شاہ میراں ہے نسب برتر وبالاتیرا
قطب ربانی لقب ارفع واعلی تیرا
فذکرونی پہ عمل تو نےکیاہےایسا
باعث اذکرکم آج ہےچرچاتیرا
ہے عمامہ تیرا انعمت علیھم والا
اور لاخوف علیھم کا ہےسہراتیرا
اک نظامی ہی نہیں ساراجہاں کہتا ہے
شاہ میراں ہے نسب برتروبالا تیرا
ولایت گجرات کے قدیم وتاریخی شہر کھمبات کی خوش بختی ہی ہے کہ اس کے تن پر قطب ربانی، محبوب غوث جیلانی، محبوب الاولیاء، نبیرگان غوث اعظم ،سرکار شاہ میراں حضرت پیر میراں سید علی وحضرت پیر میراں سید ولی رضی الله تعالٰی عنہما جیسے آسمان ولایت کے آفتاب و ماہتاب پوری شان وشوکت اور جاہ وحشمت کے ساتھ جلوہ بار ہیں اور مسلسل آ ٹھ صدیوں سےاپنی نورانیت وروحانیت کے زریعےباشندگان عالم کو بلا تفریق رنگ و نسل یکساں مستفید ومستنیر فرما رہے ہیں
نور دیدہءغوث اعظم ونبیرہء اکبرسرکار شاہ میراں حضرت پیر میراں سید علی رضی الله تعالٰی عنہ کی ولادت باسعادت 558 ھ مطابق 1166ء کو ملک عراق کے قدیم ومشہور شہر بغداد میں پیر پیراں، میر میراں، قطب الاقطاب، فرد الافراد، غوث الاغواث، محبوب سبحانی، شہباز لامکانی، قندیل نورانی، ھیکل الصمدانی، شہنشاہ بغداد، غوث اعظم، محی الدین، شیخ الاسلام، حضور پر نور، سیدنا ومولانا الشیخ ابومحمد سید عبد القادر جیلانی رضی الله تعالٰی عنہ وارضاہ عنا کے خانہءسراپاخیروبرکت میں ہوئی
چنانچہ آپ کے والد شہزادہ غوث اعظم حضرت سیدنا ابوالفضل محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ کا نام شیر خدا مولی علی مشکل کشا کرم اللہ وجہہ الکریم کے نام پاک پر سید علی رکھا۔اور اسی پر عقیقہ ہوا
آپ کا معروف وممتاز شجرہ نسب اس طرح ہے۔
1۔حضرت سیدنا مولائے کائنات علی مرتضی کرم اللہ وجھہ الکریم زوج سیدہ خاتون جنت فاطمۃ الزھرا بنت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
2۔ حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی الله تعالٰی عنہ
3۔ حضرت سیدنا امام حسن مثنی رضی الله تعالٰی عنہ
4۔ حضرت سیدنا عبداللہ المحض رضی الله تعالٰی عنہ
5۔ حضرت سیدنا موسی الجون رضی الله تعالٰی عنہ
6۔ حضرت سیدنا عبداللہ ثانی رضی الله تعالٰی عنہ
7۔ حضرت سیدنا موسی ثانی رضی الله تعالٰی عنہ
8۔ حضرت سیدنا ابوبکر داود رضی الله تعالٰی عنہ
9۔ حضرت سیدنا محمد شمس الدین زکریا رضی الله تعالٰی عنہ
10۔ حضرت سیدنا یحیی الزاہد رضی الله تعالٰی عنہ
11۔ حضرت سیدنا تاج الدین عبد اللہ جیلی رضی الله تعالٰی عنہ
12۔ حضرت سیدنا ابو صالح موسی جنگی دوست رضی الله تعالٰی عنہ
13۔ حضرت سیدنا الشیخ محی الدین ابو محمد سید عبد القادر جیلانی غوث اعظم دستگیر رضی تعالٰی عنہ
14۔ حضرت سیدنا ابو الفضل محمد رضی الله تعالٰی عنہ
15۔ سرکار شاہ میراں حضرت پیر میراں سید علی و سید ولی رضی الله تعالٰی عنہما
تاریخی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ حضور غوث اعظم دستگیر رضی الله تعالٰی عنہ کی کل انچاس( 49) اولادیں تھیں
چنانچہ امام ذھبی رحمتہ اللہ علیہ شہزادہ غوث اعظم حضرت سیدنا شیخ عبد الرزاق رضی الله تعالٰی عنہ سے نقل فرماتے ہیں,, ولد لابی تسعۃ واربعون ولدا وسبعۃ وعشرون ذکرا والباقی اناث،، (سیر اعلام النبلاء 447/20 فوات الوفیات 374/2) یعنی میرے والد (حضور غوث اعظم) کے زریعے کل انچاس( 49)اولادیں ہوئیں جن میں ستائیس (27) صاحبزادے اور بائیس (22) صاحبزادیاں تھیں
انھیں انچاس (49)اولادوں میں سے ایک نام حضرت سیدنا ابو الفضل محمد رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے
چنانچہ آپ کے بارے میں ابن نجار نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے
,, محمد: تفقھ علی والدہ وسمع منہ ومن ابن البناء وابی الوقت و غیرھم حدث فی بغداد وتوفی فیھا فی ذی القعدۃ سنۃ 600ھ ودفن بمقبرۃ الحلبۃ ولم یذکر لہ تاریخ مولد،،
اور صاحب شریف التواریخ وغیرھم نے اسطرح قلمبند کیا ہے,, آپ حضور غوث اعظم دستگیر رضی الله تعالٰی عنہ کے فرزند ارجمند ہیں علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل اپنے والد گرامی ہی کے زیر سایہ کی اور درجہ کمال کو پہونچے اسکے علاوہ سعید بن البناء رحمتہ اللہ علیہ اور ابوالوقت رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ شیوخ سے حدیث سنی اور بہت سے لوگ ان سے مستفیض ہوئے 25/ذیقعدہ 600ھ میں وفات پائی اور مقبرہ حلبہ میں مدفون ہو ئے
سید بو الفضل فضل اہل فضل
بر فردوس است سال وصل او
600ھ
شد چو از فضل خدا اندر جناں
ہم محب متقی کردم بیان
600ھ
(شریف التواریخ 716/1 خزینۃ الاصفیاء 181/1 حیات جاودانی 112 تذکرہ اولیاء ھند وپاک 339)
اولاد غوث اعظم کا تذکرہ کرتے ہوئے کاظم علی بن اصغر علی بخاری رقم طراز ہیں,, اما ابو الفضل محمد بن سید عبد القادر را سہ پسر بودند سید عبداللطیف و سید علی و سید ولی کہ مزار ایں ہردو در بندر کھمبات گجرات است،، (تبصرۃ المطالب قلمی نسخہ 25)
یعنی حضرت ابو الفضل محمد بن سید عبدالقادر جیلانی رضی الله تعالٰی عنہما کے تین صاحبزادے تھے 1۔ حضرت سید عبداللطیف رضی الله تعالٰی عنہ 2۔ حضرت پیر میراں سید علی رضی الله تعالٰی عنہ 3۔ حضرت پیر میراں سید ولی رضی الله تعالٰی عنہ ان میں سے دو (حضرت پیر میراں سید علی وحضرت پیر میراں سید ولی رضی الله تعالٰی عنہما) کی مزار پر انوار گجرات کے شہر کھمبات میں بندر گاہ کے قریب واقع ہے
ویسے تو حضور غوث اعظم دستگیر رضی الله تعالٰی عنہ کی ساری اولادیں صاحب کمال وصاحب جاہ و جلال تھیں مگر آپ کی کنیت ابو محمد ہونے سے حضرت سیدنا ابوالفضل محمد رضی الله تعالٰی عنہ پر خصوصی لطف وعنایت اور شفقت پدری کی زیادت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے
چنانچہ سوانح نگاروں نے لکھا ہے,, حضور غوث اعظم دستگیر رضی الله تعالٰی عنہ کی کنیت ابو محمد اور لقب محی الدین اور شیخ الاسلام ہے،، (سیر اعلام النبلاء 439/20 البدایۃ والنھایۃ 252/12 فوات الوفیات 373/2 شذرات الذھب 198/4)
سرکار شاہ میراں حضرت پیر میراں سید علی رضی الله تعالٰی عنہ کی ولادت باسعادت جب سلطان الاولیاء حضور غوث اعظم دستگیر رضی الله تعالٰی عنہ کے گھر میں ہوئی تو اہل خانہ کے مابین مسرت وشادمانی کا ا یساماحول بن گیا گویا کہ عید کا سماں بندھ گیا ہو
صغر سنی ہی میں آپ کی عمدہ پرورش اور بہترین تعلیم وتربیت کا انتظام وانصرام کیا گیا
چنانچہ جب آپ کی عمرشریف محض چار سال چار ماہ اور چار دن کی ہوئی تو آپ کے والد محترم حضرت سیدنا ابوالفضل محمد رضی الله تعالٰی عنہ نے بسم الله خوانی کی رسم ادا کی قرآن پاک اور ابتدائی کتابیں آپ کی والدہ ماجدہ ولیہ کاملہ حضرت سیدہ بی بی سکینہ المعروف اماں صاحبہ رضی الله تعالٰی عنہا نے پڑھائیں اور فن تفسیر، حدیث، فقہ اور تصوف
و غیرہ کی تعلیم اپنے وقت کے کبار ومشاہیر علماء ومشائخین زمانہ سے حاصل کی اور صرف دس سال کی چھوٹی سی عمر ہی میں جامع علوم وفنون ہوگئے اور اپنے والد بزرگوار کے دست حق پرست پر بیعت کر کے راہ سلوک ومعرفت کی دشوار گزار تمام منزلوں کو عبور فرماکر طریقت کے بھی امام بن گئے
الغرض آپ مختصر سی حیات پاک میں مجمع البحرین ہو کر مسند رشد و ہدایت پر جلوہ افروز ہوئے اور سینکڑوں تشنگان علم ومتلاشیان حق کو آسودہ وبامراد فرمایا
اور مزید طالبان علوم وماشیان راہ سلوک کو منزل مقصود تک پہونچانے کیلئے شیخ الشیوخ حضرت سیدنا عبدالوہاب شاہ رضی الله تعالٰی عنہ کے ہمراہ(جنکی مزار فائز الانوار پانچ ہاٹڈی، محلہ کھمبات کی تاریخی مسجد سن اول کے قرب میں مرجع خلائق ہے)
568ھ میں ہندوستان کے قدیم و شہیر بندرگاہ,, بندر کھمبات,, میں وارد ہوئے اور وہیں پر مقیم ہوکر اپنی روحانی و نورانی کرنوں سے بیشمارلوگوں کے قلوب اذہان کو منور ومجلی فرمایا۔
رفتہ رفتہ آپ کی ضیا بار کرنیں اکناف عالم میں اس طورپر پھیلیں کہ گوشہائے عالم میں بکھرے سینکڑوں کاروان جستجو کو آپ کی سمت رہنمائی ملی اور جلد ہی آپ کی جانب کھنچے چلے آ ئے
اور پھر آپ کی بافیض توجہ نے انھیں اتنی ہمت وقوت پہونچائی کہ انکے قدم کہکشاں کی منزل سے بھی آگے تجاوز کر گئے یعنی عالم اسفل کے خاک زادے بام عروج کو پہونچ گئے۔
کم وبیش 83/سال تک آپ نے خدمت خلق وخدمت دین متین کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دیا اور اپنے جد کریم حضور غوث اعظم دستگیر رضی الله تعالٰی عنہ کے فیضان کو کا ئنات میں عام سے عام تر فرمایا بالآخر 3/جمادی الاول 641ھ کو آسمان ولایت کا یہ بدر منیر شریعت وطریقت کو بام عروج پر پہونچا کے بعد ہماری ظاہری نگاہوں سے اوجھل ہوکر دائمی طور پر واصل بحق ہوگیا رضی الله تعالٰی عنہ وارضاہ عنا
آج آپ کا آستانہ شریف مرجع خلائق بنا ہوا ہے جہاں پر ہررنگ ونسل کے لوگ آکر جبیں سائی کرتے ہیں اور اپنے دامن کو گوہر مراد سے پر کرتے ہیں
سرکار شاہ میراں کا آستانہ جہاں پر واقع ہے وہ شہر کھمبات سے دوکلو میٹر دور جانب مغرب معروف ومشہور مقام مرکز روحانیت,, اشرف نگر،، کا بابرکت، وبارونق خطہ ہے جسے قدیم زمانے میں سلمان پاک کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا تھا
انگنت لوگوں نےآپ سے اکتساب فیض کیا اور دارین میں سرخروئی حاصل کی
سرکار شاہ میراں کے کئی خلفا ومریدین ایسے بھی ہوئے ہیں جنکے زریعے آپ کا فیضان سارے عالم میں عام وتام ہوا
اور ان شاءاللہ صبح قیامت تک یہ سلسلہ یوں ہی جاری وساری رہے گا
سرکار شاہ میراں کے اول خلیفہ وجانشین حضرت سیدنا علاءالدین علی رضی الله تعالٰی عنہ ہیں جو 633ھ میں بغداد سے آپ کے ہمراہ بموقع سفر ثانی کھمبات تشریف لائے پھر یہیں پر اقامت اختیار فرمائی اور تادم حیات منصب خلافت و سجادگی کو کما حقہ ادا کرتے رہے
آپ نے کل 95/سال کی عمر پائی اور اس دوران کثیرتعداد میں بندگان خدا کو سیراب و فیضیاب کیا حتی کہ27/محرم الحرام 713ھ کو عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرما گئے اور عظیم سعادت مقدر ہونے کے سبب سرکار شاہ میراں کے قرب میں مدفون ہوئے متعنا اللہ تعالی بفیوضہ وبرکاتہ
سرکار شاہ میراں کی والدہ ماجدہ ولیہ کاملہ حضرت سیدہ بی بی سکینہ المعروف اماں صاحبہ رضی الله تعالٰی عنہا، آپ کے بھائی حضرت پیر میراں سید ولی رضی الله تعالٰی عنہ
اور آپ دونوں بھائیوں کی اہلیہ محترمہ حضرت سیدہ بی بی کوثر جہاں رضی الله تعالٰی عنہا وحضرت سیدہ بی بی ظہیر النساء رضی الله تعالٰی عنہا، اور دو سگی بہنیں حضرت سیدہ بی بی زینب فاطمہ رضی الله تعالٰی عنہا وحضرت سیدہ بی بی نصیب النساء رضی الله تعالٰی عنہا کے علاوہ کئی قرابت دار بغداد سے ہجرت کر کے سرکار شاہ میراں کی معیت میں کھمبات تشریف لائے اور اسی سرزمین کو دائمی مسکن بنایا
ان تمام نفوس قدسیہ کی مزارات احاطہ آستانہ شریف میں موجود ہے
رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین
سرکار شاہ میراں کے موجودہ سجادہ نشین پیر طریقت، رہبر شریعت، بدر معرفت، متمکن سریر ولایت، مظہر کرامات غوث اعظم، ابو الایتام، ریئس ملت، حضرت علامہ الحاج الشاہ سید ریئس اشرف اشرفی الجیلانی میرانی دامت برکاتھم العالیہ ہیں
آپ عصر النھضہ والحدیث کے ممتاز وعظیم علمی وروحانی پیشوا ہیں اور اس وقت پورے عالم میں اشرفی میرانی فیضان کو خوب خوب تقسیم فرمارہے ہیں
آپ بڑےہی متحرک وفعال شخصیت ہیں، وقت کے بہت ہی پابند ہیں، طلبہ و علماء کی قدردانی اور مہمان نوازی میں یکتائے زمانہ ہیں الغرض آپ کئی لائق ستائش و قابل تقلید خوبیوں کے مالک وجامع ہیں
آپ میں خدمت دین وخدمت خلق کا جذبہ اس قدر پنہاں ہے کہ قلیل مدت میں سینکڑوں مساجد، مدارس، مکاتب، خانقاہیں، اسکول، کالجز اور کئی رفاہی تنظیمیں قائم فرما دیں اوربحمدہ تعالٰی ہر جگہ آپ کے نمائندے پوری دیانتداری اخلاص وایثار کے ساتھ مصروف عمل ہیں
آپ نے دینی، دنیوی، علمی مراکز جو صرف شہر کھمبات میں قائم کئے ہیں ان میں سے چند قابل ذکر یہ ہیں
1۔ مسجد اولیاء
2۔ مسجد فاطمۃ الزہرا
3۔ خانقاہ قادریہ چشتیہ اشرفیہ میرانیہ
4۔ جامعہ فیضان اشرف رئیس العلوم
5۔ جامعہ بی بی زینب فاطمہ للبنات (عربک گرلس کالج)
6۔ مدرسہ سرکار شاہ میراں
7۔ مدرسہ حضور رئیس ملت
8مدرسہ اشرفیہ تحفیط القرآن
9۔ شاہ میراں پبلک اسکول (انگلش میڈیم)
10۔ اردو اینڈ عربک ڈپلومہ سینٹر
11۔ ریئس ملت ڈیجیٹل لائبریری
12۔ شاہ میراں کمپیوٹر سینٹر
13۔ شاہ میراں پلے سینٹر (برائے الریاضتہ البدنیتہ)
صاحب سجادہ حضور رئیس ملت دامت برکاتہم العالیہ کے زریعے آستانہ عالیہ سرکار شاہ میراں کی تعمیر و تزئین اب تک دو مرتبہ عمل میں آئی
بار اول 1410ھ مطابق 1989ء باردوم 1425ھ مطابق 2004ء
بعونہ تعالیٰ ماہ جون 2022ءمیں ایک مرتبہ پھر سے اعلی پیمانے پر تعمیر و تزئین کا کام شروع ہوچکاہے پروردگار عالم جلد از جلد اس کام کو بآسانی پایہء تکمیل تک پہنچا دے۔
دیگر بزرگان دین کی طرح سرکار شاہ میراں کا عرس سراپا قدس عالمی پیمانے پر ہر سال 4۔ 3 جمادی الاول کو صاحب سجادہ کی سرپرستی میں نہایت ھی تزک واحتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے جس میں لاکھوں زائرین کے ساتھ چار درجن سے زائد ممالک (عرب وعجم) کے علماء ومشائخین، دانشوران قوم وارباب سیاست شرکت کی سعادت حاصل کرتے ہیں
اور اشرفی میرانی فیضان سے خوب خوب مالا مال ہوتے ہیں
واقعی سرکار شاہ میراں کا دربار ایسا بافیض ہے کہ کوئی بھی آنے والا وہاں سے کبھی بھی مایوس ونامراد ہو کر نہیں لوٹتا
حضور رئیس ملت دامت برکاتہم العالیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ الله تبارک و تعالٰی نے سرکار شاہ میراں کو وہ مقام عالی عطا فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص آپ کے آستانے پر حاضری دینے کا قصد وارادہ کرلیتا ہے تو پروردگار عالم اسی وقت اس کی جا ئز تمناوں کو پوری فرما دیتا ہے
آپ مزید فرماتے ہیں کہ میں نے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ سرکار شاہ میراں کی بارگاہ ناز میں آنے والا بدحال ہوکر آتا ہے اور تھوڑی ہی دیر میں خوشحال ہو کر لوٹتا ہے
دربار میرانیہ کی یہ نمایاں خصوصیت ہے کہ وہاں پر کی گئی التجا بلا تاخیر مقبول ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ ورزلٹ فورا برآمد ہوتا ہے
کوئی بھی شخص آکر تجربہ کرسکتا ہے
مولی تعالیٰ ہمیں دارین میں سرکار شاہ میراں کی سرپرستی نصیب فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی الله تعالٰی وسلم علیہ وعلی آلہ و صحبہ اجمعین
ازقلم: مھدی حسن قادری نظامی علیمی میرانی
جامعہ فیضان اشرف ریئس العلوم اشرف، نگر، کھمبات شریف، ضلع: آنند، گجرات، انڈیا