Biography Mujaddide Alf Saani Imam e Rabbani Shaikh Ahmed مجدد الف ثانی شیخ احمد سرھندی

نام ونسب وکنیت

“`امام ربانی مجدد الف ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا نام مبارک: احمد، کنیت: ابو البرکات اور لقب: بدر الدین ہے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی اولاد میں سے ہیں شیخ احمد بن عبد الاحد زین العابدین فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ مجدد الف ثانی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ در اصل ان کا خطاب ہے جو اتنا مشہور ہوگیا کہ اصل نام تاریخ و تذکرہ کی کتابوں میں بہت ڈھونڈنے کے بعد ملتا ہے ۔ حضرت امام ربّانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی علیہ الرحمۃ والرضوان کی ولادت جلال الدین اکبر بادشاہ کے دور میں سرہند میں ہوئی۔ علوم عقلیہ و نقلیہ میں سند فراغ ۹۸۸ھ میں حاصل کی ۱۰۰۷ ھ میں آپ کے والد ِ بزرگوار شیخ عبدالاحد علیہ الرحمۃ کا وصال ہوا ۔ سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت شیخ کمال کیتھلی علیہ الرحمۃ سے نسبت حاصل کی ۔ ۱۰۰۸ھ میں دہلی تشریف لا کر ، زبدۃ العارفین حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہو کر انتہائی کمال حاصل کیا اور اسی سال حضرت شاہ سکندر کیتھلی (نبیرہ شیخ کمال کیتھلی) نے حضرت غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کا خرقہ خلافت حضرت مجدد کو عطا کیا۔ عہد اکبری اور جہانگیری میں مسندِ اقتدار سے لے کر عوام کے انتہائی پسماندہ طبقے تک اور سری لنکا کے ساحل سے لے کر آسام تک ، بحیرہ عرب کے جنوبی مسلم علاقوں سے لے کر چین کی سرحدوں تک، حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے جو رشد و ہدایت کی شمع فروزاں کی اس سے متذکرہ علاقوں کے علاوہ پورا عالمِ اسلام منور ہوا۔ سلطنتِ مغلیہ کے مقتدر ایوانوں اور عام مسلم گھرانوں میں آپ کے تجدیدی کارناموں کے باعث لاکھوں افراد کامیاب اور راہ یاب ہوئے ۔ آپ کی بے باکی، بے خوفی اور بے غرضی کو دیکھ کر قرونِ اولیٰ و ثانیہ کے مسلمان صحابہ و تابعین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ طویل عرصہ زنداں میں اسیر (جیل میں نظر بند) رہنے کے باوجود آپ کے پائے ثبات متزلزل نہیں ہوئے۔ اپنے وصال کی خبر آپ نے دس برس قبل ہی دے دی تھی، جوکہ آپ کی کرامت ہے۔ آپ کے زمانہ میں مشہور علماء حضرت محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ ، پیر طریقت حضرت خواجہ حسام الدین نقشبندی علیہ الرحمۃ اور امام المتکلمین حضرت علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی علیہ الرحمۃ تھے۔ آپؒ کے منتخبہ ارشادات پیش ہیں :


 عقائد و اعمال سے


پیدائش

“`حضرت سیِّدُنا مجدّدِ اَلف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی نقشبندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کی ولادت باسعادت ہِند کے مقام “سرہند” میں 971ھ / 1563ء کو ہوئی۔“`

ولدیت

“`حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے والد ماجد“` *حضرت سیِّدُنا شیخ عبد الاحد فاروقی چشتی قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی* “`جید عالم دین اور ولیِ کامل تھے۔“`

تعلیم و تربیت

جب آپ پڑھنے کے قابل ہوئے تو آپکے والد بزرگوار حضرت شیخ عبدالاحد رحمةاللہ علیہ نے آپکو قرآن مجید کے حفظ میں مشغول فرمایا آپ نے تھوڑی ہی مدت میں حفظ قرآن کا شرف پایا بعدازاں اپنے والد بزرگوار ہی سے ظاہری علوم کی تحصیل کرنے لگے اور چند روز کی توجہ سے کمال فتح و کشادگی نصیب ہوگئ آپ نے سترہ برس کی عمر میں تمام علوم سے فراغت پائ

شادی مبارک

جن دنوں میں آپ تھانیسر میں تشریف فرما ہوئے اس سے قبل شیخ سلطان کو خواب میں نبی کریمؐ کی زیارت کا شرف نصیب ہوا تھا جسم میں آنحضرتؐ نے شیخ سلطان رح سے ارشاد فرمایا

تمھاری بیٹی اس زمانے میں سب سے زیادہ نیک خاتون ہے تم اسکا نکاح میرے فرزند اور نائب شیخ احمد رحمةاللہ علیہ سے کردو اس میں تمھارے لئے اور تمھاری بیٹی کے لئے بڑی سعادت ہے

چنانچہ تقریباً 988ھ میں آپکا عقد مسنون ہوا

آپ اپنے والد بزرگوار حضرت شیخ عبدالاحد رح کی حیات تک سرہند شریف میں انہی کی خدمت میں رہے جب وہ دنیائے فانی سے رخت سفر باندھنے لگے تو آپکو خرقہ خلافت عطا فرمایا

حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ کی بیعت

آپ حضرت خواجہ رح کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپ سے ارشاد فرمایا کہ

اگرچہ آپ اس مبارک سفر کا ارادہ رکھتے ہیں پھر بھی چند روز ہمارے ہاں فقرا کی صحبت میں رہیں تو کیا حرج ہے؟ کم از کم ایک ماہ یا ایک ہفتہ ہی سہی

تو آپ نے ایک ہفتہ خانقاہ باقویہ میں مقیم رہنے کا عزم فرمایا لیکن شیخ کامل کی شفقت و عنایت کا معاملہ یوں وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا کہ آپ دو اڑھائ ماہ تک یہاں قیام پزیر رہے

آخر میں آپ نے حضرت خواجہ قدس سرہ سے بیعت کے لئے عرض کیا انہوں نے فوراً بغیر استخارہ کے آپکو بیعت فرما لیااور خلوت میں طلب فرما کر توجہ فرمائ اسی وقت آپکا قلب جاری ہوگیا اور حلاوت و لذت پیدا ہوگی

اولاد

“`آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے سات شہزادے اور تین شہزادیاں تھیں۔“`

تعلیم و تربیت

“`حضرت سیِّدُنا مجدّدِ الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے اپنے والد ماجد شیخ عبد الاحد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کئی علوم حاصل کیے۔ والد ماجد کے علاوہ دوسرے اساتذہ سے بھی تعلیم حاصل کی۔ حضرت سیِّدُنا مجدّدِ الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے 17 سال کی عمر میں علومِ ظاہری سے سندِ فراغت پائی۔“`

شوقِ تلاوت

“`حضرت سیِّدُنا مجدّدِ الف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی سفر میں تلاوتِ قراٰنِ کریم فرماتے رہتے، بسا اوقات تین تین چار چار پارے بھی مکمّل فرما لیا کرتے تھے۔ اِس دوران آیتِ سجدہ آتی تو سواری سے اتر کر سجدہ تلاوت فرماتے۔“`

تصانیف

“`آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی تصانیف میں سے فارسی “مکتوبات امام ربّانی” زیادہ مشہور ہوئے۔ اِن کے عربی، اردو، ترکی اور انگریزی زبانوں میں تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں۔

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے چار رسائل کے نام مُلاحَظہ ہوں:

  • (۱) اِثْباۃُ النُّبُوَّۃ۔
  • (۲) رِسالہ تَہْلِیْلِیَّہ۔
  • (۳) معارفِ لَدُنِّیَّہ۔
  • (۴) شرحِ رُباعیات۔“`
  • ماخوذ از مکتوبات حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمةاللہ تعالی علیہ۔
  • مکتوب 110

دفتر اول

حصہ دوم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بشیخ صدرالدین صدور یافتہ در بیان آنکہ مقصود از خلقت انسانی ادائ وظائف بندگیست و کمال اقبال است بجناب حق سبحانہ و تعالی۔

حق سبحانہ و تعالی بمنتہائ (بہ نہایت) متمنائ (آرزو) ارباب کمال رساند، مقصود از خلقت انسانی ادائ وظائف بندگیست و دوام اقبال است بجناب حق سبحانہ و تعالی و این معنی بے متحقق شدن بکمال اتباع سید اولین و آخرین ظاہرا و باطنا “علیہ من الصلوات اتمھا و من التحیات ایمنھا” میسر نیست رزقنا اللہ سبحانہ و ایاکم کمال اتباعہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم قولا و فعلا ظاہرا و باطنا عملا و اعتقادا آمین یا رب العالمین۔

بعد از خدائے ہرچہ پرستند ہیچ نیست

بیدولت است آنکہ بہیچ اختیار کرد

ہر چہ غیر از حق سبحانہ مقصود است معبود است ، از عبادت غیر وقتی نجات یابد کہ غیر از خداوند جل و علا مقصودے نماند اگرچہ از مقاصد اخروی و تنعمات بہشتی باشد، ہر چند این مقاصد از حسنات است اما نزد مقربان از سیئات است، ہرگاہ در امور اخروی حال بدین منوال باشد،

از امور دنیویہ چہ گوید کہ دنیا مغضوبہ حق است سبحانہ و تا آفریدہ است ہرگز بجانب او نگاہ نکردہ و حب او سر گناہان است و طالبان آن مستحق لعن و طرد اند ” الدنیا ملعونة و ملعون ما فیہا الا ذکراللہ تعالی نجانااللہ سبحانہ عن شرھا و شر ما فیھا بحرمة حبیبه محمد سید الاولین والآخرین علیہ الصلوات والسلام وآلہ الکرام۔

ترجمہ :

ماخوذ از مکتوبات حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمةاللہ تعالی علیہ۔

مکتوب 110

دفتر اول

حصہ دوم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ صدر الدین کی طرف صادر فرمایا۔۔۔۔۔۔۔ اس بیان میں کہ انسان کی پیدائش سے مقصود طاعت و عبادت کے وظائف کی ادائیگی اور حق سبحانہ و تعالی کی جانب پورے طور پر توجہ رکھنا ہے۔

حق سبحانہ و تعالی ارباب کمال کی تمنائوں کے اعلی مرتبہ تک عروج عطا فرمائے۔ انسان کی پیدائش سے مقصود طاعت و عبادت کے وظائف کی ادائیگی اور حق سبحانہ و تعالی کی طرف کامل طور پر دائمی توجہ رکھنا ہے اور یہ بات سید اولین و آخرین علیہ من الصلوات اتمہا و من التحیات ایمنہا کی ظاہری و باطنی کامل تابعداری کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی ۔ رزقنا اللہ سبحانہ و ایاکم کمال اتباعہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم قولا و فعلا ظاہرا و باطنا عملا و اعتقادا آمین یا رب العالمین۔ ( یعنی : حق تعالی ہم کو اور آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل ظاہر و باطن اور عمل و اعتقاد میں کامل پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین)۔

بعد از خدائے ہرچہ پرستند ہیچ نیست

بیدولت است آنکہ بہیچ اختیار کرد

یعنی : بجز سبحانہ و تعالی کے جس کی عبادت کی جائے ہیچ و باطل یے اور جو باطل کی عبادت کرے بڑا بدبخت و نادان ہے۔

حق سبحانہ و تعالی کے علاوہ (آدمی کا) جو کچھ بھی مقصود ہے وہی اسکا معبود ہے ، غیر حق کی عبادت سے اس وقت نجات حاصل ہوتی ہے جب حق جل و علا کےسوا کوئی چیز بھی مقصود نہ رہے۔ خواہ وہ مقاصد آخرت اور بہشت کی لذتیں اور نعمتیں ہی کیں نہ ہوں۔ اگرچہ یہ مقاصد حسنات میں سے ہیں لیکن مقربین کے نزدیک سیئات میں داخل ہیں۔ جب آخرت کے امور کے مقاصد کی نوعیت کا یہ حال ہے تو امور دنیاوی کو مقاصد قرار دینے کی نسبت کیا کہا جاسکتا ہے کیونکہ دنیا حق تعالی کی مغضوبہ (سخت ناپسندیدہ) ہے، اور (حق تعالی نے) جب سے دنیا کو پیدا کیا ہے اسکی طرف ہرگز نہیں دیکھا۔ اسکی محبت گناہوں کی بنیاد ہے اور اسکا چاہنے والا لعنت و پھٹکار کا مستحق ہے۔

” الدنیا ملعونة و ملعون ما فیہا الا ذکراللہ تعالی نجانااللہ سبحانہ عن شرھا و شر ما فیھا بحرمة حبیبه محمد سید الاولین والآخرین علیہ الصلوات والسلام وآلہ الکرام”۔

(اللہ تعالی ہم کو اپنے حبیب پاک سید الاولین والآخرین علیہ الصلوات والسلام وآلہ الکرام کے طفیل دنیا کے شر اور اسکے اندر جو کچھ ہے ان سب کے شر سے نجات عطا فرمائے۔ آمین )

مجدد الف ثانی اور ایک بزرگ کا واقعہ

حضرت محبوب سبحانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک بزرگ چشتیہ حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ مجھ کو کئی سال نسبتِ حق میں قبض(طبعی انقباض) تھا، آپ کے حضرت خواجہ باقی باللّٰہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور قبض کی شکایت کی تو حضرت خواجہ کی توجہ و دعاء سے میری حالتِ قبض بسط سے بدل گئی، آپ بھی کچھ توجہ فرمائیں کیونکہ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے تمام خلفاء اور مریدین کو آپ کے حوالے کر دیا ہے، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ میرے پاس تو اتباع سُنّت کے سوا کچھ بھی نہیں، یہ سنتے ہی ان بزرگ پر حال طاری ہوا اور کثرتِ نسبت اور قوتِ باطنی کے اثرات سے سر ہند شریف کی زمین جنبش کرنے لگی، حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک خادم سے فرمایا کہ طاق میں سے مسواک اٹھا لائو، آپ نے مسواک کو زمین پر ٹیک دیا، اسی وقت زمین ساکن ہو گئی اور ان بزرگ کی کیفیتِ جذب جاتی رہی، اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان بزرگ سے فرمایا کہ تمہاری کرامت سے زمینِ سر ہند جنبش میں آگئی، اور اگر فقیر دُعاء کرے تو انشاء اللہ سر ہند شریف کے مردے زندہ ہو جائیں، لیکن میں تمہاری اس کرامت (جنبشِ زمین) سے اور اپنی اس کرامت سے کہ دعا سے سر ہند شریف کے تمام مردے زندہ ہو جائیں،اثناء وضو میں بطریقِ سُنّت مسواک کرنا بد رجہا افضل جانتا ہوں‘‘

(جواہر پارے: از دیباچہ درلاثانی شاہ محمد ہدایت علی جے پوری: ج3،ص706)

صوفی ابوالوقت

ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ؒﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﮔﺌﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﺳﻮﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﺷﺎﯾﺪ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﮐﮯ ﺳﻮﯾﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﺍﺫﺍﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺳﻮﺭ ﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺁﭖ ﻧﮯ ﻏﺼﮧ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺍﭨﮭﻮ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﻐﺮﺏ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﮨﮯ۔۔۔۔۔ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﻭﺿﻮﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﻭ ﺭﮐﻌﺖ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺩﻭ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺁﻭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪ ﻧﯿﺖ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺭﮐﻌﺖ ﺳﻨﺖ ﻭﻗﺖ ﻓﺠﺮ۔۔۔۔۔

ﺳﺐ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻓﺠﺮ ﮐﺎ ﺳﻤﺎﮞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻇﮩﺮ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻇﮩﺮ ﮐﺎ ﺳﻤﺎﮞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﭘﮭﺮ ﻋﺼﺮ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﺼﺮ ﮐﺎ ﺳﻤﺎﻉ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻋﺼﺮ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﯽ ﭘﮭﺮ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﺠﺪﺩ ﺻﺎﺣﺐ ﺁﭖ ﺗﻮ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﻈﺮ ﺗﮭﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﮕﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺣﺎﻝ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺁﭖ ﻟﻮﮒ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ؒﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀﺍﷲ ﻟﻄﺎﺋﻒ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺟﮕﮧ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻓﻘﯿﺮ ﮐﻮ ‏( ﻣﺠﺪﺩ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ‏) ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﮑﮧ ﻣﻌﻈﻤﮧ ،ﺑﻐﺪﺍﺩ ﺷﺮﯾﻒ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﻡ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺐ ﮐﮧ ﻓﻘﯿﺮ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﯿﺎ۔ ‏( ﺍﺯﻣﮑﺘﻮﺑﺎﺕ ﺷﺮﯾﻒ)

نوٹ : (ایسے صوفیاء کو صوفی ابوالوقت کہا جاتا ھے ، یہ زمان و مکان time & space پر دسترس رکھتے ہیں، اور دن کو رات اور رات کو دن بنا سکتے ہیں ، نیز زمان و مکان میں تصرف کر سکتے ہیں )

مجدد الف ثانی کی خوبصورت نصیحت

حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کی خدمت میں ایک شخص بغرض

حصول نصیحت حاضر ہوا.

آپ نے نصیحت کے موتی دیتے ہوئے اسے فرمایا کہ بیٹا نہ کبھی خدا

بننے کی اور نہ کبھی مصطفیٰﷺ بننے کوشش کرنا..

وہ شخص حیرت سے گویا ہوا کہ،

حضور کیا ایسی بدبختی بھی کسی سے سرزد ہوسکتی ہے؟

فرمایا کہ یہ اللہ ہی کی شان ہے کہ فعّال لما یرید

وہ جو چاہتا ہے جیسا چاہتا ہے کرتا ہے.

لہٰذا کبھی اپنے بارے میں یہ گمان ہر گز نہ کرنا کہ تو جو چاہے اور جیسا

چاہے کام تیری مرضی کے موافق ہوجائے..

کام کبھی تیری مرضی کے مطابق ہوگا اور کبھی تیری منشاء کے خلاف

ہوگا کہ یہ صرف شانِ خداوندی ہے کہ ہر کام اس کی منشاء کے مطابق

ہوتا ہے.

اور کبھی مصطفیٰ کریم ﷺ نہ بننے کا مطلب یہ ہے کہ یہ صرف حضور

احمد مجتبٰی محمد مصطفیٰﷺ ہی کی شان ہے کہ جس نے ان کی بات

مان لی وہ مومن ہوگیا اور جس نے ان کی بات رد کردی وہ کافر و جہنمی

ہوگیا..

لہٰذا اگر تو بھی یہ چاہتا ہے کہ تیری ہر بات مِن و عَن تسلیم کرلی جائے..

تیری رائے سے اختلافات نہ کئے جائیں..

تیری بات ہی کو حتمی و یقینی سمجھا جائے..

اور تیرے قول کو رد نہ کیا جائے..

تو سمجھ لے کہ تو اپنے آپ کو مسندِ نبوت پر بٹھانے کے گناہِ عظیم کا

مرتکب ہوچکا.

ایک اہم سوال کا عجیب جواب

جہانگیر بادشاہ نے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مسئلہ دریافت کیا کہ حضور اکرم ﷺ ہر مرنے والے کی قبر میں تشریف لاتے ہیں، مگر ایک ہی وقت میں مرنے والوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہوگی، اور حضور ﷺ کی ایک ذات ہے وہ بیک وقت ہر قبر میں کیسے پہنچ جاتے ہیں اس کی وضاحت فرمائیے، یہ سن کر حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اے بادشاہ آپ دہلی والوں کو حکم دیں کہ وہ میری دعوت کریں، لیکن شرط یہ ہے کہ دعوت ایک ہی دن ایک ہی وقت میں ہو، بادشاہ کے حکم پر بہت سارے لوگوں نے آپؒ کو دعوت دی اور بادشاہ نے بھی اسی دن اسی وقت کی دعوت دی، جب وہ تاریخ وہ وقت آیا تو امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے بادشاہ کی دعوت کھائی اور رات کو وہیں قیام کیا، فجر کے بعد بادشاہ جہانگیر نے دعوت کرنے والوں تمام لوگوں کو بلایا اور پوچھا کہ رات کو امام ربانی ؒ نے تمہارے پاس دعوت کھائی؟ تو سب لوگوں نے اقرار کیا کہ رات حضرت امام ربانی ؒ میرے گھر تشریف فرما تھے، اور آپؒ نے دعوت کھائی یہ ماجرا دیکھ کر بادشاہ حیران ہوا تو امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اے بادشاہ میں تو ان کا ادنیٰ امتی ہوں ہر گھر میں بیک وقت پہنچ سکتا ہوں، تو الله تعالیٰ کے حبیب ﷺ ہر قبر میں کیوں نہیں پہنچ سکتے۔(فیوضات مجددیہ صفحہ 11) سید جاوید علی جیلانی

خلفائے امام ربانی

یوں تو حضرت کے خلفا کی تعداد کئی بتائے گئے ہیں لیکن ان سب میں سب سے زیادہ حضرت حضرت شیخ محمد طاہر بندگی لاہوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نام سب میں نمایا ہے

وصال

“`28 صفرُ المُظَفَّر 1034ھ / 1624ء کو جانِ عزیز اپنے خالقِ حقیقی کے سپرد کردی۔“`

*اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ۔*

“` اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی نمازِ جنازہ آپ کے شہزادے حضرت خواجہ محمد سعید علیہ رحمۃ اللّٰہ المجید نے پڑھائی۔“`

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی