راکبِ دوش مصطفےٰ
(حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ)
محمد عبدالماجد عطاری مدنی
ماہنامہ رمضان المبارک 1438
حضرتِ سیّدہ فاطمۃُالزّہراء رضیَ اللہُ تعالٰی عنہَا کے گلشن کے مہکتے پھول،اپنے نانا جان ،رحمتِ عالمیان صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھوں کے نور ، راکبِ دوشِ مصطفےٰ (مصطفےٰ جانِ رحمت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک کندھوں پر سواری کرنے والے)، سردارِ امّت، حضرت سیّدُنا امام حَسَن مجتبیٰ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ کی ولادتِ باسعادت 15رمضان المبارک 3ہجری کو مدینہ طیبہ میں ہوئی۔ (البدايۃوالنہایہ، 5/519)
نام،القابات اورکنیت:آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ کا نام حسن کنیت ”ابو محمد“ اور لقب ”سبطِ رسول اللہ“(رَسُوۡلُ اللہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کے نَواسے)اور”رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل“(رَسُوۡلُ اللہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کے پھول)ہے۔(تاریخ الخلفاء، ص149)
مبارك تحنیک (گھُٹی) : نبیِ اکرم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ کے کان میں اذان کہی۔ (معجم کبیر، 1/313، حدیث:926) اور اپنے لعابِ دہن سے گھٹی دی۔(البدايۃ والنہایہ، 5/519)
شہد خوارِ لعابِ زبانِ نبی
چاشنی گیر عصمت پہ لاکھوں سلام
عقیقہ:نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نےآپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ کے عقىقے میں دو دنبے ذبح فرمائے۔ (نسائی،ص 688، حدیث: 4225)
سرکارکی امام حسن سے محبت: حضورِ اکرم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کوآپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ سے بے پناہ محبت تھی۔ پیارے آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ کو کبھی اپنی آغوشِ شفقت میں لیتے تو کبھی مبارک کندھے پر سوار کئے ہوئے گھر سے باہر تشریف لاتے،آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ کی معمولی سی تکلیف پر بےقرار ہوجاتے، آپ کو دیکھنےاور پیار کرنے کے لئے سیّدتنا فاطمہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہَا کے گھر تشریف لے جاتے۔ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ بھی اپنے پیارے نانا جان صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم سے بے حد مانوس تھے، نماز کی حالت میں پشت مبارک پر سوار ہو جاتے تو کبھی داڑھی مبارک سے کھیلتے لیکن سرکارِ دو عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں کبھی نہیں جھڑکا۔ ایک مرتبہ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ کو حضور پرنور صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کےشانۂ مبارک پرسوار دیکھ کر کسی نے کہا: صاحبزادے! آپ کی سواری کیسی اچھی ہےتو نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سواربھی تو کیسا اچھا ہے۔
(ترمذی،5/432،حدیث:3809)
حسنِ مجتبیٰ، سیّد الاسخیاء
راکبِ دوشِ عزت پہ لاکھوں سلام
آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ اُن خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنہیں نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:بِاَبِي وَاُمِّي یعنی تم پر میرے ماں باپ فِدا۔(معجم کبیر،3/65، حديث:2677)
شبیہِ مصطفےٰ: حضرت سیّدناانس رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ فرماتے ہیں: ( امام) حسن رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ سے بڑھ کرکوئی بھی حضور اکرم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم سے مُشابہت رکھنے والا نہ تھا۔
(بخاری، 2/547، حدیث :3752)
امامِ حسن سردار ہیں:آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ نے حضرت امیر معاویہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ سےصلح فرما کر اپنے نانا جان،رحمتِ عالمیان صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان کو عملاً پورا فرمایا: میرایہ بیٹا سردار ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی بدولت مسلمانوں کی دوبڑی جماعتوں میں صلح فرمائے گا۔
(بخاری،2/214،حدیث:2704)
اوصاف:آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ نہایت رحم دل،سخی، عبادت گزار اور عفوودرگزر کے پیکر تھے۔ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ فجر کى نماز کے بعد طلوع آفتاب تک ٹیک لگاکر بیٹھ جاتے اور مسجد میں موجود لوگوں سے دینی مسائل پر گفتگو فرماتے۔ جب آفتاب بلند ہوجاتا تو چاشت کے نوافل ادا فرماتے پھر اُمَّہاتُ المؤمنین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُنَّ کے گھر تشریف لے جاتےتھے۔(تاریخ ابن عساکر، 13/241) آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ نے(مدینۂ منورہ زادہَا اللَّہُ شرفًا وَّتعظیمًا سے مکۂ مکرمہ زادہَا اللَّہُ شرفاً وَّ تعظیماً)پیدل چل کر 25 حج ادا فرمائے۔
(سیراعلام النبلاء، 4/387)
سخاوت: آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ کثرت سے صدقہ و خیرات فرماتے حتّی کہ دو مرتبہ اپنا سارا مال اور تین مرتبہ آدھا مال را ہِ خدا میں صدقہ فرمایا۔ (ابن عساکر، 13/243)
شہادت:کسی کے زہر کھلا دینے کی وجہ سےآپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ نے 5ربیع الاول 49 ہجری کو مدینۂ منورہ میں شہادت کا جام نوش فرمایا۔ایک قول50ہجری کا بھی ہے۔(المنتظم، 5/226، صفۃ الصفوة،1/386)
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔
اٰمین بِجاہِ النَّبیِّ الاَمین صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم