Hazrat Sayyed Mira Ali Datar حضرت سید علی میراں داتار सैयद मीरा अली दातार की करामात

حضرت سید علی میراں داتار غوّاص دریائے دین اور دُرِّ بحرِ یقین ہیں۔

خاندانی حالات : آپ سید تھے، آپ کے دادا کا نام علم الدین تھا، سنوسی ڈول میں رہتے تھے، وہاں سے سکونت ترک کرکے مانک پور جونا آئے اور وہیں رہنے لگے، گجرات کے بادشاہ سلطان احمد شاہ کے زمانے میں وہ احمدآباد آئے، وہ اور ان کی بیوی احمدآباد میں خان پورہ محلہ میں رہنے لگے، بعدہٌ پٹن چلے گئے۔



والد : آپ کے والد کا نامِ نامی اسمِ گرامی ڈوسو میاں ہے۔

والدہ : آپ کی والدہ ماجدہ کا نام عائشہ بی بی ہے۔

نامِ نامی : جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کا نام سید علی رکھا گیا۔

بھائی : آپ کے بھائی کا نام سید ابومحمد تھا جو عمر میں آپ سے بڑے تھے۔

محاصرہ : سلطان محمود شاہ بیگرہ کا جو 1459عیسوی میں گجرات کے تخت پر بیٹھا اور جس نے باون (52) سال حکومت کی 1511عیسوی میں انتقال ہوا، اس کا زیادہ وقت گرنار (جونا گڈھ) اور چانپانیر کو فتح کرنے میں گزرا، خاندیش کے راجہ سے لڑنے کے لئے وہ اسیر گڑھ تک گیا، مانڈو گڈھ کا محاصرہ کانی مدت تک رہا، آپ (حضرت سید علی میراں داتار) کے والد ڈوسو میاں بھی اس لڑائی میں سلطان محمود شاہ بیگرہ کے ساتھ تھے۔

مشورہ : سلطان محمود بیگرہ نے جہاں اپنے درباریوں سے مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہئے، وہاں نجومیوں کو بھی طلب کیا اور اس سے کہا کہ وہ دیکھ کر بتائیں کہ فتح میں دیر کیوں ہے؟

جواب : نجومیوں میں نے سلطان محمود بیگرہ کو بتایا کہ جب تک ڈوسو میاں کا لڑکا سید علی لڑائی میں شریک نہ ہوگا، فتح حاصل نہ ہوگی۔

طلبی : یہ سن کر محمود بیگرہ نے ڈوسو میاں کو حکم دیا کہ وہ اپنے لڑکے کو جلد از جلد بلالیں اور باپ بیٹے لڑائی میں ساتھ ساتھ لڑیں، انہوں نے ایک خط لکھا حالانکہ وہ یہ جانتے تھے کہ ان کے لڑکے سید علی کی شادی ہے۔

رخصت : خط ملتے ہی آپ نے اپنی والدہ سے رخصت چاہی، ان کی والدہ نے ان کو روکنا چاہا اور کہا کہ شادی کے بعد جانا، دو دن بعد تو شادی ہے، وہ اس پر راضی نہ ہوئے، وہاں سے والدہ سے اجازت لے کر روانہ ہوئے اور اپنے والدماجد کے پاس پہنچے۔

لڑائی میں شرکت : اس وقت آپ کی عمر سولہ سال تھی، ہاتھوں میں کنگنا اور مہندی لگی ہوئی تھی، جب آپ انّاوے گاؤں پہنچے تو آپ نے وہاں مسواک کی اور تھوڑی دیر مراقبہ کیا، آخرکار میدانِ کار زار میں پہنچے، گھمسان لڑائی شروع ہوئ، آپ کے کئی زخم آئے، لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔

وصیت : آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ اناّوے گاؤں میں آپ کو دفن کیا جائے۔

شہادت : شہادت کے بعد آپ کی نعشِ مبارک کو انّاوے لے جاکر دفن کیا گیا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک سانڈنی سوار آیا اور آپ کی نعشِ مبارک کو صندوق میں رکھ کر لے گیا، چلتے چلتے سانڈنی ایک جگہ بیٹھی، اس جگہ کا نام معلوم کیا گیا تو معلوم ہوا کہ انّاوے ہے، وہیں آپ کو سپردِخادک کیا گیا۔

کرامات : میدانِ جنگ میں سر جدا ہونے پر بھی آپ کا دھڑکن لڑنے لگا، آسیب زدگان بڑی دور دور سے آپ کے مزارِ مبارک پر آتے ہیں اور شفایاب ہوکر جاتے ہیں۔

مزارِ مبارک : آپ کا مزارِمبارک اناوے گاؤں میں ہے جو انجھا ریلوے اسٹیشن سے قریب ہے اور مرجعِ خاص و عام ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی