حضرت ابو اسحاق خواص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کی کنیت ابواسحاق تھی۔ بغداد کے رہنے والے تھے ہمیشہ جذب و صحو اور سکر کی کیفیت میں رہتے تھے، خاصان درگاہ الٰہی میں بلند مقام پر تھے۔ سیّد جنید بغدادی اور حضرت ابوالحسن نوری کے معاصرین اور احباب میں سے تھے۔ حضرت خضر سے بھی زیارت اور صحبت کا شرف حاصل تھا۔
شیخ ممشاد دینوری فرماتے ہیں، ایک بار میں مسجد میں نیم خوابی کی حالت میں تھا، مجھے آواز آئی، اگر میرے دوستوں میں سے ایک دوست کی زیارت کرنا چاہتے ہو تو ابھی اٹھو اور تل توبہ پر جاؤ، میں اٹھا راستے میں برف باری اور طوفان تھا، میں وہاں پہنچا تو ابراہیم خواص کو دیکھا، آپ برف میں چار زانو بیٹھے ہوئے ہیں، اس برفانی فضا اور ٹھنڈک کے باوجود پسینے سے شرابور ہیں، برف آپ کے سر پر پڑتی فوراً پگل کر زمین پر بہہ جاتی تھی، میں آپ کو دیکھ کر بڑا دل خوش ہوا، میں نے پوچھا، آپ کو یہ رتبہ کیسے ملا، فرمایا: فقراء کی خدمت سے۔
آپ بے پناہ متوکل اور قناعت کے مالک تھے، لوگ آپ کو رئیس المتوکلین کہا کرتے تھے، آپ کو خواص اس لیے کہا جاتا تھ، کہ آپ زنبیل سیا کرتے، اور سوئی دھاکہ اور قینچی کے علاوہ کوئی سامان پاس نہ رکھتے، فرمایا کرتے اس قدر اسباب توکل میں ہائل نہیں ہوتے، ایک دفعہ فرمایا حضرت خضر میری مجلس میں کچھ وقت گزارنا چاہتے تھے میں نے پسند نہ کیا مجھے ڈر تھا کہ اللہ کے ساتھ جو راہ و رسم ہے اس میں خلل واقعہ نہ ہوجائے۔
حضرت خواص فرماتے ہیں ایک وادی میں دہشت ناک شیر کا سامانا ہوا، اس نے بھی مجھے دیکھ لیا، میری طرف بڑھا میں اور آگے بڑھا مجھے محسوس ہوا کہ وہ لنگڑا کر چل رہا ہے اس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا ہے، اس نے اپنا زخمی پاؤں میرے آگے رکھ دیا، میں نے غور سے دیکھا تو وہ سوجا ہوا تھا اور اس میں پیپ پڑی ہوئی ہے، میں نے سوئی لی اس کا پاؤں کھول دیا، قینچی سے اس کا پاؤں اتنا کھول دیا، حتی کہ ساری پیپ بہہ نکلی اس کا پاؤں خالی ہوگیا، گودڑی کا ایک ٹکڑا لے کر میں نے اس کے پاؤں کو باندھ دیا، اسے سکوں آگیا، اٹھا اور اپنی وادی میں چلا گیا کچھ وقت گزارا میں نے دیکھا کہ اپنے دو بچوں کو اپنے ساتھ لایا ہے، اور میرے پا سبٹھا دیے اور یہ بچے دم ہلانے لگے، تھوڑا سا گوشت لاکر میرے سامنے رکھ دیا۔
آپ نے ایک اور واقعہ بیان کیا کہ ایک دن میں ایک وادی میں توکلاً علی اللہ سفر کر رہا تھا ایک شخص میرے پاس آیا مجھے سلام کیا اور ساتھ رہنے کی اجازت مانگی، میں نے محسوس کیا کہ وہ مسلمان نہیں ہے، میں نے اسے کہا جہاں میں جا رہا ہوں وہاں تم نہیں جاسکتے، اس نے گزارش کی تاہم آپ کے ساتھ جانے سے فائدہ سے خالی نہ ہوگا اور ساتھ ہولیا، سفر میں پانچ دن رات کچھ کھائے پیے بغیر گزر گئے تو وہ مجھے کہنے لگا، اے توکل پر چلنے والے، اب تو گستاخی کرکے اللہ سے کچھ کھانے کے لیے مانگ لو، میں نے اللہ سے دعا مانگی اور کہا اے اللہ مجھے اس بیگانہ دین سے شرمسار نہ کرنا کچھ کھانے کا بندوبست کردے، میں نے دیکھا ایک طبق اترا اس میں کھانے کا سامان بھرا پڑا ہے، ہم دونوں بیٹھ گئے اور پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور اللہ کا شکر ادا کیا اب سات دن مزید سفر کرتے رہے اور کچھ نہ کھایا پیا، میں نے کہا اب تم اپنے خدا سے کچھ کھانے کو مانگو، اس نے بھی میری طرح آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور کھانا طلب کیا، میں نے دیکھا کہ دو طبق آسمان سے اترے جن میں کئی قسم کے کھانے چکے ہوئے تھے، میں حیران رہ گیا، وہ میری حیران کو تاڑ گیا، کہنے لگا حضرت حیران نہ ہوں مجھے بھی مسلمان کیجیے، یہ سب کچھ آپ کی صحبت کا فیض ہے یہ دونوں طبق آپ کی کرامت ہیں میں نے اللہ سے دعا کی تھی اللہ اپنے اس بندے کی طفیل آج کھانا بھیج، اس دن سے وہ شخص مسلمان ہوگیا اور تربیت حاصل کرکے کامل انسان بن گیا۔
حضرت شیخ ابراہیم ۲۹۱ھ میں فوت ہوئے یوسف بن حسین نے آپ کو غسل دیا، آپ کا مزار مبارک طرک اصفہان کے قلعہ کے زیر سایہ ہے۔ حضرت جامی نے اپنی کتاب نفحات الانس میں شیخ عبداللہ انصاری کی روایت بیان کی ہے کہ حضرت شیخ ابراہیم جیسا پر ہیبت ولی اللہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
حضرت عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ میں نے آج تک کسی ولی اللہ کی قبر سے اتنی ہیبت نہیں پائی جتنی حضرت ابراہیم خواص کی قبر سے آتی تھی یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک شیر ہے جو سویا ہوا ہے اور ابھی اٹھ بیٹھے گا۔
چو رحلت کرد ابراہیم ثانی |
بقرب ایزدی ازوار دنیا |
قطب معلّی ۲۹۱ھ ابراہیم ہادی ۲۹۱ھ زبدۂ آفاق کامل ۲۹۱ھ
(خزینۃ الاصفیاء)