امام محمد تقی رضی اللہ عنہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:محمد۔ کنیت: ابو جعفر۔لقب :تقی، جواد، قانع، مرتضیٰ۔سلسلہ نسب اسطرح ہے: امام محمد تقی بن امام علی رضا بن امام موسیٰ کاظم بن امام محمد جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن حضرت علی بن ابی طالب۔آپ کی والدہ کا اسم گرامی ریحان یاسکینہ یا خیزران تھا۔(رضی اللہ عنہم اجمعین)
تاریخِ ولادت: آپ 10رجب المرجب/195ھ،بمطابق /اپریل 811ء کو مدینۃ المنورہ میں پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم: خاندانی روایت کے مطابق آپ نے تمام علوم ِ ظاہری وباطنی کی تحصیل اپنے والدِ گرامی اور دیگر شیوخ سے فرمائی۔آپ اپنے وقت کے علماءو مشائخ میں علم وعمل،اور ہرلحاظ سے ممتازتھے۔شواہد النبوت میں ہے: کہ امام حضرت امام تقی رضی اللہ عنہ صغرسنی میں علم وادب اور فضل میں اس قدر ترقی کر چکے تھے کہ اس زمانے میں کسی کو ایسے ظاہری وباطنی کمالات حاصل نہ تھے۔
بیعت وخلافت: آپ اپنے والدِ گرامی حضرت امام علی رضا رضی اللہ عنہ کےجانشین وخلیفہ تھے۔
سیرت وخصائص:امام الاولیاء والاصفیاء،ساداتِ کرام کے نیرعظیم ،خانوادۂ نبوت کے سراج منیر ابوجعفر حضرت امام محمد تقی جواد رضی اللہ عنہ۔آپ آئمۂ اہلِ بیت کے نانویں امام ہیں۔آپ حسن جمال وعلمی کمالات اور جملہ خصائل میں مثل آباء کرام رضی اللہ عنہ کے تھے، بڑے عالم، بڑے عاقل، بڑے حاضر جواب اور صاحبِ کشف و کرامات تھے، خورد سالی میں مراتبِ امامت کو پہنچے، اِن کے فیض باطن سے بہت لوگ مستفیض ہوئے، خلیفہ مامون الرشید اِن کی کمال تعظیم و توقیر کرتا تھا، جس قدر اِن کے علم و فضل و کمالِ عقل اور فہم و فراست کی حقیقت اُس پر کھُلتی گئی، اُسی قدر وہ تعظیم و تکریم میں مبالغہ کرتا گیا، آخر اپنی بیٹی امّ الفضل سے اِنکا نِکاح کر دیا، اور ہزار دینار خرچ سالانہ آپ کو نذرانہ پیش کرتا رہا۔ ایک بار خلیفہ مامون نے قاضی یحییٰ بن اکثم رحمۃ اللہ علیہ سے جو متبحر عالم تھا، اِن کا مناظرہ کر وایا، جس میں وہ نہایت لاجواب ہَوا، اور اِن کو نمایاں فتح ہوئی، اور اراکینِ دولت و اعیانِ سلطنت کی طرف سے احسنت احسنت کے آوازے آنے لگے۔
روحانی قوت وتصرف کایہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آپ مدینۃ المنورہ جارہے تھے۔ جب کوفہ پہنچے شام کے وقت مسجد میں قیام فرمایا۔ مسجد کے صحن میں ایک بیری کادرخت تھا جو بالکل خشک تھا۔ آپ نے پانی کا کوزہ منگواکراس درخت کے نیچے وضو کیا اور مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی۔ اس کے بعد آپ اس درخت کے نیچے پہنچے،تو دیکھا کہ بغیر گٹھلی کے درخت پر پھل آگیا اور لوگوں نے تازہ اور میٹھا پھل بطور تبر ک حاصل کیا اور کھایا،اور بعدمیں بطورِ تبرک لوگ اس سے پھل لیجاتے تھے۔اسی طرح جب خلیفہ مأمون فوت ہواتو امام موصوف نے فرمایا کہ میری وفات مامون کی وفات کے تیس ماہ بعد ہوگی۔ چنانچہ یہی ہوا کہ مامون کی وفات کےتیس ماہ بعد امام صاحب کا بھی وصال ہوگیا۔(بارہ امام: 202)
وصال: آپ کا وصال 6/ذوالحجہ220ھ،بمطابق نومبر/835ء کوہوا۔آپ کی قبرانور (بغداد شریف،عراق) میں اپنے جدمکرم حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کے مقبرے میں ہے۔
ماخذومراجع: اقتبا س الانوار۔خزینۃ الاصفیاء۔ شواہدالنبوت ۔بارہ امام۔