Biography Mujahide Junge Aazadi shaheede watan Gulam Fareed Aazad مولانا غلام فرید آزاد قیصر

مولانا غلام فرید آزاد (قیصر) انقلابی خطیب شاعر و عظیم مجاہد آزادی

ازقلم عرفان نعمانی جاہدی باسنی ناگور راجستھان

ولادت __ آپ کی پیدائش باسنی ناگور کے ایک معزز شریف و علمی گھرانے میں ہوئی، آپکے والد گرامی کا نام حضرت مولانا عبدالکریم صاحب چشتی سلیمانی ہے، جو اپنے عہد کے زبردست عالم با عمل شریف النفس متقی اور صوفی منش بزرگ تھے.

ابتدائی تعلیم:

آپ نے اپنے والد گرامی سے حاصل کی اور عربی فارسی کی کتب و درس نظامی کی تکمیل اپنے تایا استاذالعلماء و الشعراء حضرت علامہ مولانا مفتی امیر احمد پقا علیہ الرحمہ( سابق امام جامع مسجد باسنی) کی درسگاہ سے کی، نیز شاعری میں بھی آپکے استاد حضرت بقا ہی ہیں،
آپکو کمال ذہن، قوت حافظہ، و فطری صلاحیتوں جیسے جوہر منجانب اللہ عطا ہوئے تھے، یہی وجہ ہے کہ بیک وقت اپنے جو خدمات انجام دیں وہ محیر العقول ہونے کے ساتھ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں ___



درس و تدریس :

بعد فراغت اپنے اپنے آبائی وطن باسنی میں رہ کر شوق و ذوق کے ساتھ درس و تدریس کی خدمت انجام دی _ بعد ازاں گجرات کے شہر احمد آباد کو اپنی جائے سکونت بنا کر وہیں بود و باش اختیار کر لی _

منصبِ امامت:

سرخیز مسجد میں آپنے امامت کے فرائض انجام دینا شروع کئے اور کتاب و سنت کے پیغام جاری کرتے ہوئے عوام اہل سنت کے اصلاح عقائد و اعمال کا بہترین و مثالی کام کیا _

یتیم خانہ کا قیام :

آپکو غریبوں کمزورں اور یتیموں سے خاص طور پر لگاؤ تھا، اسی کے پیش نظر اپنے سرخیز میں ایک یتیم خانہ بھی قائم کیا جہاں پر یتیم و بے سہارا بچوں کی تعلیم و تربیت قیام و طعام اور علاج معالجہ کا بہترین انتظام تھا

انقلابی خطیب :

آپ جہاں ایک زبردست عالم و کہنہ مشق استاد شاعر تھے وہیں میدان خطابت کے شہسوار انقلاب آفرین خطیب بھی تھے، آپکی تقریروں کی دھوم مختلف صوبوں، شہروں، گاؤں اور دیہاتوں میں تھی، چنانچہ اس ضمن میں میرے حقیقی ماموں حضرت مولانا غلام احمد صاحب فریدی علیہ الرحمہ امام جامع مسجد بیکانیرنے جو مجھے سنایا وہ عرض کر دیتا ہوں، ایک بار آپکو (مولانا غلام فرید صاحب کو) دردِ گردہ کی شکایت ہوئی
تحقیق سے معلوم ہوا کہ پتھری ہے، اس وقت مشہور زمانہ حکیم اجمل خاں صاحب دہلوی کی حکمت کا بڑا شہرہ تھا، آپ ان سے علاج کرانے کے لئے دہلی تشریف لے گئے، ان سے ملاقات کے بعد مرض کی تشخیص کی گئی دو روز کے بعد دوا دینے اور سخت پرہیز کی تلقین کے ساتھ حکیم صاحب نے تین سو روپے اپنی فیس کے بتائے جسے حضرت نے بخوشی منظور کر لیا، پھر حکیم صاحب نے آپ سے دریافت کیا کہ مولانا آپ کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں تو آپ نے جواباََ کہا کہ اب کہیں ٹھہروں گا فی الحال تو سیدھا آپکے پاس ہی آیا ہوں _ اس پر حکیم صاحب گویا ہوئے کہ آپ اتنی دور سے آئے ہیں، ایسا کریں غریب خانے پر ہی قیام فرما لیں، اتفاق سے اگلے دن جمعہ کا تھااذان جمعہ کے بعد آپ حکیم صاحب کے ساتھ جامع مسجد دہلی میں جمعہ ادا کرنے کی غرض سے تشریف لے گئے، اور وہاں پہنچ کر مسجد ہذا کی منتظمہ کمیٹی کے ایک دو ارکان سے ملاقات کی اور اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ مجھے جمعہ میں بیان کرنے کی اجازت دی جائے _ انہوں نے کہا کہ اجازت دینے کے صرف ہم مجاز نہیں _ لیکن ہاں اگر امام صاحب چاہیں تو وہ اجازت دے سکتے ہیں آپ چاہیں تو ان سے مل لیجئے، تو آپنے فرمایا! *کہ پھر آپ میری امام صاحب سے ملاقات کروا دیجئے _ الحاصل امام صاحب سے دعا سلام و رسمی گفتگو تعارف وغیرہ کے بعد آپنے اپنا معروضہ پیش کرتے ہوئے بیان کی اجازت چاہی، امام صاحب نے بنظر غور آپ کو دیکھا قدرے توقف کے بعد اجازت دینے سے انکار کر دیا، یہ بات حکیم صاحب کو معلوم ہوئی تو وہ حاضر آئے اور امام صاحب سے فرمانے لگے کہ حضرت! یہ میرے مریض ہیں میرے پاس علاج کے لئے آئے ہیں قیام بھی میرے ہیں گھر پر ہے اور چونکہ عالم دین ہیں اس پر بظاہر ایسی کوئی بات مجھے نظر نہیں آتی جو مانع ہو بلکہ مجھے یقین ہے کہ انکی تقریر سے فائدہ ہی ہوگا ان شاء اللہ کوئی نقصان نہیں _لہٰذا میرے خیال میں آپ انہیں اجازت دے دیجئے* _چونکہ حکیم صاحب کی شخصیت با اثر و معزز تھی اس لئے کوئی بھی انکی بات ٹالتا نہیں تھا _ پھر کیا تھا! آپکو بیان کرنے کی امام معین نے بخوشی اجازت دی اس کے بعد آپنے قرآن و حدیث کی روشنی میں وہ بہترین و مثالی خطاب فرمایا کہ عوام کے ساتھ ساتھ مذکورہ امام صاحب بھی نہ صرف از حد محظوظ اور متاثر ہوئے، بلکہ آپکے انوکھے انداز خطابت و نرالے طرز بیان کے گرویدہ ہو گئے، نماز جمعہ سے فارغ ہو کر امام صاحب نے آپکو گلے لگاتے ہوئے حکیم صاحب سے پوچھا کہ یہ مولانا صاحب دہلی میں کب تک ہیں؟ جواب میں حکیم صاحب نے بتایا کہ حضرت.. انہیں تقریباً ایک مہینہ دوا دوں گا اور یہ آئے بھی بڑی دور سے ہیں اس لئے مہینہ بھر رکیں گے، یہ سن کر انہوں نے اعلان کیا کہ جب تک مولانا غلام فرید صاحب دہلی میں قیام پذیر رہیں گے ہر جمعہ حضرت ہی کا خطاب ہوگا، اور حکیم صاحب نے کہا کہ میں نے جتنے پیسوں میں آپکا علاج طے کیا تھا اب اس سے آدھی رقم میں ہی میں آپکو دوا دوں گا، سچ ہی فرمایا سرکار سلطان الہند علیہ الرحمہ نے، رحمت حق بہا نمی جوید
رحمت حق بہانہ می جوید _ تائید ربانی شامل حال ہوئی قدرت کو آپ سے کام لینا تھا اس لئے یہیں سے آپکی زندگی میں ایک عجب موڑ آیا جس نے آپکی طبیعت میں انقلاب پیدا کر دیا جس نے آپ کو خدمت مذہب و ملت کے ساتھ ملک کی تحریک آزادی میں سرگرمی کے ساتھ متحرک کر دیا __

خصوصیات خطاب :

حضرت مولانا غلام فرید آزاد قیصر صاحب کا خطاب جہاں کتاب و سنت کی روشنی میں مدلل و مبرہن ہوتا تھا وہاں حالات حاضرہ پر بھی آپ گہری نظر رکھتے تھے ، چنانچہ آپ اپنے مواعظ میں قوم مسلم کی پسماندگی کے اسباب پر کھل کر گفتگو فرماتے و مسائل کے حل بھی عوام کو بتلاتے اور سجھاتے.

جذبہ خدمت خلق :

آپنے یتیم خانہ کے علاوہ مساجد و مدارس کا قیام ان میں ائمہ و مدرسین کا تقرر، اور انکی ضروریات کا خیال رکھنے والی بہ ضابطہ طور متحرک کمیٹیوں کا نفاذ، فرمایا، بیماروں کے لئے دواؤں بیواؤں کے لئے ماہانہ وظیفہ
کھانا و دیگر ضروریات کا بھی آپ بھرپور خیال رکھتے اور پابندی کے ساتھ ایک عرصے تک پوری محنت لگن کے ساتھ آپ یہ خدمات بھی انجام دیتے رہے، آپ بیباک اور نڈر مقرر تھے لوگ آپکے انداز خطابت کے دیوانے تھے،
سرمایہ دار و مخیر حضرات آپکے شانہ بہ شانہ کھڑے رہ کر رفاہی و فلاحی کاموں میں پیش پیش رہتے، اس طرح آپ نے لوگوں میں خدمت خلق کا جذبہ بیدار کیا اور کام کرنے کے طور طریقے بھی انہیں سکھائے _

تحریک آزادی میں حصہ :

آپنے اپنے انقلابی بیان اور کلام سے نوجوانوں کو بیدار کیاخود بھی تحریک جنگ آزادی میں شریک ہوئے اور انکو بھی رغبت دلائی آپ نے زبان و قلم دونوں سے ہی انگریزی حکومت کی کی پرزور مذمت و مخالفت ہر جگہ ہر اسٹیج پر کھل کر کی _ جس کے نتیجے میں برٹش عہدے داران کی طرف سے آپکو پہلے تو سمجھانے اور میٹنگ کے پیغام آتے رہے لیکن جب آپ نے انکار کیا تو آپکے راستے میں ہر جگہ روڑے اٹکانے کا کام انگریزوں کی طرف سے تیزی کے ساتھ شروع ہوا _ لیکن آپ نے ہار نہیں مانی، بلکہ اپنے کام میں لگے رہے _

بھارت چھوڑو آندولن :

اہل سیاست و لیڈران نے یہ تحریک چلائی تھی جس کا مقصد انگریزی حکومت کے کسی بھی طرح پاؤں اکھاڑ کر اسے ملک چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا _ اس تحریک میں آپنے شاندار کام کیا، سیاسی ریلیاں، جلوس، نکڑ سبھائیں، چوپالیں، دھرنے پردرشن، احتجاجی جلسے وغیرہ غرضیکہ ہر مقام پر آپ ملک کی آزادی کے لیے پوری جد و جہد و سرگرمی کے ساتھ تحریک آزادی میں شامل ہوئے اور بہترین مجاہدانہ کردار ادا کیا _
١٩٤٢ میں گاندھی جی کے بیان "کرو یا مرو” کے بعد کئ ریلیاں نکلی جلوس اور دھرنے پردرشن ہوئے، انگریزوں سے "بھارت چھوڑنے ” کا پرزور مطالبہ کیا جانے لگاآزادی کی شمع روشن کرنے کے لئے مادرِ وطن کے سپوتوں نے سر سے کفن باندھ لئے تھے، ان سب باتوں کو برطانوی حکومت نے نوٹس کیا! یہاں تک کہ بڑی تعداد میں علماء کرام مسلم لیڈران اور مجاہدین آزادی گرفتار کیے گئے ان میں آپکو بھی جیل میں ڈالا گیا _ آزادی کے لیے آپکو متعدد بار مختلف صوبوں اور شہروں کی جیلوں میں صعوبتیں اٹھانی پڑی _ یہ سلسلہ گجرات سے دہلی تک اور پھر کئی صوبوں اور شہروں تک چلتا رہا _ آپ جیل کے اندر بھی اپنے مشن آزادئ ملک کی کی فکر میں رہتے اسی بارے میں سوچتے اور لکھتے _ اس طرح آپنے خلوص و للہیت کے مذہب ملت و وطن کی بے لوث خدمت اپنی آخری سانس تک کی _

شہادت :

  بالآخر ٢٧ اگست ١٩٤٦ میں لاہور جیل میں انگریزوں نے آپ کو پھانسی دے کر شہید کردیا _انا للہ وانا الیہ راجعون، مادر وطن کا یہ سپاہی جس کی عظیم ترین مثالی خدمات اپنے آپ میں ایک دفتر ہیں، تختہ دار کو چومتے ہوئے جاتے جاتے بھی یہ پیغام دے گیا _کہ

شہیدوں کی چتاؤں پر لگیں گے ہر برس میلے
وطن پر مرنے والوں کا یہی باقی نشاں ہوگا

حضرت قبلہ گرامی وقار میرے جد امجد حضرت علامہ مفتی خلیل الرحمٰن صادق الوعد علیہ الرحمہ کے بڑے بھائی ہیں _ یہ چند سطور بہ طور تعارف رقم کرتے ہوئے بھیگی پلکوں سے انکی عظیم قربانی کو یاد کرکے بصد ناز و افتخار اپنے ان اشعار کے ساتھ انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں _
غریبی میں رہے خوش زندگی کے ہنس کے دن کاٹے
منافعے لوگوں کو دے کر کئے برداشت خود گھاٹے
وطن کے واسطے نذرانے جاں کے دے دئیے لیکن
مرے اجداد نے انگریزوں کے تلوے نہیں چاٹے

♦♦♦♦♦♦

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی