اعلی حضرت: ایک عبقری شخصیت
محمد مقتدر اشرف فریدی
اتر دیناج پور، مغربی بنگال
اللہ کریم کا بے پایاں فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں انسان بنایا اور دولت ایمان سے مشرف فرمایا۔ اس خاک دان گیتی پر انگنت انسان وجود میں آئے جو اپنی مقررہ میعاد تک بہ قید حیات ہوتے ہیں پھر قضائے الہی سے رحلت کر جاتے ہیں۔ عام طور سے ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے گزر جانے کے بعد چند ہی دنوں میں وہ فراموش کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اسی کائنات رنگ و بو میں بے شمار شخصیتیں ایسی ہیں کہ جن کو زمانہ رہتی دنیا تک یاد رکھتا ہے۔
یہ وہ عظیم شخصیتں ہیں جن کی زندگی دین و سنیت کے لیے وقف ہوا کرتی ہے، جن کی زندگی کا شب و روز دین کی اشاعت و تریج میں گزرتا ہے اور جن کے وجود سے زمانہ برکتیں حاصل کرتا ہے۔ جن کے علم سے لوگ مستفیض و مستفید ہوتے ہیں، وہ ہستیاں جو اپنے علم و فضل، تقوی و پرہیز گاری اور تجلیات و انوار سے زمانے کا مرجع و رہ نما ہوتے ہیں، ان کے گزرے ہوئے صدیاں بیت جاتی ہیں لیکن زمانہ ان کا ذکر، نام، علم و فضل کا چرچا ہمیشہ جاری و ساری رکھتا ہے۔ ہر عام و خاص ان عظیم شخصیتوں کے تذکار جمیل سے رطب السان نظر آتا ہے۔ انہی عظییم شخصیات میں سے متبحر عالم دین، امام اہل سنت، مجدد دین و ملت، فقید المثال فقیہ، عاشق رسول سیدی سرکار امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی کی ذات ہے۔ صدیاں بیت جانے کے بعد بھی ہر طرف آپ کے علم و فضل کا شہرہ ہے اور بلاشبہ یہ اللہ کریم کا فضل عظیم ہے۔ اعلیٰ حضرت، عظیم البرکت الشاہ امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمة اللہ علیہ کی ولادت با سعادت دس شوال المکرم سنہ ہجری 1272 مطابق 14/ جون سنہ عیسوی 1856بروز سنیچر بوقت ظہر محلہ جسولی بریلی شریف یوپی میں ہوئی۔
اللہ کریم جب کسی بندے کو مخصوص کام کے لیے پیدا فرماتا ہے تو اسے مخصوص صلاحیتوں سے بھی مالامال فرما دیتا ہے تاکہ وہ اپنا فرض منصبی کما حقہ ادا کر سکے-
اعلی حضرت، عظیم المرتبت، عاشق رسول، محب سادات امام احمد رضا خان محدث بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی اللہ کریم نے انتہائی خوفناک اور بھیانک ماحول میں دین کی حفاظت و صیانت اور اپنے محبوب دانائے غیوب صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کی عزت و عظمت کا پرچم لہرانے کے لیے بھیجا تھا، اس لیے انھیں بھی مخصوص صلاحیتوں سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا-
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ علیہ نے چار سال کی ننھی سی عمر میں ناظرہ کلام پاک مکمل فرمایا-
آپ نے صرف چھ سال کی عمر میں میلاد شریف کے عنوان پر مجمع عام میں بسیط تقریر فرما کر سامعین کو متحیر و متعجب کردیا-
ایک ماہ میں پورا قرآن حفظ کر لیا۔ 8 سال کی عمر میں عربی زبان میں ہدایۃ النحو کی شرح لکھ ڈالی-
تقریبا چودہ سال کی عمر میں جملہ مروجّہ علوم و فنون سے فراغت حاصل کر کے دستار فضیلت کے مستحق ہوئے، اور متعدد علوم و فنون میں آپ کو دست رس حاصل تھی، خواہ وہ دنیاوی علوم ہوں یا علوم دینیہ۔
آپ کی ذات ستودہ صفات علوم لدنیہ و علوم کسبیہ کا حسین سنگم تھی-
یقینا یہ سب سیدی اعلی حضرت کی خدا داد صلاحیتیں ہیں، یہ اللہ کریم کا خاص فضل و کرم ہے آپ پر- اور ہو بھی کیوں نہ! اللہ کریم نے دین و سنیت کی تبلیغ و اشاعت، اِحقاق حق اور اِبطال باطل کے لیے عاشق رسول امام احمد رضا خان نور اللہ مرقدہ کا انتخاب فرمایا-
اعلی حضرت محدث بریلوی نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی ترجمانی، دین کی حمایت اور مذہب کی اشاعت میں بسر کی-
آپ کی حیات مبارکہ کا ایک ایک لمحہ حق کی سر بلندی و سر فرازی میں صرف ہوا-
آپ کا وجود مسعود ایسے پر فتن دور میں ہوا کہ ہر طرف ضلالت و گمراہیت کی گھٹا ٹوپ تاریکیاں چھائی ہوئی تھیں، بد عقیدیت کا دور دورہ تھا، شان الوہیت و شان رسالت میں توہین و تنقیص کی جا رہی تھی، ایمان کے لٹیرے اپنے باطل عقائد کی نشر و اشاعت کر رہے تھے ایسے پر خطر ماحول اور پر فتن دور میں عاشق رسول، شیخ الاسلام والمسلمین امام احمد رضا خان قادری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عزم و استقلال کا جبل استقامت بن کر اِحقاق حق اور اِبطال باطل کا ایسا زبردست فریضہ انجام دیا کہ تمام فرقہاے باطلہ کا قلع قمع کر دیا، بدعقیدیت کی بیخ کنی کی، غداران دین کے دام فریب سے پردہ اٹھایا، معاشرہ میں جو غیر شرعی رسوم، بدعات اور بد اعمالیاں عروج پر تھیں آپ نے ان رسوم بد اور بدعات و خرافات کا سد باب فرما یا- الغرض! آپ نے ایمان و عقیدہ کا تحفظ، اور اعمال کی اصلاح فرما کر معاشرے کو پاک و صاف کیا، آ پ کی حیات درخشاں نے بر صغیر میں اسلامی تعلیمات کی خوب آبیاری کی- آپ فنا فی الرسول کے منصب پر فائز تھے-
عشق رسول سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نہایت قیمتی سرمایہ ہے، اعلٰی حضرت الشاہ امام احمد رضا قادری رحمة اللہ علیہ عشقِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کے سر تا پا نمونہ تھے، ان کا عشق صادق، مستحکم اور ایمان افروز تھا- آپ رحمة اللہ تعالٰی علیہ کا نعتیہ دیوان ” حدائق بخشش" اس امر کا شاہد ہے۔ آپ کی نوک قلم بلکہ گہرائی قلب سے نکلا ہوا ہر مصرع مصطفٰی جان رحمت صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کی بے پایاں عقیدت و محبت کی شہادت دیتا ہے۔
سیدی اعلٰی حضرت رحمة اللہ تعالٰی علیہ آقائے کائنات، نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کی محبت کے ساتھ نبی کریم صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم سے منسوب ہر چیز سے محبت کیا کرتے تھے، سادات کرام کی حد درجہ تعظیم و توقیر بجا لاتے تھے-
اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمة اللہ تعالٰی علیہ کی حیات مبارکہ کا مشن ہی یہی رہا کہ آقائے کائنات نبی اکرم صلّی اللہ تعالٰی علیہ و سلّم کی محبت سے اپنے قلوب کو ضیا بخش کر دین و دنیا کی فوز و فلاح حاصل کی جائے-
ہر حال میں نبی کریم اور سادات کرام کی تعظیم و توقیر کا پاس و لحاظ رکھا جائے، آپ نے ہمیں نبی کریم صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم اور آل نبی و اصحاب نبی کی محبت کا جو درس دیا وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے- آپ کی تعلیمات و فرمودات ہمارے لیے مشعل راہ ہے-
امام فرماتے ہیں:
خاک ہو کر عشق میں آرام سے سونا ملا
جان کی اکسیر ہے الفت رسول اللہ کی
جان ہے عشق مصطفٰی روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزہ ناز دوا اٹھائے کیوں
25 صفر المظفر 1340 سنہ ہجری مطابق 28/ اکتوبر 1921 سنہ عیسوی جمعہ مبارکہ کے دن 2 بج کر 38 منٹ پر عشقِ مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم کے عظیم سفیر، شہید محبت، اعلٰی حضرت، عظیم البرکت، مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی رحمة اللہ تعالٰی علیہ نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔
میرے امام فرماتے ہیں:
انھیں جانا انھیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا