Hazrat Maulana Shah Fazal Rehman Ganj Muradabadi حضرت شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی

شیخ المشائخ، قطب زماں، مولانا شاہ فضل الرحمان گنج مرادآبادی  رحمۃ اللہ تعالی علیہ

نام و نسب: اسم گرامی:شاہ فضل ِ رحمٰن۔لقب: شیخ المشائخ،قطبِ زماں۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: حضرت مولانا شاہ فضل رحمن گنج مرادآبادی بن حضرت شاہ اہل اللہ بن محمد فیاض بن برکت اللہ بن نور محمد بن عبداللطیف بن عبد الرحیم بن محمد المعروف شاہ مصباح العاشقین چشتی(مزار شریف قصبہ ملانواں میں ہے)۔علیہم الرحمہ۔(تذکرہ مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی:15)۔ آپ کے والد گرامی حضرت شاہ اہل اللہ ﷫ حضرت شاہ عبد الرحمن لکھنوی﷫ کے مرید تھے،انہوں نے ہی حضرت گنج مراد آبادی کانام ’فضلِ رحمٰن‘ تجویز فرمایا تھا۔حضرت شاہ اہل اللہ ﷫ صاحبِ ورع بزرگ اور صوفی شاعر تھے۔حضرت شاہ فضل رحمن کا سلسلۂ نسب انتیس واسطوں سےخلیفۂ اول حضرت سیدناابوبکرصدیق ﷜سےجاملتا ہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی بصیرت تھا،ان کا سلسلۂ نسب حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی﷫سے ملتاہواحضرت ابوبکر صدیق﷜ پر منتہی ہوتاہے۔(تذکرہ اولیائے پاک ہند:235/اردو دائرہ معارف اسلامیہ)

ایام طفولیت میں آثارِ سعادت:اس دور میں یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ حضرت اہل اللہ شاہ کےہاں ایک ایسا بچہ پیداہوا ہےجورمضان کے مہینے میں دودھ نہیں پیتا۔ اس بات کا اس قدر چرچا ہوا کہ جب کبھی رمضان المبارک کی 29 تاریخ کو مطلع ابر آلود ہوتا تو لوگ آپ کی والدہ کے پاس آکر دریافت کرتے کہ کیا آج آپ کے بچے نے دودھ نوش فرمایا ہے۔آپ کی والدہ بتاتیں کہ ہاں تو وہ یقین کر لیتے کہ شوال کا چاند ہو گیا۔(ایضا)

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 21/رمضان المبارک 1208ھ مطابق21/اپریل 1794ء،  بروز پیر شہر ’’سندیلہ‘‘ ضلع ہردوئی،یوپی (ہند)میں ہوئی۔

بچپن میںپیشین گوئی: جب آپ کی عمر چھ سال کی ہوئی  تو آپ کے والد آپ کو اپنے ہمراہ اپنے پیرومرشدکے پاس لے گئے۔حضرت مولاناشاہ عبدالرحمٰن لکھنوی ﷫نے آپ کو دیکھتے ہی فرمایا:’’یہ لڑکاہندوستان کاقطب ہوگا‘‘۔یہ کہ کر اپنا لعاب ان کے منہ میں ڈال دیا۔

تحصیلِ علم:حضرت شاہ فضل رحمٰن گنج مراد آبادی نے مولانا نور الحق بن مولانا انوار الحق فرنگی محلی سے ابتدائی تعلیم کتبِ درسیہ لکھنؤ میں پڑھیں اور پھر دہلی کا سفر اختیار کیا جہاں حدیث شریف کی تعلیم حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور حضرت شاہ اسحٰق محدث دہلوی سے حاصل کی۔ آپ کے ہمدرس طلبہ میں مرزا حسن علی محدث لکھنوی ، مولانا حسین احمد ملیح آبادی ، اور مولانا عبدالصمد بھی شامل تھے۔ آپ نے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے حدیث مسلسل بالاولیۃ پڑھی اور سند حاصل کی جبکہ مولانا شاہ اسحٰق سے حدیث کی مکمل تعلیم حاصل کی۔

بیعت وخلافت:آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کے شہرۂ آفاق بزرگ حضرت شاہ محمد آفاق دہلوی﷫ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سلوک کی تعلیم حاصل کی اور بیعت و خلافت سے سرفراز ہوئے ۔ آپ کے مرشد نے آپ کو علامہ محمد ابن جزری کی کتاب ’’حصن حصین‘‘  پڑھائی اور اس کے پڑھنے اور پڑھانے کی اجازت عطا فرمائی۔ حضرت شاہ آفاق﷫ آپ سے بے پناہ محبت فرماتے تھے اور بیشتر آپ کے مرشد نے آپ کی اقتداء میں نماز یں ادا کی۔ (تذکرہ محدث سورتی:46)۔شجرۂ طریقت اس طرح ہے: حضرت شاہ فضل رحمٰن، حضرت شاہ آفاق دہلوی، حضرت خواجہ ضیاء اللہ، حضرت خواجہ محمد زبیر سرہندی،نقشبندِ ثانی حضرت خواجہ محمد نقشبندی،حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی،حضرت مجدد الفِ ثانی۔علیہم الرحمہ۔

سیرت وخصائص: قطبِ زماں،مرشدِ دوراں،اویسِ زمانہ،عارفِ یگانہ،عالم و عارف،واصل باللہ،عاشقِ رسول اللہ،عارف اسرار  ربانی حضرت مولانا شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی﷫۔آپ﷫ ابتدائی چودہوی صدی کے مشہور بزرگ ہیں۔آپ کی شہرت آپ کی زندگی میں ہی ہند  کے طول وعرض میں ہوگئی تھی۔خاص و عام جوق در جوق آپ کے در ِ دولت پرکثرت سے حاضر ہوکر فیوض و برکات سے مالا مال ہونے لگے۔اتباع ِ شریعت،سنتِ مصطفیٰﷺسے محبت،اور قرآن و حدیث سے شغف،تمام معاملات میں شریعت کو فوقیت اور اپنے مریدین و متوسلین کی شریعت کے مطابق تربیت آپ﷫کے اہم اوصاف تھے۔خود بھی ایک جید عالم دین تھے۔آپ کا گزر اوقات کتب ِ دینیہ کی تصحیح (پروف ریڈنگ)تھا۔اس سے جو اجرت مل جاتی اسی سے اپنے معاش کے معاملات پورےکرتے،کبھی نوکری نہیں کی۔اللہ جل شاہ نہ کی ذات پر اعلیٰ توکل تھا۔نذرانہ و ہدایا وغیرہ  غرباء و فقراء  میں تقسیم کردیتےتھے۔ورع و احتیاط،قناعت و استغناء،بذل و سخا،اور زہد و کرام میں آپ فردِ فرید تھے۔مال جمع کرنا اور فقر و فاقہ سے ڈرنا تو آپ جانتےہی نہیں تھے۔ہزاروں روپے خدمت میں آتے،اور آپ اسی دن لوگوں میں تقسیم کردیتے، یہ بات بھی پسند نہ تھی کہ کوئی ایک ایسی رات گزرے جس میں روپے پیسے آپ کے پاس موجود ہوں،پہننے اور کھانے اور لباس میں کسی تکلف سے کام نہیں لیتے تھے۔

قول ِحق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتےتھے،خواہ وہ کیسا ہی ظالم و جابر کیوں نہ ہو۔علم وعمل،زہد و ورع،شجاعت و کرم،جلالت مہابت،امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں اپنے معاصرین میں فائق وممتاز تھے۔اسی کےساتھ اخلاصِ نیت،گریہ و زاری،ذکر و استحضار،دعوت الی اللہ، حسنِ اخلاق،فیض رسانی میں عام میں اپنی مثال آپ تھے۔کھانے میں اکثر باجرہ کی روٹی ہوتی تھی،اور کبھی مونگ یا ماش کی دال وغیرہ کی دال بھی ہوتی،اور کھچڑا بھی پسند تھا۔مٹی کے برتن میں کھاتے،اور بوریئے پر بیٹھتےتھے۔نماز ِ تہجد کا خصوصی اہتمام تھا۔حضرت شاہ فضل رحمٰن گنج مرادآبادی کی پہلی شادی  قصبہ ملاواں میں ہوئی لیکن اہلیہ کی وفات کے بعد آپ نے ملّاواں کی سکونت ترک کردی اور گنج مرادآبادی ضلع اناؤ میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور دوسرا عقد فرمایا۔ مجاہدے اور ریاضت سے آپ کو حد درجہ شغف تھا۔ چنانچہ زندگی کا بیشتر حصہ اپنی خانقاہ میں بسر کیا۔

حدیث شریف سے شغف:حضرت شاہ فضل رحمٰن گنج مرادآبادی کو علم حدیث سے خصوصی شغف تھا اور معقولات کے شدید مخالفت تھے یہی وجہ ہے کہ آپ سے ارادت رکھنے والوں نے علمِ حدیث کے فروغ کی جانب زیادہ توجہ دی۔ مولانا محمد علی مونگیری اپنی کتاب ارشادِ رحمانی میں لکھتے ہیں کہ:’’طالب علمی کے زمانے میں جب میری ملاقات شاہ فضل رحمٰن سے ہوئی تو مجھ سے دریافت فرمایا کہ تم کیا پڑھتے ہو؟ میں نے کہا کہ قاضی مبارک، ارشاد ہوا،  استغفراللہ، نعوذ باللہ قاضی مبارک پڑھتے ہو۔ اس سے کیا حاصل ہم نے فرض کیا کہ منطق پڑھ کر قاضی مبارک کی مثل ہوگئے پھر کیا؟ قاضی مبارک کی قبر پر دیکھو کیا حال ہے؟ کوئی فاتحہ پڑھنے والا بھی نہیں اور ایک بے علم کی قبر پر جاؤ جس کو خدا سے نسبت تھی اس پر کیسے انوار و تبرکات ہیں۔(تذکرہ محدث سورتی: 46)اسی طرح ایک مرتبہ جب استاذ العلماء مولانا احمد حسن کانپور آپ کی خدمت میں تشریف لے گئے تو آپ نے حسب عادت دریافت کیا کہ آپ کیا پڑھاتے ہیں۔ مولانا کانپوری نے سب علوم کا نام لیا۔ اور معقولات کی زیادہ کتابیں بتائیں، شاہ صاحب نے معقولات پڑھنے اور پڑھانے کی بہت ہجو کی۔ اور فرمایا کہ منطق زیادہ پڑھنے اور پڑھانے سے قلب سیاہ ہوجاتا ہے ۔ حدیث و فقہ زیادہ پڑھایا کرو۔

مولانا حکیم قاری  احمد پیلی بھیتی نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ مولانا عبدالکریم گنج مراد آبادی فرماتے تھے کہ حدیث کا مطالعہ سے انبیاء اور اولیاء کے قلوب کے انور و برکات جو اس میں ہیں قلب پر اثر کرتے ہیں مطالعہ حدیث سے استغفار اور خوفِ خدا پیدا ہوتا ہے اور خلقِ خدا کی رہنمائی میں مدد ملتی ہے جبکہ معقولات کے مطالعہ سے کلماتِ کفریہ زبان سے نکلتے ہیں نفس موٹا پڑتا ہے اور کدورت پروان چڑھتی ہے۔ حضرت شاہ فضل رحمٰن گنج مراد آبادی صحاح ستہ موطا امام مالک اور حصن حصین پڑھانے پر خاص قدرت رکھتے تھے۔ آپ سے جن علماء نے درسِ حدیث لیا ان  میں مولانا عبدالکریم گنج مرادآبادی، مولانا محمد علی مونگیری، مولانا احمد حسن کانپوری، مولوی اشرف علی تھانوی، مولانا وصی احمد سورتی، مولانا ظہور الاسلام فتح پوری، مولانا دیدار علی الوری، اور پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔

اعلیٰ حضرت شاہ فضل رحمٰن کی خدمت میں:اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ  بریلی حضرت مولانا فضل رحمٰن گنج مرادآبادی کی زیارت کیلئے گنج مرادآباد تشریف لے گئے تھے۔ اس سفر میں آپ کے ہمراہ مولانا وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمۃ ، مولوی حکیم خلیل الرحمٰن خان تلمیذ مولانا لطف اللہ علی گڑھی، قاضی خلیل الدین،  حسن رحمانی المعروف حافظ پیلی بھیتی، اور استاذ ِزمنمولانا احمد حسن کانپوری شامل تھے ۔ اس زمانے میں ریل گنج مراد آباد کیلئے نہیں چلی تھی۔ ہر دوئی، اناؤ یا بالامیؤ سے لوگ بیل گاڑی میں بیٹھ کر جایا کرتے تھے۔ اعلیٰ حضرت اپنے احباب کے ساتھ بالامیؤ اسٹیشن سے بیل گاڑی کے ذریعہ گنج مرادآباد تشریف لے گئے ۔ حضرت شاہ فضل رحمٰن کو آپ کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی لہٰذا آپ نے مریدین کے ساتھ قصبہ سے باہر تشریف لا کر اعلیٰ حضرت کو خوش آمدید کہا،اپنے خاص حجرے میں مہمان ٹھہرایا،بعد نمازِ عصر کی مجلس میں تمام حاضرین سے مخاطب ہوکر آپ کے بارے میں فرمایا:’’مجھے آپ میں نور ہی نور نظر آتاہے،اور اپنی ٹوپی اڑھادی اور ان کی خود اوڑھ لی‘‘۔ تین دن سے زائد اعلیٰ حضرت گنج مرادآباد میں مقیم رہے۔ (تذکرہ محدث سورتی:48/تذکرہ علمائے اہل سنت:208)

غرضیکہ حضرت  شاہ فضل رحمٰن گنج مراد آبادی کی ذات گرامی منبع فیض و ہدایت تھی اور آپ کےتمام معاصر علماء و اکابر آپ کی زیارت و صحبت سے مستفیض ہوئے۔ حضرت شاہ فضل رحمٰن کا قاعدہ تھا کہ جب بھی کوئی شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو پہلے اس کیلئے دعائے خیر فرماتے بعد میں اس کی آمد کا مقصد دریافت فرماتے۔ آپ کی دعا مقبول باری تعالیٰ ہوتی تھی اور اکثر لوگوں کی حاجتیں پوری ہو جایا کرتی تھیں۔ حضرت شاہ فضل رحمٰن کے خلفاء میں ممتاز اسمائے گرامی یہ ہیں: مولانا عبدالکریم گنج مراد آبادی، مولانا محمد علی مونگیری، مولانا احمد میاں گنج مرادآبادی، مولانا وصی احمد محدث سورتی، مولانا ابو سعید رحمانی فتح پور ہسوہ، مولانا ابرار احمد رحمانی رئیس اعظم مرادآبادی، حضرت مولانا قادر علی رامپوری، جد امجد مولانا ہدایت رسول رامپوری، پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری، مولانا دیدار علی محدث الوری لاہوری، مولانا ظہور الاسلام فتحپوری، مولاناتجمل حسین بہاری۔علیہم الرحمہ۔

حضرت  شاہ فضل رحمن گنج مرادآبادی نےمولانا وصی احمدمحدث سورتی  کی غیر معمولی لیاقت اور خصوصاً علمِ حدیث اور اصولِ فقہ پر متاثر کن دسترس کے پیش نظر آپ کو اپنےدرس میں شامل کرلیا۔ بلکہ نئے طلبہ کو پڑھانے کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد کی۔مولانا وصی احمد میں چونکہ ایک اعلیٰ محدث اور مدرس کی تمام صفات موجود تھیں اسلئے شاہ صاحب حصن حصین کی تمام دعائیں نہ صرف پڑھائیں بلکہ ان کے پڑھانے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔ شاہ فضل رحمٰن چونکہ صاحب ِکشف بزرگ  تھے اسلئے آپ نے مولانا وصی احمد  پر خصوصی عنایت فرماتے اور دیگر طالب علموں سے کہتے کہ ان کی عزت کرو  یہ ہندوستان  میں فرمانِ رسول مقبول ﷺ کے محافظ قرار پائیں گے مولانا وصی احمد جب حصن حصین کے درس سے فارغ ہوئے تو شاہ فضل رحمٰن نے آپ کو خلافت عطا کی اور فرمایا کہ علم کے اظہار میں کبھی بخل نہ کرنا اور حق بات چاہے اپنے اور دوسروں کے حق میں کتنی ہی کڑوی کیوں نہ ہو عوام الناس کی فلاح کیلئے عام کرنا۔(تذکرہ محدث سورتی: 49)

حصن ِحصین ہمیشہ علماء و صوفیا کے معمولات میں رہی ہے اور اس کی پر اثر دعاؤں سے وہ فیض اٹھاتے رہے ہیں۔ مولانا وصی احمد سورتی فرماتےہیں: میرے پیر و مرشد حضرت مولانا شاہ فضل رحمٰن گنج مردآبادی نے مجھے حصن حصین کے ورد کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ جو شخص بعد الجمعہ حصن حصین کو شروع کرے گا اور جمعرات کے دن بعد العصر ختم کرے گا وہ ہمیشہ ہر قسم کی آفات سے محفوظ رہے گا۔ خلق اللہ میں محبوب رہے گا اور اس کی جملہ حاجات پوری ہوتی رہیں گی۔ اوریہ وہ مبارک و مجرب طریقہ ہے جس کی تلقین و اجزت مجھے میرے نامور مربی و مرشد شاہ آفاق دہلوی علیہ الرحمۃ نے عطا فرمائی تھی۔

تاریخِ وصال: آپ کاوصال 22/ربیع الاول1313ھ ،مطابق ماہ ستمبر1895ء کو 105سال کی عمر میں ہوا۔آپ کامزارپرانوار گنج مرادمیں ہے۔




حضرت شاہ فضل الرحمن رحمۃ اﷲ علیہ 22اپریل 1794 ء بمطابق 21رمضان 1208ھ میں قصبہ ملا نواں ضلع پردوئی (انڈیا)میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد گرامی حضرت شاہ اہل اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ کا شمار کاملین میں ہوتا تھا جو حضرت شاہ عبدالرحمن موحد لکھنوی رحمۃ اﷲ علیہ کے مرید خاص تھے ۔ حضرت شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کی ولادت کی خبر آپ کے والد گرامی کو ان کے مرشد حضرت شاہ عبدالرحمن موحدرحمۃ اﷲ علیہ نے دی تھی اور نام بھی ’’فضل الرحمن ‘‘انہوں نے ہی رکھا تھا، یہ ان کا تاریخی نام ہے ۔ آپ کا سلسلہ سیدناابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ تک 29واسطوں سے پہنچتا ہے ۔ حضرت شاہ فضل الرحمن رحمۃ اﷲ علیہ کے متعلق یہ روایت مشہور ہے کہ شاہ اہل اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ کے ہاں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان میں دودھ نہیں پیتا ۔بتایا جاتا ہے کہ یہ بات اتنی مشہور ہوئی کہ رمضان المبارک کی 29تاریخ کو اگرمطلع ابرآلود ہوتا تو لوگ آپ کی والدہ محترمہ کے پا س حاضر ہوتے اور دریافت کرتے کہ کیا آج آپ کے بچے نے دودھ نوش فرمایا ہے کہ نہیں ؟ اگر آپ کی والدہ محترمہ بتاتیں کہ ہاں بچے نے دودھ پیا ہے تو وہ یقین کر لیتے کہ شوال کا چاند نظرآگیا ہے ۔آپ کی والدہ کا اسم گرامی بی بی بصیرت رحمۃ اﷲ علیہ تھاجونہایت متقی و پرہیز گار خاتون تھیں ، ان کا سلسلہ نسب حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اﷲ علیہ سے ہوتا ہو اسیدناابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ سے جا ملتا ہے ۔بتایا جاتا ہے جب آپ کی عمر چھ سال ہوئی تو آپ کے و الدگرامی آپ کو حضرت شاہ عبدالرحمن لکھنوی رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں لے گئے ، انہوں نے آپ کو دیکھتے ہی فرمایا’’یہ لڑکا ہندوستان کا قطب ہو گا‘‘پھر اپنا لعاب ان کے منہ میں ڈالا ۔ حضرت شاہ عبدالرحمن لکھنوی رحمۃ اﷲ علیہ کے لعاب کی برکت کا نتیجہ تھا کہ آپ نے علم و فضل میں کمال حاصل کیا۔ جیساکہ آپ کی سیرت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کتب درس نظامی مولانا نورالحق بن مولانا انوارالحق فرنگی محلی سے پڑھیں ، پھر آپ نے مزید تعلیم مولانا حسن علی محدث لکھنوی رحمۃ اﷲ علیہ سے حاصل کی۔آپ خود فرماتے ہیں ’’ہم نے ان (مولانانور الحق )سے تفسیر بیضاوی و کا مل قدوری پھر ہدایہ مکمل پڑھیں اس کے بعد دہلی کا سفر اختیار کیا ، دہلی میں آپ نے مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی سے استفادہ کیا اور پھر حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں حاظر ہوئے ۔آپ نے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی خدمت میں ر ہ کر جملہ علوم حاصل کیے اور سند فراغت حاصل کی، ان کے انتقال کے بعد حضرت شاہ محمد آفاق کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے فیض صحبت میں رہ کر طریقت کی تعلیم حاصل کی اور ان سے بیعت ہو کر خلافت سے سرفراز ہوئے ۔ حضرت شاہ محمد آفاق دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ صوفیاء کے سلسلہ قادریہ تقشبندیہ مجددیہ کے عظیم روحانی پیشوا تھے ۔ مرشد گرامی نے راہ سلوک طے کرائے اور علامہ ابن جزری کی کتاب ’’حصن حصین ‘‘پڑھائی اور اس کے پڑھنے پڑھانے کی اجازت عطا فرمائی ، آپ اپنے مرشد گرامی سے بہت محبت کرتے تھے مرشد گرامی کو بھی آپ سے بے پناہ محبت تھی ،وصال سے پہلے انہوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی ان کے پہلے مریدین نے اعتراض کیا تو مرشد گرامی نے فرمایا:’’تم کو میں چاہتا ہوں کہ کچھ ہو جائو اور ان کو حق تعالیٰ چاہتا ہے ۔لہذا میں بھی اسی کو چاہتا ہوں جس کو حق تعالیٰ چاہتا ہے ۔‘‘ جب دہلی سے وطن واپس تشریف لائے تو ایک عرصہ تک ملانواں میں قیام فرمایا ۔ آپ کی پہلی بیوی کا انتقال ہوا تو اس کے بعد آپ نے گنج مراد آباد میں دوسری شادی کی پھر گنج مراد آباد میں سکو نت اختیار کرلی ، اس کے بعد آپ زیادہ سفر میں رہے عمر کے آخری حصے میں گنج مراد آباد میں مکمل سکونت اختیار کی ، جہا ں آپ ظاہری و باطنی علوم سے شاگر دوں، مریدوں اور عقیدت مندوں کو نوازتے رہے ۔حضرت شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی رحمۃ اﷲ علیہ ،صحاح ستہ ، موطا امام مالک اورحصن حصین پڑھانے پر خاص قدرت رکھتے تھے ، جن علمانے آپ سے درس حدیث لیا ، ان میں مولانا عبدالکریم گنج مراد آبادی ، مولانا محمد علی مونگیری ، مولانا احمد حسن کا نپوری، مولوی اشرف علی تھانوی ،مولانا وصی احمد سورتی ، مولانا ظہور السلام فتح پوری ، مولانا دیدار علی الوری ، حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ حضرت شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی رحمۃ اﷲ علیہ سادہ طبیعت ،سنت ِ مبارکہ کے بہت پابند اورتقوی و طہارت کے مالک تھے ۔ آپ کا کھانا اور رہن سہن سادہ تھا۔ ذریعہ ٔ(باقی صفحہ 5نمبر4) معاش کتب دینیہ کی تصحیح سے تھا ۔زندگی کا بیشتر حصہ اپنی خانقاہ میں لوگوں کی تعلیم و تربیت میں گزاردیا ۔ امام احمد رضاخان رحمۃ اﷲ علیہ محدث بریلی آپ کی زیارت کے لیے گنج مراد آباد حاضر ہوئے تو آپ نے اپنے مریدین کے ساتھ استقبال کیا اور فرمایا’’ آپ میں نور ہی نور نظر آتا ہے ‘‘۔پھر اپنی ٹوپی ان کو اوڑھا دی اور ان کی ٹوپی خود اوڑھ لی ۔آپ کے ملفوظات علم و حکمت سے بھر پور ہیں اس مختصر مضمون میں ان کی گنجائش نہیں آپ کی سیرت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ فنا فی اﷲ اور فنا فی الرسول تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اخیر عمر میں آپ پر حالت جذب کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ آپ کا وصال مبارک 22ربیع الاول 1313ھ بمطابق 12دسمبر 1895ء کو 105سال کی عمر میں ہوا ۔مقبرہ مراد خان کے احاطہ میں سپرد خاک ہوئے ۔ آپ کا مزار گنج مراد آباد میں مرجع خلائق ہے ،جہا ں ہر سال 22ربیع الاول کو آپ کا عرس ہوتا ہے ۔ مآخذومراجع:تذکرہ اولیائے پاک و ہند ،تذکرہ ٔ علمائے اہل ِسنت،تذکرہ محدث سورتی ،اساتذہ امیر ملت ،حکایات اولیا،ارواح ثلاثہ ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی