سَر زمینِ عرب پر غزوۂ اُحد کو رُونما ہوئے 46 سال کا عرصہ گزر چکا تھا کہ حضرتِ سیّدنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے دورِ حکومت میں میدانِ اُحُد کے درمیان سے ایک نہر کی کھدائی کے دوران شہدائے اُحد کی بعض قبریں کھل گئیں۔ اَہلِ مدینہ اور دوسرے لوگوں نے دیکھا کہ شہدائے کرام کے کفن سلامت اور بدن تَرو تازہ ہیں اور انہوں نے اپنے ہاتھ زخموں پر رکھے ہوئے ہیں۔ جب زخم سے ہاتھ اٹھایا جاتا تو تازہ خون نکل کر بہنے لگتا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ پُرسُکون نیند سورہے ہیں۔(سبل الہدی، ج4،ص252۔کتاب المغازی للواقدی،ج1،ص267۔ دلائل النبوۃ للبیہقی،ج3،ص291) اس دوران اتفاق سے ایک شہید کے پاؤں میں بیلچہ لگ گیا جس کی وجہ سے زخم سےتازہ خون بہہ نکلا۔(طبقات ابن سعد،ج3،ص7) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ شہید کوئی اور نہیں رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کے معزز چچا اور رضاعی بھائی خیرُ الشُّہَداء، سیّد الشُّہَداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ بن عبدالمطلب رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ تھے۔ (طبقات ابن سعد، ج1،ص87۔ الاستیعاب،ج1،ص425) پیدائش و کنیت:راجح قول کے مطابق آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی ولادت نبیِّ اکرم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کی اس دنیا میں جلوہ گری سے دو سال پہلے ہوئی۔(اسد الغابہ،ج2،ص66) آپرضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی کنیت ابو عمّارہ ہے۔(معجمِ کبیر،ج3،ص137)حلیہ و مشاغل:آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بہت حسین و جمیل تھے، خوبصور ت پیشانی، درمیانہ قد، چھریرا (دبلا پتلا) بدن، گول بازو جبکہ کلائیاں چوڑی تھیں۔ شعر و شاعری سے شغف تھا۔ شمشیر زنی، تیر اندازی اور پہلوانی کا بچپن سے شوق تھا۔ سیرو سیاحت کرنا، شکار کرنا مَن پسند مشغلہ تھا۔(تذکرہ سیدنا امیر حمزہ، ص17ملخصاً) قبولِ اسلام: ایک مرتبہ شکار سے لوٹ کر گھر پہنچے تو اطلاع ملی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے محمد (صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم) کے ساتھ ناروا اور گستاخانہ سلوک کیا ہے۔ یہ سنتے ہی جوشِ غضب میں آپے سے باہر ہوگئے پھر کمان ہاتھ میں پکڑے حرم ِکعبہ میں جاپہنچے اورابو جہل کے سر پر اس زور سے ضرب لگائی کہ اس کا سر پھٹ گیا اور خون نکلنے لگا، پھر فرمایا: میرا دین وہی ہے جو میرے بھتیجے کا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللّٰہ کے رسول ہیں،اگر تم سچے ہو تو مجھے مسلمان ہونے سے روک کر دکھاؤ۔(معجمِ کبیر، ج 3،ص140،حدیث:2926) گھر لوٹے تو شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ تمہارا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا ہے کیا تم اپنا دین بدل دوگے؟ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی پوری رات بے چینی اور اضطراب میں گزری، صبح ہوتے ہی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اوراس پریشانی کا حل چاہا تو رحمت ِعالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کی طرف توجہ فرمائی اور اسلام کی حقانیت اور صداقت ارشاد فرمائی، کچھ ہی دیر بعد آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے دل کی دنیا جگمگ جگمگ کرنے لگی اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں۔(مستدرک،ج4،ص196، حدیث: 4930)بارگاہِ رسالت میں مقام و مرتبہ:پیارے آقا محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سے بے حد محبّت کیا کرتے اور فرماتے تھے کہ میرے چچاؤں میں سب سے بہتر حضرتِ حمزہ(رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ) ہیں۔(معرفۃ الصحابۃ،ج 2،ص21،رقم: 1839) حکایت محبّت کے اظہار کے انداز جداگانہ ہوتے ہیں ایک نرالہ انداز ملاحظہ کیجئے: ایک جاں نثار صحابی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کی: میرے ہاں لڑکے کی ولادت ہوئی ہے میں اس کا کیا نام رکھوں؟ تو رحمت ِعالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ اپنے چچا حمزہ سے محبّت ہے لہٰذا انہیں کے نام پر اپنے بچے کا نام رکھو۔(معرفۃ الصحابۃ، ج2 ،ص21،رقم:1837)زیارتِ جبریل کی خواہش ایک مرتبہ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے بارگاہِ رسالت میں درخواست کی کہ میں حضرتِ جبریل علیہِ السَّلام کو اصلی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں، ارشاد ہوا: آپ دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے،آپ نے اصرار کیا تو نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: زمین پر بیٹھ جائیے، کچھ دیر بعد حضرت جبریل امین علیہِ السَّلام حرم ِ کعبہ میں نصب شدہ ایک لکڑی پر اترے تو سرورِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:چچا جان نگاہ اٹھائیے اور دیکھئے، آپ نے جونہی اپنی نگاہ اٹھائی تودیکھا کہ حضرت جبریل علیہِ السَّلام کے دونوں پاؤں سبز زبر جد کے ہیں، بس! اتنا ہی دیکھ پائے اور تاب نہ لاکر بے ہوش ہوگئے ۔(الطبقات الکبریٰ،ج3،ص8)کارنامے:رمضانُ المبارک1ہجری میں 30 سواروں کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی لشکر کا سب سے پہلا علَم آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے سنبھالا۔ اگرچہ لڑائی کی نوبت نہ آئی لیکن تاریخ میں اسے ”سرِیّہ حمزہ“ کے نام سےجانا جاتا ہے۔(طبقات ابن سعد،ج3،ص6) 2ہجری میں حق و باطل کاپہلا معرکہ میدانِ بدر میں پیش آیا تو آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ شریک ہوئے اورمشرکین کے کئی سورماؤں کو ٹھکانے لگایا۔ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ اپنے سر پر شتر مرغ کی کلغی سجائے ہوئے تھے جبکہ دونوں ہاتھوں میں تلواریں تھامےاسلام کے دشمنوں کو جہنَّم واصِل کرتے اور فرماتے جاتے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کا شیر ہوں۔(معجمِ کبیر،ج3،ص149،150،رقم:2953-2957)شہادت:15 شوّالُ المکرم 3ہجری غزوۂ اُحد میں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نہایت بے جگری سے لڑے اور 31 کفار کو جہنّم واصِل کرکے شہادت کا تاج اپنے سر پر سجاکر اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ (معرفۃ الصحابۃ،ج 2،ص17)دشمنوں نے نہایت بےدردی کے ساتھ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے ناک اور کان جسم سے جدا کرکے پیٹ مبارک اور سینۂ اقدس چاک کردیا تھا اس جگر خراش اور دل آزار منظر کو دیکھ کر رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کا دل بے اختیار بھر آیا اور زبانِ رسالت پر یہ کلمات جاری ہوگئے: آپ پر اللہ تعالٰی کی رحمت ہو کہ آپ قرابت داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے اور نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔(دارِقطنی،ج5،ص،207،حدیث:4209،معجمِ کبیر،ج3،ص143،حدیث:2937)پریشانی دور کرنے والے: سیرت اور تاریخ کی کتابیں اس پر گواہ ہیں کہ بَوقتِ جنازہ رسول اللّٰہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: يَاحَمْزَةُ يَاعَمَّ رَسُوْلِ اللهِ وَأَسَدَ اللهِ وأَسَدَ رَسُوْلِهٖ، يَاحَمْزَةُ يَافَاعِلَ الْخَيْرَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاكَاشِفَ الْكَرَبَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاذَابًّا عَنْ وَجْهِ رَسُوْلِ اللهِ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم یعنی اے حمزہ! اے رسول الله! کے چچا، الله اور اس کے رسول کے شیر! اے حمزہ! اے بھلائیوں میں پیش پیش رہنے والے! اے حمزہ! اے رنج و ملال اور پریشانیوں کو دور کرنے والے! اے حمزہ! رسولُ اللّٰہ کے چہرے سے دشمنوں کو دور بھگانے والے!(شرح الزرقانی علی المواہب،ج 4،ص470)نمازِ جنازہ و مدفن: شہدائے احدمیں سب سے پہلے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی پھر ایک ایک شہید کے ساتھ آپ کی بھی نماز پڑھی گئی جبکہ ایک روایت کے مطابق دس دس شہیدوں کی نماز ایک ساتھ پڑھی جاتی اور ان میں آپ بھی شامل ہوتے یوں اس فضیلت میں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ منفرد ہیں اور کوئی آپ کا شریک نہیں ہے۔ (الطبقات الکبری،ج3،ص7۔سنن کبریٰ للبیہقی، ج4،ص18،حدیث:6804) جبلِ اُحد کے دامَن میں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا مزار دعاؤں کی قبولیّت کا مقام ہے۔
حمزہ، سیّدالشہداء سیّدنا امیر
اسمِ گرامی: امیرحمزہ۔
کنیت: ابوعمارہ۔
لقب: اسداللہ واسدرسول اللہﷺ۔
والدۂ ماجدہ: ہالہ بنتِ اہیب بن عبدِ مناف بن زہرہ۔
حضرت ہالہ نبی اکرم ﷺکی والدۂ ماجدہ حضرت آمنہ کی چچا زاد بہن تھیں۔ سیّدنا امیرحمزہ نبی اکرم ﷺکے چچا اور رضاعی بھائی ہیں۔ ابو لہب کی آزاد کردہ کنیز ثویبہ نے ان دونوں ہستیوں اور حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد مخزومی (حضرت اُمّ المؤمنین امِّ سلمہکے پہلے شوہر) کو دودھ پلایا تھا۔
نسب:
سیّدالشہداء حضرت سیّدنا امیرحمزہ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے:
سیّدنا حمزہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدِ مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب اِلٰی اٰخِرِہٖ)۔
ولادت:
حضرت حمزہ کی عمر نبی اکرم ﷺسے دو سال اور ایک قول کےمطابق چار سال زیادہ تھی۔
قبولِ اسلام:
بعثت کے دوسرے سال اور ایک(ضعیف) قول کے مطابق چھٹے سال مشرف بَہ اسلام ہوئے۔
اسلام لانے کے دن انہوں نے سنا کہ ابو جہل،نبیِ مکرمﷺکی شان میں نازیبا کلمات کہہ رہا ہے، تو آپ نے حرمِ مکہ میں اس کے سر پر اس زور سے کمان ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا،اورحضرت حمزہ نے نبیِ مکرمﷺ سےگزارش کی:
’’بھتیجے! اپنے دین کا کھل کر پرچار کیجیے۔ اللہ تعالیٰ کی قسم ! مجھے دنیا بھر کی دولت بھی دے دی جائے تو میں اپنی قوم کے دین پر رہنا پسند نہیں کروں گا۔‘‘
ان کے اسلام لانے سے رسول اللہﷺ کو تقویت حاصل ہوئی اور مشرکین آپ کی ایذا رسانی سے کسی حد تک رک گئے، بعد ازاں ہجرت کرکے مدینۂ منوّرہ چلے گئے۔
سیرت وخصائص:
سیّد الشہداء حضرت سیّدنا امیرحمزہ بہادر، سخی،نرم مزاج والے،خوش اخلاق، قریش کے دلاور جوان اور غیرت مندی میں انتہائی بلند مقام کے مالک تھے۔
رسول اللہﷺنے جو پہلا جھنڈا تیار کیا وہ سیّد الشہداء ہی کے لیے تھا، جب 2ھ/623ء میں حضور سیّدِ عالمﷺ نے انہیں قومِ جُھَیْنَہ کے علاقے سیف البحر کی طرف (ایک دستے کے ہمراہ ) بھیجا۔
ابنِ ہشام نے سیّدنا حمزہ کا ایک شعر نقل کیا، جس کا اردو ترجمہ مندرجۂ ذیل ہے:
ترجمہ:’’رسول اللہﷺکے حکم پر میں پہلا تلوار چلانے والا تھاجس کے سر پر جھنڈا تھا، یہ جھنڈا مجھ سے پہلے ظاہر نہ ہوا تھا۔‘‘
حضرت سیّد الشہداء جنگِ اُحُد کے دن خاکستری اونٹ اور پھاڑنے والے شیر دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نے اپنی تلوار سے مشرکین کو بری طرح خوف زدہ کردیا، کوئی ان کے سامنے ٹھہرتا ہی نہ تھا۔ غزوۂ احد میں آپ نے31 مشرکوں کو جہنم رسید کیا۔ پھر آپ کا پاؤں پھسلا تو آپ تیر اندازوں کی پہاڑی کے پاس واقع وادی میں پشت کے بل گرگئے، زرہ آپ کے پیٹ سے کھل گئی، جبیر بن مطعم کے غلام وحشی بن حرب نے کچھ فاصلے سے خنجر پھینکااور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں آپ کو مرتبۂ شہادت سے سرفراز فرمایا۔ یہ واقعہ ہفتے کے دن نصف15؍ شوّال 3 یا 4ہجری (624ء یا 625ء) کو پیش آیا، اُس وقت آپ کی عمر 57 سال تھی۔ ایک قول کے مطابق آپ کی عمر شریف 59 سال تھی۔ پھر مشرکین نے آپ کے اَعضا کاٹے اور پیٹ چاک کیا ، ان کی ایک عورت نے آپ کا جگر نکال کر مُنھ میں ڈالا اور اسے چبایا، لیکن اسے اپنے حلق سے نیچے نہ اتار سکی، ناچا ر ا سے تھوک دیا۔
جب رسول اللہ ﷺ کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا:
’’اگر یہ جگر اُس کے پیٹ میں چلا جاتا تو وہ عورت آگ میں داخل نہ ہوتی۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں میرے حمزہ کی اتنی عزّت ہے کہ ان کے جسم کے کسی حصے کو آگ میں داخل نہیں فرمائے گا۔‘‘
جب رسول اللہﷺ تشریف لائے اور آپ کے مثلہ کیے ہوئے جسم کو دیکھا، تو یہ منظر آپ کے دلِ اقدس کے لیے اس قدر تکلیف دہ تھا کہ اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر آپ کی نظر سے کبھی نہیں گزراتھا۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’اے چچا! آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، کیوں کہ آپ جب تک عمل کرتے رہے، بہت نیکی کرنے والے اور بہت صلہ رحمی کرنے والے تھے۔‘‘
پھر اُن کے جسدِ مبارک کو قبلہ کی جانب رکھا اور ان کے جنازے کے سامنے کھڑے ہوئے اور اس شدت سے روئے کہ قریب تھا کہ آپ پر غشی طاری ہوجاتی۔
نبی اکرم ﷺفرمارہے تھے:
’’اے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺکے چچا! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے شیر، اے حمزہ! نیک کام کرنے والے، اے حمزہ! مصیبتوں کے دور کرنے والے، اے حمزہ! رسول اللہﷺکا دفاع کرنے والے!
یہ بھی فرمایا:
’’ہمارے پاس جبرائیل امینتشریف لائے اور ہمیں بتایا کہ حضرت حمزہ کے بارے میں ساتوں آسمانوں میں لکھا ہوا ہے:’ حمزہ بن عبد المطلب، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے شیر ہیں ‘۔‘‘
حاکم نیشاپوری، مستدرک میں حضرت جابر سے مرفوعاً (یعنی رسول اللہﷺ کا فرمان) روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت حمزہ بن عبد المطلب شفاعت کرنے والوں کے سردار ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَفَمَنۡ وَّعَدْنٰہُ وَعْدًا حَسَنًا فَہُوَ لٰقِیۡہِ۔ (پارہ 20، سورۃ القصص: 61)
ترجمہ:’’تو کیا وہ جسے ہم نے اچھا وعدہ دیا تو وہ اُس سے ملے گا۔‘‘(کنزالایمان)
سدی کہتے ہیں کہ ’’یہ آیت حضرت حمزہ کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یٰۤاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ﴿۲۷﴾٭ۖ ارْجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾(پارہ 30، سورۃ الفجر: 27 تا 28)
ترجمہ:’’اے اطمینان والی جان! اپنے رب کی طرف واپس ہو یوں کہ تو اُس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔‘‘
سلفی کہتے ہیں کہ اِس سے مراد حضرت حمزہ ہیں۔
نبی اکرمﷺ نے انہیں ایسی چادر کا کفن پہنایا کہ جب اُسے آپ کے سر پر پھیلاتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے اور پاؤں پر پھیلاتے تو سر ننگا ہوجاتا، چنانچہ وہ چادر آپ کے سر پر پھیلادی گئی اور پاؤں پر اذخر (خوشبودار گھاس) ڈال دی گئی۔ انہیں ایک ٹیلے پر دفن کیا، جہاں اس وقت ان کی قبر انور مشہور ہے ۔ اور اس پر عظیم گنبد خلیفہ الناصر لدین اللہ احمد العباسی کی والدہ نے 590 ھ میں تعمیر کروایا۔
لیکن افسوس نجدی حکومت نےخود ساختہ شریعت کا سہارا لیتے ہوئے1925ء میں تمام مزارات کو شہید کردیا،اور اپنے لیے اونچے اونچے محلات تعمیر کرلیے،ہم تمام نجدیوں سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ یہ بڑے بڑے محلات،اورعیاشیاں کس کی سنّت ہیں؟
شہداء زندہ ہیں:
چالیس سال کے بعد شہدائے اُحُد کی قبریں کھولی گئیں تو ان کے جسم تروتازہ تھے،ان کے ہاتھ پاؤں مڑ جاتے تھے اور ان کی قبروں سے کستوری کی خوشبو آتی تھی۔ حضرت حمزہکے پاؤں پر کدال لگ گیا تو اس سے خون بہنے لگا۔ حضرت جابرکے والدِ ماجد(حضرت عبد اللہ انصاری ) کا ہاتھ چہرے کے زخم سے ہٹایا گیا تو وہاں سے خون بہنے لگا،ہاتھ دوبارہ اسی جگہ رکھ دیا گیا تو خون بند ہو گیا۔
نبی مکرمﷺ اور اہلِ مدینہ کا معمول:
نبی اکرم ﷺ نے شہدائے اُحُد کے بارے میں بیان فرمایا کہ جو شخص قیامت تک ان کی زیارت کرے گا اور ان کی خدمت میں سلام عرض کرے گا تو وہ اسے جواب دیں گے۔
فاطمہ خزاعیہ کا بیان ہے کہ میں ایک دن حضرت سیّد الشہداء جناب حمزہ کے مزارِ اقدس کی زیارت کے لیے گئی اورمیں نے قبر منوّر کے سامنے کھڑے ہو کر’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللہ!‘‘ کہا تو آ پ نے بآواز ِ بلند قبر کے اندر سے میرے سلام کا جواب دیا جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا۔(حجۃ اللہ علی العالمین، ج2، ص863)
نیک لوگوں کی ایک جماعت نے سنا کہ جس شخص نے شہدائے اُحُد کی بارگاہ میں سلام عرض کیا تو انہوں نے جواب دیا۔
نبی اکرم ﷺ ہر سال کے آخر میں شہدائے اُحُد کے مزارات پر تشریف لے جاتے اور فرماتے:
’’سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فِنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ!‘‘
اہلِ مدینہ رجب کے مہینے میں حضرت حمزہکی زیارت کرتے ہیں۔(بحوالہ:سبل الھدی والرشاد، ۴؍۳۷۰؛ البدایۃ والنھایۃ، ۴؍۴۶۔ دلائل النبوۃ، ۳؍۳۰۷۔؛ شرح الصدور، ص ۲۷۴؛ تفسیر الخازن، ۱؍۲۹۷)
تاریخِ شہادت:
بروز، ہفتہ15؍ شوّال المکرم3ھ، مطابق 624ء کوآپ کی شہادت ہوئی۔اُس وقت آپ کی عمر 57 سال تھی۔ ایک قول کے مطابق آپ کی عمر شریف 59 سال تھی۔
مآخذ و مَراجع:
جالیۃ الکدر فی نظم اسماء شھداءاحد و بدر (علامہ برزنجی)۔
تذکرہ شہداء احد وبدر۔(مجتبیٰ السعیدی)