Hazrat Abdul Kareem Naqshbadni Jabalpuri جدامجد برہان ملت حضرت عبدالکریم نقشبندی جبلپوری

 

، مولانا شاہ محمد عبد الکریم نقشبندی قادری

نام ونسب: اسم ِگرامی: حضرت مولانا شاہ محمد عبدالکریم﷫(والدِ گرامی: شاہ عبدالسلام جبل پوری﷫)۔لقب: امام الحکماء،استاذ العلماء۔

 سلسلہ ٔنسب اس طرح ہے:  مولانا شاہ محمد عبد الکریم قادری نقشبندی بن مولانا شاہ محمد عبدالرحمٰن بن مولانا شاہ محمد عبدالرحیم بن مولانا شاہ محمد عبد اللہ بن مولانا شاہ محمد فتح بن مولانا شاہ محمد ناصر بن مولانا شاہ محمد عبدالوہاب صدیقی طائفی۔علیہم الرحمۃ والرضوان۔آپ﷫ کا خاندانی تعلق حضرت سیدنا صدیق اکبر﷜ سےہے۔چھٹی  پشت میں آپ کے جد اعلیٰ حضرت شاہ عبدالوہاب صدیقی﷫سلطنتِ آصفیہ کے دورِ حکومت میں نواب صلابت جنگ بہادر کے ساتھ طائف سے ہندوستان تشریف لائے،اور حیدر آباد دکن میں سکونت اختیار کی۔یہاں حکومتِ آصفیہ کی جانب سے مکہ مسجد کی امامت اور محکمۂ مذہبی امور کے جلیل القدر عہدے پرمامور ہوئے۔آپ﷫ کے خاندان میں مسلسل پانچ پشتوں میں پانچویں آصف جاہ کے زمانے تک برابر قائم رہا۔(برہانِ ملت کی حیات وخدمات: 23)




تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1233ھ مطابق 1818ء کو ’’حیدر آباد دکن‘‘ میں ہوئی۔جہاں آپ کے آباؤ اجداد کو حکومتِ آصفیہ کی جانب سے زمین بطورِ جاگیر ملی ہوئی تھی۔(ایضا: 23)

تحصیلِ علم: مولانا شاہ محمد عبدالکریم نقشبندی قادری﷫ نے ابتدائی تعلیم اپنے جدامجد مولانا شاہ محمد عبدالرحیم﷫ اور اپنے والد ماجد مولانا شاہ محمدعبدالرحمن﷫سےہی حاصل کی۔پھر بعد میں مولانا شاہ دبلے محی الدین صاحب سے تعلیم حاصل کی۔فقہ وحدیث،منطق،ادب،معانی،بیان، وغیرہ علوم عقلیہ و نقلیہ حضرت علامہ مولانا عبدالحلیم صاحب فرنگی محلی لکھنوی﷫(م1284ھ)سے حیدر آباد  دکن میں حاصل فرمائی۔

بیعت و خلافت:آپ﷫ سلسلہ عالیہ قادریہ میں اپنے استاذِ محترم مولانا شاہ دبلے محی الدین رائے ویلوری﷫سے بیعت ہوئی۔اور حضرت مولانا شاہ سید ابوالقاسم یوسف حسن بخاری﷫سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اجازت وخلافت سےسرفراز کیے گئے۔طالبانِ حق کو ہمیشہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت فرماتے۔(ایضا:23)

سیرت وخصائص:استاذ العلماء،امام الحکما،مرجع الفضلاء،جامع کمالات علمیہ و عملیہ،پیر طریقت،رہبر شریعت حضرت علامہ مولانا شاہ محمد عبدالکریم نقشبندی قادری﷫۔آپ﷫ اپنے وقت کے ایک جید عالم،حاذق حکیم اور شیخِ طریقت تھے۔خاندانی شرافت کے ساتھ علمی وجاہت میں بھی یکتا تھے۔آپ﷫کا روزانہ کا معمول تھا کہ فجر سے کافی پیشترمسجد کوتوالی تشریف لےجاتے،تہجد و نوافل اوراد و اذکار سے فرصت پاکر نماز فجرجماعت سے ادا فرمانےکےبعد اکثر و بیشتر نماز اشراق کے بعد اپنے مکان پر تشریف لاتے۔مکان پر مردوں اور عورتوں کا ہجوم ہوتا۔جو اپنے چھوٹے بچوں اور مریضوں کو دور دراز علاقوں سے دوا کی غرض سے لےآتےتھے۔آپ ان کی نبض دیکھ کر دوا تجویز فرماتے۔جب مریضوں سے فرصت ہوتی تو دوپہر کے وقت کا کھانا کھاکر قیلولہ فرماتے،پھر اٹھ کر مسجد تشریف لےجاتے۔اور اکثر مسجد سے نماز مغرب اداکرکے واپس آتے۔کبھی عشاءکےبعد ہی واپسی ہوتی۔

تبحرِ علمی: فقہ میں آپ کو زبردست عبور حاصل تھا۔مسائل فقہیہ برجستہ کسی کتاب کی طرف رجوع کیے بغیر تحریر فرماتے۔اس وقت  فتاویٰ کی باقاعدہ نقل کا کوئی انتظام نہ تھا۔اہم اور ضروری مسائل کسی کتاب کےاول یا آخر اوراق میں تحریرفرمادیتے۔دونوں قسم کی تحریریں اب بھی دارالافتاء عیدالاسلام میں موجود ہیں۔وعظ و تقریرفرماتے وقت،تفسیر و حدیث میں دقائقِ نظری کےساتھ نکات بیان فرماتے۔ہر قسم کےنقوش  و تعویذات کےلئے آپ کی ذات مرجعِ خلائق تھی۔مؤکلات پر بھی آپ کو قابو حاصل تھا۔علم طب و حکمت میں بھی مہارتِ تامہ حاصل تھی۔مایوس العلاج مریض ہرطرف سے ناکام ہوکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے،دعااور دواء دونوں لےکر جاتے۔شفاء پاتے،اور خوش وخرم رہتے،اور آپ کو دعاؤں سے نوازتے۔

الللﷻنے آپ کو تخلیقی ذہن عطاء فرمایا تھا۔زندگی کے  تمام شعبہ جات کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل تھیں۔آپ کا ذہن ایک انجینئر کا ذہن تھا۔ہر کام ایک منظم طریقے،اور عمدہ اسلوب سے کرتےتھے۔اسی آپ﷫عربی،فارسی،اردو،انگریزی،مرہٹی،تیلگو،اور کانگری وغیرہ زبانوں میں بلا تکلف گفتگو فرمالیتےتھے۔ان سب خصوصیات کےباوجود سادہ زندگی کے حامل تھے۔نام و نمود اور نمائش سےہمیشہ متنفر رہے۔ آپ﷫ تلامذہ ،مریدین،متوسلین اور خلفاء  کا وسیع حلقہ رکھتےتھے۔بدمذہبوں اور بدعقیدہ مولویوں کی خوب خبرلیتے۔اعلیٰ حضرت﷫ کےمحب،ومداح اور قدردان تھے۔اعلیٰ حضرت﷫ بھی آپ کی بہت عزت فرماتےتھے،اور آپ کےمسلکی تصلب اور دینی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتےتھے۔ہمیشہ آپ کےگھرانے کی تعریف فرماتے۔

1313ھ میں جب مولانا عبدالسلام جبل پوری﷫کو ’’ندوہ‘‘کی جانب سے دعوت نامہ موصول ہوا۔آپ نے شرکت کےلئے والد گرامی مولانا شاہ محمد عبدالکریم﷫سے اجازت طلب کی توآپ نےاجازت عطا فرماکر یہ نصیحت فرمائی۔’’ندوہ میں شریک ہو یا نہ ہو۔لیکن مولانا احمد رضاؔخان صاحب سے ضرور ملنا۔اس وقت ان کاعلم وفضل و کمال اپنی وسعت و تابانی اور تحقیق و تدقیق کےلحاظ سےبےنظیر و بےمثال اور انتہائی عروجِ کمال پرہے۔جس طرح بھی ہومولانا کی خدمت میں رہ کرجتنافیض حاصل کرسکو،تمھارےخاندان کےلئے باعثِ رحمت و برکت و سعادت و سربلندی ہوگا۔بریلی میں ندوہ کا یہ اجلاس تمہارےلئےمولانا احمد رضاؔخاں صاحب سےعلم وفضل وسعادت حاصل کرنےکا ان شاء اللہ ذریعہ اور سبب ہے‘‘۔

اولاد: حضرت مولانا ﷫کے سات صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تھیں۔جن میں چھ صاحبزادے بہترین عالم اور حافظ قرآن ہوئے،تمام حضرات دین کے کاموں میں ساری زندگی مصروفِ عمل رہے۔بالخصوص اپنے برادر مولانا عیدالاسلام حضرت شاہ عبدالسلام ﷫کے شانہ بشانہ دینی خدمات انجام دیتے رہے۔

تاریخِ وصال: 16/رمضان المبارک1317ھ ،مطابق 1898ء دوپہر11؍بج کر22؍منٹ اپنے رفیقِ اعلیٰ سے جاملے۔عیدگاہ کلاں جبل پور میں ابدی نیند سورہے ہیں۔آپ﷫نے اپنی موت کا وقت بتا دیاتھا۔سب رشتےداروں کو جمع کرکےملاقات فرمائی،سب سے مصافحہ فرمایا،حقوق العباد سے سبکدوشی کےلئے معافی مانگی،اور سب کو رونے دھونے سے منع فرمایا۔اپنے صاحبزادوں کونصیحتیں فرمائیں۔دینِ متین کی اشاعت کی تلقین فرمائی، اور حضرت عیدالاسلام سےفرمایا: لکھو! ’’ماتَ عَبدُالکریم فیِ شَوقہٖ‘‘

اعلیٰ حضرت﷫ کی طرف سےقطعۂ تاریخِ وصال:

قیل مات الزکی عبدالکریم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قلت کلا بل احتظیٰ بدوام

بتایا گیا کہ مردِ صالح عبدالکریم کاانتقال ہوگیا۔میں نے کہا کرگز نہیں! بلکہ انہیں دائمی زندگی کا حصہ دیا گیا

حی عن بینۃ فکیف یموت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انما المیت ھالک الاوھام

وہ اپنی نشانی کے ساتھ زندہ ہیں۔پھر وہ کیسے مرسکتے ہیں۔بےشک ان کا جنازہ صرف وہموں کو دبانے کےلئے ہے

أ یموت الذی لہ خلف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلم اللہ مثل عبد السلام

کیا وہ شخص مرسکتا ہے،جس کا جانشین عبدالسلام جیسا ہو،جسے اللہ ﷻسلامت رکھے

جبل الدین راسخ بقیامہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فی جبل فور شامخ الاعلام

وہ عبدالسلام جو دین کا پہاڑ ہے،اور جبل پور میں مضبوطی سے کھڑا ہے،جس کی نشانیاں بہت بلند وبالا ہیں۔

قلت تاریخ عیشہ الابدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دام عبد الکریم خلد کرام

میں کہتا ہوں یہ 1317ھ ہمیشہ آرام کرنے کی تاریخ ہے،عبدالکریم عزت والوں کی خلد میں ہمیشہ کےلئے رہیں

 

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی