرد فرمائی اور جان ناز میں شہود جان نا میں نثار کردی۔ آپکا مزار قصبۂ گنگوہ شریف میں اپنے آبا واجداد کے آستانہ میں زیارت گاہ ومشکل کشائے خلائق ہے۔ آپکا سن وفات نظروں سے نہیں گذرا۔ رحمۃ اللہ علیہ۔

خلفاء حضرت شیخ ابو سعید قدس سرہٗ کے خلفائے صاحب کمال و تکمیل بہت تھے۔ جن میں سے بعض حضرات کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔

[1] ۔ سلوک الی اللہ میں اس قسم کی رکاوٹ کو ’’حجاب‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یعنی جب سالک طالب لذت ہوجاتا اور طالب مولانا نہیں رہتا۔ اس سے پہلے دو قسم کے حجابات راستے میں حائل ہوتے ہیں اور حجابات نوری کشف وکرامات سے حائل ہوجاتے ہیں۔

[2] ۔ یاد رہے کہ شغل سہ پایہ کرتے وقت یہ شعر ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔

برزخ و ذات وصفات وشدو مد و تحت وفوق مے نماید طالباں را کُلَّ یَوِْ ذوق وشوق

یعنی اس شغلکے وقت برزخ یا تصور شیخ ہو اور ذات وصفات الٰہی سے سالک اپنے آپکو متصف کرلے تو ہر لحظہ نیا ذوق وشوق پیدا ہوتا ہے۔ غرضیکہ شغل سہ پایہ میں برزخ شیخ اور ذات وصفات میں فنا کا تصور قائم کیا جاتا ہے۔

[3] ۔ شق صدر سے وہ واقعہ مراد ہے جب رسول خداﷺ کا فرشے نے سینہ مبارک چاک کیا اور بشری آلاتش سے پاک کیا۔

[4] ۔ سیر نزولی سے مراد فنافی اللہ کے بعد سیر من اللہ کے ذریعے مقام دوئی یا کثرت میں واپس آکر منصب خلافت کا انجام دینا ہے۔ یہ مقام عبدیت ہے جو خاصہ ہے آنحضرتﷺ کا۔ اس مقام پر سالک سکرو استغراق سے نکل کر صحو اور ہوشیاری میں واپس آتا ہے اور تمام فرائض زندگی ادا کرتا ہے یہ تکمیل بشریت ہے اور بلند ترین مقام ہے۔

(قتباس الانوار)

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی