Biography Sayed Yusuf Sayed hasham rafai حضرت علامہ سید یو سف السید ھاشم رفاعی

 عالم جلیل، سلسلہ عالیہ رفاعیہ کے شیخ طریقت، حضرت علامہ سید یو سف السید ھاشم رفاعی رحمہ اللہ تعالی جو کویت کے سبق وزیر تھے مگر وہ طبعا اور مزاجا فقیر الی اللہ تھے۔ 



بیسویں صدی میں عالم عرب کے افق پر جو علمائے دین نمودار ہوئے اور جنھوں نے اپنی مختلف علمی، دینی، تحقیقی، ملی اور دعوتی خدمات انجام دیں اور اپنے گہرے نقوش چھوڑاان میں السيد  يوسف السيد  الہااشم السيد أحمد الرفاعيؒ کا نام سرفہرست آتا ہے۔

السيد يوسف السيد ہاشم السيد أحمد الرفاعي ایک مایہ ناز عالم دین، ایک بہترین محدث، ایک قابل قدر مفسر، ایک بے باک صحافی اور ایک نامور مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی عہدساز شخصیت تھے اورایک مرد قلندر، صوفی باصفا ، سلسلہ رفاعیہ کے ترجمان کی حیثیت رکھتے تھے جن کی تعلیم وتربیت میں بڑے بڑے علماء، مصنفین اور صلحاء پیدا ہویے۔

گذشتہ صدی میں خلیجی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت اور تعمیر وترقی کے لیے جتنی بھی تحریکیں اٹھیں، ان سب میںسید یوسف کا ایک اہم کردار رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ گذشتہ صدی کی عظیم اسلامی شخصیات کی پہلی صف میں نظر آتے ہیں۔

آپ ورلڈ اسلامک مشن الدعوۃ الاسلامیۃ العالمیہ کے تمام عالم عرب کی نمائندگی کرتے ہوئے نائب صدارت کے عہدہ پر بھی سرفراز رہےاور اس عالمی تنظیم کے ذریعے اطراف و اکناف عالم میں دین حقہ کی تبلیغ واشاعت کے لیے دورسےبھی کرتے رہتے ہیں۔

آپ کا سلسلہ نسب عارف کامل،حضرت سیدا شیخ احمد کبیر الرفاعی سے ملتا ہے۔ آپ سلسلہ عالیہ الرفاعیہ کے مسند نشین اور صاحب دعوت وارشاد ہیں۔ 

آپ زاہد مرتاض ، عابد شب زندہ دار اور مستجاب الدعوات عالم دین ہیں۔ آپ کے چہرے بشرے سے سعادت کا نور جھلکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ شان محبوبی عطا کی ہے کہ جو شخص ان پانی ڈالتا ہے، اگرویدہ ہو جاتا ہے۔ امت محمدیہ کی تکالیف اور پریشانی کو دیکھ کر اُن پر رقت اور گر بہ طاری ہو جاتا ہے۔ کئی بار عالمی کانفرنسوں میں شرکت فرما چکے ہیں۔

علوم دینیہ اور علوم عربیہ کی تعلیم کے لیے ایک مدرسہ معہد الایمان الشرعی قائم کیا جہاں دینی و دنیوی تعلیم کے نصاب کی تکمیل کی جاتی ہے۔ س امر میں آپ نے بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی امداد کے لیے ایک تنظیم الجمعتہ الکویتی قائم کی جس نے بنگلہ دیش میں متعدد مساجد، مدارس اور شفا خانے قائم کیئے آپ نے ایک ہفت روزہ جریدہ البلاغ کے نام سے جاری کیا، جوکویت ، جزیرہ اور عربی رہا ستہائے خلیج میں پہلا اسلامی پرچہ ہے جو آج بھی دین متین کی خدمت سر انجام دے رہا ہے۔

علامہ رفاعی کےتقریبا  تمام کتب  و آثار بد عقیدہ وہابیوں نجدیوں کے رد میں لکھے گئے ہیں۔ انکی کتاب «الصوفیۃ و التصوف  ضوء الکتاب و السنۃصوفیا و تصوف کے بارے میں وہابیت کی طرف سے اٹھائے گئے شہبات کاازالہ اور وہابیہ کی رد میںلکھ گئی ہے۔ اس کتاب میں تصوف کے بارے میں کیے گئے استفتاء کے وہ جوابات بھی ذکر ہوئے ہیں جو شام،اردن، مصر،امارات اور لبنان کے مفتیوں نے دیے ہیں ان تمام مفتیوں نے صراحت سے کہا ہے کہ دین اسلام اور تصوف کا گہرا  رشتہ ثابت کیا گیا ہے۔

علامہ رفاعی کی  ایک اور کتاب نصیحۃ لاخواننا علماء نجدہے جو شام کے ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی کے مقدمہ کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔علامہ  رفاعی نے اس کتاب میں سعودی عرب کے معاصر وہابی علماء کے اعتقاد اوران کےاعمال اور اسلام دشمنی پر اپنے 57 اعتراضات بیان کیے ہیں ۔ ان اعتراضات میں سے اہم ترین اعتراضات اہل سنت کے تمام گروہوں کی تکفیر کرنا، مکہ و مدینہ میں اسلامی آثار کو مٹانا، کتابوں میں تحریف اور شعائر اسلامی کی مخالفت کرنا- وغیرہ موضوعات پر پرزور بیانیہ ہے۔

علامہ رفاعی کی تیسری کتاب الرد المحکم المنیع یا عقیدۃ أہل السنۃ والجماعۃ» کے نام سے ہے جو وہابیت کے بعض معاصر لکھاریوں کی جانب سے سید محمد بن علوی المالکی کے نظریات پر کیے گئے اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی ہے.  

جناب یوسف السید ہاشم السید احمد الرفاعی1932 بمطابق 1351ھ میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد گرامی کا نام سید ہاشم رفاعی ہے۔

آپ ایک شافعی عالم، سابق وزیر مملکت، معلم، صوفی، اور مصنف تھے۔آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم کویت میں شیخ احمد العقیل سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی اور دمشق میں فقہ شافعی میں اسلامی قانون کی تعلیم حاصل کی۔ 

انہوں نے 1970 میں کویت یونیورسٹی کی فیکلٹی آف آرٹس، شعبہ تاریخ سے گریجویشن کیا۔ انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز 1949 میں پاسپورٹ، ریزیڈنس اینڈ ٹریول ڈیپارٹمنٹ سے کیا، پھر ریزیڈنس اینڈ ٹریول ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بن گئے۔

1963میں کویت کی آزادی کے بعد قائم ہونے والی پہلی سیاسی جماعت مجلس الامہ کے سیکریٹری جنرل منتخب کیے گئے پھر وہ 1963 میں کویت میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب کیے گیےاور 1964 میں ٹیلی کمیونیکیشن اور ڈاک کے وزیر بنائے گئے، اور انہوں نے 1965 سے 1970 تک وزیر مملکت کے طور پر خدمات انجام دیں۔

وہ 1965 سے 1970 تک وزیر مملکت برائے کابینہ امور، میونسپل کونسل کے چیئرمین اور پلاننگ کونسل کے چیئرمین مقرر ہوئے۔

 بلاد مغرب ، مصر اور سوڈان کی سربراہی کا نفرنسوں میں کویت کے نمائندہ وزیر کی حیثیت سے شریک ہوئے ۔ علاوہ ازیں پاکستان ، ہند وستان اور سعودی عرب کی بین الاقوامی کانفرنسوں میں بھی شریک ہوتے رہے ۔ علامہ رفاعی موتمر عالم اسلامی کراچی  کی ایگز یکٹو کمیٹی کے ممبر بھی ہیں۔ اسلامی تبلیغ کے میدان میں ان کی سرگرمی، وہ جناب یعقوب السید یوسف الرفاعی، انسٹی ٹیوٹ آف بینکنگ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل اور پبلک اتھارٹی فار اپلائیڈ ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ کے سابق ڈائریکٹر جنرل بھی رہے۔آپ کا شمارہ دنیا کے پانچ سو با اثراافراد میں بھی ہوتا رہا ۔

 جن دنوں آپ کو یت پارلیمنٹ کے ممبر تھے ، آپ نے ملک میں شراب کی پابندی کا قانون بھی پاس کرایااور یونیورسٹی کالجوں میں مخلوط تعلیم کی مخالفت کی اور اسلام کے منافی اور مسلمانوں کے مفادات کے خلاف امور کی شدومد کے ساتھ مزاحمت بھی کی۔

علامہ رفاعی اعلی پایہ کے محقق او علم ومعرفت کے بحر ذخارتھے۔علوم اسلامیہ کے بہترین صاحب تصانیف ہونے کیساتھ ساتھ فصیح البیان اور قادر الکلام خطیب بھی ہیں۔ عربی کے علاوہ انگریزی زبان میں اظہار خیال کی قدرت رکھتے ہیں۔ ان کی تصانیف کے سے پتا چلتا ہے کہ وہ دقیق النظر اور وسیع المطالعہ محقق عالم دین ہیں۔ مسلک اہل سنت وجماعت کی نصرت و حمایت کے لیے آپ کی زندگی وقف رہی اور ان کی تصانیف میں ہر جگہ انصاف و دیانت کا رنگ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ 

قابلیت اور تجربہ

ان کا اسلامی میڈیا میں نمایاں کردار تھا، چاہے وہ ٹیلی ویژن، ریڈیو، یا مقامی اخبارات پر ہوں، اور عوامی سیمینارز اور بین الاقوامی اسلامی کانفرنسوں میں شرکت کرتے تھے۔ وہ کراچی میں اسلامی عالمی کانفرنس کے ایگزیکٹو بیورو کے رکن کے عہدے پر فائز رہے، پھر 1992 کے آخر تک کانفرنس کے نائب صدر رہے۔

انہوں نے جامعہ الازہر کے نصاب کے مطابق عربی اور شرعی علوم کے ساتھ ساتھ دیگر علوم کی تعلیم دینے کے لیے ایک مذہبی ادارہ قائم کیا۔اس کا نام (انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک فیتھ) ریاست کویت کے (المنگف) میں ہے۔ تین مراحل: پرائمری، انٹرمیڈیٹ اور سیکنڈری۔ انہوں نے متعدد اسلامی شخصیات کے ساتھ (دی انٹرنیشنل اسلامک یونین فار پرچنگ اینڈ میڈیا) کی بنیاد بھی رکھی اور اس کا مرکز (لاہور - پاکستان) ہے اور 1980 میں (کویتی ایسوسی ایشن فار دی ایڈ آف بنگلہ دیشی مسلمانوں) کی بنیاد رکھی، جس نے کئی مذہبی منصوبے قائم کیے ہیں۔ جیسا کہ بنگلہ دیش میں مساجد، اسکول اور اسپتال، اور اب بھی اپنا رفاہی کام جاری رکھے ہوئے ہے، اور اس نے (البلاغ) میگزین کی بنیاد رکھی، جو کویت، الجزیرہ اور خلیج عرب میں پہلا اسلامی ہفتہ وار سیاسی رسالہ ہے، اور یہ ہے۔ آج بھی سچے مذہب کی خدمت کے لیے شائع کیا جاتا ہے۔

تصنیف کردہ۔

الصوفيۃ والتصوف في ضوء الکتاب والسنۃ

خواطر في السياسۃ والمجتمع

أدلۃ أہل السنۃ والجماعۃ المسمی (الرد المحکم المنيع)

سيرۃ وترجمۃ الإمام السيد أحمد الرفاعي مؤسس الطريقۃ الرفاعيۃ - مؤلف مع الشيخ السيد مصطفی الرفاعي الندوي

نصيحۃ لإخواننا علماء نجد

اس کے علاوہ کے کئی کتب کے اردو تراجم ہو چکے ہیں جن مین اسلامی عقائد کے نام سے حضور شرف ملت نے ایک کتاب کا ترجمہ بھی فرمائے ہیں۔اور ابو عثمان قادری نے آپ کی کتاب کا ترجمہ شیخ سید یوسف کا پیغام عالم اسلام کے نام سے شائع کروایا۔ تصوف وصوفیا قرآن و سنت کی روشنی میں اس نام سے ترجمہ  سید مصطفیٰ جیلانی رفاعی بنگلوری اور دوسرا ترجمہ تصوف و صوفیا کے عنوان سے ڈاکٹر محمد اقبال نقشبندی نے فرمایا ہے۔

 سید یوسف سید ہاشم رفاعی کا وصال طویل علالت کی وجہ سے 2018 میں ہوا۔


”عہدِ حاضر میں سید یوسف رفاعی ایک طرف اسلام کے پاکیزہ تصورات سے تحریف و انحراف، زندقہ و  الحاد، خروج و اعتزال اور رفض و بدعت کی آلائشوں کو دور کر کے مصفیٰ، منقیٰ اور مذکیٰ اسلامی معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف عالمِ اسلام کے داخلی فساد اور خانہ جنگی مثل عراق و ایران جنگ کو جلد از جلد ختم کر کے اتحاد بین المسلمین کے علمبردار ہیں“ -[1]


یہ الفاظ کویت کے ایک عالم، صوفی، مصنف اور وزیر شیخ سید یوسف ابن ہاشم الرفاعی کے متعلق مجاہدِ ملت مولانا عبد الستار خان نیازیؒ کے ہیں- ادب، شاعری، سماج اور سیاست میں بھی شیخ سید یوسف الرفاعی کا اہم کردار نظر آتا ہے- آپ سلسلہ رفاعیہ کی معروف معاصر شخصیات میں سے ایک ہیں- آپ نے امت مسلمہ کو درپیش فتنہ و فساد کی سرکوبی کے لیے تجاویز پیش کیں اور اتحادِ اُمتِ اِسلامی کے حوالے سے بھی کام کیا- آپ میں اسلامی جذبہ دانائی کے ساتھ موجزن تھا- آپ نے ایک متحرک (vibrant) اور چست(active) زندگی گزاری- دین میں اعتدال پر زور دیتے ہوئے انتہا پسندی کو یکسر مسترد کیا اور اس کام کے کرنے پہ زور دیا جس سے اسلامی اتحاد کو مضبوط بنایا جائے اور اس کی حمایت کی جاسکے - [2]


ابتدائی ایام:


آپ سادات گھرانے کے چشم و چراغ تھے اور آپ کا تعلق سلسلہ رفاعیہ کے بانی شیخ الشیوخ سید احمد کبیر رفاعی (﷫) کے سلسلہ نسب سے ہے اور آپ کا سلسلہ نسب سید الشہداء حضرت امام حسین (﷜) سے جاملتا ہے - آپ کے والد سید ہاشم الرفاعی موتی نکالنے والے جہاز کے کپتان تھے- علاوہ ازیں وہ سرکاری ملازم اور کویت کی شرعی عدالت میں وکیل بھی رہے- سید یوسف رفاعی نے ان کے ہاں 1351ھ بمطابق 1932ء میں آنکھ کھولی- آپ نے قرآن مجید کی بنیادی تعلیم کویت میں شیخ احمد العاقل سے حاصل کی جبکہ علوم ِشریعہ کے لیے دمشق رجوع کیا-[3] فقہ شافعیہ کا علم کئی مشائخ سے حاصل کیا جس میں کویت کے شیخ محمد صالح قابلِ ذکر ہیں- آپ کو رفاعی سلسلے میں زبدانی ( نزد دمشق) کےشیخ مکی الکتانی سے اجازت حاصل تھی- بچپن ہی سے آپ کو اپنے خاندانی پس منظر کی وجہ سے علمی و سیاسی حلقوں میں نمائندگی حاصل رہی- آپ نے پاسپورٹ، ریزیڈنسی اور ٹریولنگ ڈیپارٹمنٹ میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا، جہاں آخر میں اس کے سربراہ بن گئے- آپ نے 1970ءمیں کویت یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ سے ڈگری حاصل کی- [4]


مناصب و ذمہ داریاں:


آپ 1960ء میں موتمر عالمی اسلامی (The World Muslim Congress) کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر بنے-[5] اس کے علاوہ آپ اس تنظیم کی اقلیاتِ اسلامیہ کی کمیٹی کے صدر اور مجلس ِاعلیٰ اسلامک افیئرز قاہرہ کے سرگرم رکن رہے-[6] اس کے ساتھ ساتھ آپ1963 ء سے 1974 ء تک کویت کی قومی اسمبلی کے ممبر بھی رہے- 1963ء سے 1964ء تک کویت کے وزیرِ مواصلات کا قلمدان سنبھالا جبکہ 1965ء سے 1970ء تک امورِ کابینہ کے وزیرِ مملکت رہے -اس کے علاوہ چیئرمین بلدیات اور پلاننگ کونسل کے صدر کی ذمہ داریاں بھی ساتھ ادا کیں-[7] اسلامی و عرب ممالک میں منعقد ہونے والی متعدد کانفرنسز اور سیمینارز میں ممبر یا وزیر کی حیثیت سے شریک ہوتے رہے - آپ رابطة الأدباء الكويتيين (Kuwaiti Writers Association) کے بانیوں میں سے تھے جو کہ1964ء میں کویت میں ادب کی ترقی کے لیے بنائی گئی- [8]آپ نے 1973 ء میں ایمان سکول کی بنیاد رکھی جو الازہر یونیورسٹی کی طرز پر بنیادی اور ثانوی سطح کی دینی و دنیاوی تعلیم فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا- 1988 ء میں آپ کو اسلامی نشر و اشاعت کی یونین کا صدر منتخب کیا گیا-مسئلہ فلسطین پر بھی آپ نے آواز اٹھائی-[9] آپ کے نزدیک تصوف دین میں نہ صرف ایک روحانی اخلاص کا ذریعہ ہے بلکہ اسلام کا پیغام غیرمسلموں تک پہنچانے کا بھی مؤثر ذریعہ ہے جبکہ صوفیانہ اقدار مسلمانوں میں تجدید کیلئے بہت اہم ہیں-


تصانیف:


آپ نے اپنی تصانیف میں اکثر عقائد کی اصلاح کے حوالے سے کام کیا ہے - عقیدہ و تصوف پر آپ کی چند کتابیں درج ذیل ہیں:


v    الصوفية والتصوف في ضوء الكتاب والسنة


اس میں آپ نے تصوف کی تاریخ، سلف صالحین کا تصوف کے متعلق مؤقف اور صوفیاء کرام کی جہاد میں کاوشوں  کا ذکر کیا- اس کتاب کا اردو ترجمہ دستیاب ہے- [10]


v    خواطر في السياسة والمجتمع


اس میں معاشرتی اور سیاسی افکار پر روشنی ڈالی گئی ہے جس میں عصرِ حاضر کے مسائل جیسا کہ غیر مسلم ممالک میں مسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر مضامین شامل ہیں-


v    أدلة أهل السنة والجماعة(اسلامی عقائد)


یہ کتاب اہل سنت و الجماعت کے متعلق ثبوتوں پر مشتمل ہے-


v    سيرة وترجمة الإمام السيد أحمد الرفاعي


اس میں سلسلہ رفاعیہ کے بانی بزرگ سید احمد الرفاعی قدس اللہ سرہ کی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے-


v    نصيحة لأخواننا علماء نجد


اس کتاب میں علماءِ نجد کو مختلف مسائل و امور کے حوالے سے تاکید کی گئی ہے-


v    شعری ديوان


شاعری کے اس مجموعہ میں مذہبی، قومی اور سماجی حوالے سے نظمیں شامل ہیں- [11]


اخلاق و اوصاف:


آپ قائم الیل و صائم النہار، کثرت سے ذکر کرنے والے اور باجماعت نماز ادا کرنے والے تھے- آپ مخالفین کا رد کرنے کے دوران بھی احسن انداز اور حکمت اختیار کرتے تھے - آپ معاشرے میں معزز تھے جب کہ اہم ذمہ داریوں کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے قریب اور نرمی سے بھرپور تھے- چہرے پر مسکراہٹ رہتی ، بڑوں سے مزاح کرتے جبکہ چھوٹوں سے کھیلا کرتےتھے - آپ بغیر سختی اختیار کیے پُررعب تھے جبکہ بے وقعت ہوئے بغیر حلیم تھے- جب آپ قومی اسمبلی اور وزارت کے لیے منتخب ہوئے توآپ نے اپنے دروازے شہریوں کے لیے کھلے رکھے- آپ مخالفین کے ساتھ دلیل سے بات کرتے، ان سے ہمیشہ رابطے کے ذرائع کو کھلا رکھتے اور ان کی رائے کا احترام کیا کرتے تھے -آپ نے کسی خاص گروہ یا قبیلہ کی طرفداری کے خلاف آواز اٹھائے رکھی اور آپ فرقہ پرستی کے سخت خلاف تھے- کتابوں کے شوقین تھے اور اپنی کتابوں اور دستاویزات کو بڑی احتیاط کے ساتھ ترتیب سے رکھتے تھے -[12] تحریر و تقریر میں ملکہ حاصل تھا- عربی کے علاوہ انگریزی پر بھی دسترس رکھتے تھے- ہر سال بڑے اہتمام سے عید میلادالنبی کا انعقاد کیا کرتے تھے-


شراب و اختلاط پر پابندی:


یوسف ہاشم الرفاعی نے (1961ءمیں) کویت کی آزادی کے بعد پہلی تشکیل کردہ قومی اسمبلی میں شراب کی خرید و فروخت اور استعمال کے خلاف قانون متعارف کروایا جس کے نتیجے میں ایک قانونی مسودہ بنوا کر ملک میں شراب کی پابندی کا قانون منظور کروا لیا گیا-[13] اس کے علاوہ وہ حجاب کے معاملے پر بھی ہمیشہ آواز بلند کرتے اور مخلوط تعلیم و دیگر اسلام مخالف امور کی مخالفت کرتے تھے - یونیورسٹی کی سطح پر مخلوط تعلیم کے خلاف قانون بنوایا جو آج بھی رائج العمل ہے[14] جامعات میں طلباء کے اختلاط سے بچنے کیلئے کیفان کے علاقے میں کالج بنوایا-


فلاحی کام :


آپ کے قائم کردہ خیراتی منصوبوں سے ملکی و غیر ملکی سطح پر ہزاروں مستحق لوگ مستفیض ہوئے-1980 ء میں آپ نے بنگالی مسلمانوں کی مدد کے لیے ایک انجمن ”الجمعۃ الکویتیہ “بنائی جس سے کئی مساجد، مدارس اور ہسپتال بنائے گئے- [15]آپ غریب ممالک میں کئی فلاحی منصوبوں کی مالی معاونت کرتے- مسجدو اسکول کی تعمیر اور یا کنواں کی کھدائی وغیرہ جیسے خیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا-


میڈیا میں کردار:


شیخ یوسف الرفاعی ٹیلی ویژن، ریڈیو اور پریس میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے-[16] آپ نے اکثر میڈیا پر مختلف انٹرویوز کے ذریعے اپنے مؤقف کو پیش کیا-1980ءمیں آپ نے دینی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے البلاغ کے نام سے ہفتہ وار جریدے کا اجرا کیا جو کہ کویت اور خلیج کا پہلا اسلامی سیاسی ہفتہ وار مجلہ تھا-


وصال:


طویل علالت کے بعد آپ31 مارچ 2018 ء بروز ہفتہ بمطابق 14 رجب 1439ھ کو انتقال کر گئے- انہیں کویت کے سب سے بڑے قبرستان ’الصليبخات‘ میں سپرد خاک کیا گیا- [17]


حرفِ آخر:


آپ کی شخصیت ہمیں زندگی کے شعبہ ہائے جات میں سرگرم نظر آتی ہے ۔ آپ معاصر دنیائے عرب میں اہلِ صدق و تصوف کے بہترین ترجمان و رہنما تھے  - تبلیغ و اصلاح کے کام میں بھی دقیقہ فرو گذاشت نہیں رکھا جسے آپ اپنی پوزیشن ہی میں نبھاتے نظر آتے ہیں- اشرافیہ(elites)کی سطح پر حدود اللہ کے نفاذ کے حوالے سے کوششیں کیں- آپ کے منہج سے یہ بات سیکھنے کو ملتی ہے کہ اربابِ اختیار کو اللہ تعالیٰ کے احکامات حکمت کے ساتھ نافذ کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے - کسی نہ کسی طور پر ہر سطح میں اصلاح کی گنجائش موجود ہوتی ہے- دورِ حاضر میں ہمیں دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ دعوتِ الی اللہ کا کام بھی سرانجام دینا چاہیئے-


٭٭٭


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی