Hazrat Jalal ud Din Kabir ul Aulia Usmani Chishti Sabri حضرت شیخ جلال الدین کبیر الاولیاء پانی پتی

حضرت شیخ جلال الدین کبیر الاولیاء  پانی پتی رحمۃ اللہ  علیہ

نام ونسب: اسمِ گرامی:  خواجہ محمد۔لقب: جلال الدین،کبیر الاولیاء۔مکمل نام: شیخ جلال الدین محمد کبیر الاولیاء پانی پتی۔ سلسلہ ٔ نسب اس طرح ہے: شیخ محمد جلال الدین کبیر الاولیاء بن خواجہ محمود بن کریم الدین بن جمیل الدین  عیسیٰ بن شرف الدین بن محمود بن بدرالدین بن ابو بکر بن صدر الدین بن علی بن شمس الدین عثمان بن نجم الدین عبدا للہ الیٰ آخرہ ۔آپ کا سلسلہ امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی ذالنورین﷜ تک منتہی ہوتاہے۔ آپ کےوالدماجدشیخ محمود امرائےپانی پت سے تھے۔(تذکرہ اولیائے برصغیر:221)



تاریخِ ولادت:  23/شوال المکرم 557ھ مطابق 23/اکتوبر1162ء، بروز بدھ، پانی پت(ہند) میں ہوئی۔ انسائیکلوپیڈیا جلد3: 61)۔ آپ کے سنِ ولادت میں مختلف اقوال ہیں۔صاحبِ اقتباس الانوارشیخ  محمد اکرم قدوسی ﷫  نے تحریرفرمایا ہے کہ آپ کی عمر شریف ایک سو ستر سال سے زیادہ تھی۔اسی طرح صاحبِ سیر الاقطاب جو آپ کی اولاد میں سے ہیں، انہوں نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت کی عمر مبارک ایک سوبہتر برس تھی۔ (اقتباس الانوار:550/سیر الاقطاب:226)۔تو اس لحاظ سےتاریخِ ولادت593ھ یا اس  سے قریب قریب  تصور کی جاسکتی ہے۔مولوی زکریا کاندھلوی نےآپ کا سن ِ ولادت 695ھ لکھا ہے۔یہ تاریخی حقائق کے خلاف ہے۔تلاشِ  مرشد میں جب حضرت کبیر الاولیاء﷫ سرگرداں تھے، اوراسی سلسلے میں شیخ جمال الدین ہانسوی﷫(م659ھ) سے بھی ملاقات ہوئی،اور ان سے بیعت کی درخواست کی۔انہوں نے فرمایا کہ آپ اپنے علاقے پانی پت جائیں وہیں آپ کو شیخِ کامل ملےگا۔صاف ظاہر ہے کہ یہ  ملاقات  659ھ سے پہلے ہوئی  ہوگی۔انہیں کے حکم پر 658ھ میں اپنے علاقے پانی پت واپس چلے گئے۔ پھر  شیخ شمس الدین ترک پانی پتی﷫ سے680ھ  کےبعد  بیعت ہوئے،اور 712ھ میں خلافت سے مشرف ہوئے۔(تذکرہ حضرت علی احمد صابر کلیری:109)

تحصیلِ علم: آپ﷫ کا تعلق ایک علمی و صاحبِ ثروت خاندان سے تھا۔انہوں نے آپ کی تعلیم وتربیت پر خاص توجہ دی۔آپ اس قت کے مروجہ علوم میں مہارت رکھتے تھے۔آپ کی تصانیف میں ’’زاد الابرار‘‘ ایک لاجواب کتاب ہے۔اس کے مطالعے سےآپ کی وسعتِ علمی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتاہے۔(سیر الاقطاب:215)

بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں شیخِ کامل حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی﷫ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے،اور مجاہدات وریاضات کےبعد خلافت سے مشرف ہوئے۔اسی طرح حضرت شرف الدین بو علی قلندر﷫ آپ سے بچپن سے بہت محبت فرماتےتھے۔بلکہ آپ سے ملاقات کےلئے آپ کے گھر تشریف لےجاتےتھے۔(ایضا: 215)

سیرت وخصائص: حجۃ الاولیاء،برہان الاتقیاء،زبدۃ الاصفیاء،سند الاولیاء،جامع کمالاتِ علمیہ و روحانیہ،برکت الزماں،قطب الزماں، حضرت خواجہ شیخ جلال الدین محمد کبیر الاولیاء پانی پتی﷫۔آپ﷫ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کے عظیم مشائخ میں سے ہیں۔آپ کی ذاتِ والا برکات سے سلسلہ عالیہ کو فروغ حاصل ہوا۔بہت سے حضرات آپ کی صحبت کی بدولت واصل باللہ ہوئے۔آپ کا فیضان عام تھا۔خاندانی نسبت اعلیٰ تھی۔آپ﷫ پر بچپن سے ہی آثارِ سعادت نمایاں تھے۔آباء کا تعلق امراء سے تھا۔اس لئے گھر میں ہرقسم ی  فروانی وخوشحالی تھی۔ابتداءً اپنی ذات کےلئے بےدریغ پیسہ خرچ کرتے تھے۔آپ کامعیاررہائش اونچاتھا۔آپ کالباس اعلیٰ قسم کاہوتاتھا۔آپ لباس پرکافی پیسہ خرچ کرتے تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ  حضرت مخدوم شرف الدین  قلندر﷫ ایک عام گزرگاہ پررونق افروزتھے۔ آپ گھوڑےپرسواروہاں سےگزرے، تو حضرت قلندر﷫ نے جب آپ کوگھوڑےپرسواردیکھا تو فرمایا: ’’زہےاسپ وزہےسوار‘‘۔(کیساخوش قسمت گھوڑااورکیساخوش قسمت سوارہے)۔یہ سن کرآ پ پروجدانی کیفیت طاری ہوگئی۔گھوڑے سےفوراً اترے،گریبان چاک کرکےجنگل کی راہ لی۔چالیس سال آپ نےسفرمیں گزارے۔بہت سےدرویشوں سے ملےاوران کے فیوض و برکات سےمستفیدہوئے۔

ایک دن حضرت شمس الدین ترک پانی پتی ﷫ اپنےحجرےکےدروازےپررونق افروزتھے۔ مریدین ومعتقدین  حاضرِ خدمت تھے۔آپ لباس فاخرہ پہنےگھوڑے پرسواران کےسامنےسےگزرے، انہوں نےآپ کودیکھتے ہی حاضرین سےفرمایا:’’ میں اپنی نعمت اس لڑکےکی پیشانی میں تاباں کودیکھتاہوں‘‘۔ ان کایہ فرماناتھاکہ آپ کی نظران پر پڑی۔نظرکاپڑناتھاکہ آپ بےاختیارہوگئے۔گھوڑے سے اترےاورسرنیازان کےقدموں پررکھا،انہوں نےاپنےدست مبارک سےآپ کاسراٹھایااورآپ کوحکم دیاکہ’’گھوڑے پرسوار رہواورگھوڑےکوپھیرو‘‘۔آپ حکم بجالائے۔ حضرت شمس الدین ترک پانی پتی نےاسی وقت آپ کوبیعت سے مشرف فرمایااورکلاہ چرمی جواس وقت پہنےہوئےتھےاتارکراپنےہاتھ سےآپ کےسرپررکھا اورفرمایا۔’’ ترا ایں ہم دادم وآں ہم دادم‘‘ (میں نےتمہیں یہ  بھی دیا اور وہ بھی دیا)۔یعنی دنیا و آخرت دونوں عطاء کردیں ہیں۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتاہے: ’’علاء الدین صابر کلیری ﷫کی کمائی،شیخ جلال الدین نے لٹائی‘‘۔(تذکرہ اولیائے پاک وہند: 111)

جود و سخا: آپ﷫  بہت سخی تھے۔ہر وقت لنگر جاری رہتا۔ہزاروں افراد لنگر کھاتےتھے۔مسافر،نادار،یتیم بیوہ اور مستحق افراد کوبا عزت کھانا ملتا تھا۔اس میں نئی چیز یہ تھی کہ جو شخص جس برتن میں کھانا کھاتا وہ اسی کی ملکیت  ہوتا تھا۔اس کو دوبارہ لنگر میں استعمال نہیں کیا جاتاتھا۔دنیا حیران تھی کہ  روزانہ اتنا برتن اور اناج کہاں سے آتا ہے۔یہاں خرچ کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔لطف کی بات یہ ہے کہ اِس پر فِتن اور مہنگائی کے زمانے میں  بھی اولیاء اللہ کے آستانوں سے غریبوں اور مسافروں کو بلا امتیاز کھانا ملتا ہے۔پاک وہند کی اکثر خانقاہوں پر ہروقت لنگر جاری رہتاہے۔لاہور پاکستان میں داتا  گنج بخش ﷫ کے مزار شریف پر دن رات لنگرجاری  رہتاہے۔جن کے پاس دنیاوی خزانے اور سلطنتیں ہیں،انہوں نے تو غریبوں سے روزی روٹی چھین لی ہے۔ لیکن اللہ کے فقیر آج بھی غریب پرور اور محسنِ انسانیت  ہیں،اور ان کے مزاروں سے انسانیت کی خدمت ہورہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ صدیاں بِیت گئیں ،لیکن ان کی محبت آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

خانقاہ میں ہزاروں لوگ اعلیٰ قسم کھانا کھاتےتھے۔لیکن حضرت مخدوم الاولیاء ﷫ کے گھر والوں پر اکثر فاقے رہتےتھے۔ ایک کیمیا گرشخص  نے آپ کے صاحبزادے کو دیکھا تو کہنے لگا: اے مخدوم زادے! تمھاری صورت سے معلوم ہوتا ہے کہ تم کئی دن سے فاقے سے ہو۔تم مجھ سے کیمیا بنانا سیکھ لو۔تاکہ خوش حال زندگی بسر کرو۔حضرت دیوار کے پیچھے سب باتیں سن رہےتھے۔اس کے چلے جانے کے بعد فرزند کوبلایا اور فرمایا: ’’ کہ اس حجرے  کی طرف نظر کرو۔جب انہوں نے آنکھ اٹھاکر دیکھا تو پورا حجرہ سونے کا ہے۔پھر آپ نے فرمایا۔اے فرزند! یہ اکسیر پیدا کرو کہ جس پر نظر ڈالو،وہ کندن ہوجائے‘‘۔(تذکرہ اولیائے برصغیر:225)

اسی طرح ایک دن آپ دریا کےکنارےتشریف لےگئے۔وہاں ایک جوگی آنکھیں بندکئے بیٹھاتھا۔آپ کے وہاں پہنچنےپرجوگی نے  آنکھیں کھولیں اور آپ کوسنگ پارس دیا۔آپ نےاس پتھرکو دریا میں پھینک دیا۔ جوگی خفاہوا۔ آپ نےجوگی سےفرمایاکہ دریا میں جا کر اپنا پتھر لےلے۔ لیکن اس کے علاوہ اور کوئی پتھر نہ لینا۔جب جوگی دریامیں گیاتواس نےوہاں ہزاروں اس سے اعلیٰ  قسم کے پتھرپائے۔ اس نے اپنےپتھرکےعلاوہ ایک اورپتھراٹھالیااورباہرآگیا۔آپ نے اس سے فرمایاکہ وہ دوسراپتھرکیوں چھپا کرلایااس نےدونوں پتھرآپ کےسامنےرکھ دیئےاورآپ کامریدہوگیا۔ (ایضا:228)

فضل وکمال:  ایک دن حضرت شیخ جلال الدین ﷫ کہیں جا رہے تھے کہ ایک ضعیف عورت سر پر پانی کا گھڑا رکھے جا رہی تھی، اس کے پاؤں کانپ رہے تھے آپ نے پوچھا کیا آپ کا کوئی اور آدمی پانی نہیں لاسکتا، کہنے لگی میں بے کس اور بے سہارا ہوں، حضرت نے پانی کا گھڑا اٹھایا اور اپنے کندھے پر رکھ کر چلنے لگے اور اس کے گھر پہنچے گھڑا رکھ کر فرمایا آج کے بعد ان شاء اللہ یہ گھڑا پانی سے بھرا رہے گا تمہیں پانی لانے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوگی، وہ ضعیف عورت اس گھڑے سے پانی استعمال کرتی رہی مگر پانی کبھی کم نہ ہوا۔

آپ کوبہ نورباطن حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی بیماری کاعلم ہوا،آپ بقوت روحانی ایک ساعت میں دہلی پہنچے،مخدوم جہانیاں کوحالت نزع میں پایا،آپ نےان کی صحت کےلئےدعافرمائی اور اپنی عمرکےچندسال ان کودےکراسی طرایک ساعت میں پانی پت واپس تشریف لائے۔اسی وقت حضرت مخدوم جہانیاں صحت یاب ہوگئے۔حضرت کی صحت یابی کی خبر سن کر سلطان فیروز الدین آپ کی خدمت میں حاضر ہوا صورت حال معلوم کرنے پر آپ نے بتایا کہ مجھے شیخ جلال الدین نے اپنی زندگی کے دس سال دیے ہیں ورنہ میرا وقت آ پہنچا تھا۔ سلطان فیروزالدین کو حضرت شیخ جلال الدین کی زیارت کا شوق پیدا ہوا، چنانچہ وہ چل کر پانی پت آیا اور آپ کی زیارت سے مشرف ہوا۔ (ایضا:225)مشہور مفسر عارف باللہ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی﷫ (صاحبِ تفسیرِ مظہری)،اور حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی﷫ آپ کی اولاد میں سے تھے۔(چند ممتاز علمائے انقلاب1857:127)

تاریخِ وصال: 13/ربیع الاول 765ھ مطابق 18/جنوری 1364ء کو واصل باللہ ہوئے۔مزار پر انوار پانی پت میں مرجعِ خلائق ہے۔

ماخذومراجع:  سیر الاقطاب۔تاریخ مشائخِ چشت۔اقتباس الانوار۔تذکرہ اولیائے برصغیر ۔خزینۃ الاصفیاء۔تذکرہ اولیائے پاک وہند۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی